سلطان صدیقی
25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے الیکشن شیڈول کے مطابق سیاسی معاملات آگے بڑھتے جا رہے ہیں‘ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی نامزدگی کا مرحلہ طے کر لیا ہے البتہ ایم ایم اے میں شامل جماعتیں بالخصوص اسی اتحاد کی دو بڑی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے مابین ٹکٹوں کی تقسیم پر اور تحریک انصاف میں اندرونی طور پر دیرینہ کارکنوں اور نوواردوں کے مابین ٹکٹوں کے اجراء کے مسئلے پر شدید اختلافات موجود ہیں ‘ وفاق اور بڑے صوبے پنجاب میں پانچ سال تک برسراقتدار رہنے والی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلکہ خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ضلع سوات کے ایک حلقے سے اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ضلع ملاکنڈ کے حلقے سے الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ضلع بنوں کے حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کا مقابلہ سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی سے ہے‘ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر (سربراہ) سینیٹر سراج الحق ‘ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان ‘ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو اسی صوبے کے اپنے حلقوں پر انتخابی اکھاڑے میں موجود ہیں‘ ان میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق البتہ اپنے حلقہ دیر کے علاوہ چارسدہ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو سے ہے‘ آفتاب شیرپائو اسی حلقے سے ہمیشہ جیتتے رہے ہیںاور یہاں ان کی جڑیں کافی مضبوط ہیں‘ دو بار وزیراعلیٰ ‘ایک بار صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ‘ وفاقی وزیر داخلہ رہے ہیں‘ تین بار خودکش حملوں میں اللہ نے انہیں محفوظ رکھا ہے اور اپنے علاقے کے عوام کی خدمت اور غمی خوشی میں پیش پیش رہتے ہیں ‘ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق ان کے مقابلے میں چارسدہ کے عوام سے ووٹ کے حصول کی توقع پر وہاں گئے ہیں تو یقیناً کچھ دیکھ کر ہی گئے ہونگے‘ 25جولائی کی رات پتہ چلے گا کہ ان کی توقعات کہاں تک پوری ہونگی‘ بہرحال دیگر جماعتوں کے امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں اور وہ بھی جیت کی توقع پر اپنی مہم چلا رہے ہیں‘ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں سمیت جے یو آئی (ف) کے مولانا گوہر شاہ ایم ایم اے کے امیدوار ہیں اور اس حلقے میں انہی دو امیدواروں کے مابین اصل مقابلہ ہوگا‘ مولانا گوہر شاہ کے مقابلے میں اسفندیار ولی خان کو جیت کیلئے محنت کی زیادہ ضرورت ہو گی‘ سابق خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کو سوات کے حلقے سے کامیابی دلانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کو باقی صوبے اور بالخصوص اپنے حلقہ نیابت سے زیادہ مہم اسی حلقے میں چلانی ہوگی کہ یہ درحقیقت ان کی صلاحیتوں ‘ محنت اور کوششوں کا امتحان ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں‘ بلاول بھٹو زرداری کا جہاں تک تعلق ہے ‘ ضلع ملاکنڈ ماضی میں منی لاڑکانہ رہا ہے اگرچہ اس حلقے سے ماضی میں جماعت اسلامی کے مولانا گوہر رحمن (مغفور و مرحوم) دوسرے ضلع (مردان) سے جا کر دو بار الیکشن جیت چکے ہیں ‘ جماعت اسلامی کے مولانا عنایت الرحمن اور پیپلز پارٹی کے لعل محمد خان سمیت یہاں سے مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے امیدوار بھی مختلف اوقات میں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں تاہم یہاں پیپلز پارٹی کی جڑیں اب بھی مضبوط ہیں‘ پارٹی کے صوبائی صدر انجینئر ہمایون خان یہاں سے کامیابی حاصل کرکے ماضی میں صوبائی وزیر خزانہ اور ان کے والد محمد حنیف خان(مرحوم و مغفور) صوبائی اسمبلی کے سپیکر رہے ہیں‘ بلاول بھٹو زرداری کا اس حلقے سے اصل مقابلہ ایم ایم اے کے صوبائی صدر اور جےیو آئی (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان سے ہے‘ مولانا گل نصیب ضلع دیر سے آکر ملاکنڈ میں الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ باقی جماعتوں کے امیدوار مقامی ہیں‘ یوں دونوں درآمد شدہ امیدواروں کے مابین کاٹنے دار مقابلہ ہوگا‘ ضلع ملاکنڈ صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پر مشتمل ہے‘ 2002ء کے عام انتخابات سے 2013ء تک ایک حلقے سے پیپلز پارٹی کے سید محمد علی شاہ باچا مسلسل الیکشن جیتتے رہے ہیں اور یہ حلقہ نہ تو ایم ایم اے کا ہوا ‘ نہ اے این پی کا ہوا اور نہ ہی تحریک انصاف کا سونامی اسے متاثر کر سکا البتہ دوسرے حلقے سے جماعت اسلامی کے شاہ راز خان سابق وزیر خزانہ و ماحولیات‘ پیپلز پارٹی کے انجینئر محمد ہمایون خان سابق وزیر خزانہ اور تحریک انصاف کے شکیل خان کامیاب رہے ہیں ‘ اسی حلقے سے اس بار جماعت اسلامی کے امجد علی اور پیپلز پارٹی کے انجینئر ہمایون خان دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے ہمراہ موجود ہیں اور صوبائی سطح پر اصل مقابلہ ان دو امیدواروں کے مابین دکھائی دے رہا ہے ‘ اگر انجینئر ہمایون خان ضرورت سے زیادہ جان لڑائیں اور ناراض جیالوں کو منانے میں کامیاب ہوں تو بلاول بھٹو زرداری کے اس حلقے سے کامیابی میں کوئی مسئلہ نہیں رہے گا‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی بنوں کے ایک حلقے سے الیکشن لڑے رہے ہیں تاہم بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوں میں مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کا طوطی بول رہا ہے اور وہاں سے ان کی جڑیں کھوکھلی کرنا آسان نہیں ‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر انجینئر اقبال ظفر جھگڑا کا تعلق چونکہ مسلم لیگ (ن) سے ہے اس لئے وہ انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں انہوں نے مطالبہ کیاہے کہ گورنر کو تبدیل کیا جائے شاید عمران خان کو یہ یاد نہیں کہ جب صوبے میں ان کی حکومت تھی ‘ وزیراعلیٰ اور وزراء ان کے تھے تو تب بھی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے ہری پور اور پشاور میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ صوبائی اسمبلی میں ناکافی نشستیں ہونے کے باوجود ٹیکنوکریٹ کی نشست جیتی تھی تب ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ جس وزیراعلیٰ کی موجودگی میں اپوزیشن امیدوار جیت رہے ہوں اس وزیراعلیٰ کو ہی ہٹا دیا جائے۔