دہلی جس کو حکومت کا تخت گاہ کہتےتھے، جب آباد اور لال قلعہ میں مغلوں کی آخری شمع ٹمٹما رہی تھی۔آفت اور بلا میں مبتلا ہوئے تو باشندوں کے عمل میں فرق آیا ۔ حاکموں کے اعمال خراب ہوئے تو اس کی رعیت بھی بد اعمالیوں میں پڑ گئی نتیجتاََراجا ، رعایا دونوں برباد ہوگئے۔خواجہ حسن نظامی کی تصنیف ’’بیگمات کے آنسو‘‘ سے ایک عبرت ناک تاریخی کہانی نذرِ قارئین ہے۔
غدر سے ایک برس پہلے دہلی سے باہر جنگل میں چند شہزادے شکار کھیلتے پھررہے تھے اور بے پرواہی سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں فاختائوں کو جو دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے درختوں کی ہری بھری ٹہنیوں پر خدا کی یاد میں تسبیح پڑھ رہی تھیں، غلے مار رہے تھے کہ سامنے سے ایک گدڑی پوش فقیر آنکلا اور اس نے نہایت ادب سے شہزادوں کو سلام کرکے عرض کیا کہ میاں شہزادوں! ان بے زبان جانوروں کو کیوں ستاتے ہو۔ انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے، ان کی بھی جان ہے، یہ بھی تمہاری طرح دکھ اور تکلیف کی خبر رکھتے ہیں، مگر بے بس ہیں اور منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تم بادشاہ کی اولاد ہو، بادشاہوں کو اپنے ملک کے رہنے والوں سے محبت اور مہربانی کرنی چاہئے۔ یہ جانور بھی ملک میں رہتے ہیں، ان کے ساتھ بھی رحم اور انصاف برتا جائے تو شان بادشاہی ہے۔ بڑے شہزادے نے جس کی عمر ۱۸برس تھی، شرماکر غلیل ہاتھ سے رکھ دی، مگر چھوٹے مرزا نصیرالملک بگڑ کر بولے۔ ’’جارے جا، دو ٹکے کا آدمی ہم کو نصیحت کرنے نکلا ہے، تو کون ہوتا ہے ہم کو سمجھانے والا، سیر و شکار سب کرتے ہیں، ہم نے کیا تو کون ساگناہ ہوگیا‘‘۔ فقیر بولا،’’ صاحبِ عالم ناراض نہ ہوں۔ شکار ایسے جانوروں کا کرنا چاہئے کہ ایک جان جائے تو دس پانچ جانوںکا پیٹ تو بھرے، ان ننھی ننھی چڑیوں کے مارنے سے کیا نتیجا، بیس ماروگے تب بھی ایک آدمی شکم سیرنہ ہوگا۔نصیر مرزا فقیر کے دوبارہ بولنے سے آگ بگولا ہوگئے اور ایک غلہ غلیل میں رکھ کر فقیر کے گھنٹے میں اس زور سے مارا کہ بچارا منہ کےبل گرپڑا اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ’’ہائے ٹانگ توڑ ڈالی۔ فقیر کے گرتے ہی شہزادے گھوڑوں پر سوار ہوکر قلعے کی طرف چلے گئے اور فقیر گھسٹتا ہوا سامنے قبرستان کی طرف چلنے لگا۔ وہ گھسٹتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ’’وہ تخت کیو ںکر آباد رہے گا ،جس کے وارث ایسے سفاک ظالم ہیں، لڑکے تو نے میری ٹانگ توڑدی خدا تیری بھی ٹانگیں توڑے اور تجھ کو بھی اسی طرح گھسٹنا نصیب ہو۔
_______________________
توپیں گرج رہی تھیں، گولے برس رہے تھے، زمین پر چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آتے تھے، شہر دہلی ویران اور سنسان ہوتا جارہا تھا کہ لال قلعے سے پھر وہی چند شہزادے گھوڑوں پر سوار بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے نظر آئے اور پہاڑ گنج کی طرف جانے لگے۔ دوسری طرف بیس پچیس گورے سپاہیوں نے ان نوعمر سواروں پر یک لخت بندوقوں کی باڑ ماری ،گولیوں نے گھوڑوں اور سواروں کو چھلنی کردیا اور یہ سب شہزادے فرش خاک پر گرکر خون میں تڑپنے لگے۔ گورے جب قریب آئے تو دیکھا دو شہزادے جاں بحق ہوچکے ہیں، مگر ایک سانس لے رہا ہے۔
