• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہک رضا

بچے گھر کے آنگن کے پھول اور رونق ہوتے ہیں ۔اُن کے زندگی سے بھرپور قہقہوں سےوالدین کا سکون و چین وابستہ ہوتا ہے،تاہم بچوں کی تربیت اوران کو زندگی میں کامیاب انسان بنانانہ صرف والدین کی خواہش ہوتی ہے بلکہ ایک اہم ذمے داری بھی ہے۔ بچوں کی تربیت آپ سے وقت اور منصوبہ بندی کی متقاضی ہے، جسے بھرپور توجہ چاہیے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بچے ہی نہیں بڑے بھی دوسروں کی عادات سے متاثر ہوکر ان کا انداز فوری اپنا لیتے ہیں، مگر خاص طور پر بچے زندگی کے اصول قاعدے اور طور طریقے نہیں سیکھ سکتے اس کے لئے وہ والدین اور سرپرستوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی اولاد سماجی برائیوں میں مبتلا ہوجائے تو یقیناً والدین کی زندگی نہایت تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی صورت ہے بچوں کی تربیت اور پرورش ایک بہت ذمے داری کا کام ہے ۔ماہرین نفسیات کی یہ رائے ہے کہ بچے ہمیشہ والدین کے غلط سلوک سے بگڑتے ہیں اگرچہ اس میں دوسرے عامل بھی شامل ہیں لیکن عام طور پر والدی جو غلطیاں کرتے ہیں ان کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔

والدین کے نزدیک کسی غلط کام کی صورت میں بچوں کو مارنا پیٹنا ان کے لئے سود مند ہوسکتا ہے اور اس عمل سے اپنی اولاد میں بہتری کی امید کرتے ہیں ،تاہم ماہرین نفسیات اسے برا جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مارپیٹ اور اسی طرح کی دوسری سزائیں نہیں دینی چاہئیں ان سے بچوں میں ذہنی ارتقاءکا عمل متاثر ہوتا ہے ،سزا والدین کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور بعض صورتوں میں شدید قسم کی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔

والدین کو جاننا چاہیے کہ بچہ ان سے کیا چاہتا ہے ۔ محبت اور شفقت کی بھوک ہمیشہ بچوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے انہیں محبت اور شفقت ملنی چاہیے اسی سے یہ ننھے پودے نشوونما پاتے ہیں ان کا ذہنی ارتقا درست سمت میں ہوتا ہے، تاہم بے جا لاڈپیار اور ان کی ہرجائز و ناجائز خواہش پوری کرنا ،بری عادتوں کو نظر انداز کرنا بھی نقصان دہ ہے۔ اس عمل میں توازن اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ بچے کو ایک طرف محبت کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی شخصیت احترام بھی چاہتی ہے ماہرین کے نزدیک بچے کے بنیادی مطالبات کو پورا کرنا اور اس کے جذبات کی قدر کرنا ہی اس کا احترام ہے۔

تحفظ بچے کی بنیادی ضرورت ہے۔ وہ کسی مشکل سے دوچار ہونے کے بعد اپنے والدین کی طرف دیکھتا ہے جو اس کے لئے اس وقت نجات دہندہ کی حیثیت رکھتے ہیں ایسی صورتحال میں بچے کے ساتھ والدین کا سلوک ایسا ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرسکے۔بچے کو منفی احکامات دینے سے گریز کریں۔ عام طور پر ایسا مت کرو ،یہاں مت بیٹھو، وہ مت اٹھاؤ جیسے جملے بچے کو کہے جاتے ہیں، جس سے وہ اپنی آزادی سلب ہوتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ روک ٹوک ضروری ہے لیکن اس میں شدت اور غیر ضروری احکامات شامل نہ ہوں اس کے برعکس بچے کو کسی کام سے روکنے کے لئے اس کے نقصانات کے بارے میں بتانا چاہیے اس طرح وہ خود اس سے باز رہنے کی کوشش کرے گا۔ماہرین مقابلے اور موازنے کے عمل کو والدین کی بڑی غلطی تصور کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک بچے سے دوسرے بچے کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اس سے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور وہ دوسروں سے حسد محسوس کرتے ہیں جو ایک منفی رجحان ہے۔

ایک اور غلطی والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ بچوں سے دانش مندی کی امید کرتے ہیں نئے معاملات اور تجربات سے گزرنے والے بچے کے والدین اس سے یوں گویا ہوتے ہیں کہ ایسا نہیں کرتے تمہیں نہیں معلوم یہ غلط ہے ،تم نے ایسا کیوں کیا ،یہ وہ جملے ہیں جو بچے کے کانوں میں پڑتے ہیں مگر وہ یہ سب کہاں سوچ سکتا ہے۔ والدین کو ایسی امید نہیں کرنی چاہیے کہ ان کا بچہ کسی موقعے پر بڑوں کی طرح دانشمندی اور سمجھداری سے کام لے گا۔

بچوں کو ضرور پیار کیجئے ، ضروریات اور آسائشیں فراہم کیجئے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی صحیح خطوط پر تربیت بھی کیجئے۔ بہ حیثیت والدین خاص طور پر مائیں اپنے فرا ئض کو پہچانیں اور سوچیں کیا ہمارے بچے خاندان اور ہمارے ماحول کے عکاس ہیں؟ ماں باپ بچوں کو اگر کسی کام سے منع کریں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ اس میں فائدہ اولاد کا ہی ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ بچوں پر بے جا سختی کی جائے۔ ہر بات پر روکا ٹوکا جائے اور ہروقت اپنے حکم کے تابع کیا جائے ، مگر جیسے ہر کام کے نئے حدود و قیود کا تعین ضروری ہے ، اسی طرح تربیت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ بچوں کو اگر کسی بات یا کسی چیز سے منع کریں تو اس کی وجہ ضرور بتائیں۔

تازہ ترین