پرویزمشرف کی حکومت کو آمریت کہنے والے خود بڑے آمر ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی پہچان فوج تھی اور یہ سیاست دان کہلاتے ہیں۔ فوجی آمریت اور پاکستانی سیاسی ا ٓمریت میں صرف اتنا فرق ہے کہ فوجی حکومت میں ہر ادارے پر فوج کا کنٹرول ہوتا ہے اورسیاسی حکومت میں ادارے سیاست دانوں کے رشتہ داروں اوربہی خواہوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں بلکہ’’ آمریت‘‘ میں بڑے اداروں میں کوئی ایک یا دو فوجی آفیسر تعینات ہوتے ہوں گے پالیسیاں یقیناً اپنی مرضی سے بناتے ہوں گے جبکہ سیاسی حکومت میں سیاسی پارٹیوں کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ عہدیدران اپنے حلقہ انتخاب میں مرضی سے ادارے چلاتے ہیں اداروں کی تمام قواعد و ضوابط اور پالیسیاں طاق نسیاں ہو کر رہ جاتی ہیں ایمانداری سے سوچئے آمریت کون سی ہے ؟اس تمہید کے بعد جو میں لکھنا چاہتا ہوں اس کا محرک وزیر اعظم پاکستان کا دورہ قطر ہے اس پر ماہر معاشیات تو اپنی اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں مجھے ان کی تقریر کے حوالے سے کچھ باتیں ذہن میں آگئی تھیں سوچا کہ قلمبند کردوںکیونکہ اکثر ان کی تقاریر ہوتی ہیں کہ دوسرا کوئی کچھ نہیں کرتا رہابس وہی پاکستان کے لئے سب کچھ ماضی میں کرتے رہے اور ان کے جانے سے تمام ترقی رکی رہی وہ واپس آئے ہیں اور اب ملک ترقی کر رہا ہے خیر ان کو اور ان کے کف گیروں کو حق ہے کہ اپنی کارکردگی کو جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہیں کر سکتے ہیں اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ قوم کو یا رکھنا چاہئے‘‘ کہ کس نے کیا کیا؟ اور میں ان سے متفق ہوں قوم کی یادداشت کمزور تو نہیں البتہ بھولے عوام سیاست دانوں کے چکمے میں آجاتے ہیں اس لئے ریکارڈ درست رکھنے کیلئے ہر حق پرست کا فرض ہے کہ جو حقیقت ہے اسے سامنے لائے تا کہ یہ تاریخ کا حصہ بنتا رہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قطر میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کی (1999میں) حکومت جانے کے بعد 15سال میں ملک بہت پیچھے چلا گیا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ذرائع مواصلات ، تعلیم ، توانائی و دیگر کوئی منصوبہ ان کے جانے کے بعد نہیں لگا خصوصاً پر ویز مشرف کے بارے میں ان کے خیالات ایسے ہیں کہ ان کی اچھائیاں ان کو نظر ہی نہیں آتیں مگر پاکستانی عوام نے آمریت میں جتنا سکھ و چین حاصل کیا پاکستان جو ترقی کے نئے مراحل طے کرتا رہاان کا ہی ثمر ہے کہ ’جمہوریت‘ آگے بڑھ رہی ہے ۔آئیے مشرف دور میں ہونے والے چند نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میڈیا کو ترقی اور آزادی اظہار اگر ملی ہے تو مشرف دورمیں اور سیٹلائٹ کی لاؤنچنگ بھی مشرف دور کا تاریخی کارنامہ ہے جس کی وجہ سے آج مواصلات کا ترقی یافتہ نظام پاکستان میں نصب ہے لیکن ان سیاست دانوں نے اسے بھی مہنگا کر دیا ہے عوام اس طرح استفادہ حاصل نہیں کر پارہی۔نواز شریف 7سو ملین ڈالر پاکستان کا فارن ایکس چینج چھوڑ کر گئے تھے ملک دیوالیہ ہو نے والا تھا مشرف کی حکومت نے سات سو بلین ڈالر پر پہنچا دیا تھا۔سٹاک ایکس چینج 700پوائنٹس سے بڑھ کر 15ہزار پوئنٹس تک پہنچا۔ لٹریسی ریٹ 11فیصد بڑھا،پاورٹی لیول 34فیصد تھا10فیصد کم ہو کر 2008ء میں 24فیصد رہ گیا تھا۔ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے مشرف کے ناقدین شاید بھول جاتے ہیں کہ میرانی ڈیم جولائی 2002ء میں شروع کیا گیا ،اکتوبر 2006ء میں مکمل ہو گیا افتتاح صدر جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا، سبک زئی ڈیم2004میں شروع ہوا 2007 میں پایہ تکمیل کو پہنچا،گومل زم ڈیم کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے 1896میں انگریزوں نے اس کو تعمیر کرنے کا سوچا1963میں اس پرکام شروع کرنے کا ارادہ کیا گیا بوجوہ شروع نہ ہو سکا اس دوران نواز شریف دو بار وزیر اعظم بنے 2001 ء میں صوبائی وزیر امین اللہ گنڈا پور نے صدر جنرل پرویزشرف کی توجہ اس طرف مبذول کرائی مشرف نے فوری طور پر اس پر عمل درآمد کا حکم جاری کیا اسی سال اگست میں اس پر کام شروع ہو گیا ہاں البتہ2013ء میں خواجہ آصف نے اس کا افتتا ح کیا اور تنگی ڈیم کا منصوبہ 2005ء میں بنایا گیا اور 2007میں اس منصوبے میں توسیع کرنے کیلئے پلان تبدیل کیا گیا مگر تا حال شروع نہیں کیا جا سکا اپنے دور میں اس ڈکٹیٹر کا اتنے اہم اور بڑے اہم مقامات پر ڈیمز تعمیر کئے۔ انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں آیا، بین الاقوامی معیار کی 9عدد انجینئرنگ یونیورسٹیزاور18پبلک یونیورسٹی قائم ہوئیں ۔ دو بلین ڈالر کی آئی ٹی انڈسٹری قائم کی گئی ایک بلین ڈالر بر آمدی ہدف حاصل کیا گیا90ہزار آئی ٹی پروفیشنلز تیار ہوئے ، پانچ سال میںسی این جی سیکٹر میں 70 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی نتیجے میں45ہزار لوگوں کو روزگار میسر آیا،ٹیلی کمیونیکیشن میں 10بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جس سے 1.3ملین لوگ باروزگار ہوئے، انڈسٹری پارکس تعمیر کئے گئے جس کا اب سی پیک کے ضمن میں بہت شور ہم سنتے ہیں۔میگا پروجیکٹس میں سینڈک، رکوڈک، ماربل اینڈ کول پروڈکشن میں کان کنی کو فروغ دیا گیا، 2007 میںجی ڈی پی پرچیزنگ پاور پیرٹی( پی پی پی) کا حجم 475.5 بلین ڈالر تھا ،جی ڈی پی پر کیپیٹا ایک ہزار ڈالر تھی ، بر آمدات 2007میں18.5بلین ڈالرکی مالیت تھی ٹیکسٹائل برآمدات 11.2بلین ڈالر جبکہ اس وقت جی ایس پی پلس نام کی کوئی سہولت دستیاب نہ تھی، باہر سے کی گئی سرمایہ کاری کا حجم 8.5 بلین ڈالر تھا ، ڈیٹ سروسنگ 2007میں 26فیصد تھا ، پاورٹی لیول 24فیصد تھا جبکہ سات سال بعد جون 2014ء میں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے ،لیٹریسی ریٹ ترپن فیصد ہو گیا تھا پاکستان ڈیویلپمنٹ پرگرام 2007میں 520بلین ڈالر ہو گیا تھا ،2007ء میںبر آمدات 18.5بلین تک پہنچ گئی تھیں یہ تو ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے میسر وسائل میں ڈکٹیٹر صدر جنرل پر ویش مشرف نے ہر شعبے میں ملک کو ترقی دی اہم بات کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑالی تھی اللہ تعالیٰ ہی اس ملک کو بد نظر سے محفوظ رکھے اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے رہنماؤں سے چھٹکارہ دے۔