• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتان کی سیاست میں آیا ہوا بھونچال ابھی تھما نہیں ہے اگرچہ ٹکٹوں کی تقسیم کا اونٹ بڑی حد تک کسی کروٹ بیٹھ گیا ہے مگر اس کے باوجود ٹکٹوں کی تقسیم کے زخم ابھی تک تروتازہ ہیں۔ تحریک انصاف سب سے زیادہ ان زخموں کی زد میں ہے اور نہ جانے انتخابات تک تحریک انصاف کی الیکشن مہم کس نہج پر چلتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی کے اپنے ہی رہنما ایک دوسرے کو ناکام بنانے پر تلے رہیں اورملتان کی نشستوں پر ایک بار پھر مسلم لیگ ن اپنی برتری ثابت کردے۔ ملتان میں ٹکٹوں کی تقسیم کا سب سے بڑا ہنگامہ قومی حلقہ 154 کی وجہ سے رہا جس کیلئے اسلام آباد میں بنی گالہ کے باہر 10 دن دھرنا بھی دیا گیا ۔ شاہ محمود قریشی یہ چاہتے ہیں کہ اس حلقے سے ملک احمد حسن ڈیہڑ کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا جائے۔ یہاں یہ خبر گرم ہے کہ احمد حسن ڈیہڑ کو بنی گالہ جا کر دھرنا دینے کا مشورہ بھی شاہ محمود قریشی نے دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب تک یہ دھرنا جاری رہا شاہ محمود قریشی بنی گالہ نہیں گئے اور ملتان میں بیٹھ کر نتیجے کا انتظار کرتے رہے۔ جب کامیابی نہ ملی تو انہوں نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی اور اس میں جہانگیر خان ترین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب سوال یہ ہے کہ ملتان میں اگر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان یہ کشیدہ فضا جاری رہتی ہے تو کیا تحریک انصاف یہاں سے جیتنے میں کامیاب رہے گی؟ کیا ایک واضح گروپ بندی کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کو انتخابات میں نقصان نہیں پہنچے گا۔ پارٹی کے دو بڑے اگر اس طرح اپنے گروپوں کی سرپرستی کرتے رہے تو ساری سیاسی طاقت انہی جھگڑوں پر صرف ہو جائے گی اور مخالفین کو فائدہ پہنچے گا۔ تحریک انصاف نے ضلع ملتان میں ٹکٹوں کی جو تقسیم کی ہے اس پر پارٹی کے پرانے کارکنوں اور رہنمائوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ کئی ایک نے تو دھمکی بھی دے دی ہے کہ اگر پارٹی ٹکٹوں کو اس طرح بانٹا گیا تو وہ الیکشن میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔

پی ٹی آئی جس انتشار کا شکار نظر آتی ہے مسلم لیگ ن نے بڑی حد تک اپنے انتخابی انتشار پر قابو پا لیا ہے۔ ملتان میں بہت اہم جھگڑا قومی حلقہ 155 کاتھا جس پر 3 امیدواروں کی نظریں گڑی ہوئی تھیں۔ ان میں سرفہرست مخدوم جاوید ہاشمی تھے جبکہ سابق ایم این اے طارق رشید اورگورنر پنجاب کے صاحبزادے آصف رفیق رجوانہ بھی اس حلقے سے انتخاب لڑنے کی مکمل تیاری کئے ہوئے تھے۔ لگ یہ رہا تھا کہ یہ حلقہ مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے درد سر بن جائے گا کیونکہ مخدوم جاوید ہاشمی اس حلقہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے جبکہ طارق رشید اور ملک رفیق رجوانہ پورا زور لگا رہے تھے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو اس حلقہ سے ٹکٹ نہ ملے۔ حمزہ شہباز شریف کی مداخلت سے یہ مسئلہ یوں حل ہوگیا کہ طارق رشید کو این اے 155 کی ٹکٹ دے دی گئی جبکہ آصف رفیق رجوانہ کو صوبائی حلقہ 214 کی نشست پر امیدوار نامزد کردیا گیا۔ رہی بات جاوید ہاشمی کی تو وہ حیران کن طور پر نہ صرف اس حلقے بلکہ انتخابات سے ہی دستبردار ہوگئے۔ یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے انتخابی سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے حالانکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ وزیر بننا چاہتے ہیں نہ صدر مملکت ، ان کی اول اور آخری خواہش یہ ہے کہ وہ اسمبلی کا رکن بن کر قومی معاملات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔ اب انہوں نے اپنا زاویہ نظر بدل لیا ہے اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب قومی رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے اور قومی ایشوز پر اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر قوم کو رہنمائی فراہم کریں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو سرتوڑ کوشش کے باوجود مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہیں مل سکا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ جس طرح آج کل نواز شریف چودھری نثار کو پارٹی میں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اسی طرح شہباز شریف کی جاوید ہاشمی کے بارے میں رائے مثبت نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ جاوید ہاشمی کو جنہوں نے تحریک انصاف میں جا کر نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ نواز شریف کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کو پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملتان کے 3 مخدوموں میں سے ایک مخدوم انتخابی سیاست کے میدان سے آئوٹ ہوگیا ہے اور اب دو مخدوم میدان میں رہ گئے ہیں۔ ان دو مخدوموں میں ایک سید یوسف رضا گیلانی ہیں جو اس مرتبہ شجاع آباد کے حلقہ 158 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے تین بیٹے بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تاہم کہا یہ جا رہا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی قومی حلقہ 158 میں پوزیشن کافی مضبوط ہے اور ان کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔ اگر یوسف رضا گیلانی اس نشست سے جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ شاید ضلع ملتان میں واحد نشست ہوگی جو پیپلزپارٹی کے حصے میں آئے گی۔ یوسف رضا گیلانی نے اس حلقہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔یہاں کے مشہور سید خاندان سے ان کے ہمیشہ ذاتی و سیاسی مراسم رہے ہیں۔ بلدیاتی سیاست میں گیلانی اور سید خاندان ہمیشہ مل کر عہدے حاصل کرتے رہے ہیں مگر اس بار اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سید جاوید علی شاہ کو یوسف رضا گیلانی سے مقابلے کا سامنا ہے۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے امیدوار ابراہیم خان بھی میدان میں ہیں اگرچہ تحریک انصاف اس وقت مقبولیت کے لحاظ سے نمایاں ہے مگر اس حلقہ میں دیکھا جائے تو یوسف رضا گیلانی اور جاوید علی شاہ کے مقابلے میں اس کی پوزیشن زیادہ مستحکم نظر نہیں آتی۔ بہرحال یہ حلقہ بھی ان حلقوں میں شامل ہے جس پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوں گی کیونکہ نااہلی کے بعد یوسف رضا گیلانی پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر وہ اس حلقہ سے جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں تو پیپلزپارٹی کی لاج رہ جائے گی کیونکہ ملتان کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کے حالات اس قدر برے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو کئی حلقوں سے ڈھنگ کے امیدوار ہی نہیں مل سکے۔

انتخابی سیاست کی یہ گرم بازاری آنے والے دنوں میں کیا گل کھلاتی ہے اور پردہ غیب سے کیا کچھ نکلتا ہے اس کے بارے میں پیش گوئیاں تو کی جاسکتی ہیں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ 2018ء کے انتخابات ایک بدلی ہوئی فضا میں ہو رہے ہیں اور امیدواروں کو بھی الیکشن مہم کے دوران عوام کے پاس جاتے ہوئے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کا موڈ جارحانہ ہے اور وہ آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین