پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے اقتدار سے فارغ کئے جانے کے بعد ن لیگ کی اکثریت سے بننے والے ایک سو سے زائد ارکان پارلیمنٹ انہیں چھوڑ کر مخالفین کے ساتھ مل چکے ہیں انتخابی مہم میں تقریبا 25دن باقی رہ گئے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران نہ صرف پاکستان میں ناپختہ اورکمزور جمہوریت نظر آئی بلکہ جمہوریت کے دعویدا رآمرانہ روش اختیار کرتے پائے گئے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف ایک طرف نیب ریفرنسز بھگت رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کینسر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شریک حیات کی عیادت کے لئے عدالت سے چار روزہ استثنیٰ لے کر لندن جانے والے نوازشریف کی واپسی فی الحال کلثوم نواز کی صحت سے منسلک ہو کر رہ گئی ہے اور نوازشریف نے 2018کی انتخابی مہم میں شامل نہ ہونے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور مریم نوازشریف کی انتخابی مہم میں عدم موجودگی سے ن لیگ کا بیانیہ پس منظر میں جانے کا خدشہ ہے۔ شہباز شریف شاید’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیے پر زور نہ دے سکیں۔ امیدواروں کے چنائو کے دوران بیشتر سیاسی جماعتوں میں اختلاف پھوٹ پڑے اور امیدوار کا چنائو اس کی اہلیت کی بجائے اس کی کامیابی کی شرح کے تناسب سے کیا گیا۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے بھی تبدیلی کیلئے انہی لوگوں کا سہارا ڈھونڈا جو ماضی میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ سیاسی حلقے اعلانیہ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2014میں پارلیمنٹ کے سامنے شروع کیا گیا دھرنا صرف اور صرف اقتدار کے محافظوں کی اس یقین دہانی پر ختم کیا کہ نوازشریف کو آئینی طریقے سے گھر بھیجتے ہیں! نواز شریف کو چھوڑ کر عمران خان کی پارٹی میں صدر کے عہدے پر پہنچنے والے مخدوم جاوید ہاشمی نے دھرنے کے دوران بھی پی ٹی آئی سے الگ ہو کر جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کو بہت پہلے ہی بے نقاب کر دیا تھا۔ پاکستان کی انتخابی سیاست میں ہونے والے جوڑ توڑ کے بعد سیاسی تجزیہ نگار مستقبل قریب میں ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے مایوس نظر آتے ہیں ان کا کہناہے کہ بظاہر اقتدار کا سہرا پی ٹی آئی کے سر بندھتا نظر آتا ہے تاہم وزارت عظمیٰ کا سہرا عمران خان کے علاوہ کسی دوسرے کے سر پر بھی سجائے جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے اور وہ چہرےچوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری نثار علی خان بھی ہو سکتے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو انتخابی مہم میں کئی ایسی جماعتیں سر اٹھائیں گی جو بظاہر تو شاید بڑی کامیابی نہ حاصل کر سکیں مگر انفرادی طور پر کئی امیدواروں کی کامیابی اور ناکامی میں ان کا واضح کردار نظر آئے گا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدنواز شریف پرانے ساتھی چوہدری نثار علی خان پہلی بار کھل کر آزاد حیثیت میں چار حلقوں سے انتخابی دنگل میں اترے ہیں چوہدری نثار علی خان نے 2013ء کے انتخابات کے دوران بھی پی پی 6 سے آزاد حیثیت میں گائے کے انتخابی نثان پر انتخاب بڑا تھا اور ن لیگ نے اس حلقے میں امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا تھا اب کے بار پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں امیدوار نامزد کر دیئے ہیں۔ 2013ء کے ضمنی انتخابات میں بھی چوہدری سرفراز افضل نے شیر کے نشان پر انتخاب لڑتے ہوئے چوہدری نثار سے زیادہ ووٹ لئے تھے سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کو پی ٹی آئی کی طرف سے سیاسی سپورٹ ملنے کا امکان ہے ۔ اپنے پہلے انتخابی جلسے کے دوران چوہدری نثار علی خان نے کھل کر اس بات کا اظہار بھی کیا کہ عمران خان نے انہیں ٹکٹوں کی پیشکش کی ہے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا اپنے حلقے میں مضبوط ووٹ بنک موجود ہے این اے 63 جو پہلے این اے 53 تھا سے وہ 2013ء میں بھی غلام سرور خان اور ان کے مرحوم بھائی چوہدری صدیق سے شکست کھا گئے تھے جبکہ غلام سرور خان نے اب کی بار این اے 59 سے بھی چوہدری نثار علی خان کے مقابلے پر کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انجینئر قمر الاسلام بھی اس حلقے سے انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو چوہدری نثار علی خان کو کامیابی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانا پڑے گی سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں خدمت کی سیاست کے صرف دعوے کئے جاتے ہیں عملاً لوگ صرف اقتدار کے لئے آتے ہیں دو ماہ کے لئے اقتدار میں آنے والے نگران حکمران بھی سرکاری مراعات سے بھرپور انداز میں مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں نگراں وزیراعظم کے 50 گاڑیوں پر مشتمل قافلے کے گذرنے کے انتظار میںخواہ مریض تڑپ تڑپ کر چل بسے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نیازی قومی اسمبلی کے پانچ حلقوں سے انتخاب میں اترے ہیں این اے 35 بنوں سے ان کا مقابلہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار سابق وزیراعلیٰ کے پی کے اکرم خان درانی سے ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے سیّدہ یاسمین صفدر کو اس حلقے سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ عمران خان وفاقی دارالحکومت کے حلقے این اے 53 سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں متحدہ مجلس عمل کے سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد اسلم اس حلقے سے عمران خان کا مقابلہ کریں گے پاکستان پیپلز پارٹی اس حلقے سے سابق چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کے بھائی سبط الحسن بخاری کو نامزد کر چکی ہے ن لیگ اس حلقے سے جن امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی خواہاں ہے ان کے کاغذات نامزدگی ابھی تک کلیئر نہیں ہوئے آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد امجد بھی اس حلقے سے امیدوار ہیں ۔