اریبہ امتیاز
ہمارے معاشرے میں رشتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ ہماری قدروں کا دارو مدار ہی انہی پر ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ والدین کا باہمی رشتہ اور باہمی تعاون بچے کی شخصیت پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور تلخیوں سے بچے خوف زدہ ہو جاتے ہیں، اور خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، ان لڑائی جھگڑوں کا نتیجہ ’’طلاق‘‘ کی صورت میں نکلتا ہے۔یہ صورت حال جہاں والدین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ وہیں اس کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر موڑ پر بچے کو اس محرومی کا احساس ہوتا ہےاور اس کے ذہن میں پہلا سوال یہی آتا ہے کہ اب اُن کا خیال کون رکھے گا۔
ایسے بچے جو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے زیر سایہ پرورش پاتے ہیں، ’’سنگل پیرنٹ چائلڈ ‘‘کہلاتے ہیں،جوضروری نہیں کہ والدین میں علیحدگی کی وجہ سے ہی ہو، بلکہ بعض اوقات ماں یا باپ کا وفات پا جانے کی صورت میں بھی بچہ سنگل پیرنٹ چائلڈ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں باپ میں علیحدگی کی وجہ سے بھی بچہ سنگل پیرنٹ ہو جاتا ہے۔طلاق کی صورت میں بچہ یا تو ماں کے پاس ہوتا ہےیا باپ کے پاس۔اسی طرح والدین کے درمیان علیحدگی کے عمل میں بچہ ذہنی طور پر پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ یوں سنگل پیرنٹ چائلڈ کی زندگی سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ بچے کی پرورش کے ضمن میں ماں باپ دونوں کی اہمیت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی تحقیق جھٹلا نہیں سکتی ہے۔ کیونکہ قسمت کے فیصلوں کے سامنے کسی کا کوئی زور نہیں چلتا۔بچوں کی پرورش کے ضمن میں وقت اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ بہترین ہتھیار ہوتا ہے۔ کیونکہ سنگل پیرنٹ چائلڈ کی محرومیوں کو دنیا بھر کی خوشیاں بھی ختم نہیں کر سکتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ایسے بچے جن کے والد بچپن میں انتقال کر جائیں، عام بچوں کی نسبت ان کی طبیعت میں فرق نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ ان کو اپنے پاؤں پر خود ہی کھڑے اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر قسم کی کامیابی اپنی محنت کے بل پر حاصل کرنی ہوتی ہے۔لہذا اس سارے عمل کے دوران ان کی شخصیت میں ایک ایسا اعتماد پیدا ہوتا ہے جو ان کو بڑے سے بڑے فیصلہ کرنے اور چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ باپ کی عدم موجودگی میں بچہ اتنا پُر اعتماد ہو ۔تاہم والدین کی علیحدگی کی صورت میںاگر مقدمے میں جیت ماں کی ہوتی ہے تو پھر بچے کہ ذمےداری اس کے سپرد کر دی جاتی ہے، تو ایسے میں اس کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ اپنے بچے کی پرورش میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑے۔ماں کی کوشش اپنی جگہ لیکن ایسے بچوں میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔ اعتماد ہمیشہ سماجی روابط سے آتا ہے، اپنے عزیز واقارب اور لوگوں میں اٹھنے بیٹھے اور باہمی میل ملاپ سے انسان کی شخصیت میں پختگی آتی ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ اعتماد اور سماجی روابط بناے کا رجحان بچہ ہمیشہ اپنے باپ سے لیتا ہے، جبکہ اکثر مائیں ایسے رجحانات دینے میں یکسر ناکام رہتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحول اور رجحانات میں بھی تبدیلی آئی ہے اور خواتین بھی زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔لیکن اگر اس دوڑ میں شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی خواتین کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسی خواتین کا تناسب بہت کم ہے جو اپنے بچوں کی پرورش بھرپور اور مردوں کے انداز میں کرتی ہیں۔اس کے علاوہ صرف ماں کے زیر سایہ پرورش پانے والے اکثر بچے ’’قوت فیصلہ‘‘ سے محروم رہتے ہیں، ان میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے کریں اور پھر ان پر قائم بھی رہیں۔ایسے بچے عموماً ذہنی کشمکش کا شکار رہتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں ،بلکہ بعض اوقات تو وہ اس معاملے میں دوسروں پر انحصار کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں اعتماد کی کمی بڑھتی جاتی ہے۔تاہم یہ قدرتی امر ہے کہ ماں جس انداز سے بچوں کی پرورش کرتی ہے وہ باپ نہیں کر سکتا، ماں کی شفقت اور پیار میں اتنا اثر ہوتا ہے کہ بچہ تمام تر محرومیاں بھول جاتا ہے۔والد کا پیار اور تمام تر کوششیں بھی بچے کی اس محرومی کو دور نہیں کر سکتی ہیں۔ صرف باپ کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچوں کی طبیعت الگ ہوتی ہے، کیونکہ انہوں نے ماں کی گود اور اس کا پیار نہیں دیکھا ہوتا،لہذا ایسے بچو ں کو رشتو ں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ رشتے بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے بچے کسی پر اعتماد نہیں کرتے،کوئی بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھائے یا اس کی مدد کرنا چاہے تو ایسے میں ان کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات جنم لیتےہیں کہ پتا نہیں یہ میری طرف دوستی کا ہاتھ کیوں بڑھا رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہ کہا جائے کہ باپ کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچوں کی شخصیت توڑپھوڑ کا شکار رہتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔’سنگل پیرنٹس‘ پر اپنے بچوں کی اہم ذمےداری عائد ہوتی ہے ،ان کو بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے ہر قدم پر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں بچے کی پرورش میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے۔اس کے علاوہ میاں بیوی کے آپس میں رشتوں میں تکرار اور لڑائی جھگڑے سے بھی بچے کی شخصیت مسائل کا شکار رہتی ہے۔
بچوں کی پیدائش کے بعد والدین کو اپنے درمیان کی چپقلش کو بھُلاکران کے مستقل کے بارے میں سوچنا چاہیےاور کوشش کرنی چاہیے کہ وقت اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جائے ،لیکن کبھی بچوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔لہٰذا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل بچوں کے معاملے کو مل جل کر حل کر لینا ضروری ہے۔ والدین کی جانب سے شعوری طور پر بچوں کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ اس سارے معاملے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔بچوں کے سامنے والدین کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے والدین کا احترام کم ہوتا ہے اور بچے ذہنی الجھن، مایوسی یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