ایک سپاہی نے زندہ شہزادے کا ہاتھ پکڑکر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ اس کے کہیں زخم نہیں آیا۔ گھوڑے کے گرنے سے معمولی کھرچیں آگئی ہیں اور دہشت کے مارے غشی طاری ہوگئی ہے۔ صحیح سالم دیکھ کر گھوڑے کی باگ ڈور سے شہزادے کے ہاتھ باندھ دیئے اور حراست میں لے کر دو سپاہیوں کے ہاتھ کیمپ میں بھجوادیا گیا۔ کیمپ پہاڑی پر تھا ،جہاں گوروں کے علاوہ کالوں کی فوج بھی تھی۔ جب بڑے صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ بادشاہ کا پوتا نصیرالملک ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور حکم ہوا کہ اس کو حفاظت سے رکھا جائے۔
___________________________
باغیوں کی فوجیں شکست کھاکر بھاگنے لگیں اور انگریزی لشکر یلغار کرتا ہوا شہر میں گھس گیا۔ بہادر شاہ ہمایوں کے مقبرے میں گرفتار ہوگئے۔ تیموری بزم کا چراغ جھلملا کرگل ہوگیا اور جنگل شریف زادیوں کے برہنہ سروں اور کھلے چہروں سے آباد ہونے لگا۔ باپ بچوں کے سامنے ذبح ہونے لگے اور مائیں اپنے جوان بیٹوں کو خاک و خون میںتڑپتا دیکھ کر چیخیں مارنے لگیں۔اسی داروگیر میں پہاڑی کیمپ پر مرزا نصیرالملک رسی سے بندھے بیٹھے تھے کہ ایک پٹھان سپاہی دوڑتا ہوا آیا اور کہا جائو، میں نے آپ کی رہائی کے لیے صاحب سے اجازت حاصل کرلی ہے، جلدی سے بھاگ جائو ایسا نہ ہو کہ کسی دوسری بلا میں پھنس جائو۔
مرزا بیچارے پیدل چلنا کیا جانیں حیران تھے کیا کریں لیکن مرتا کیا نہ کرتا پٹھان کا شکریہ ادا کرکے نکلے اور جنگل کی طرف ہولئے۔چلے جارہے تھے، مگر یہ خبر نہ تھی کہ کہاں جارہے ہیں۔ ایک میل چلے ہوں گے کہ پیروں میں چھالے پڑگئے، زبان خشک ہوگئی، حلق میں کانٹے پڑنے لگے، تھک کر ایک درخت کے سائے میں گرپڑے اور آنکھوں میں آنسو بھرکر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’الہی یہ کیا غضب ہم پر ٹوٹا،ہم کہاں جائیں کدھر ہمارا ٹھکانہ ہے‘‘۔ اوپر نگاہ اٹھائی تو درخت پر نظر گئی، دیکھا کہ فاختہ کا ایک گھونسلا بنا ہوا ہے اور وہ آرام سے اپنے انڈوں پر بیٹھی ہے، اس کی آزادی اور آسائش پر شہزادےکو بڑا رشک آیا اور کہنے لگے کہ فاختہ! مجھ سےتو لاکھ درجے توبہتر ہے کہ آرام سے ااپنے گھونسلے میں بے فکر بیٹھی ہے، میرے لئے تو آج زمین آسمان میں کہیں جگہ نہیں ہے۔تھوڑی دور ایک بستی نظر آئی، ہمت کرکے وہاں جانے کا ارادہ کیا،اگرچہ پائوں کے چھالے چلنے نہ دیتے تھے، مگر لشتم پشتم گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو عجیب سماں نظر آیا۔ایک درخت کے نیچے سینکڑوں گنوار جمع تھے اور چبوترہ پر ایک تیرہ سال کی معصوم لڑکی بیٹھی تھی، جس کے چہرےپر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔، کان لہولہان ہورہے تھے اور دہقان اس کا مذاق اڑارہے تھے، جونہی مرزا کی نگاہ اس بچی پر پڑی اور اس بیچاری نے مرزا کو دیکھا تودونوں کی چیخیں نکل گئیں۔
بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو چمٹ کر رونے لگی۔ مرزا نصیرالملک کی یہ چھوٹی بہن اپنی والدہ کےساتھ رتھ میں سوار ہوکر قلعہ سے قطب صاحب کی طرف گئی تھی۔ مرزا کو گمان بھی نہ تھا کہ وہ اس آفت میں مبتلا ہوگئی ہوگی۔ پوچھا تم یہاں کہاں؟ روکر بولی۔’’آکاجی، گوجروں نے ہم کو لوٹ لیا، نوکروں کو مار ڈالا، اماں جان کو دوسرے گائوں والے لے گئے اور مجھ کو یہاں لے آئے، میری بالیاں انہوں نے نوچ لیں، میرے طمانچے ہی طمانچے مارے ہیں‘‘۔اتنا کہہ کر لڑکی کی ہچکی بندھ گئی اور پھر کوئی لفظ اس کی زبان سے نہ نکلا۔بے کس شہزادے نے اپنی غریب بہن کو دلاسادیا اور ان گنواروں سے عاجزی کرنے لگا کہ اس کو چھوڑ دو۔ گوجر بگڑکر بولے۔’’ارے جائو آیا بڑا بےچارا۔ ایک گنڈاسا ایسا ماریں گے کہ گردن کٹ جائے گی۔ اس کو ہم دوسرے گائوں سے لائے ہیں، دام دے اور لے جا۔
مرزا نے کہا’’ چودھریوں! دام کہاں سے دوں، میں تو خود تم سے روٹی کا ٹکڑا مانگنے کے قابل ہوں، دیکھو ذرا رحم کرو، کل تم ہماری رعیت تھے اور ہم بادشاہ کہلاتے تھے، آج آنکھیں نہ پھیرو، خدا کسی کا وقت نہ بگاڑے، اگر ہمارے دن پھرگئے تو مالامال کردیںگے‘‘۔ یہ سن کر گنوار بہت ہنسے اور کہنے لگے۔’’ اوہو! آپ بادشاہ سلامت ہیں، تب تو ہم تم کو فرنگیوں کے ہاتھ بیچیں گے اور یہ چھوکری تو اب ہمارے گائوں کی خدمت کرے گی، جھاڑو دے گی، ڈھوروں کے آگے چارہ ڈالے گی۔ گوبر اٹھائے گی‘‘۔
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ سامنے سے انگریز فوج آگئی اور گائوں والوں کو گھیر لیا۔ چوہدریوں اور ان دونوں شہزادے شہزادی کو پکڑکر لے گئی۔
چاندنی چوک بازار میں پھانسیاں گڑھی ہوئی تھیں، جن کو انگریزی افسر کہہ دیتے کہ قابل دار ہے ،اسی کو پھانسی مل جاتی تھی۔ ہر روز سیکڑوں آدمی دار پر لٹکائے جاتے۔ گولیوں سے اڑائےجاتے اور تلوار سے ذبح کیے جاتے، ہر طرف خونریزی تھی۔ مرزا نصیرالملک اور ان کی بہن بھی بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئے اور صاحب نے ان دونوں کو خوردومال سمجھ کر بے قصور سمجھا اور چھوڑ دیا۔ دونوں نجات پاکر ایک سوداگرکے ہاں نوکر ہوگئے۔ لڑکی سوداگر کےبچے کو کھلاتی اور نصیرالملک بازار کا سودا سلف لایا کرتے تھے۔ چند روز کے بعد لڑکی ہیضہ میں مبتلا ہوکر مرگئی اور مرزا کچھ دن ادھر ادھر نوکریاںچاکریاں کرتے رہے، آخر سرکار نے ا ن کی پانچ روپے ماہوارپینشن مقرر کر دی۔
کچھ عرصے بعد کا ذکر ہے، دہلی کے بازار میں ایک پیر مرد جن کا چہرہ چنگیزی نسل کا پتہ دیتا تھا ،کولھوں کے بل گھسٹتے پھرا کرتے تھے، ان کے پائوں شاید فالج سے بیکار ہوگئے تھے، اس لئے ہاتھوں کو ٹیک کر کولھوں کو گھسیٹتے ہوئےچلتےتھے۔ ان کےگلے میں ایک جھولی ہوتی تھی دو قدم چلتےاور راہگیروں کو حسرت سے دیکھتے ،گویاآنکھوں ہی آنکھوں میں اپنی محتاجی ظاہر کرکے بھیک مانگتے ، جن لوگوں کو ان کا حال معلوم تھا، ترس کھا کر جھولی میں کچھ ڈال دیتے تھے۔دریافت سے معلوم ہوا کہ ان کا نام مرزا نصیرالملک ہے اور یہ بہادر شاہ کے پوتے ہیں۔ سرکاری پنشن قرضہ میں برباد کردی اور اب خاموش گداگری پر گذارہ ہے۔ مجھ کو ان کے حال سے عبرت ہوتی تھی۔ اور جب ان کا ابتدائی قصہ جو کچھ خود ان کی زبانی او رکچھ دوسرے شہزادوں کی زبانی سنا تھا یاد آتا تو دل ہل جاتا تھا کہ اس فقیر کا کہنا پورا ہوا جس کی ٹانگ میں انہوں نے غلہ مارا تھا۔ شہزادہ صاحب کا بازار میں گھسٹتا پھرنا سخت سے سخت دل کو موم کردیتا تھا اور خدا کے خوف سے دل کانپ جاتا تھا۔ اسی کسمپرسی میں شہزادے کا انتقال ہوا۔