• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کی پہچان اس کی ثقافت کے ذریعہ سے ممکن ہوتی ہے۔ثقافت کوئی جامد شے نہیں ہے بلکہ ایک متحرک عنصر کا نام ہے۔ثقافت کا وقت کے ساتھ تغیر ہوتا رہتا ہے۔اس تغیر کے نتیجہ میں ثقافت کا سماج کے ساتھ باہمی تعلق پروان چڑھتا ہے۔ثقافت ایک کل کا نام ہے جس کی اجتماعیت کسی بھی قوم اور معاشرے کے تمام عناصر کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔ثقافت اپنے اندر معاشرے کی تاریخ، زبان، لباس،رسم ورواج،جشن، کھانے پینے کے انداز اور سب سے اہم ابلاغ کو سمو لیتی ہے۔ ثقافت نہ صرف وقت کے ساتھ بدلتی ہے بلکہ ثقافت کے مختلف مظاہر بھی ثقافت کی طاقت پراثر انداز ہوتے ہیں۔ ابلاغ کے ذرائع اور تمام دوسرے عناصر کا ثقافت کے ساتھ تعلق دلچسپی سے بھر پور ہے۔ابلاغ کے تمام ذرائع ثقافت کے ساتھ دوہرا اور دو رویہ تعلق رکھتے ہیں۔ثقافت ان تمام ذرائع پر اثر انداز ہو تی ہے۔اخبار،ٹی وی، ریڈیو،فلم اور انٹرنیٹ ان تمام ذرائع نے جن معاشروں میں نفوذ حاصل کیا وہاں پر رائج ثقافت کو تبدیل کیا۔

ثقافت کی ترویج فلم کی ترقی سے مشروط ہے

ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے انسانی معاشروں پر دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان اثرات کی جہتیں مختلف انسانی ادوار میں مختلف رہی ہیں۔ان ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے جب انسانی زندگیوں کے حوالے سے پیغامات کو معاشروں سے وصول کرے واپس انہی معاشروں تک پہنچایا گیاتو ان پیغامات نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کے معاملات کو تبدیل کیا۔اگر انسانی تاریخ میں ثقافتی رجحانات کے تغیر و تبدل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی ترقی اور اس کو استعمال میں لا نے والے رجحانات کے نتیجہ میں ثقافتی ترقی یا تنزلی کی رفتار اور مقدار دونوں ہی زیادہ ہوئے ہیں۔ابتدا میں ثقافتی تبدیلی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے ذریعے مقامی پیغامات کی ترسیل ہوتی تھی لیکن جب ذرائع ابلاغ نے قومی مواد کے ساتھ دوسرے خارجی امور کو بھی لوگوں تک پہنچانا شروع کیا تو یہ تبدیلی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ثقافتی اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ کی طاقت مختلف ہے۔یہ حقیقت واضح ہے کہ فلم کی بطور میڈیم ثقافت کو متاثر کرنے کی طاقت اور حیثیت دوسرے میڈیمز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔فلم ابلاغی قوت کے حوالے سے دوسرے میڈیمز یا ذرائع سے زیادہ با اثر ہے۔فلم بنانے اور اس کو دیکھنے کا عمل قوت ارادی کے متحرک ہونے کا نتیجہ ہے۔فلم تمام فنون لطیفہ کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔فلم معاشرتی و ثقافتی حوالوں سے سنجیدہ پیغامات کو تفریح کے لبادے میں شائقین تک پہنچاتی ہے۔ان عوامل کے باعث فلم کی ابلاغی طاقت میں دوسرے ذرائع ابلاغ کے مقابلہ میں کئی گنا اضافہ ممکن ہو جاتا ہے۔

فلم بنانے والے تمام ممالک فلم کی اس ثقافتی طاقت سے بخوبی آگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر دنیا کی بڑی فلمی صنعتوں کا تجزیہ کیا جائے تو فلم کے ذریعہ سے ان ممالک نے پوری دنیا میں اپنی ثقافتی دھاک کو بٹھا دیا ہے۔آج ہالی وڈ دنیا میں امریکی ثقافت کی طاقت کا علمبردار ہے۔امریکی معاشرے کی خصوصیات، لوگوں کا رہن سہن، تاریخ، اقدار اور دوسرے تمام عناصر سے دنیا بھر کے لوگ بخوبی آگا ہ ہیں۔اس ثقافتی طاقت کے بل بوتے پر امریکہ نے تاریخ کے اہم مواقع پر اپنے مخالفین کے پروپیگنڈا کا جواب بھی دیا ہے۔جنگ عظیم اول،دوئم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر بنائی جانے والی فلمیں اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔اگر برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی بات کی جائے تو ان کی فلمی صنعتوں نے بھی یورپی عوام اور یورپ سے باہر کی دنیا تک اپنا ثقافتی پیغام بہترین انداز میں پہنچایا ہے۔

ثقافت کی ترویج فلم کی ترقی سے مشروط ہے

بالی وڈ نے فلم کی ثقافتی طاقت کو بہترین انداز میں استعمال کیا ہے۔آج بالی وڈ دنیا بھر میں بھارت کا سفیر ہے۔شاہ رخ خان کو دنیا کے تما م ممالک میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔

بھارتی موسیقی اور رقص کی دلدادہ تمام دنیا ہے۔بھارت نے فلموں کے ذریعے سے اپنے ثقافتی رنگوں کو بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔فلم کی ثقافتی طاقت کے اثرات ہندوستان کے اندر بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔بھارت کے وسیع جغرافیائی رقبے اور ثقافتی تنوع کو ہندوستانی فلمی صنعت ایک مرکز عطا کرتی ہے۔بھارتی معاشرے کی قدامت پسندی کو بالی وڈ کی رنگینیاں چھپانے کی ہمیشہ سے ہی کوشش کرتی رہی ہیں۔اگر اس ثقافتی طاقت کے اثرات کو محسوس کرنا ہو تو پاکستانی معاشرے کا طائرانہ جائزہ اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے ۔پاکستان کے علاوہ دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی بھارتی فلموں کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔سری لنکا، نیپال،بھوٹان اور مالدیپ میں بھارتی فلموں کو خاصی پسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔

ثقافت کی ترویج فلم کی ترقی سے مشروط ہے

پاکستان میں فلمی صنعت کی ثقافتی طاقت سے وہ فوائد حاصل نہیںکیے گئے جو کہ اس میڈیم کا تقاضا تھا۔لولی وڈ کو پاکستانی معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ ماضی میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتیں فلم کی ابلاغی طاقت کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔یہ ہی وجوہات ہیں کہ فلم کا میڈیم آج بھی اپنی بحالی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے فلم پالیسی کی منظوری دی ہے لیکن اس دستاویز پر عمل در آمد کی صورت کیا ہوگی؟اس حوالے سے لا تعداد سوالات موجود ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود لولی وڈ کو پاکستانی ثقافت میں اہم مقام حاصل ہے۔اگرچہ یہ مقام اس نوعیت اور سطح پر فائز نہیں ہے جو کہ اس کا حق ہے لیکن ان تمام مسائل کی موجودگی میں فلمی صنعت نے نہ صرف اپنے آپ کو زندہ رکھا بلکہ معاشرے کی تفریحی ضروریات کوبھی پورا کیا۔پاکستان میں فنون لطیفہ کی ترقی میں لولی وڈ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فلمی موسیقی، شاعری،رقص،سیٹ ڈیزائننگ ،کاسٹیوم اور ادکاری نے اہم ثقافتی ابواب کو رقم کیا ہے۔لولی وڈ نے اردو زبان کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اگر پنجابی زبان کی بات کی جائے تو پنجابی ثقافت کے مختلف مظاہر کو پنجابی فلموں نے سینما سکرین پر پیش کیا۔پنجابی ثقافت میں لوگوں کا رہن سہن،گائوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور پنجابی معاشرے کے مسائل وہ موضوعات ہیںجن کو فلم میکرز نے اپنے تخلیقی انداز میں فلموں کا موضوع بنایااور فلمی شائقین تک پہنچایا۔

اسی طرح پشتو سینما نے بھی پشتون معاشرے کے مختلف عوامل کو فلمی شائقین تک پہنچایا۔ان تمام مثالوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت سے وہ فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے جو کہ اس میڈیم کا پوٹینشل ہے۔پاکستانی فلموں کو ملک میں رائج ثقافت کو متاثر کرنے اور غیر ملکی ثقافت کے فروغ کے لیے کردار ادا کرنے کے الزامات اور اس حوالے سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔یہ تمام تجزیہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ فلمی صنعت سے وابستہ افراد اور گروہ، حکومت اور فلمی شائقین کے ساتھ ملکر ایسی فضا قائم کریںکہ جس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی فلمیں حقیقی طور پر پاکستان کی ثقافت کی نمائندہ تصور ہوں اور پوری دنیا میں پاکستانی ثقافت کی ترویج کر سکیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین