بعدالت جناب محمد بشیر ، جج احتساب عدالت اسلام آباد
ریفرنس نمبر 20/2017 (ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A)
سرکار بنام
(1) میاں محمد نواز شریف ولد میاں محمد شریف ، عمر 69 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(2) مریم نواز (مریم صفدر) دختر میاں محمد نواز شریف ، عمر 43 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(3) کیپٹن (ر) محمد صفدر ولد محمد اسحاق ، عمر تقریباً 54 سال ، سکنہ سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(4) حسین نواز شریف ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 45 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
(5) حسن نواز ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 41 سال ے سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
فیصلہ
استغاثہ کا موقف حسب ذیل ہے
مقدمہ کے حقائق یہ ہیں کہ زیر دفعہ 18(g) اور نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 24(d) (کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے) کے تحت مندرجہ بالا پانچ ملزمان کے خلاف عبوری ریفرنس دائل کیا گیا۔ ان ملزمان میں سے دو حسین نواز اور حسن نواز سمن ، وارنٹ کے اجراء کے باوجود عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87 ، 88 کے تحت اشتہاری قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ان دو ملزمان کو مقدمے میں مفرور ؍ اشتہاری قرار دیا گیا۔
-2 مبینہ طور پر ’’پانامہ پیپرز‘‘ پانامہ کی لاء فرم موسیک فونسیکا کے ریکارڈ سے منظر عام پر آئے جن میں میاں نواز شریف ، مریم صفدر (نواز) ، کیپٹن (ر) محمد صفدر ، حسین نواز اور حسن نواز پر آف شور کمپنیوں کے ساتھ مبینہ تعلق کا الزام سامنے آیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ میں کیس کی کارروائی کے دوران ملزمان نے اپنے اپنے موقف ، خطوط اور دیگر دستاویزات پیش کیں۔
-3 معزز عدالت عظمیٰ نے سوالات تیار کئے اور معاملے کی تحقیقات ، شواہد اکٹھے کرنے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ۔
-4 مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک متفرق درخواست سی ایم اے نمبر 2939 سال 2017ء (آئینی پٹیشن نمبر 29/2016 وغیرہ میں) میں 5 جولائی 2017ء کو تحقیقات سے متعلق ضابط فوجداری 1898 ، نیب آرڈیننس 1999 ء اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975ء کے تحت تمام اختیارات دئیے گئے ۔
-5 جے آئی ٹی نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کو 12 والیمز کی صورت میں پیش کی۔
-6 معزز عدالت عظمیٰ نے نیب کو چھ ہفتوں میں ملزمان کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن سے متعلق جے آئی ٹی کی جانب سے اکٹھے اور پیش کئے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس تیار اور دائر کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ اگر ایف آئی اے اور نیب کے پاس بھی ان فلیٹس سے متعلق کوئی شواہد ہوں تو انہیں بھی شامل کیا جائے۔ مدعا علیہ نمبر 1 میاں نواز شریف ، مدعا علیہ نمبر 6 مریم نواز شریف (مریم صفدر) ، مدعا علیہ 7 حسین نواز شریف ، مدعا علیہ 8 حسن نواز شریف اور مدعا علیہ 9 کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن جائیداد کے سلسلے میں ریفرنس کی تیاری اور دائر کرتے وقت پہلے کی جانیوالی تحقیقات کے دوران اکٹھے کئے گئے شواہد کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
(e) نیب آمدن سے زائد اس جائیداد (فلیٹس) کے حصول کے سلسلے میں مدعاعلیہ نمبر 1 ، 6 ، 7 ، 8 اور 10 کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ معاونت فراہم کرنے پر شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف مسعود قاضی ، جاوید کیانی اور سعید احمد سمیت دیگر تمام افراد کو کارروائی میں شامل کرے گا۔
(f) اگر ملزمان کے خلاف آمدن سے زائد کسی اور جائیداد کا پتہ چلے تو نیب ان کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس (ریفرنسز) دائر کر سکتا ہے۔
(h) اگر احتساب عدالت ملزمان یا ان کے ایماء پر کسی اور کی جانب سے پیش کی گئی کسی دستاویز ، معاہدے یا بیان حلفی کو جعلی یا غلط پائے تو متعلقہ افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
-7 اس سے قبل سال 2000ء میں مدعا علیہ 1 اور دیگر کے خلاف انہی الزامات پر تحقیقات کی گئی تھیں لیکن تازہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حکم پر 3 اگست 2017ء کے خط کی بنیاد پر کی گئیں اور نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کو مجاز بنایا گیا۔
-8 یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملزمان کو تحقیقات کے دوران بلایا گیا لیکن انہوں نے یہ موقف لیا کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ء کے حکم نامے پر نظر ثانی کی ایک درخواست دائر کی ہے لہٰذا اس کے فیصلے تک تحقیقات موخر کی جائیں۔
-9 7 نومبر 2017ء کو ایک عبوری ریفرنس دائر کیا گیا جس میں ملزمان پر دفعات 9(a)(iv)(v) اور (xii) کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز ، نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10 (کو منسلکہ شیڈول کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے) کے تحت جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔
-10 اس عدالت نے قانون کے مطابق ملزمان کے سمن جاری کئے، دو ملزمان حسین نواز اور حسن نواز پیش نہ ہوئے جس پر انہیں اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ باقی پیش ہونیوالے تین ملزمان کو ریفرنس ، دستاویزات کی نقول فراہم کی گئیں۔
-11 تینوں ملزمان پر مشترکہ فرد جرم عائد کی گئی بعد میں مدعا علیہ نمبر 2 اور 3 کی درخواست پر اس میں ترمیم کی گئی۔ ملزمان کے خلاف جو آخری الزام عائد کیا گیا اس کا متعلقہ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
’’آپ ملزم میاں محمد نواز شریف عوامی عہدے پر فائز تھے۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ ؍ زیر کفالت افراد ایون فیلڈ مے فیئر جائیداد اپارٹمنٹ نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع پارک لین لندن کے مالک و قابض ہیں اور یہ فلیٹس 1993ء سے آپ اور آپ کے اہل خانہ کے قبضہ میں ہیں۔ مذکورہ جائیداد کی خریداری کے لئے سرمائے کا ذریعہ آف شور کمپنیاں میسرز نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور میسرز نیسکول لمیٹڈ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ انہی کمپنیوں کی ملکیت کا جواز درست نہیں اور ان کمپنیوں کے حصص رکھنے والوں کو مذکورہ جائیداد کے ذریعے شفاف بنایا گیا۔
آپ ملزم میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور مفرور ملزمان حسین نواز اور حسن نواز مذکورہ جائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔
آپ ملزمہ مریم نواز ایون فیلڈ جائیداد کی ملکیت رکھنے ان کمپنیوں کی بینفشل اونر ہیں۔ کیلبری فونٹ میں جعلی معاہدہ از مورخہ 2 فروری 2016ء پیش کیاگیا حالانکہ اُس سال میں ایسا فونٹ اس طرح کے معاہدوں کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ اس معاہدے پر آپ ملزمہ مریم نواز اور شریک ملزم کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بطور گواہ دستخط کئے۔ یہ معاہدہ پیش کر کے آپ نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
آپ ملزمہ مریم نواز شریف نے جان بوجھ کر مذکورہ اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں اصل حقائق اور کمپنیوں کو چھپایا۔ اور آپ سمیت تمام دیگر ملزمان بشمول اشتہاری قرار دئیے گئے ملزمان دستیاب فنڈز کے ذرائع اور ان کی بیرون ملک قانونی منتقلی بتانے میں ناکام رہے۔ جس وقت یہ جائیداد خریدی گئی اس وقت مفرور قرار پانے والے ملزمان کے ذرائع آمدن موجود نہ تھے۔
اس طرح آپ ملزمان میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز شریف اور کیپٹن (ر) محمد صفدر دفعات 9(a)(iv)(v)&(xii) اور نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
-12 نیب آرڈیننس 1999ء کے ساتھ منسلک شیڈول کی سیریل نمبر 3(a) کے تحت جرم سے متعلق حکم نامہ جاری کیا گیا ، یہ عدالت فیصلے کے اعلان میں اس جرم کو سنجیدگی سے لے گی۔
-13 ملزمان نے الزامات ماننے سے انکار کیا۔
-14 استغاثہ نے 18 جنوری 2018 کا ریفرنس جو 22 جنوری 2018ء کو دائر کیا گیا اس میں آٹھ گواہان پیش کئے۔
-15 اس مقدمہ میں کل 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ 8 مئی 2018ء کو استغاثہ نے شہادتیں ختم کیں۔
-16 ٹرائل کا سامنا کرنیوالے تینوں ملزمان کے بیانات ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت قلمبند کئے گئے۔انہوں نے اپنے دفاع میں گواہان پیش نہ کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 340(2) کے تحت جرح بھی نہیں کی۔
-17 میں نے دلائل سنے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا۔
-18 استغاثہ کی جانب سے درج ذیل شہادتیں پیش کی گئیں۔
گواہ استغاثہ 1 : جوائنٹ رجسٹرار آف کمپنیز کمپنی رجسٹریشن آفس لاہور ایس ای سی پی مسماۃ سدرہ منصور نے نیب کے خط مورخہ 15 اگست 2017ء جو چیئرمین ایس ای سی پی کو لکھا گیا تھا ، کی روشنی میں بتایاکہ وہ نیب لاہور کے انوسٹی گیشن آفیسر کے روبرو 23 اگست 2017ء کو پیش ہوئیں اور ریکارڈ کی مصدقہ نقول پیش کیں۔ یہ ریکارڈ تفتیشی افسر نے بذریعہ سیزر میمو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس پر انہوں نے دستخط کئے اور انگوٹھے کا نشان ثبت کیا۔جو ریکارڈ پیش کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔
(i)سال 2000 سے 2005ء تک طویل مدتی قرضوں سے متعلق سالانہ آڈٹ اکائونٹس رپورٹ معہ کورنگ لیٹر مورخہ 18 اگست 2018
(ii) 30جون 2000ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iii) 30 جون 2001 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iv) 30 جون 2002ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(v) 30 جون 2003 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vi) 30 جون 2004ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vii) 30 جون 2005 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
مسماۃ سدرہ منصور اوپر بیان کئے گئے نقول کا اصل ریکارڈ ساتھ لائیں جو کمپنی نے عدالت کے جائزے کے لئے فراہم کیا تھا (ریکارڈ دیکھ کر واپس کر دیا گیا)۔ طویل مدتی قرضہ 494,960,000/- روپے تھا۔ اس طویل مدتی قرضے کا سٹیٹس 30 جون 2000ء سے لے کر 30 جون 2005ء تک ایک جیسا رہا۔ تفتیشی افسر نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت مسماۃ سدرہ منصور کا بیان بھی قلمبند کیا۔
استغاثہ گواہ 2 : محمد رشید ولد محمد مسکین (کورٹ کلرک) اوور ڈگنم اینڈ کمپنی ، ماریانہ ہائٹس سیکنڈ فلور 109 ، ایسٹ جناح ایونیو بلیو ایریا اسلام آباد نے بیان کیا کہ ایک لیٹر بمورخہ 5 ستمبر 2017ء جو نیب لاہور کی طرف سے مسٹر ریاض سینئر پارٹنر اموور ڈگنم اینڈ کمپنی کو لکھا گیا ، موصول ہوا۔
نیب لاہور سے وصول کیں، کچھ دستاویزات اس خط کے ذریعے طلب کی گئیں اور وہ 6/9/17کو دستاویزات کے ہمراہ نیب آفس لاہور میں تفتیشی افسر عمران سے ملا ،اس نے اسے لفافے میں بند دستاویزات حوالے کیں ،جس نے لفافہ کھولا تو اس میں سے یہ دستاویزات نکلیں، اول ،5/9/17کا ایک کورنگ لیٹر ،دوئم ،کوئین بنچ کے حکم کی فوٹو کاپیاں،جوکہ چار صفحات پرمشتمل تھیں ،سوئم ریفرنس کے صفحہ نمبر 117تا122پر مظہر خان بنگش کے بیان حلفی کی فوٹو کاپیاں دستیاب ہیں ،پی ڈبلیو3مظہر خان بنگش ایڈوکیت اور راجہ برکت گلیٹی ایڈوکیٹ سکنہ اسلام آباد نے بتایا کہ میں 30/8/17کو نیب کے تفتیشی عمران کے سامنے نیب لاہو ر میں پیش ہوا ،،اسے چند دستاویزات دکھائیں،جن میں کوئین بنچ کے 1999کے حکم کی کاپی سروس بیان حلقفی کی کاپی اور شیزی نقوی کا بیان حلفی بھی شامل تھا ،وکیل نے بتایا کہ سروس کا بیان حلفی اس سے متعلق تھا ،وہ OrrDignam & Coکو بھجوایا گیا تھا ،اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ کمپنی کے مالک نے کیا طریقہ کار اختیارکیا تھا ،تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،پی ڈبلیو 4 تھانہ نیب لاہور کے سب انسپکٹر مختار احمد نے بیان کیا کہ اسے تفتیشی نے ریفرنس نمبر 20/2017میں 5دفعہ طلب کیا تھا اور وہ شمیم فارم رائے ونڈ روڈ جاتی امراء لاہور گیا ،اس کے پاس میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر ،بی بی مریم ،حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز تھے ، جہاںاس کی ملاقات سیکورٹی افسر عطا اللہ کے ساتھ ہوئی جس نے میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر اوربی بی مریم کے نوٹسز تو وصول کرلئے لیکن حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک رہتے ہیں، اس نے یہ نوٹسز تفتیشی کو واپس کئے اور تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا، پی ڈبلیو5محمد عدیل اختر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور نے بیان کیا کہ میں نے صفحہ نمبر 62اور 111والے میمو ضبط کئے تھے ،اور ان پر میرے دستخط بھی موجود ہیں، اس نے مزید بتایا کہ وہ23اگست 2017کو محمد عمران کے سامنے میاںنواز شریف کے خلاف کیس میں شامل تفتیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور پیش ہوئیں اور حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی دستاویزات پیش کیں اور ضبطگی کا میمو ان کے سامنے تیار کیا گیا ،جس پر انہوںنے ،میں نے اور تفتیشی نے دستخط کئے تھے ، سدرہ منصور نے جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ 48صفحات پر مشتمل تھا ،تفتیشی نے ان کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،6/9/17کو OrrDignam & Co کے کلرک محمد رشید نے ریکارڈ پیش کیا جس میں کوئین بنچ کا بیان حلفی اور کورنگ لیٹر موجود تھا،تفتیشی نے ان کی ضبطگی کا میمو تیار کیا اور اس پر اپنے ، محمد رشید کے اور دیگر افراد کے دستخط لئے تھے ،جبکہ محمد رشید ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو6ایدیشنل ڈائریکٹر نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد شکیل انجم ناگرہ نے بیان کیا کہ15/8/17کوایڈیشنل ڈائرکیٹر کوآرڈینیشن پراسیکیوشن ونگ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام جے آئی ٹی کی رپورٹ کے والیم 1تا10 کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کے حوالے سے درخواستیں لکھی تھیں،جس پر 17/817کو اسسٹنٹ رجسٹرار محمد مجاہد نے والیم 1تا9کی تین تین نقول جبکہ والیم 10 کے چار سیٹ فراہم کئے ،انہوںنے ان میں سے ایک سیٹ تیار کرکے کورنگ لیٹر کے ہمراہ 25/8/17کونیب لاہور میں پیش ہوکر تفتیشی کو جمع کروایا اور اپنا بیان قلمبند کروایا ،پی ڈبلیو 7اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور زوار منظور نے بیان کیا کہ 23اگست 17کو وہ میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والی تفتیش میں تفتیشی کے سامنے پیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور بھی پیش ہوئیں اور دو صفحات پر مشتمل ایک لیٹر پیش کیا جوکہ مختلف آڈٹ سے متعلق تھا ،یہ دستاویات تفتیشی نے ضبطگی کے میمو میں شامل کیں اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے،پی ڈبلیو 8تھانہ نیب کے سب انسپکٹر عمر دراز نے بیان کیا کہ 16/8/17کووہ طارق شفیع کو طلبی کا نوٹس دینے کے لئے ان کی ماڈل ٹائون کی رہائش پر گیا تو وہاں پر تعینات ایک سیکورٹی گارڈ عبدالطیف نے بتایا کہ وہ تو اپنے خاندان کے ہمراہ 20/7/17کو بیرون ملک چلے گئے ہیں، اس نے نوٹس لینے سے انکار کردیا تو میں واپس چلا آیا،اسی روز ہی موسیٰ غنی کی رہائش گلبرگ لاہور گیا تو پویس گارڈ کے انچارج عامر سے ملاقات ہوئی ،جس نے بتایا کہ یہاں پر اس نام کا کوئی شخص نہٰن رہتا ہے بلکہ یہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار کی رہائش ہے جوکہ اسلام آباد میں رہتے ہیں، میں وہاں سے واپس آگیا اورتفتیشی نے میرا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا ،اس سے قبل ،6/9/17کو تفتیشی عمران کے سامنے پیش ہوا تو OrrDignam & Co کا کلرک محمد رشید پیش ہوا اور اس نے کورنگ لیٹر کے ساتھ کچھ دستاویزات پیش کیں جن میں کوئین بنچ کے فیصلے کی نقل اور مظہر رضا خان کے بیان حلفی کی نقول تھیں ،جنہیں ضبطگی میمو میں شامل کیا گیا ،اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے تفتیشی نے اس موقع پرمحمد رشیدکا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو 9محمد عبدالواحد خان ڈی جی، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکشنز زیرو پوائنٹ نے 5/1/18کو بیان کیا کہ نیب کے دو افسران عمران اور نذیر سلطان ان کے پاس آئے اور انہیں وہ سارا مواد دکھایا جوکہ میں نے ہی انہیں بھجوایا تھا اور میں نے اس کی تصدیق کی ، اس مواد میں اول ،ہمارا 26/12/17کا فارورڈنگ لیٹر اور حسن نواز کے ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے انٹرو یو کی سی ڈی اور متن شامل تھا ، دوئم 28/12/17کا لیٹر اور پروگرام کل تک کی سی ڈی شامل تھی ، سوئم 29/12/17کے لیٹر کے ساتھ حسن نواز اور حسین نواز کے کیپیٹل ٹالک اور لیکن نامی پروگراموں میں دیئے گئے انٹر ویوز کی سی ڈی اور اس کا متن شامل تھا اور یہ نیب لاہور کو بھجوائے گئے تھے،چہارم 30/12/17کا فارورڈنگ لیٹر جس کے ہمراہ میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی سے خطاب کی دو سی ڈیز شامل تھیں ،یہ بھی نیب لاہور کو بھجوایا گیا تھا،پنجم ،28/12/17کے دو لیٹر جوکہ میرے ڈائریکٹر عاصم کچھی نے جیو نیوز اور پی ٹی وی کو پروگراموں کے ویڈیو کلپ اور متن کے ھوالے سے بھجوائے تھے ،شامل تھے ،ششم 27/12/17کا لیٹر جوکہ ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ نے بی بی سی کے بیورو چیف ہارون الرشید کو بھجوایا تھا ،ہفتم ، نواز شریف کا قوم سے خطاب کا چار صفحات پر مشتمل متن ،ہشتم، نواز شریف کے قومی اسمبلی سے خطاب کا متن جوکہ صفحہ نمبر 31تا 36پر ہے ،جس پر وکیل صفائی جے اعتراج کیا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 66کے تحت عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم اسے بھی اوور رول کردیا گیا تھا ۔
9/پروگرام کل تک ایکسپریس نیوز میں حسین نواز شریف کا انٹرویو کا ترجمہ جو 22صفحات پر مشتمل اور کیس فائل میں شامل ہے پر اعتراض تھا کہ حسین نواز شریف کبھی اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے نہ ہی اس میں کیس میں گواہ ہیں۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ حسین نواز اس کیس میں اشتہاری ہیں اور وکیل صفائی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔10/کل تک پروگرام کی سی ڈی کے علاوہ قوم سے خطاب اور قومی اسمبیل میں کی گئی تقریر کی سی ڈیز میں کیس فائل کا حصہ ہیں۔جس پر ائین کے آرٹیکل66کے تحت اعتراض تھا پر نیب پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ یہ قابل قبول شواہد ہیں۔تمام چیزیں تفتیشی مقدمہ محمد عمران ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور سے لی گئیں اور اس موقع پر محمد نذیر سلطان اور میں نے دستخط کئے تھے۔گواہ پی ڈبلیو 10/سید مبشر توقیر شاہ ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ڈویژن وازارت اطلاعات و نشریات 5جنوری 2018کو ایوان فیلڈ ریفرنس میں شامل تفتیش ہوئےاور تفتیشی کی طرف سے دکھائے گئی دستاویزات اور آرٹیکلز کی تصدیق کی۔گواہ 11/وقاص احمد سینئر کوارڈینٹر جیو نیوز اسلام آباد آفس نے بتایا کہ 8جنوری2018کو نیب کی طرف سے ایک لیٹر موصو ل ہوا جس میں کیپیٹل ٹالک اور لیکن پروگراموں کے بارے معلومات مانگی گئیں تھیں۔انہوں نے شامل تفتیش ہوکر پروگراموں کی ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرائب مواد کی تصدیق کی۔کیپیٹل ٹالک پروگرام کے ٹرانسکرائب صفحات13اور لیکت پروگرام کے دوصفحات کیس فائل کے ساتھ منسلک ہیں۔گواہ12 /زاور منظور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور جھنوںعبوری ریفرنس میں بیان دیا تھا۔ سپلیمنٹری ریفرنس میں بیان کے دس جنوری کو تحقیقات کیلئے پیش ہوئے۔ان کی موجودگی میں جیو کے نمائندے وقاص احمد نے ریکارڈ جمع کرایا۔گواہ گیارہ محمد سلطان نذیر ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور نے بتایا کہ پانچ جنوری کوعبدالوحید خان ڈی جی ڈائریکٹر ایکٹوانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز نے تین سی ڈیز پیش کیں جو تفتیشی نے قبضہ میں لیں اور کیس فائل کا حصہ بنایا۔اسی طرح تفتیشی نے تین خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے۔سید مبشر توقیر شاہ نے ایک سی ڈی اور بارہ صفحات ٹرانسکرائب مواد کے پیش کئے جو ریکارڈ کا حصہ بنائے گے۔گواہ14/رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ ہیں اور 1976سے اس فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔جن کی خدمات کوئسٹ سولیسیٹر نے حاصل کیں تھیں۔انہوں نےدونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن،جرمی فری مین کے دستخط سمیت دیگر دستاویزات جو کوئسٹ سولیسیٹر نے فراہم کیں تھیں کاجائزہ لے کر رپورٹ تیار کی تھی۔اس کے مطابق دونوں ڈیکلریشن کے دوسرے اور تیسرے صفحات کسی اور دستاویزات کی کاپی ہیں۔جن کو ری پروڈوس کیا گیا ہے۔اسی طرح دونوں ڈیکلریشن کے صفحات نمبر دو اور تین میں سے یہ بتانا مشکل ہے کہ اصل کونسے ہیں۔اسی طرح دستخطوں کے ساتھ تاریخ بظاہر2006لگ رہی ہے۔جس کو اوور رائیٹ کرکے2004کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔6جولائی 2017کو دو رپورٹیں لیبارٹری کےسیل بند لفافے میں موصول کیں۔جس کی سولیسیٹر نے تصدیق کی۔کہ یہ اصل کی کاپی ہیں۔مچل لنڈسلے نوٹوی پبلک نے بھی تصدیق کی۔یہ دونوں دستاویزات نیسکول اور نیلسن اور کومبر ڈیکلیرشن کی کاپیاں تھیں۔جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے پہلے دیکھی گئی ڈیکلریشن کی کاپیوں اور بعد میں لیارٹری سے موصول شدہ کاپیوں کے جائزہ کے بعد سامنے آیا کہ گومبر اور نیس کول و نیلسن ڈیکلریشن کی کاپیوں ے دستخط والے صفحات مختلف پائے گے۔دستاویزات میں استعمال ہونے والا فائونٹ کیلبری جو ابتداء میں ونڈو وسٹا پروگرام میں تھا۔جو31جنوری2017تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے رائے دی کہ لگتا ہے کہ دستاویزات 31جولائی2017کے بعد تیار کی گئیں ہیں۔ان کا بیان15دسمبر2017کو ریکارڈ کیا گیا۔
استغاثہ کے گواہ نمبر پندرہ اختر ریاض راجہ کوئسٹ سولسٹر لندن نے بتایا کہ مذکورہ لافرم جو 1994میں قائم ہوئی جے آئی ٹی نے بارہ مئی 2017کو اس فرم کی قانونی خدمات حاصل کیں، کوئسٹ سولسٹر کی خدمات سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت متعدد پٹیشنز کیلئے لی گئیں وہ پٹیشنز جو سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کیخلاف زیرسماعت تھیں، اختر ریاض راجہ نے جے آئی ٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے کاغذات کی نقول حاصل کیں ان دستاویزات میں اسے ایک برطانوی سولسٹر فرم فری مین باکس کا پانچ جنوری 2017کا ایک خط ملا مذکورہ خط سولسٹر جیریمی فری مین نے لکھا تھا اس خط میں دو ٹرسٹ ڈیکلریشنز کا حوالہ تھا ایک ٹرسٹ ڈیکلریشن نیسکول اور نیلسن نامی آف شور کمپنی جبکہ دوسرا کومبر گروپ کے حوالے سے تھا، فری مین نے پانچ جنوری 2017کے خط میں لکھا کہ حسین نواز شریف چار فروری 2006کو اس کے دفتر آیا اور مذکورہ ڈیکلریشن پر میری موجودگی میں دستخط کئے جن پر میں نے بطور گواہ دستخط بھی کئے، اس موقع پر وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ چیز سنی سنائی بات کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ فری مین اس عدالت کے سامنے کبھی بطور گواہ پیش نہیں ہوا (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان کی گئی ہے) فری مین نے تصدیق کی کہ کوئسٹ سولسٹر کی طرف سے بھجوائی جانے والی ٹرسٹ ڈیکلریشن کی نقل وہی ہے جس پر اس نے دستخط کئے تھے، مذکورہ بالا نقل پر اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ دستاویز اصل کی نقل ہے اور قانون شہادت کے آرٹیکل 8کے تحت مصدقہ بھی نہیں (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان کی گئی ہے) اختر ریاض راجہ کو دونوں ڈیکلریشن کاغذات کے پلندے میں سے ملے جن کا اس نے بغور جائزہ لیا اور اسی اثناء میں جے آئی ٹی بھی ان دستاویزات کا جائزہ لے رہی تھی، اختر ریاض راجہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیکلریشن میں بہت ساری غلطیاں تھیں اور یہ ڈیکلریشن جعل سازی لگتے ہیں، وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ گواہ کی رائے ہے جو بطور شہادت قابل قبول نہیں جس پر گواہ نے کہا کہ جعل سازی اور غلطیاں اتنی زیادہ تھیں جیساکہ یہ کسی کاغذ کا (فرینکسٹائن ورژن) ہو، جب اختر ریاض راجہ نے یہ فرینکسٹائن جعل سازی دریافت کرلی تو جے آئی ٹی نے اس سے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کیلئے کسی ماہر کی خدمات حاصل کریں، انہوںنے کہا کہ کوئی بھی عام آدمی ان کاغذات کو دیکھ کر جعلی ہونے بارے تصدیق کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے کسی ماہر کی رائے بھی ضروری ہے، اختر ریاض راجہ نے پہلے ٹرسٹ ڈیکلریشن کے حوالے سے فری مین باکس نامی قانونی فرم کے وکیل جیریمی فری مین کو 27جون 2017کو ایک خط لکھا مذکورہ خط اختر ریاض راجہ کو کیمرے پر دکھایا گیا جب وہ بذریعہ ویڈیو لنک اپنی شہادت قلمبند کروا رہے تھے، لیکن اس خط کے ساتھ جیریمی فری مین کا خط بھی لف تھا اور دونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن بھی ساتھ تھیں، صفحہ نمبر 106سے لیکر 111تک کی منسلکہ دستاویزات انہی دستاویزات کی نقول معلوم ہوتی ہیں جو اس کے خط کے ساتھ لف تھیں، اختر ریاض نے جیریمی فری مین کو مذکورہ خط بذریعہ ای میل بھجوایا جس کا جواب نہ ملنے کی صورت میں اس نے یہ خط کسی کے ہاتھ بھجوایا اس شخص کے پاس 27جون 2017کی اس ای میل کی کاپی بھی موجود ہے، 29جون 2017کو اختر راجہ کو جیریمی فری مین کی ای میل موصول ہوئی جیریمی فری مین نے اپنی ای میل میں بیان کیا کہ حسین نواز شریف اصل ٹرسٹ ڈیکلریشن کی دستاویزات کے ساتھ اس کے دفتر آیا تھا اور یہ وہی دستاویزات ہیں جو اختر راجہ نے 27جون 2017کے خط کے ساتھ منسلک کی تھیں ان دستاویزات کی نقل والیم چار کے صفحہ 89پر موجود ہیں، جیریمی فری مین نے اپنے خط میں حسین نواز شریف اور ایک گواہ وقار کے دستخطوں کی نصدیق کی اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پانچ جنوری 2017کے خط کے مندرجات درست تھے، 29جون 2017کو جب جے آئی ٹی نے اختر راجہ کو کسی ماہر کی خدمات کے حصول کیلئے مجاز مقرر کیا تو اسی دن اس نے رابرٹ ریڈلے سے رابطہ کیا اور اختر راجہ نے جے آئی ٹی کو ریڈلے کی خدمات لینے کی سفارش بھی کی اس نے ریڈلے کی قابلیت اور بطور ماہر گواہ موزونیت کے حوالے سے چھان بین کی تھی، اختر ریاض اور ریڈلے کے درمیان 30جون 2017تک بات چیت ہوتی رہی اس نے ریڈلے کو نیلسن، نیسکول اور کومبر کمپنیوں کی ڈیکلریشن کی نقول فراہم کیں جے آئی ٹی سے متعین ہدایات لینے کے بعد اختر ریاض نے ریڈلے کو کام کے حوالے سے کچھ ہدایات دیں جن کا ذکر اس نے اپنی چار جولائی 2017کی رپورٹ میں کیا، اس نے جے آئی ٹی کو اپنی پہلی رپورٹ چار جولائی 2017کو فراہم کی، پانچ جولائی 2017کو جے آئی ٹی نے اسے بتایا کہ وہ اسے ڈیکلریشن کے دو ورژن مزید بھجوا رہے ہیں مذکورہ ورژن چھ جولائی 2017کو لندن پہنچے یہ ورژن ہیتھرو ایئرپورٹ سے براہ راست مسٹر ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچائے گئے جن کا جائزہ لینے کے بعد ریڈلے نے آٹھ جولائی 2017کو دوسری رپورٹ دی دونوں رپورٹس ریڈلے کی لیبارٹری میں سیل کی گئیں اور ان کو پاکستان پہنچایا گیا، جب دونوں رپورٹس اور ڈیکلریشن کا دوسرا سیٹ سیل کر کے پاکستان بھجوایا گیا اس وقت ریڈلے اپنی لیبارٹری میں موجود تھا، اختر راجہ نے التوفیق کمپنی کے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے دائر مقدمہ کے بارے میں بھی جے آئی ٹی کی ہدایت پر کمنٹری لکھی مذکورہ کمنٹری میں جسٹس کوئین بینچ ڈویژن لندن کے 1999کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں شہباز شریف اور شریف فیملی کے دو اور افراد مدعاعلیہہ تھے، پانچ نومبر 1999کی اس ججمنٹ میں مدعا علیہان کو دو کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کا کہا گیا تھا، اختر ریاض راجہ کی کمنٹری ڈان اخبار میں شائع ایک آرٹیکل پر مبنی ہے، اختر راجہ کا بیان نیب نے قلمبند نہیں کیا، استغاثہ کے گواہ نمبر 16واجہ ضیاء نے اپنے بیان میں بتایا کہ 20اپریل 2017کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت وہ ایف آئی اے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن کام کر رہا تھا سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلے کی رو سے ایک جے آئی ٹی بنائی جس کا اس کو سربراہ مقرر کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ ایک ایسا شخص ہونا چاہئے جس کو وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش کا تجربہ ہو، جے آئی ٹی کے دوسرے ممبران قومی احتساب بیورو، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، سٹیٹ بینک آف پاکستان، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے لئے گئے تھے، مذکورہ اداروں کے سربراہان سے کہا گیا کہ وہ اپنے اداروں سے اچھی ساکھ کے حامل افسران تجویز کریں، واجد ضیاء نے بتایا کہ ایف آئی اے سے تین افسران کا نام تجویز کیا گیا جن میں حتمی انتخاب میں ان کا نام بھی شامل تھا، جے آئی ٹی کو ان سوالات کے جوالات تلاش کرنا تھا، گلف سٹیل ملز کس طرح قائم ہوئی، کن وجوہات کی بنا پر اسے فروخت کیا گیا، اس کے ذمہ واجب الادا قرضہ جات کس طرح اتارے گئے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ کہاں گیا، وہ پیسہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا، حسین نواز اور حسن نواز کے پاس کم عمری میں کیا ایسے ذرائع موجود تھے جن سے وہ لندن میں فلیٹس خرید سکتے، قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کیا ایک حقیقت ہے یا افسانہ۔ قطریوں کے ساتھ شیئرز کس طرح فلیٹس کی صورت میں متشکل ہوئے، نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول لمیٹڈ کا اصل بینی فشل اونر کون ہے، ہل میٹل سٹیبلشمنٹ کس طرح معرض وجود میں آئی، فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنیز قائم کرنے کیلئے حسن نواز کے پاس پیسے کہاں سے آئے، مذکورہ کمپنیوں کے لئے بنیادی سرمایہ کہاں سے آیا اور کس طرح اس نے کروڑوں روپے کی رقومات نواز شریف کو بطور تحفہ دیں، یہ اصل سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس کی تحقیقات اور شواہد بھی تلاش کرے کہ آیا نواز شریف یا اس کے زیرکفالت بے نامی دار افراد کے پاس ایسے اثاثے موجود ہیں جو ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس سے متعلقہ مواد اور شواہد کا جائزہ بھی لے اگر ایسا کوئی مواد پہلے سے نیب یا ایف آئی اے کے پاس موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ لندن فلیٹس کن ذرائع سے حاصل کئے گئے، واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقل پیش کی، سپریم کورٹ نے پانچ 2017کو جے آئی ٹی تشکیل دی جس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گریڈ 21کے افسر عامر عزیز، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول، قومی احتساب بیورو سے عرفان نعیم منگی، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے، جبکہ واجد ضیاء اس کی سربراہی کر رہے تھے، سپریم کورٹ نے تحقیقات کے ضمن میں جے آئی ٹی کو مخصوص اختیارات بھی دیئے، جے آئی ٹی نے اپنا کام آٹھ مئی 2017کو شروع کیا اور دس والیم پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، جے آئی ٹی نے وہ تمام دستاویزات اکٹھی کیں جو سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے پٹیشن نمبر 29کے ساتھ لف کی تھیں، جے آئی ٹی نے مدعا علیہ کے بیانات اور ان کی طرف سے جمع کروائی گئی دستاویزات بھی جمع کیں، جے آئی ٹی نے مختلف اداروں جیساکہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایف آئی اے، نیب، مختلف بینکس اور دیگر اداروں سے بھی مواد جمع کیا، دوران تفتیش جے آئی ٹی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس کیس میں بہت ساری دستاویزات اور واقعات کا تعلق بیرون ممالک سے ہے، بیرون ممالک سے خط وکتابت کیلئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو نیب آرڈیننس کی سیکشن 21کے اختیارات تفویض کئے گئے اس کے بعد جے آئی ٹی نے بیرون ممالک سے خط وکتابت کا آغاز کیا جن میں برطانیہ، برٹش ورژن آئی لینڈ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک شامل تھے، جے آئی ٹی نے ایسے افراد کے بیانات قلمبند کرنے شروع کئے جو ان واقعات کے ساتھ شناسائی رکھتے تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف، جے آئی ٹی کا والیم IIگواہوں کے بیانات اورتجزیوں پرمبنی ہے۔ گواہوں کے بیانات، سمن اور گواہوں کی طرف سے پیش کئے گئے مواد وغیرہ ایک الگ فولڈر میں رکھے گئے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو پیش کئے گئے۔ عدالت کے حکم پر انہوں نے والیم نمبر 2,3,4,5,9,9-Aاور 10کے سیٹ سپریم کورٹ سے لاکر پیش کئے۔ آئینی پٹیشن نمبر29اور سی ایم ایز کے جائزے کے بعد جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھایا گیا سوال درحقیقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سترہ، سترہ اے، 16 اور 16اے سے متعلق ہے اور پورا کیس کا جواب دہندہ اور اب اس کا کیس کے ملزم نے مختلف سی ایم ایز کے ذریعے دفاع کیا ہے۔ ان اپاٹمنٹس کی ملکیت اور تحویل حوالے سے تفصیلات 15نومبر 2017کو پیش کئے گئے سی ایم اے میں موجود ہیں جو جواب دہندگان نمبر6، 7اور 8 اب ملزمان مریم صفدر، حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف کے ضمنی بیانات پر مشتمل ہے، متذکرہ بالا سی ایم اے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ گلف سٹیل نام کی فیکٹری ملزم کے والد محمد شریف مرحوم نے 1974 میں قائم کی۔ یہ فیکٹری میاں محمد شفیع مالک کی حیثیت سے چلاتے رہے جبکہ اس کے اصل مالک محمد شریف تھے۔ بیان میں بتایا گیا کہ گلف سٹیل کے 75فیصد شیئرز 21ملین درہم میں فروخت کر کے یہ رقم بی سی آئی بینک کو قرضے کی واپسی کے لئے ادا کردی گئی۔ جس کے بعد ملز کے خریدار عبداللہ علی کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا گیا جس کے تحت عبداللہ ایل، ایل مل (سابقہ نام گلف سٹیل) مل کے 75فیصد اور میاں شفیع 25 فیصد شیئرز کے مالک بن گئے۔ 1980میں میاں شفیع نے محمد شریف کی جانب سے یہ 25فیصد شیئرز بھی 12ملین درہم میں عبداللہ ایل کو فروخت کردیئے یہ رقم قطر کے شاہ خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگا دی۔ قطری شاہی خاندان نے متذکرہ بالا اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر خریدے تھے اور ملزم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں نے بنیادی کرائے اور سروسز چارجز کی ادائیگی کے بعد ان اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کردیا۔ 2006 میں حسین نواز شریف اور قطری شاہی خاندان (شہزادہ حماد بن جاسم الثانی) کے درمیان بیر سر شیئرز کی منتقلی کے معاہدے کے بعد ان اپارٹمنٹس کی ملکیت تبدیل ہو گئی۔ اور ملزمہ مریم صفدر 2006 میں طے پانے والی ٹرسٹ ڈیڈ کے نتیجے میں حسین نواز شریف کی ٹرسٹی بینی فشری بن گئیں اس سی ایم اے کے ساتھ کئی دستاویز پیش کی گئیں۔ سی ایم اے432بنیادی طور پر گلف سٹیل کی فروخت کی منی ٹریل کی تفصیلات بیان کرتا ہے جو پہلے ہی متذکرہ سی ایم اے اور دیگر دستاویزات میں فراہم کی گئی ہیں۔ان دستاویزات اور سی ایم اے میں قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری، بیرسر شیئرز کے ذریعے ملکیت کی منتقلی اور منی ٹریل کی منتقلی میں وقفوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ سی ایم اے جواب دہندگان نمبر7اور 8حسین اور حسن نواز نے26جنوری 1917 کو فراہم کیا تھا۔ سی ایم اے نمبر7531والیم نمبر 7531/2017کے صفحات ایک سے 7تک ان کے اعتراضات کے ساتھ موجود تھے۔ پراسیکیوٹر نے آرٹیکل (3)85قانون شہادت آرٹیکل 88مجریہ 1984 کے تحت یہ اعتراضات رد کر دیئے گواہ نے دستاویزات کا جائزہ اور مطالعہ کیا۔ (اعتراضات رد کرنے کی وجہ ادھر بیان کی گئی ہے) انہوں نے 12نومبر 2016کو متذکرہ بالا سی ایم اے کے تحت طارق شفیع کے بیان کی تصدیق شدہ کاپی پیش کی جس کی فوٹو کاپی والیم سی ایم اے نمبر7531 کے صفحات 59 سے 62تک موجود ہے۔ (انہوں نے یہ تفصیلات بھی اعتراضات کے ساتھ پیش کی ہیں جو پراسیکیوٹر نے رد کر دی ہیں) طارق شفیع کا بیان حلفی بھی صفحہ 20سے 21تک موجود ہے۔ (انہوں نے بھی یہ بیان اعتراضات کے ساتھ پیش کیا ہے جسے پراسیکیوٹر نے رد کردیا) ان دو بیان حلفی میں گلف سٹیل کے قیام 1978اور 1980 میں اس کی فروخت،1980 میں اہل سٹیل کی فروخت اور12ملین درہم کی قطری خاندان کو منتقلی کی تفصیلات درج ہیں جے آئی ٹی نے ان دو بیان حلفی کا اپنی رپورٹ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے (یہ رپورٹ گلف سٹیل ملز والیم 3کے صفحہ 5 سے21تک موجود ہے) جس میں جے ائی ٹی نے تضادات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے اور طارق شفیع کی جے آئی ٹی کے روبرو تحقیقات کے دوران بھی یہی تضادات اور بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔سپریم کورٹ نے اپنے سوالات سے ایک میں جے آئی ٹی سے خاص طور پر یہ سوال کیا کہ گلف سٹیل کیسے قائم ہوئی۔ اس سوال کا جواب بیان حلفی کے پیرا7میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سٹیل مل زیرو ایکیوٹی اور 100فیصد قرضے کے ساتھ قائم کی گئی جبکہ متذکرہ بیان حلفی کا پیرا صاف طور پر کہتا ہے کہ ایک اور شخص محمد حسین جو کہ برطانوی باشندہ ہے اور یو کے میں رہتا ہے اس کا ایک پارٹنر ہے اور یہ کبھی بھی گلف سٹیل کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہا طارق شفیع اور دیگر گواہ اس کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس کاروبار میں کوئی اور ایکیویٹی نہیں تھی اوروہ اس وقت اس کے ورکنگ پارٹنر نہیں ہیں۔اور یہ کہ گلف سٹیل ملز کے قیام میں ان کا کیا کردار تھا طارق شفیع اور گواہ حسین سے جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے بینک قرضہ جیسی ٹھوس دستاویزات پیش کریں جو وہ نہ کر سکے۔ انہوں نے شیئرز کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق شدہ کاپیاں پیش کیں جن کی فوٹو کاپیاں والیم کے صفحات 20سے 39 تک موجود ہیں۔ سی ایم اے167 تین فریقوں محمد شفیع، اہلی اور بی سی سی آئی کے مابین ہے جس کے مطابق فروخت سے حاصل ہونے والے تمام 21ملین درہم بی سی سی آئی کو جائیں گے۔کمپنی کے کل36ملین درہم کے تقریبا شیئرز تھے اور بی سی سی آئی کو ادائیگی کے بعد بھی گلف سٹیل کے ذمہ 14ملین درہم واجب الادا تھے۔ یہ ادائیگی طارق شفیع کے ذمہ تھی جوملز چلا رہے تھے جس کے مالک محمد شریف تھے، ان میں6 ملین درہم بی سی سی آئی کے واجب الادا تھے جبکہ دیگر پانی اور بجلی کے چارجز کے واجبات کی شکل میں ادا کرنے تھے۔1978 میں طارق شفیع اور عبداللہ اہلی کے درمیان ہونیوالے پارٹنر شپ معاہدے کے مطابق 25 فیصد شیئر کے مالک طارق شفیع اور بقیہ 75 فیصد شیئر کے مالک عبداللہ اہلی تھے اس معاہدے کی فوٹو کاپیاں والیم سی ایم اے 7531کے صفحات40 سے 51 پر موجود ہیں جبکہ14اپریل 180کو ہونیوالے ایک اور معاہدے کی کاپیاں صفحات52 سے لیکر 55 تک موجود ہیں، یہ معاہدہ طارق شفیع کے نمائندے شہباز شریف اور محمد عبداللہ اہلی کے درمیان طے پایا تھا، جب اس بات کی تصدیق مانگی گئی تو شہباز شریف اور طارق شفیع دونوں نے اس دستاویز پر دستخط کرنے کی صحت سے انکار کیا۔14اپریل1980کو ہونیوالے اس معاہدے میں اس بات کے واضح وضاحت کی گئی تھی کہ بنک گارنٹی عبدالرحمٰن اہلی فراہم کرینگے۔
(1) سی ایم اے نمبر432
(2) شیئر سیل
(3) لیٹر آف کریڈٹ کی فوٹو کاپی سی ایم اے432کے صفحات36 سے39 پر موجود ہیں۔
(4) حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خطہ کی کاپی سی ایم اے نمبر7638 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(5) شیخ حماد بن جاسم کا 22 دسمبر 2016کو لکھے گئے خطہ کی کاپی میں سی ایم اے432کے صفحہ نمبر22پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
14۔ شیخ حماد بن جاسم کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی دیکھی اور واپس کی گئی، مذکورہ بالا خط وزارت امور خارجہ کو بھیجا گیا اور اس ضمن میں خط سیکرٹری امور خارجہ کو لکھا گیا (صفحہ 67)EX. PW-16-20، (آفس کاپی دیکھ کر واپس کی گئی)۔
15۔ ڈائریکٹر ایس ایس پی آفاق احمد کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی ایک بند لفافے میں موصول ہوئی یہ خط بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔
انہوں نے جو خط پیش کیا وہ کھلی ہوئی حالت میں تھا جبکہ فوٹو کاپی جو خط کی لی گئی وہ بھی پیش کی گئی صفحہ نمبر Ex.Pw 4622-84 (یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی) ایک بند لفافے کے پہلے صفحے کی فوٹو کاپی جو صفحہ (92) Ex.pw-16/23 ہے وہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔ جے آئی ٹی کے ممبر کی موجودگی میں ایک تصدیق شدہ میمو کی کاپی حوالے کی گئی۔ اس میمو کے صفحہ 85 والیم نمبر5 کا صفحہ Ex.pw 16-24 ہے، یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔
ایک خط جو مورخہ 23-6-207 کو لکھا گیا جس میں جے آئی ٹی چیئرمین کو آفاق احمد کی طرف سے مخاطب کیا گیا بھی اس کے ساتھ منسلک ہے، جوکہ ایک ڈیلیوری رپورٹ فیکس ٹرانسمیشن کی ہے اور اس کے ساتھ کوریئرر کی رسید بھی منسلک ہے، یہ بھی اسی طرح EX.PW 1625 دیکھا گیا، فوٹو کاپی جو عزت مآب شیخ حماد بن جاسم کو مورخہ22-6-2017 کو بھیجی گئی ان کا حوالہ (Page 74)EX.PW-16/26 ہے (اس کی دفتری نقل بھی دیکھ کر واپس کی گئی)۔ ایک فوٹو کاپی فیکس رپورٹ کی ہمارے دفتر نے موصول کی جوکہ 22-6-2017 کو لکھے گئے خط کی وصولی کی بابت تھی، جوکہ منسلکہ حوالہ EX.PW-16/25 ہے یہ فیکس رپورٹ EX.PW-1627 (صفحہ 77) ہے، یہ دراصل فوٹو کاپی کی فوٹو کاپی تھی جو تصدیق شدہ بھی نہیں تھی اس میں نہ تو گواہوں کے پتے تھے نہ وصول کنندہ کے متعلقہ کاغذات موجود تھے۔
ڈی ای ایل کی فوٹو کاپی جو درحقیقت کاغذات کی ٹرانسمیشن سے متعلق تھی 22-6-17 بھی اس طرح دیکھی گئی اس کا حوالہ نمبر PW-16-B اور صفحہ نمبر73 ہے۔
آفاق احمد کے خط کی نقل جس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو مخاطب کیا گیا سربمہر لفافے میں دوحہ میں واقع سفارتخانے کے ذریعے وصول ہوئی، جس میں تصدیق کی گئی کہ خط مذکورہ عبدالحماد عبدالراشد جو سیکرٹری ہیں شیخ حماد بن جاسم کے ان کو پہنچا دیا گیا ہے، اس طرح اس کا نمبر EX.PW 16/28 (صفحہ نمبر 69) ہے اسے بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔
فوٹو کاپی جو حماد بن جاسم کے خط کی تھی جس میں جے آئی ٹی سربراہ کو مخاطب کیا گیا، اس کا حوالہ EX.PW 16/29 اور صفحہ 87 ہے اسے بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔
دوحہ میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے سفارت کار شہزاد کے خط کی کاپی جس میں ظاہر کیا گیا کہ منسلکہ خط عبدالحماد عبدالراشد کو پہنچا دیا گیا وہ بھی اسی طرح درج ہوا جس کا حوالہ (16/C) PW صفحہ 86 ہے۔
اسی طرح سفارتکار شہزاد احمد کی طرف سے وزارت خارجہ امور میں سلمان شریف کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW-130 اور صفحہ نمبر 88 ہے۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کی طرف سے جے آئی کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW 16/31 صفحہ نمبر 89 ہے، یہ خط ایک اورخط نمبر EX.PW/1630 سے منسلک تھا۔
چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کے نام لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW 16/32 صفحہ 78 ہے جو آفاق احمد ڈائریکٹر ایس ایس پی نے وزارت خارجہ کے ذریعے لکھا اور ہمارے دوحہ میں واقع سفارت خانے کے ذریعے وصول ہوا۔ یہ بھی سربمہر خط تھا۔
ایک خط سربراہ جے آئی ٹی نے مورخہ 4-7-2017 کو شیخ حماد بن جاسم کو لکھا اس کا حوالہ نمبر EX.PW 1633 اور صفحہ (82سے 79) ہے یہ خط بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔ یہ خط وزارت خارجہ امور کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کے ایک اور لکھے گئے خط مورخہ 6-7-2017 کی نقل بھی برائے ملاحظہ ہمراہ ریکارڈ ہے جس میں حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو مخاطب کیا اس کا حوالہ PW-16D اور صفحہ نمبر 93 ہے یہ خط کورنگ لیٹر کے طور پر موصول ہوا اور ایک ای میل بھی اس کورنگ لیٹر کے ساتھ ملائی گئی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے معزز رجسٹرار کی طرف سے لکھا گیا اصل خط بھی پیش کیا جو کہ ایک سربمہر لفافے میں دیا گیا تھا۔ وہ لفافہ عدالت میں کھولا گیا۔ اس طرح ایک کھلا لفافہ، کورنگ لیٹر اور ایک اور لفافہ عدالتی کسٹڈی میں محفوظ رکھا گیا، جسے معزز عدالت کے حکم کے مطابق محفوظ رکھا گیا، اس کا اعلان 28-7-2017 کو کہا گیا۔ یہ لفافہ ایک ٹیپ کے ساتھ بند کیا گیا، یہ لفافہ ایک عربی اور انگلش میں لکھے گئے خط کو لئے ہوئے ہے، جوکہ 16D کے گواہوں جو انہوں نے دفتر خارجہ کے ذریعے خطوط وصول کئے ان سے مختلف ہے، اور یہ خط انگریزی متن والا ہے۔ تاہم جب یہ خط دیکھا گیا تو وہ 16-D سے مختلف تھا۔
گواہوں نے بھی کہا کہ یہ خط اس خط کی طرح ہے جو فائل میں موجود ہے اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ریکارڈ مرتب کرنے کیلئے ایک درخواست فائل کریں گے۔ اس موقع پر تمام لفافے دیکھ کر واپس کر دیئے گئے۔ اسی طرح التوفیق کمپنی اور حدیبیہ پیپر ملز جو کہ حوالہ نمبر PW-16F ہے پر اعتراض ہوا کہ مذکورہ کاغذات شواہد کے مطابق نہیںیہ سب صفحہ 189 سے 191 تک ہے۔ اسی طرح دوسرے ریکارڈ کی نقول منسلکہ صفحہ 211، حدیبیہ پیپرز کے ریکارڈ کی نقول منسلک ہوئیں جن کا نمبر CMA.432 بطور ریفرنس دستیاب ہے اس کی تصدیق شدہ نقول EX.PW 1634 ہیں جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا کہ یہ دراصل فوٹو کاپیوں کی فوٹو کاپی ہے یہ تصدیق شدہ بھی نہیں ہیں اس لئے یہ غیر متعلقہ ہیں، اس کے بعد انہوں نے دو تصدیق شدہ نقول فراہم کیں جو ایک آئینی درخواست نمبر 29.2016 کے دی گئیں جو عدالت عظمیٰ میں دی گئی تھی۔ اسی طرح سی ایم اے نمبر 753116 جس کا مزید حوالہ EX.PW 16/37 ہے اور EX.PW/ 1638 ہے پیش کی گئی ہیں، جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا مذکورہ تصدیق شدہ کاپیاں ایک کاپی کی فوٹو سٹیٹ ہیں پھر ایک تصدیق شدہ نقل دفتری بھی فراہم کی گئی۔
رجسٹرار کی ایک نقل بابت ایون فیلڈ پیش کی گئی، یہ فوٹو کاپی پہلے سے صفحہ نمبر 73 سے صفحہ نمبر 76 سی ایم اے 7531/16 موجود تھی، اس طرح رجسٹرار کی ایک دفتری نقل مزید بھی پیش کی گئی جو 17 ایون فیلڈ سے ہی متعلق تھی، مذکورہ دستاویزات کا نمبر EX.PW-1640 صفحہ نمبر 77 اور 78 ہے
مورخہ 317-1995 کے حوالے سے 16-A ایون فیلڈ کی بابت بھی ایک تصدیق شدہ نقل پیش کی گئی۔ مذکورہ نقل میں EXPW-1642 ہے اور صفحہ نمبر81 سے 82 تک موجود ہے اس کا نمبرCMA7531/16 ہے۔ کمبور کمپنی سے متعلق ایک حلف نامہ دیا گیا جس کی نقول پیش کی گئیں جو کہ ملزمان مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان تھا جس کا حوالہ EX.PW1643 صفحہ83 سے 86 ہے اس کا حوالہ نمبر بھیCMA7531/16 ہے، اس کی تصدیق شدہ نقول دیکھ کر واپس کر دی گئیں۔
نیسکول اور نیسلسن سے متعلقہ حلف کی نقول مابین ملزمان مریم نواز اور حسین نوازEXPW-1614 صفحہ مبر3 تا6،CMA NO7661/16 پیش کی گئیں، یہ تصدیق شدہ نقول تھیں، انہوں نے سٹیفن ماورلے سمتھ کی رائے پر مشتمل مصدقہ نقول پیش کیں جن پر12-1-2017 کی تاریخ درج تھی، اس کی نقول والیم سی ایم اے 432/17صفحہ نمبر107 موجود ہیں اس ضمن پر اعتراض پر تصدیق شدہ نقول گواہوں کی جانب سے پیش کی گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ماہرین کی رسمی رائے کے بغیر یہ ثبوت قابل قبول نہیں ہیں۔ انہوں نے ماہرین کی رائے زیر غور لائیں۔ ایک میں کہا گیا متین نمبر 1645 پر ہے اور دوسرے کا صفحہ نمبر 68 سے صفحہ نمبر88 تک ہے جس کا والیم نمبرIV ہے۔ اس کے ساتھ منسلک حوالہ نمبرCMA896/2017 ہے، جوکہ EXPW16/46 پر بھی موجود ہے۔
اس کی تصدیق شدہ نقل دیکھ کر واپس کر دی گئی اور کہا یہ گیا کہ رسمی شواہد کے بغیر ماہرین کی رائے قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے قرض کی ضمانت کی دو تصدیق شدہ نقول(DEUTSCHE Bank) کی فراہم کیں جو کہ صفحہ130 تا 132 پر موجود ہیں۔ والیم نمبر سی ایم اے432/2017 اس طرح حوالہ نمبر EXPW1647 پر ہے اس کی تصدیق شدہ نقول معائنہ کے بعد واپس کر دی گئیں۔ اس پر اعتراض یکا گیا کہ تصدیق شدہ نقول جو پیش کی گئیں وہ دراصل فوٹو کاپی پر تصدیق ہے جو کہ قانون شہادت مجریہ 1984 کے تحت قابل قبول ہیں۔
اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کے خط کی نقل بھی پیش کی گئی جو کہ صفحہ نمبر 8 اور صفحہ نمبر 9 پر دستیاب ہیں ان کا والیم سی ایم اے نمبرA7511 (16) اورEXPW16/48 ہے۔ نقول مصدقہ گواہوں کو واپس کر دی گئیں۔ اس پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ پیش کردہ دستاویزات قانون شہادت مجریہ1984 کے مطابق قابل قبول نہیں کیونکہ یہ فوٹو کاپی کی تصدیق ہیں۔
اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ادارے کا ایک خط نیسکول لمیٹڈ کی بابت پش کیا گیا۔ جس کی تاریخ 22.6.2012 تھی جس کی نقول صفحہ نمبر 37 والیم سی پی نمبر 292016 ہے جو کہEXPW-16/49 بھی دیکھا جاسکتا ہے، اس کی بابت بھی کہا گیا کہ مذکورہ دستاویزات قانون شہادت مجریہ84 کے مطابق درست نہیں ہے اس پر گواہوں کو بھی درج نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ایک خطہ متعلقہ نیلسن انٹرپرائزز پیش کیا گیا جس میں موساک فوبنز المیڈ کی طرف سے مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کو مخاطب کیا گیا تھا۔ جس پر تاریخ22.6.2012 صفحہ نمبر 38 سی پی نمبر292016 پی ٹیI ہیں جو کہEX-PW-16/50 بھی موجود ہے۔
آئینی پٹیشن نمبر29/2016میں سی ایم اے نمبر394/2017کی تصدیق شدہ نقول۔ فوٹو کاپیز سی ایم اےکورٹ کے والیم میں دستیاب ہیں ۔ پہلے صفحے پرنوٹ اور سی ایم اے نمبر کے بغیر اور آخری صفحے پر دستخطوں کے بغیر، جیسا کہ گواہ کی پیش کردہ مصدقہ نقول سے عیاں ہے۔ ( فاضل درخواست گزار نے عذر پیش کیا کہ اسے آفس کاپی دی گئی )یہ ہی EXPW-1651ہے۔(اعتراض ہے کہ سی ایم اے ان دلائل پر مشتمل ہے جو ثبوت کے لیے ناقابل قبول ہیں ) اس نے منروافنانشل سروس لمیٹڈ کو لکھے گئے خط کی مصدقہ نقول کی کاپی پیش کی جو3دسمبر2005کو سامبا فنانشل گروپ کے اسسٹنٹ جنرل منیجر نے لکھا ، فوٹو کاپی سی ایم اے نمبر7511/2016 والیم کے صفحہ نمبراٹھارہ پر موجود ہے۔ یہ ہیEX.PW-1652ہے۔(اعتراض کے تحت گواہ نہ ہی منشی کارکن، گواہ یا مخاطب ہے، دستاویزات کی تصدیق دراصل نقول کی تصدیق ہے، کاغذات کو 1984QSO کی شق89(5) کے تحت تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس نے شازی نقوی نامی کے ایفی ڈیوٹ کی مصدقہ نقول پیش کی جس کی فوٹو کاپیز سی ایم اے نمبر432/2017( صفحہ نمبر75سے77پر موجود ہے ) یہ ہی EX.PW-16;53ہے( اعتراض کے تحت کاغذات ایک فوٹو کاپی کی تصدیق ہیں جو ثبوت میں قبول نہیں، گواہ نہ ہی منشی کارکن، یا کاغذات کا شاہد ہے ) اس نے جرمی فری مین کا خط بھی وصول کیا، یہ خط پہلے ہی EX.PW-15/1( سی ایم اے نمبر 432/2017صفحہ نمبر106)میں دکھایا گیا ہے۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس کی مصدقہ نقول31 مارچ 2017تک جاری ہیں ۔ یہEX.PW16/54(صفحہ261) پر ہے اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے، یہ غیر متعلقہ ہیں ) فنانشل سٹیٹ منٹ کی مصدقہ نقول برائے سال 31مارچ2008کیو ہولڈنگز لمیٹڈ، یہ بھی ex.pw-16 55(صفحہ278) پر ہیں ۔( اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے) گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔ فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2008 تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/56(صفحہ279) پر موجودہیں ۔ اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قوبل نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔ quint paddingon ltd کی 31 مارچ2008 کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/57( صفحہ ۲۸۲) پر بھی ہے۔اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں ۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2009، یہ ہیex.pw16/59(صفحہ291) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2009 کے فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/59(صفحہ300) پر موجود ہیں ۔ (اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے نہ کارکن ، نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قابل قبول نہیں اور غیر متعلق ہیں۔
Quint Paddington Ltdکی 31مارچ2009کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/60( صفحہ 302 پر بھی ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2010 یہ ہیex.pw16/61)(صفحہ305) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ 2010تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/62 ۔ یہ ہی صفحہ (311 ) پر موجوو ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔Quint Paddington Ltdکی 31مار\چ 2010کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw.16/63( صفحہ 313)پر بھی ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2011 یہ ہیex.pw16/64)(صفحہ325) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قوبل نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔uint Paddington Ltdکی 31مار\چ2012کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری) کی مصدقہ نقول، یہ بھی ex.pw16/65(صفحہ 328والیم 7)پر بھی ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)کی مصدقہ نقول31 مارچ 2012 یہ ہیex.pw16/66)(صفحہ339) پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2012تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس ( جاری)نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی ex.pw-16/67 ۔ یہ ہی صفحہ (336) پر موجود ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔ چارٹ کی مصدقہ نقول پیسوں ، فنڈز کا فلو اور کمپنی کے نفع و نقصان وغیرہ کے بارے میں بتاتا ہے۔ جس کی مصدقہ نقول ex.pw16/68(صفحہ400 والیم7) میں ہے ( اصل چارٹ دکھانے کے بعد واپس کر دیا گیا) اعتراض یہ ہے کہ مبینہ طور پر جے آئی ٹی نے تیار کیا جو قانون میں قابل قبول نہیں اور یہ تفتیشی رپورٹ کا حصہ ہے۔ یہ ثبوت میں تسلیم نہیں ، گواہ نے اصل چارٹ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم سیون میں دکھایا ہے۔ جو قابل احترام سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ گواہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اسے اسی سائز میں اس عدالت اور ملزم کو فراہم کرے۔ 28جون2017کو متحدہ عرب امارات سے خط موصول ہوا، جس کی مصدقہ نقول ex.pw.16/69(صفحہ236اور237 والیم تھری) پر ہیں ( اصل دیکھنے کے بعد واپس کر دیا گیا ) (اس پر اعتراض یہ ہے کہ ملزم کو جو نقول دی گئی ہیں ان صفحات کا ان کے والیم میں ذکر نہیں ، جو صفحہ نمبر235پر ختم ہو جا تا ہے، مذکورہ والیم کے انڈیکس میں یہ ذکر نہیں) دریں اثنا یہ کہا گیا کہ اس کی نقول والیم تھری صفحہ نمبر80اور81 پر دستیاب ہیں ،اس کے جواب میں فاضل وکیل نے اعتراض نہیں اٹھایا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ( مزید اعتراض یہ کہ اس خط کے جواب میں مبینہ طور پر جو خط ملا ریکارڈ پر موجود نہیں ، اس کی کاپی ملزم کو فراہم نہیں کی گئی۔ کاغذاتNAO199کی سیکشن 21کی تعمیل نہیں کرتے۔ مزید براں یہQ.S.O1984کے تحت بھی قابل قبول نہیں۔ اس نے اس خط کا ضمیمہ پیش کیا جس کی مصدقہ نقول صفحہ118اور121پر موجود ہیں ۔ یہ ہیEX.PW 16/70ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ گواہ نہ ہی لکھنے ولا ہے، نہ ہی خط کا کارپرداز ، یہ خط عربی میں ہے اور اس کی اردو ترجمہ بھی ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ دستاویزاتnao199کی سیکشن21 اور QSO۱1984کے تقاضے کو پورا نہیں کرتے ۔ اس نے اصل خط عربی میں پیش کیا، انگریزی میں یہ پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا، ex.pw17/70پر۔اور عربی کی نقول ex.pw16/71(صفحہ 78اور79 والیم تھری )اعتراض کے تحت NAO1999کی سیکشن21اورqso1984کے تحت ان کو مہیا نہیں کیا گیا جو لازمی تھے )اس نے رابرٹ ریڈلے رپورٹ کی نقول فراہم کیں جو پہلے ہی رابرٹ ریڈلے کے بیان میں ex.pw14/1سے4اورex.pw.14/2,ex.pw14/3اورex.pw14/4والیم تھری میں موجود ہیں ،( اصل دیکھنے کے بعد واپس کر دیا5لائی2017 کوملزمہ مریم صفدر کی طرح اس نے بھی دو ٹرسٹ ڈیڈز بھی پیش کیے، دعویٰ کی کہ یہ اصل ہیں ، اس کی نقول پہلے ہی ex.pw14/2۰(صفحہ122 سے127) اورex.pw14/3(صفحہ128تا 131والیم فورجے آئی ٹی رپورٹ ) اعتراض یہ ہے کہ اس کے اصل ہونے کا دعویٰ کیا گیا افواہ ہے)اس نے12جون 2012کو ڈائریکٹر فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ان برٹش ورجن آئی لینڈ کی طرف جے آئی ٹی کو لکھے جانے والے خط کی اصل کاپی بھی پیش کی، جس کی مصدقہ نقلex.pw16/72( صفحہ 52والیم فور) پر موجود ہے، مذکورہ خط کے جواب میں جو خط ملا اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں اور یہ ملزم کو دی بھی نہیں گئی یہ بھی مذکورہ بالا قانون کے تحت قابل قبول نہیں فارم 9jaafzaاور ملازمت کا ریکارڈ کا ضمیمہ مذکورہ سرٹی فیکیٹ بھی دستیاب ہے یہ صفحات318,316,317پر موجود ہیں ،اعتراض یہ ہے کہ انہیں پبلک نہیں کیا جا سکتا۔
سیکشن (5) 89کے تحت یہ دستاویزات پراپرچینل کے تحت پیش نہیں کی جارہیں اور جے آئی ٹی پاکستان کی کسی کورٹ کو ایڈریس نہیںکرتا۔ دستاویزات پر تاریخ نہیں ہے اور نیب قانون کے سیکشن 21کے تحت حاصل نہیں کیاگیا۔ صفحہ نمبر 313،314،315پر موجود سرٹیفکیٹ کی کاپی کے ساتھ اسکرین شاٹس منسلک ہیں جوکہ پراسیکیوشن وٹنس 16کو کہاگیا کہ وہ اس کی بہتر کاپی فراہم کرے ۔جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ سے حاصل کردہ دستاویزات کاجائزہ لیا اور اس میں اپنے بیان میں بینک گارنٹیز کا ذکر کیا اور دستاویزات میں 14اپریل 1980ء کا معاہدہ منسلک کیاگیاہے۔ سپریم کورٹ سے جو دستاویزات لئے گئے ہیں اس میں ایک جامع بیان بھی تھا جس میں کہاگیاہے کہ معاہدے کے نتیجے میں طارق شفیع کو 12ملین اے ای ڈی دیئے گئے اوراس کے بعد قطری شہزادے فہد بن جاسم الثانی کو نقد دیئے گئے۔ بیان کے مطابق یہ جو سرمایہ کاری تھی اس کے ذریعے نہ صرف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے گئے بلکہ العزیزیہ کے نام سے سعودی عرب میں اسٹیل فیکٹری بھی لگائی گئی اور 8ملین ڈالر التوفیق انویسٹ منٹ فنڈ کا 8ملین قرضہ ادا کیا گیا جو قطری شہزادے نے اس سرمایہ کاری سے حسن نواز کو پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز کو پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز نے یو کے میں کمپنیاں بنائیں ۔ یہ جو معاہدہ تھا یہ دستاویزی ثبوت تھا کہ ہالی اسٹیل سے حاصل کردہ پیسے میں یعنی جو ہالی اسٹیل فروخت کی اس سے حاصل کردہ رقم تھی اور اس معاہدے پر دبئی کے نوٹری پبلک کے اسٹیمپ موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس میں کہاگیا کہ دبئی کورٹ کے ریکارڈ میں معاہدے کو تلاش کیاگیا اس کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ معاہدہ تاریخ 14-4-1980نہیں ملا اور ہالی اسٹیل مل کے 25%شیئرز بیچنے سے حاصل کردہ بارہ ملین درہم کے حوالے سے کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی ور اس طرح کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا کہ نوٹری پبلک نے اس طرح کے معاہدے کی تصدیق کی ہو اور گواہ نے کہاکہ یہ معاہدہ جھوٹا ہے۔ سپریم کورٹ سے حاصل کردہ دستاویزات میں ایک دستاویز ہالی اسٹیل مل کے اسکریپ مشینری دبئی سے سعودی عرب بھیجی گئی اس سے متعلق ہے۔ ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس کہتا ہے کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق اس طرح کا اسکریپ نہیں بھیجا گیا اورپی ایم اے 432اور 7531 میںموجود جامع بیان کہتا ہے کہ ہالی اسٹیل سے بارہ ملین درہم لئے گئے جو کہ طارق شفیع نے قطری شہزادے کو دیئے ۔ جے آئی ٹی نے کہا کہ اس سے متعلق دستاویزی ثبوت نہیں دیئے گئے۔ 1978ء کے معاہدے کے تحت گلف اسٹیل مل کے واجبات میں سے 21ملین اسٹیل مل کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے پیسے دیئے گئے اور تقریباً 14ملین کے واجبات طارق شفیع کی ذمہ داری تھی جو کہ میاں شریف کی جانب سے کام کررہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ذمہ داریوں سے متعلق استفسار کیا۔ طارق شفیع، ملزمان میاں محمدنوازشریف، حسین نوازشریف، حسن نوازشریف اورمریم صفدر کی طرف سے کوئی دستاویزات پیش نہیں کئے گئے کہ یہ ذمہ داریاں کیسے ادا ہوئیں۔ متحدہ عرب امارات کے حکام نے تصدیق کی کہ طارق شفیع کو بی سی سی آئی کے قرض نادہندگی کے الزام میں سزا ہوئی طارق شفیع نے یہ قرضہ اسی بینک یعنی بی سی سی آئی سے حاصل کیا جس سے اس نے 1978ء میں اہلی اسٹیل ملز کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے 6ملین اے ای ڈی حاصل کئے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جے آئی ٹی نے جواب دیئے۔ میرے اور جے آئی ٹی کے تمام اراکین کے دستخطوں کو جو والیم 3 کے صفحہ 40 پر ہیں میں پہچانتا ہوں اس نے جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کا اصل والیم 3 پیش کیا۔
نواز شریف ،مریم نواز اور حسین نواز نے 5نومبر 2016 کو قطری شہزادے حماد بن جاسم التھانی کا خط جمع کرایااور اسکے بعد ایک اور خط بھی 22 دسمبر کوجمع کرایا،حسن اور حسین نواز نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم نمبر فائیو (5) میں مذکورہ دونوں خطوط کے حوالے سے تضاد پایاجاتاہےاور اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ خطوط جے آئی ٹی کا حصہ نہیں تھےلہذا یہ ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں ہوسکتےیہ اعتراض استغاثہ کا تھا،طارق شفیع نے قطری شہزادے کو 12 ملین اے ای ڈی ایس نقد دئیے اور رسید نہیں لی اس پر بھی عدالت نے اعتراض کیا اسے بھی ثبوت کے طورپر قبول نہیں کیا جاسکتا،عدالت نے قراردیاہےکہ اس حوالے سے ملزمان دستاویزاتی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ۔قطری شہزادے سے 2006 میں ڈیل ہوئی حسین نواز اور قطری شہزادے کے درمیان ، جس کے تحت اس قطری شہزادے نے کمپنی نیسکول اور نیلسن جو کہ ایون فیلڈ اپارٹمنس کے مالک ہیں کے شیئرز حسین نواز کو دئیے یہ کاٖغذات ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں کیے جاسکتے کیونکہ1980 میں جو معاہدہ شریف فیملی اور قطری شہزادے کے ساتھ ہوا تھااس کی کوئی تفصیلات یا دستاویزاتی ثبوت نہیں اور اس کے بعد 2006 میں جو معاہدہ ہوا ان کے درمیان اس کا بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا،سالانہ منافع جوآیا اور اس کو میاں شریف کی ہدایت پر تقسیم ہوتا رہا اور اس میں حسین نواز کو 4 مرتبہ ادائیگیاں وصول ہوئیں جس سے یہ سرمایہ کاری برطانیہ میں فلیگ شپ انوسٹمنٹ سمیت دیگر کمپنیاں قائم کی گئیںتاہم کورٹ نے قرارد یا ہےکہ مذکورہ 4 ادائیگیاں ہوئیں ان کی کوئی رسید یا ثبوت کورٹ میں پیش نہیں کیا گیااسی طرح مزید 3 ادائیگیاں حسین نواز نے بھی وصول کیںجس کے زریعے حسین نواز نے العزیزیہ اسٹیل مل سعودی عرب میں قائم کی لیکن اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں دئیے گئے کہ فنڈز کیسے منتقل ہوئے ایک اور ادئیگی 2000 میں ال توفیق کمپنی میںسرمایہ کاری کی مد میں 8 ملین ڈالرز بھی میاں شریف کی ہدایت پر ال توفیق کمپنی کو سرمائے کی بنیاد پر دی ،لمبی مدت کےلیے لیا گیا قرضہ 8 ملین ڈالرزجو 5جنوری 2000 کو لیا گیا تھا جسے رپورٹ میں ختم ظاہر کیا گیالیکن یہ بات ثابت نہیں کرسکے کہ قرضے کی رقم کس نے ادا کی لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرضہ کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت جے آئی ٹی کو بھی نہیں دئیے گئےکہ اس قطری شہزادے سے تعلق ثابت نہیں ہوسکاجے آئی ٹی کے مطابق جو شاہی خاندان کا مذکورہ اپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں وہ اس کے مالک نہیں،جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ال توفیق کمپنی ک اجو معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے کے وقت اپارٹمنٹ کے مالک شریف فیملی کے ممبر ان ہی تھے اور ان میں نواز شریف بھی شامل تھے اور اس نے بظاہر اپنے بچوں کو شامل کیا تاکہ وہ اس ملکیت کو چھپا سکیں ،عدالت نے ورک شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہےکہ دستاویزات پر دستخط نہیں ہیں جو غیر مصدقہ ہونے کو ظاہرکرتی ہیں ،عدالت نے آبزرو کیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیان کے مطابق حماد بن جسیم کے نمائدے نے حسین نواز کو منتقل کیا تھا لیکن دونوں کمپنیوں کے شیئرز منتقل کیے گئے ہیں اور 8ملین ڈالرز کے اثاثے کے حوالے سے کوئی رسید یا دستاویزات نہیں دیے گئے،عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی اور اسے نوٹس بھی جاری کیا جس پر قطری شہزادے نے جواب دیا اور جے آئی ٹی نے ہرممکن کوشش کی لیکن قطری شہزادے نے تاخیری حربے استعمال کیے اور پھر بعد میں پاکستان پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کے لیے قانونی نقطے اٹھاتارہااور آخر کار جے آئی ٹی کو بتایاقطری شہزادے نے کہاکہ اگر اس کے بیان کو ریکارڈ کیا تو اس بات کی ضمانت دی جائے کہ قطری شہزادے کو رٹ میں نہیں بلایاجائے گا،عدالت نے مزید کہاہےکہ دستیاب ثبوت کی روشنی میں جے آئی ٹی نے یو اے ای کو بھی خط لکھا اور سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے سوالات جو جے آئی ٹی کی فائنڈنگ ہے اس کا جواب بھی ملزمان نہیں دے سکے،واجد ضیاء نے کہاکہ ہےکہ اپارٹمنٹ کا قبضہ لینے کے حوالے سے اپنا موقف جمع کرایا اور مختصراً کہا کہ قطری شہزادوں سے یہ اپارٹمنٹ خریدے ہیں 2006 میں جو ڈیل ہوئی اس کےنتیجے میں کیونکہ کمپنی کے شیئرز حسین نواز کو منتقل ہوئے اور اس ٹرسٹ شیٹ پر دستخط مریم نواز کے ہیں اور مریم نواز نے ٹرسٹی کی حیثیت سے دستخط کیے جبکہ حسین نواز جو اسکا بینفیشری کے طورپر جبکہ کیپٹن صفدر کا گواہ کے طورپر نام ٹرسٹ شیٹ پر درج ہے،جے آئی ٹی نے عدالت کو بتایاکہ ٹرسٹ شیٹ میں بھی تضاد ہے مذکورہ اپارٹمنٹ کا جب قبضہ لیا تو اس قوت حسین نواز طالب علم تھا برطانیہ میں اس وقت ،ٹرسٹ شیٹ کے مطابق 1993 سے 1996 تک حسین نواز تعلیم حاصل کررہا تھا تاہم دستاویزاتی ثبوت اس حوالے سے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔عدالت نے مذکورہ ٹرسٹ شیٹ کو بوگس قراردیدیا ہے اور اس ٹرسٹ شیٹ کی بنیاد پر ہی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی گئی ہے کہ ان دونوں نے نواز شریف کے ساتھ ملکر یہ جعل سازی کی ہے ۔
دونوں حسن اورحسین اورنوازشریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپارٹمنٹ نمبر 16 نوازشریف کے استعمال میں رہا سوائے اس مختصر عرصے کے جب ان کے والد میاں شریف نے 1990ء میں لندن میں اسے چند ماہ کے لئے استعمال کیا جب وہ وہاں زیر علاج تھے۔ ملزمان نے مزید کہا ہے کہ اس وقت سے گرائونڈ رینٹ اپارٹمنٹس کے سروس چارجز دیتے آرہے ہیں۔ جی ایم اے 7531-Aصفحہ 83سے لیکر 86تک ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق دستاویزات ہیں صفحہ نمبر 84,85,86خود ٹرسٹ ڈیڈ ہے ۔جے آئی ٹی کو معلوم ہوا کہ دوسرے اورتیسرے ٹرسٹ ڈیڈ کے صفحات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور دونوں دوسرے اور تیسرے صفحے پر سالسٹرجیریمی فری مین کے دستخط کے نیچے تاریخ موجود ہے جس کو تبدیل کیاگیا ہے جس کو ایک دوسرے کے اوپر لکھنے کی وجہ سے یا تو 2006یا 2004 لگتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے آبزور کیا کہ 2006اہم سال تھا اس لئے کہ جو شیئرتھے ان کو 2006 تک کسٹوڈین کے پاس جمع کراناتھا اورمالک کی تفصیلات بھی دینی تھیں جس کامقصد جو شیئر ہولڈر تھا اس کی شناخت بھی گمنام نہیں رہنی تھی۔ جے آئی ٹی نے اس سال کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دو کام کئے ایک تو جے آئی ٹی نے سالسٹرفرم کے ذریعے فری مین واکس سالسٹر سے ان ڈیڈ سے متعلق پوچھا ۔فری مین نے کہاکہ انہوں نے اصل دستاویزات دیکھے ہیں جو کہ بالکل جے آئی ٹی نے دستاویزات دی ہیں اس سے ملتے جلتے ہیں۔جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا دستاویزات کا رابرٹ ریڈلے سے معائنہ کروانے کا فیصلہ کیا ۔ جے آئی ٹی نے رابرٹ ریڈ لے کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دستاویزات جھوٹے بنائے گئے ہیں۔جے آئی ٹی نے دستاویزات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مریم نواز سے 5-7-2017کو سامنے پیش ہو کر ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل کاپیاں پیش کرنے کا کہا۔ اس نے پیش ہو کر دوٹرسٹ ڈیڈ دیں جو کہ اس نے کہاکہ اوریجنل ہیں۔ جے آئی ٹی نے وہ ڈیڈ رابرٹ ریڈلے کو معائنے کے لئے بھیجیں۔ جے آئی ٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا (رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کے بعد) کہ ملزمہ مریم نواز نے جھوٹے دستاویزات جمع کرائے ہیں۔ ملزم حسین نواز، مریم صفدر اورکیپٹن صفدر نے جھوٹے دستاویزات پردستخط کئے اور یہ دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کئے۔ ملزم حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جمع کرائیں تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرے۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا کہنا ہے کہ یہ ایک مختصر فیصلہ ہےجس میں ان سے وقف نامہ یا دیگر متعلقہ دستاویز کے بارے میں نہیں پوچھا گیا اور مزید کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ، ویلز اور انگلینڈ کے قوانین میں ایسی کوئی لازمی شرط نہیں کہ وقف نامہ کا اندراج کیا جائے۔ (اعتراض یہ ہے کہ بیان کا یہ حصہ ماہر کی رائے پر ایک رائے ہے جو نمایاں طور پر ناقابل قبول ہے۔) ایک اور ماہرانہ رائے پر پہلے ہی اعتراض کیا جاچکا ہے جو جلد چہارم کے صفحہ 68 سے صفحہ 88 پر موجو ہے، یہ فیصلہ گلیڈ کوپر کے حوالے سے اور وقف نامہ اور دیگر دستاویز پر غور کرنے کے بعد تفصیل کے ساتھ دیا گیا۔(اس میں اعتراض اس بات پر ہے کہ گواہ اس حقیقت پر شاہد نہیں۔) اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متولی کو درشنی ہنڈی کی صورت میں حصص کو رکھنا پڑا تاکہ یہ ایک جائز ٹرسٹ بن جائے۔ (اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہر انہ طور پر حلفیہ گواہی دے رہا ہے جو اس حوالے سے گواہ ہی نہیں۔) جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ سی ایم ایز میں سے کسی نے بھی فائل نہیں کیا یا ملزمان مریم صفدر اور حسین نواز میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ مریم صفدر ان حصص کی تنہا مالک ہیں۔ (اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ دستاویز کے مندرجات پر حلفیہ شہادت دے رہا ہے، مزید یہ کہ اس نے جے آئی ٹی کے سامنے ملزم کے بیان کا حوالہ دیا ہے جو کہ نمایاں طور پر ناقابل قبول ہے۔) گلیڈ کوپر کی دوسری رائے یہ ہے کہ درشنی ہنڈی نے ایک مرتبہ حکام کو رقم بطور ضمانت رکھوائی تھی جسےختم کردیا گیا۔(اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہرانہ رائے دیتے ہوئے حلفیہ شہادت دے رہا ہے جو کہ گواہ نہیں ہے۔) بطور حوالہ دیکھئے سی ایم اے 895 جلد نمب 7 ے صفحہ 261، 278، 279، 282، 291، 300، 302، 305، 311، 313، 325، 328، 339 اور 336 ، یہ مالی گوشوارے حسن نواز کی کمپنیز کیو ہولڈنگ، فلیگ شپ سیکیورٹیز اور کوئنٹ پیڈنگٹن کے سال 2007 سے 2012 تک کے ہیں۔ یہ دستاویز اس نقشہ کی بنیاد ہیں جو پہلے ہی جلد 7 کے صفحہ 400 پر ex.pw-16'68 پر دیا گیا ہے۔ دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ قرضہ کومبر سے لے کر کیو ہولڈنگ کو دیا گیا تھا جو کہ حسن نواز ہی کی ملکیت تھی جبکہ 2008 میں مزید قرضہ کوئنٹ پیڈنگٹن کو بھی دیا گیا۔ (اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ دستاویز کے مندرجات کیلئے حلفیہ بیان دے رہا ہے جو کہ قابل قبول نہیں۔) اسی کمپنی یعنی کوئنٹ پیڈنگٹن کو 614000 پائونڈز کا قرضہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی جانب سے دیا گیا جو کہ دبئی میں قائم ہے جہاں کے مالک ملزم حسن نواز ہیں۔
اور جے آئی ٹی کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ملزم نوازشریف ایک ملازم ہیں۔ (اعتراض کے تحت کہ گواہ اس حقیقت کا گواہ نہیں کہ وہ دستاویز کے مندرجات کے مطابق گواہی دے رہا ہے)۔ سی ایم اے7511 میں ایک اور دستاویز کے صفحات 8 اور 9 پر فنانشیل انوسٹی گیشن ٹیم کے ڈائریکٹر ایرل جورج کی جانب سے 12جون 2012ء کو خط پہلے ہی دکھایا گیا ہے جو منی لانڈرنگ رپورٹنگ آفیسر موسیک فونسیکا اور کمپنی کو لکھا گیا جس میں نیسکول اور نیلسن کے بارے میں معلومات مانگی گئیں۔ (اعتراض کے تحت انہوں نے اس دستاویز کا مواد پیش کیا جسے نہ تو انہوں نے تحریر کیا یا مخاطب ہیں۔ شہادت میں بھی یہ قابل قبول نہیں۔ سی پی۔2016ء 29 کے صفحہ۔37 پر (ایکس پی ڈبلیو۔ 16-491 نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب ہے۔ جبکہ صفحہ۔38 پر نیلسن کے بارے میں جواب دیا گیا ہے۔ ایم ایل اے کو جواب میں برٹش ورجن آئی لینڈ کے حکام نے اپنے کورنگ لیٹر پر جواب دیا ہے۔ (اعتراض کے تحت دستاویز این اے او آرڈیننس 1999 کی دفعہ۔21کے تحت ضرورت پوری نہیں کرتا۔ صفحہ۔52تا 56 فنانشیل انوسٹی گیشن ایجنسی کا جواب بھی موجود ہے۔ فنانشیل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا 22 جون 2012ء کو جواب ملنے کی تصدیق کی۔ ریکارڈ کے مطابق کمپنی کی بینی فیشل مالک مریم صفدر ہیں۔ جنہوں نے سرور محل جدہ کا پتہ دیا۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ اسی طرح نیلسن کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب جس کی ایف آئی اے نے تصدیق کی، کمپنی کی مالک مریم صفدر ہی ہیں۔ جنہوں نے پتہ سرور محل جدہ کا دیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ مورخہ 12جون 2012ء کو فنانشیل انوسٹی گیشن ٹیم کے خط میں دو قانونی دستاویزات کا حوالہ دیا گیا۔ بی وی آئی انٹی منی لانڈرنگ ریگولیشنز 2008اور بی وی آئی منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ کوڈ آف پریکٹس 2008جس میں صارفین کے لئے تفصیلی طریقہ کار دیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے آخر میں کہا کہ مریم صفدر ہی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی مالک ہیں۔ جن کی ملکیت میں لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ہیں۔ اس حوالے سے پیش کردہ وقف نامے نہ صرف جعلی ہیں بلکہ رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی متعلقہ کمپنی کو پیش کئے گئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں متعلقہ سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ جے آئی ٹی نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حجم IX-A کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ جس میں صفحہ 6 تا 7 حسین نوازشریف کے اثاثے اور ایک خاکہ انکم اور دولت ٹیکس کی بنیاد پر دکھایا گیا ہے۔ حسن نوازشریف کے انکم اور دولت ٹیکس کا ریکارڈ صفحہ 8 تا 14 ہے اور اس حوالے سے خاکہ صفحہ 280اور 280-A پر دیا گیا ہے۔ تینوں ملزمان کی اتنی آمدن نہیں تھی کہ وہ 1990 کی دہائی کے شروع میں ان اپارٹمنٹس کی ملکیت کا جواز دے سکیں۔ 3دسمبر 2005 کو سامبا کی جانب سے منریوا فنانشیل سروسز کے نام خط مریم صفدر کا تعلق 2006 سے قبل منریوا سے جوڑتا ہے۔ مذکورہ دستاویز کا اعتراف مریم نے بھی کیا۔ صفحہ ایک تا صفحہ 254 جلد ایک۔ جلد 10 کو چھوڑ کر جے آئی ٹی رپورٹ کا بیانیہ ہے۔ نیب میں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ظاہر شاہ جو بین الاقوامی تعاون کے معاملات دیکھتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دستاویزات نمائندہ عثمان احمد کے ذریعہ 27 مارچ 2018 کو برطانوی ہائی کمیشن کے ذریعہ موصول ہوئیں۔ جنہوں نے برطانوی سینٹرل اتھارٹی کی جانب سے دستاویزات حوالے کیں۔ انہوں نے رجسٹر بنام مکان نمبر16-A، 17، 17/4، 17A، 17/5 ایون فیلڈ ہائوس کی سرکاری نقول پیش کیں۔ انہوں نے 16، 16-A، 17 اور 17-A کے پانی کے بل پیش کئے۔ اسی طرح دیگر دستاویزات بھی دی گئیں۔ نیب لاہور میں تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کا بیان ہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مجاز حکام کو نوازشریف، حسن، حسین، مریم اور صفدر کے خلاف تحقیقات کا 28 جولائی 2017 کو اختیار دیا۔ دوران تحقیقات سپریم کورٹ سے مکمل تحقیقاتی رپورٹ حاصل کی گئی۔ جلد نمبر ایک اور IX-A ریفرنس کے لازمی جزو ہیں جو ریفرنس کے ساتھ عدالت میں پیش کئے گئے۔ پاناما کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے پاس موجود ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا۔ ایس ای سی پی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور 23 اگست 2017کو شامل تفتیش ہوئیں جنہوں نے 2000 تا 2005 حدیبیہ پیپرز ملز کے آڈٹ شدہ حسابات پیش کئے۔ (پی ڈبلیو۔6) نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کے آپریشن ڈویژن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن 25 اگست 2017 کو شامل تفتیش ہوئے اور ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ (پی ڈبلیو۔16) واجد ضیاء نے 30 اگست 2017کو شامل تفتیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اسی روز مظہر رضا بنگش نے بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ محمد رشید 6 ستمبر 2017 کو شامل تفتیش ہوئے، کوئنز کورٹ لندن کے حکم کی نقول پیش کیں۔ مظہر رضا خان بنگش کا حلف نامہ پیش کیا۔ موسیٰ غنی، طارق شفیع اور سب انسپکٹر تھانہ نیب لاہور عمر دراز گوندل کو طلبی کے نوٹس جاری ہوئے۔ 16اگست 2017 کو ان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ نوازشریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کو بھی نوٹسز جاری ہوئے جو (پی ڈبلیو۔04) سب انسپکٹر تھانہ نیب لاہور مختار احمد کے حوالے کئے گئے۔ 18 اگست 2017 کو بیان ریکارڈ کیا گیا۔ مذکورہ افراد کو طلبی کے نوٹس میں کہہ دیا گیا کہ عدم پیشی کی صورت یہ اخذ کرلیا جائے گا کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید کچھ نہیں کہنا ہے۔ ملزمان تفتیشی کارروائیوں میں شامل نہیں ہوئے۔ تاہم نوازشریف، مریم اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی طرف سے ان کے وکیل امجد پرویز کی طرف سے مجاز نمائندے سلطان کے ذریعہ 22 اگست 2017کو موصول ہوئے۔ مزید یہ کہ دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں۔ جہاں تک تحقیقاتی رپورٹ میں دستاویزات کے حوالے کا تعلق ہے، یہ ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں اور تین دستاویزات کا نہیں بلکہ صرف ایک خط کا حوالہ دیا گیا۔ خط کا حوالہ عبوری رپورٹ میں بھی حوالہ دیا گیا۔ خطوط کی نقول اور دستی تحریری بیان ملزم کے دونوں وکلاء کو فراہم کئے گئے۔ دونوں خطوط مورخہ 22 اگست 2017 ملزم نوازشریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی طرف سے ہیں۔ دستی تحریری بیان سلطان محمود خان کا ہے۔ حاصل کردہ مواد جس کا حوالہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ہے۔ انہوں نے 6 ستمبر 2017ء کو عبوری تحقیقاتی رپورٹ تیار کی۔ مزید کارروائی کے دوران انہوں نے کیس افسر سلطان نذیر کے ساتھ برطانیہ کا دورہ کیا اور 14 دسمبر 2017کو راجا اختر (پی ڈبلیو۔15) کا بیان ریکارڈ کیا۔ 15 دسمبر 2017 کو پی ڈبلیو۔14 رابرٹ ریڈلے کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔9ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرونک میڈیا اینڈ پبلی کیشن سردار عبدالواحد خان شامل تفتیش ہوئے۔ 5 جنوری 2018 کو انہوں نے نوازشریف کے خطاب اور تقاریر کا ریکارڈ پیش کیا۔ جاوید چوہدری کے ساتھ حسین نواز کا انٹرویو بھی پیش کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔10 ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ سید مبشر توقیر شاہ 5 جنوری 2018 کو شامل تفتیش ہوئے۔ انہوں نے بی بی سی کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں ملزم حسن نواز کے انٹرویو کا متن پیش کیا۔ 10 جنوری 2018کو جیو نیوز اسلام آباد کے سینئر کوآرڈینیٹر وقاص احمد نے شامل تفتیش ہو کر سی ڈیز اور نقول پیش کیں جو مریم نواز کی پروگرام ’’لیکن‘‘ میں گفتگو اور حسین نواز کے حامد میر کو انٹرویو پر مشتمل تھیں۔ نوازشریف، مریم نواز صفدر اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو 28 دسمبر 2012 کو دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری ہوئے تاہم ملزمان تفتیشی کارروائی میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل چوہدری نصیر احمد بھٹہ کی جانب سے 30 دسمبر 2017 کو خط ملا۔ انہوں نے کیپٹن (ر) محمد صفدر اور مریم صفدر کی جانب سے دو خطوط پیش کئے (اعتراض کے تحت یہ دستاویزات استغاثہ کو 30 دسمبر 2017 سے دستیاب تھیں اور انہوں نے ضمنی ریفرنس میں ان کو شامل نہیں کیا جو 22 جنوری 2018 کو دائر کیا گیا۔ اب یہ 5 ماہ بعد گواہ کا بیان قلم بند کئے جانے کے وقت پیش کیا گیا۔
مزید یہ کہ یہ گواہ ان دستاویزات کا نہ ہی کاتب تھا اور نہ ہی تعمیل کنندہ ، جن دستاویزات کو بطور شہادت دیکھا گیا۔ضابطہ فوجداری کے سیکشن 265-Cکے تحت ملزم کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے)اوپر بیان کیے گئے حاضری کے نوٹس میں یہ تحریر تھا کہ ان کے حاضر نہ ہونے کی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید اور کچھ نہیںکہنا۔(قابل وکیل دفاع اس بات پر بحث کررہے تھے کہ بیان کے اس حصے کا تعلق دستاویز کے متن سے تھا، مزید یہ کہ دستاویز ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھااور یہ شہادت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ اس کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ، جیسا کہ انہوںنے کہا تھا)۔اس کے بعد انہوں نے 12جنوری ،2018کو ضمنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی ، جس میں ان کے دستخط تھے(ضمنی ریفرنس کے صفحہ 6تا18میں موجود ہے)اور یہ سفارش کی گئی کہ ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا جائے۔مجاز اتھارٹی نے ضمنی تحقیقاتی رپورٹ اور موجود مواد کے تجزیے کے بعد ملزمان کے خلاف 22جنوری 2018کو ضمنی ریفرنس دائر کیا۔جے آئی ٹی کے دیئے گئے حوالے اور جمع کیے گئے مواد کی بنیاد پر نیب نے بھی ایم ایل اے کی درخواست پر عمل کیا ، جس کا آغاز جے آئی ٹی نے کیا تھا۔27مارچ 2018کو انہیں ظاہر شاہ(پی ڈبلیو۔17)ڈی جی آپریشن نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی جانب سے کال موصول ہوئی اور انہوںنے اطلاع دی کہ برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی سے ایم ایل اے کا جواب موصول ہوچکا ہے۔اگلے روز 28مارچ2018کو وہ ڈی جی آپریشن کے دفتر گئے اور انہوںنے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی کی جانب سے موصول شدہ ریکارڈ کی نقول انہیں دیں تاکہ معاملہ آگے چلایا جاسکے۔اس ریکارڈ میںایون فیلڈ ہائوس لندن کے فلیٹ نمبر16، 16۔اے، 17 اور 17۔اےکی لینڈ رجسٹریاں،یوٹیلیٹی بلز اور کونسل ٹیکس موجود تھیںاور ریکارڈ کو اس عدالت کے ریکارڈ میں بذریعہ درخواست پہنچایا گیا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کیے گئے اور حوالہ دیئے گئے مواد کی بنیاد پر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزم میاں محمد نواز شریف کی ملکیت میں بحیثیت عوامی عہدیدارایون فیلڈ جائداد تھی اور وہ اس کے مالک تھے۔ان کے نمبر 16،16۔اے،17،17۔اے ہیں جو کہ آف شور کمپنی جن کا نام نیلسن اور نیسکول اور جو کہ بےنامی ناموں پر تھیں اور وہ ان جائدادوں کے حصول کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور یہ جائدادیں ملزم میاں محمد نواز شریف اور دیگر ملزمان کی ملکیت میں1993سے ہیں (قابل وکیل دفاع نے اس پر اعتراض کیا کہ ان تمام باتوں کی بنیاد تحقیقاتی افسر کی رائے پر ہےجو قانون کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔جبکہ دوسری جانب قابل وکیل کا کہنا تھا کہ گواہوں کے بیان کے اس حصے کی بنیاد وہ حقائق، ریکارڈ یا مواد ہے جو تحقیقات کے دوران جمع کیا گیا اور ان کا تجزیہ کیا گیا)۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے)۔ملزمان حسن نواز شریف، حسین نواز شریف ،مریم صفدر اور کیپٹن محمد صفدر نے متعدد دستاویزات جمع کرائے ۔ان میں نیلسن اور نیسکول اور کومبر کی ٹرسٹ ڈیڈشامل تھیں جسے معزز سپریم کورٹ آف پاکستان میںپاناما کیس کی سماعت کے دوران جمع کرایا گیاجو کہ ملزمان کی ایون فیلڈ جائداد کی ملکیت کے حوالے سے لیے گئے موقف کی تائید میں تھا۔نیلسن ، نیسکول اورکومبر کی ٹرسٹ ڈیڈ ملزمہ مریم نواز نے بھی جے آئی ٹی میں اصل پیش کیں ۔تاہم بعد ازاں یہ ٹرسٹ ڈیڈ رابرٹ ریڈلی کی فارینزک رپورٹس کی بنیاد پر نقلی اور جعلی ثابت ہوئیں ۔قابل وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ یہ شہادت جے آئی ٹی کے سامنے جو کچھ لایا گیا اس کی شہادت نہیں ہےاور یہاں تک بیان کا حصہ قابل قبول نہیں ہے۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے)۔ملزمان حسن نواز، حسین نواز ، مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر بحیثیت بےنامی ملزم میاں محمد نواز شریف کے معاون ومددگار،شریک جرم، سازش میں شامل اور ان کے ساتھ ملوث تھےاور وہ کرپشن کے جرائم اور کرپٹ اعمال میں این اے او1999اور اس سے منسلکہ شیڈول کے تحت ملوث پائے گئے (قابل وکیل دفاع نے اعتراض اٹھایا کہ یہ حصہ تحقیقاتی افسر کی رائے ہے ، جب کہ دوسری جانب قابل وکیل کا کہنا تھا کہ شہادتی بیان کا یہ حصہ ان حقائق ، ریکارڈ، مواد کی بنیاد پر ہے جسے تحقیقات کے دوران جمع یا اس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔(وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے)۔جے آئی ٹی رپورٹ پر انحصار کرنے کے علاوہ دیگر پی ڈبلیوز کی جانب سے پہلے سے پیش کردہ دستاویزات پر انحصار کیا گیا ۔اس کے علاوہ انہوں نے درج ذیل دستاویزات اور مواد پر بھی انحصار کیا۔
1۔خاندانی اثاثہ جات کے تصفیے کا معاہدہ(عبوری ریفرنس کے والیم IVکے صفحہ 152تا 184تک موجود ہے)جو کہ سابقہ پی ڈبلیو18/12(اعتراض یہ تھا کہ دستاویز نقل ہے ، جب کہ اصل معزز سپریم کورٹ کے پاس موجود نہیں تھی اور یہ دستاویز گواہ/تحقیقاتی افسر نے نہ ہی موصول کی اور نہ ہی اپنے قبضے میں رکھی۔جب کہ قابل وکیل کا کہنا تھا کہ یہی مصدقہ نقل ہے جو کہ گواہ نے معزز سپریم کورٹ سے حاصل ی ہےاور یہی عدالتی سماعت کا حصہ تھا)۔2۔ملزم میاں نواز شریف کے اثاثوں اور قرضوں کے تجزیے/چارٹ سے جو کہ جے آئی ٹی نے تیار کیا تھاجو کہ والیم IXکے صفحہ 418میں موجود ہے۔(اعتراض یہ ہے کہ پہلی بات یہ دستاویز گواہ نے تیار نہیں کیا، جب کہ دوسری بات واجد ضیا بطور جے آئی ٹی سربراہ پیش ہوئے اور انہوںنے کبھی ایسا نہیں کہا کہ یہ دستاویزجے آئی ٹی نے تیار کیے ہیں ، لہٰذا یہ دستاویز بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے)3۔جے آئی ٹی رپورٹ جو کہ والیم IIIکے صفحہ 01تا40میں موجود ہے۔4۔جے آئی ٹی رپورٹ جو کہ والیم IVکے صفحہ 01سے 36تک میں موجود ہے۔5۔جے آئی ٹی رپورٹ جو کہ والیم Vکے صفحہ 01سے 24میں موجود ہے۔
قابل وکیل کے دلائل
19۔قابل وکیل نے استغاثہ کا کیس مکمل کرتے ہوئے منجملہ درج ذیل دلائل دیئے۔
موزاک فونیسکا دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم ہے۔آئی سی آئی جے نے کچھ معلومات شائع کیں جنہیں پاناما کی لا فرم کے ڈیٹا بیس سے ہیک کیا گیا تھا۔تقریباًایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات ہیک کی گئی تھیں ، جنہیں پاناما پیپرز کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا جنہوںنے کئی جگہوں پر آف شور کمپنیاں قائم کی تھیں۔پاکستان کے اس وقت کے پہلے خاندان کے افراد پر بھی مبینہ الزام تھا کہ ان کا آف شور کمپنیوں سے تعلق ہے۔شریف خاندان کی ملکیت میں بھی آف شور کمپنیاں ہیں اور وہ جائداد اثاثے کبھی ظاہر نہیںکیے گئے۔پاناما پیپرز کے اجرا کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹ جس کا ریفرنس معزز سپریم کورٹ میں بھی دائر کیا گیا تھا ، جو کہ آئینی پٹیشن نمبر 29/2016، 30/2016 اور 03/2017کے تحت تھا۔اس معاملے کا فیصلہ کرتے وقت پانچ رکنی معزز بینچ نے جو فیصلہ دیا اس میں بینچ کے معزز تین ارکان نے الزامات پر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا کہا اور اس کی تحقیقات 60روز میں مکمل کرنے کا کہا ۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ دس والیم میں 10جولائی 2017کو جمع کرائی۔جے آئی ٹی کو قانون کے تحت تحقیقات کے لیے وہ تمام اختیارات دیئے گئے جو کہ ضابطہ فوجداری 1998 اور این اے او 1999 اور وفاقی تحقیقاتی ایکٹ 1975 میں موجود تھے۔جے آئی ٹی کو معاونت کے لیے مقامی یا غیر ملکی ماہر کی خدمات بھی حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی آبزرویشن تھی کہ بادی النظرمیں یہ مقدمہ ملزم کے خلاف بنایا گیا تھا اور نیب کوہدایت کی گئی تھی کہ جے آئی ٹی کے جمع کردہ شواہد اور مواد کی بنیاد پر ریفرنس تیار کرے اور عدالت میں دائر کرے۔مقدمے کا الزام 19اکتوبر 2017 میں عائد کیا گیا اور اس میں ترمیم 08نومبر 2017 میں کی گئی۔ضمنی ریفرنس یہ تھا کہ ان کے اثاثے معلوم آمدنی سے ذائد ہیں، جس سے این اے او 1999کے تحت کرپشن اور کرپٹ اعمال ثابت ہوتے ہیں۔جب اس بات کا اطمینان ہوجائے تو ملزم پر یہ بوجھ منتقل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی جائداد کے حوالے سے تسلی کرائے ۔اس میں ناکامی کی صورت میں عدالت جرم کے ارتکاب کا تصور کرے گی۔انہوںنے کیس اتھارٹی پی ایل ڈی 2017 ایس سی 265کا حوالہ دیا اور کہا کہ فیصلے کے پیرا 10اور 11میں ہے کہ جب یہ الزام عائد کیا جائے کہ عوامی عہدیدار یا ان کا کوئی رشتہ دار یا بے نامی کسی قسم کے اثاثہ جات کی ملکیت رکھتا ہے یا اس کے وسائل اس کی معلوم آمدنی سے زائد ہوں تو ا س پر کرپشن کا جرم ثابت ہوتا ہے۔اس میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ ابتدائی بوجھ زائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔جس میں اقرار تھا کہ ملزم نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کا زمینی کرایہ ادا کیا ،جو کہ مالکان ادا کرتے ہیں۔ضمنی مختصر بیان میںملزم کی جانب سے جو اقدام کیا گیا(فریق مخالف نمبر 6،7اور 8)وہ یہ تھا کہ محمد شریف ان کے دادا تھے وہ اپنے گھروالوں کے ہمراہ اتفاق فائونڈری کے مالک تھے ، جسے 02جنوری 1972میں حکومت نے بغیر کسی ادائیگی کے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔1973میں مرحوم میاں محمد شریف یو اے ای منتقل ہوئے اور گلف اسٹیل ملز قائم کی وہ یہ کاروبار طارق شفیع کے ذریعے چلا رہے تھے۔جب کہ محمد حسین کمپنی میں شراکت دار تھے۔کمپنی سے متعلق اسٹیل فیکٹری دبئی کے مقامی بینک سے قرضہ حاصل کرکے تعمیر کی گئی تھی ۔اس کے لیے پاکستان سے کوئی رقم منقل نہیں کی گئی۔1978 میں مرحوم میاں محمد شریف نے کمپنی کے 75فیصد شیئرز عبداللہ قید اہلی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔تاکہ کمپنی کے واجب الادا قرضہ جات ادا کیے جاسکیں۔اسی طرح 1978میں طارق شفیع نے کمپنی کے 75فیصد شیئرز فروخت کیے ۔کمپنی کا کاروبار اہلی ملز کمپنی کے نام سے چل رہا تھا ۔1980 میں میاں محمد شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ دبئی کے اسٹیل کے کاروبار سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیں ، جس پر اہلی کمپنی میں 25فیصد شیئرز عبداللہ قید اہلی کو فروخت کردیئے گئے ۔اسی سال اس 25فیصد شیئرز کی فروخت سے جو رقم حاصل ہوئی تھی ا سے قطر کی الثانی خاندان سے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں لگادیا گیا۔فلیٹ نمبر 16،16۔اے، 17اور 17۔اےالثانی خاندان نے خریدا تھا اور اس کی ملکیت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نیسکول کمپنی کے نام پر محفوظ کرلی گئی۔الثانی خاندان کے مرحوم میاں محمد شریف سے تعلقات کے باعث انہوں نے اپنی جائداد کے استعمال کی اجازت شریف خاندان کو دی ، جب کہ اس کے تمام اخراجات الثانی خاندان نے خود برداشت کیے۔10دسمبر 2000 میں پاکستان سے اپنی جلاوطنی کے بعد مرحوم میاں محمد شریف نے الثانی کو تجویز دی کہ یہ باہمی کاروبار اور اس سے حاصل منافع ان کے بڑے پوتے فریق مخالف نمبر 7کے لیے ہے۔جب کہ فریق مخالف نمبر 6اس کا ٹرسٹی ہوگا ، ایسا 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق تھا۔قابل وکیل نے ورجن آئی لینڈ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایم ایل اے کی معلومات کی درخواست جو کہ ایف آئی اے بی وی آئی کے ذریعے موصول ہوئی وہ ان قوانین کے تحت مستند ہیں۔رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوایا گیا ۔جب کہ بیئرر شیئرسرٹیفکیٹ نے اپنی افادیت بی وی آئی کمپنیز ایکٹ 2004کے سبب کھودی ۔انہوں نے ایس 69کا حوالہ دیا ، جو کہ تیار ریفرنس کے لیے دوبارہ درج ذیل ہے۔بیئرر شیئرز کے 69مسئلہ اور رجسٹرڈ شیئرز کی تبدیلی1۔ جہاں کمپنی بیئرر شیئرجاری کرے گی یاٹریژری شیئرز ٹرانسفرکرے گی تو یہ بیئرر شیئر ہوگا ۔یہ کسی ایسے شخص کو شیئرادا نہیں کرے گا جو کہ نگہبان کے علاوہ ہوگا اور وہ شیئررکھنے پر رضامند ہوگا۔2۔کمپنی تبدیل شدہ بیئرر شیئر جو کہ رجسٹرڈ شیئر سے ہوگا ادا نہیں کرے گا ، کسی ایسے شخص کو جو کہ نگہبان کے علاوہ ہوگا ۔بیئرر شیئرز کی ادائیگی نگہبان کو ڈویژن کے مطابق ہوگی جو کہ نگہبان کو کمپنی کا شیئر ہولڈر نہیں بنائے گا۔4۔جہاں کمپنی ایکٹ شق 1اور2کے تحت ہوگا ، وہاں جرم کا ارتکاب ہوگا جس پر جرمانے کی سزا ہوگی۔بی وی آئی بزنس کمپنیز ایکٹ 2004کا ایس 70بیئرر شیئرز جو نگہبان کے پاس نہ ہو کو معذور کردیتا ہے۔انہوںنے یہ درخواست کی کہ یہ ظلم تھا کہ اصل مالک کا نام بیئرر کے ضمن میں افشا ہوگا۔
رجسٹرڈ شیئر ایسا اسٹاک ہے کہ جو مالک کے ہی نام ہو ۔اگر شیر کا مالک اسے فروخت کردیتا ہے تو نیا مالک اسے اپنے نام اور دیگر ذاتی معلومات پر رجسٹرڈ کرائے گا ۔بی وی آئی بزنس ایکٹ 2004 کے سیکشن 71 s کے تحت حامل شیئر کا بینفیشل اونر جس کا اس شیئر میں مفاد ہو اس کا پورا نام اور دیگر معلومات ضروریات کے مطابق فراہم کرے گا ۔اس وقت جب حامل شیئر ز کو کسی شخص کو دیے جائیں گے ۔ایف آئی اے بی وی آئی خط کے مطابق مریم صفدر کو نیلسن اور نیسکول لیمیٹڈ کمپنیز میں بینفشل اونر بتایا گیا ہے ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس مذکورہ دونوں آف شور کمپنیوں کے نام پر تھے ۔اونر شپ کی اصل شناخت 2006 تک چھپائی گئی کہ جب برٹش ورژن آئی لینڈ قوانین تبدیل ہوئے اور یہ ممکن نہ رہ سکا کہ بینفشل آنر شپ کی اصل شناخت کو چھپا یا جائے جیسا کہ مندرجہ بالا قانون میں بتایا گیا ۔پراسیکیوٹر نے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین 2008 اور ٹیررسٹ فنانس کوڈ آف پریکٹس 2008 کا بھی حوالہ دیا حامل شیئرسرٹیفکٹ کو رجسٹرڈ شیئرمیں بدل دیاگیا ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملنے والی وضاحت میں لائے گئے (Exh PW 16/11اورExhPW16/12)حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خط پر الزام آیا۔Exh PW 16/11کے پیرا 4ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق ہے جو کہ تیار ریفرنس پر دوبارہ بنایاگیا ۔ایون فیلڈ ہائوس کے فلیٹ نمبر 17,17-A۔16-16-جائیدادیں ہیں پارک لین لندن دو آف شور کمپنیوں کی آنر شپ رجسٹرڈ کی گئی ۔جن کے شیئر کے سرٹیفکٹس اس وقت قطر میں رکھے گئے یہ رئیل اسٹیٹ بزنس کے طریقے سے خریدے گئے تھے ۔یہ خاندان کے تعلق پر بنائے گئے ،میاں محمد شریف اور ان کے خاندان نے جائیدادیں استعمال کیں جبکہ جائیداد کے تمام اخراجات برداشت کیے ۔جس میں گرائونڈ رینٹ اور سروس چارجز شامل ہیں ۔مذکورہ حمام بن جاسم جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے لیکن ان کی طرف سے خط پیش کیاگیا اور انہوں نے مختلف اوقات میں خود کو پیش کرنے سے گریز کیا ۔انہوں نے والیم -پانچ کے 20 تا 22 کا حوالہ دیا ، جے آئی ٹی کی جانب سے خط کو فرضی کہاگیا ۔ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی گئی دستاویزات ظاہر شاہ نے پیش کیے اور اس کے ساتھ پچھلے دستاویزات بھی تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں نے 01-06-1993کو خریدے تھے ۔فلیٹ نمبر 17 نیسکول نے 23-07-1996کو فلیٹ نمبر 17 aنیسکول لیمیٹڈنے 31-07-1995کو لیاگیا۔بیٹے (شریک ملزم )الزام نمبر ایک میں مذکورہ سالوں میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہتے تھے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ اپارٹمنٹس اسی وقت سے ان کی ملکیت تھے ۔بیٹوں کے انٹرویو میں الزام نمبر ایک میں صاف ہے کہ وہ اپارٹمنٹس ان کے استعمال میں تھے ۔گرائونڈ رینٹ ادا کیا گیا جو کہ مالک کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی معلوم ہوئی جو کہ کیلبری فونٹ میں تھا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سال 2006 میں تیار نہیں کیےگئے تھے ۔رابرٹ ریڈلے کی ماہرانہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ ڈیڈ جھوٹی ہے ۔مذکورہ ماہر کاکہنا تھا کہ کیلبری فونٹ جنوری 2017سے پہلے کمرشل طور پر دستیاب نہیں تھا ،ٹرسٹ ڈیڈ کے مواد پر اعتماد پیدا نہیں ہوتا ۔ٹرسٹ ڈیڈ کی ڈیوٹی پرپورٹڈ سیٹلر کے انتقال کے بعد ادا کی گئی ۔ملزم کی جانب سے اپنے دفاع میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جبکہ ان کے پاس پراسیکیوشن کیس میں گواہ یا تحریری ثبوت دینے کا موقع تھا ۔ٹرسٹ ڈیڈ اوران پر دستخظ کی تصدیق کیلئے کوئی گواہ پیش نہیں ہوا ۔مزید کہاگیا کہ اگرجے آئی ٹی قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کرسکتی تو پھر ڈیفنس کے پاس موقع ہے کہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ حاضر کرے ۔اسی طرح کمپنیوں سے متعلق ثبوت پیش کرے تاہم یہ مرضی سے نہیں تھا ۔1993 سے مے فیئر اپارٹمنٹس ملزم کی ملکیت میں تھے اور کیس میں پراسیکیو شن کی جانب سے پیش دستاویز ات کے مطابق مریم صفدر نیلسن اور نیسکول کی بینفشل اونر ہے ۔یہ بھی شامل ہے کہ ملزم نے سال 1993 سے گرائونڈ رینٹ ادا کیا جو کہ ہمیشہ مالک کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ ملزم میاں نواز شریف ،مریم صفدر،حسن نوازاور حسین نواز آمدنی کے ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔مزید یہ کہ مریم نواز نے اصل حقائق چھپائے اور کیپٹن (ر)صفدر نے جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے اور دونوں نے تحقیقاتی ایجنسی اور معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کو گمراہ کیاگیا ۔پراسیکیوٹر نے مفرور ملزم حسین نواز کے جے آئی ٹی کو دیاگیا بیان بھی پڑھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مذکورہ فلیٹ میں سال 1993 سے رہ رہے ہیں اور خاندان نے دیگر فلیٹوں کی ملکیت 1995 اور 1996 میں حاصل کی ۔پراسیکیو ٹر نے مزید کہا کہ قطری شہزادے کا خط غیر مصدقہ ثابت ہوا ،قطری کو کی گئی سرمایہ کاری کا کوئی دستاویز ی ثبوت نہیں ہے اور نیلسن انٹر پرائززاور نیسکول لیمیٹڈ کے حامل شیئر زقطر میں نہیں تھے اور منیورا سروس کے حوالے سال 2006 میں کے گئے ۔اس کا مطلب ہے کہ دونوں کمپنیاں اور فلیٹس پہلے سے ہی سال 1993 سے شریف فیملی کی ملکیت تھے ۔مزید کہا گیا کہ حسین نواز کو قطری شہزادے سے منتقلی کا ریکارڈ ہے جیسا کہ جے آئی ٹی کے سامنے دعویٰ کیاگیا تھا ۔حماد بن جاسم کا بیان غیر متعلقہ ہے ،حتیٰ کہ جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی ۔جے آئی ٹی نے حماد بن جاسم کو 24-05-2017اور 22-06-2017کیلئے سمن جاری کیا اور وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔مزید یہ کہ جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ بیان ریکارڈ کرنے کیلئے دوحا جاسکتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ سفارتخانے میں بیان ریکارڈ نہیں کرائینگے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہونگے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا تو وہ دفاع میں گواہ کے طور پر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں ۔ملزم کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان کے بیان ریکارڈ کی درخواست کی جاسکتی ہے ۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق ان کے لیٹر کی فائنڈنگ محض کہا نی ہے ۔پراسیکیوٹر نے مزید یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کا بھی تجزیہ کیا ،تاہم اس میں کہیں بھی دبئی کورٹ سسٹم میں 1980 میں گلف اسٹریٹ کے 25 فیصد شیئر کے فروخت کا ثبوت نہیں ملا ۔پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ PW14،رابرٹ ریڈلے نے ان کی رپورٹ کی تصدیق کی اور اس پر اعتراض نہیں تھا ۔سامبا بینک کے خط کا تعلق بھی اہم تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ مریم صفدر کا ماقبل 2006 تعلق تھااور مزید یہ کہ دو پیش کی گئیں ٹرسٹ ڈیڈ ناصرف جعلی بلکہ سمجھ سے بالا تھیں ۔یہ بھی کہا کہ مفرور ملزم نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ شریعت کے مطابق ان کے والد فلیٹ کے مالک ہیں ۔ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز کے انتقال کی صورت میں مریم نواز کو حق ہوگا کہ وہ جائیداد کی تقسیم کردیں،جب ٹرسٹ ڈیڈ کا قانونی اہمیت پر جائزہ لیاگیا تو گیلڈ کوپر کیو سی کی جانب سے قانونی نکتہ پیش کیا گیا جو کہ انہوں نے شریعت کے مطابق تقسیم کا بغور جائزہ لیا تھا کہ اگر صرف اس مقصد کیلئے ہے تو اس کیلئے وصیت ہوسکتی ہے ۔دستاویزات میں ملزم نے کچھ پیش نہیں کیا جبکہ پراسیکیو شن کیس ڈاکو منٹس پر بنایاگیا ۔ڈیفنس وکیل خواجہ حارث کی جانب سےدلائل کے دوران مندرجہ ذیل پیش کیے گئے ،1جے آئی ٹی کے اختیارات 05-05-2017کو دیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔جے آئی ٹی کو قانون کے مطابق تمام اختیارات دیے گئے ہیں جو کہ کریمنل کوڈ پروسیجر میں ہیں ۔نیب آرڈیننس 1999اور ایف آئی اے ایکٹ 1975 میں ہیں۔1S(4)کے مطابق تحقیقات کا مطلب دستاویزات کو جمع کرنا ہے ۔28-07-2017کو فائنل آرڈر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیب کو ہدایت کی گئی کہ احتساب عدالت راولپنڈی /اسلام آباد کے سامنے جمع مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے ۔اس لیے تجزیہ ،خیالات ،جے آئی ٹی کی طرف سے نتیجہ دائر کیے گئے ریفرنس کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ان کے پاس 14-06-2017 کا ریفر آرڈر بھی ہے ،پیرا 6 ریکارڈ بیان کے ساتھ پڑھا گیا ۔موجودہ فیصلہ تفصیلی فیصلے میں ہے۔نظر ثانی اپیل ملزم کی جانب سے فائل کی گئی ،جس کا کچھ حصہ ڈیفنس وکیل نے پیرا 14 میں 15-09-2017کو بنایا۔دلائل دیے کہ ہدایات غیر مبہم طور پر جے آئی ٹی کی جانب سے مواد جمع کیاگیا،جس کی شہادت ہونا ابھی باقی ہے ۔ٹرائل کورٹ کسی بھی صورت میں ثبوت کا اندازہ کرے گی جس میں جے آئی ٹی کی جانب سے جمع شدہ مواد بھی شامل ہوگا ۔ورنہ فیصلے میں تمام آبزرویشنز آزمائشی ہونگی ٹرائل کورٹ کو اپنے فیصلے میں پابند نہیں کرسکے گی ،ڈیفنس وکیل نے مندرجہ ذیل اتھارٹیز کا بھی حوالہ دیا ۔1993SCMR550سید سعید محمد شاہ کا عنوان اور ایک دوسرا ورژن پیرا 10 ہے جو مندرجہ ذیل میں ہے ۔کریمنل پروسیجر کوڈ کا سیکشن 173اس چیپٹر میں انتہائی اہم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سیکشن کے تحت مجسٹریٹ کو پولیس افسر کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ بھیجی جائے گی ،اس رپورٹ میں پارٹیز کے نام شامل ہونگے ،معلومات کی نوعیت اور شخصیات کے نام ہونگے ۔ریفرنس راجا محمد افضل چودھری محمد الطاف حسین اور دیگر کا 1986scmr1736بن سکتا ہے ۔پی ایل ڈی 2018 سپریم کورٹ 178 کا عنوان ہےصوبہ پنجاب پنجاب پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے اور دیگر محمد رفیق اور پیرا13 میں ذیل میں دیے گئے ہیں ۔مذکورہ وکیل نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتبار کیا اور مخصوص پیرا گراف بھی پڑھا لیکن مذکورہ رپورٹ جے آئی ٹی اراکین کا خیال ہی ہے اور اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔سید سعید محمد شاہ اور دیگر vکے کیس میں ہے ۔ٹرائل کورٹ اس صورت میں اس کو سراہے گی کہ جب قابل قبول مواد کی حمایت کرے گی ۔کیونکہ عدالت صرف مواد میٹریل کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی اور کسی پولیس افسر کے خیال پر فیصلہ نہیں ہوسکتا چاہے وہ آئی جی پولیس رینک کا ہو ۔3پی ایل ڈی 2011 سپریم کورٹ 350محمد ارشد اور دیگر کا عنوان ہے جس کا پیرا 35 میں یوں بتایا گیا ۔ہمیں لگتا ہے کہ وقت آگیاہے کہ جب ہمیں خود سے تحقیقات میں پولیس کے قانونی کردار اور قابل قبول متعلقہ ثبوتوں کی ضرورت ہے ۔4-2003ایم ایل ڈی 676(کراچی )آصف جمیل اور دیگر کیلئے ہے ،جس میں ہے کہ مزید اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ کئی دیگر کیسوں میںدیکھاگیا کہ جب پولیس افسر/تحقیقاتی افسر گواہوں کے بیان ریکارڈ کرتا ہے تواسے پراسیکیوشن کی جانب سے کسی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا ۔5-1999P Cr. L J 1198(Lahore)مقبول احمدبنام ایس ایچ او ہیں ،پولیس اسٹیشن چھانگا مانگا ،ضلع قصور اور دیگر ہیں ۔6-1991M L D 2005(Lahore)ریاست محمد انوربنام ریاست کا عنوان ہے ۔7-2007M L D372(Karachi)عطااللہ عرف قاسم اور دیگر بنام ریاست کا عنوان ہے ۔8-1991 P Cr. L J 62 (Peshawar )حاجی محمد جاوید بنام ریاست اور دیگر دو کا عنوان ہے ۔9-1998 P Cr. L J 56(Lahore)مسعود بیگم بنام محمد معروف اور دیگر دو کا ہے ۔پیرا 6 ذیل میں ہے ۔ٹرائل میں ثبوت ،یا گواہوں کی صلاحیت فیصلے کیلئے ثبوت کا معیار اور کوالٹی ایجنسی کی طرف سے ہے یا حقائق کی تہہ تک ثبوت جمع کرنا ایجنسی کا کام ہے ۔10-P L D 1958(W.P)Lahore 300درگاہی اور دیگر کا بنام ریاست کے عنوان ہے ۔پیرا 22F &23 Fذیل میں ہیں ۔پیرا 22 میں ہے کہ ہم نے سیشن جج کا فیصلہ بغور پڑھا ہے اور اس میں کمی دیکھ رہے ہیں ،سیشن جج کو کو لگا کہ اگر وہ اس معاملے میں بے یارو مدد گار ہیں تو ان کا دماغ تحقیقاتی افسر کے خیال کی طرف جاسکتا ہے ۔جوکہ غیر متعلقہ تھا اور ایویڈنس ایکٹ کے تحت ناقابل قبول تھا ۔ایک تحقیقاتی افسر کو حق ہے کہ قصور اور بے گناہی کے خیال پر آسکتا ہے ،وہ ضمانت بھی دے سکتا ہے ۔کورٹ میں چالان کے بعد کورٹ کا یہ کام ہے کہ ثبوتوں اور گوہی کی بنیاد پر مجرم یا بے گناہی کو دیکھے ۔تحقیقاتی افسر ان سیکشنز میں واضح کیاگیا کوئی شخص نہیں ہوسکتا اور اس کا قصور وار یا بے گناہی سے متعلق خیال مخصوص معاملے میں نہیں ہوسکتی ۔مذکورہ سیشن جج کو یہ ادراک ہو ا کہ تحقیقاتی افسر کا خیال قانونی ثبوت نہیں تھا اور کوئی بھی عدالت اس کی بنیاد پر فائنڈنگ نہیں دے سکتی ۔ہم نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس کیس میں تحقیقاتی افسر کو سیشن جج کی جانب سے اجازت دی گئی کہ پبلک پراسیکیوٹر کے کردار کو قبول کرلے ،کیس کو گواہی کی بنیاد پر بنایاجائے گا اور اسے قانونی طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے گا۔
درگاہی وغیرہ منعم ہوگا PCL1958LHR300 کے پیراگراف 22F اور 23F میں بنایا گیا ہے کہ ہم نے معزز سیشن جج کے فیصلے کو احتیاط سے پڑھا اور اس کی عملدرآمد سے متعلق رولنگ کو تلاش کرنے میں بے کار میں کوشش کی ایب رائٹس کی بریت کا حکم عدالتی فیصلہ پر انحصار نہیں کرتا جو کہ نقاط کہیں کے تھے لیکن معزز سیشن جج بھول گئے کہ انہوں نے اپنی سوچ پر تفتیشی افسر کو حاوی کرنے دیا اور شہادت کے قانون کے مطابق ہماری آرا غیر ضروری اور قابل قبول نہیں ہوتی جبکہ جب کوئی تفتیشی افسر کسی ملزم کے گناہگار ہونے اور بے گناہی سے متعلق اپنی آرا قائم کرتا ہے تو وہ اسے سیکشن B9 ص 2کے تحت اس ملزم کو ضمانت دے سکتا ہے اسے اس جرم سے ڈسچارج کرسکتا ہے لیکن جب چالان عدالت میں آ جائے تو اس کے بعد یہ اختیار عدالت کے پاس ہوتا ہےۃ کہ وہ کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق ہو تو وہ مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے لیکن ہم نے ایسی کوئی سکشین اور عدالتی فیصلہ نے دیکھا جس میں تفتیشی افسر کی آرا کو تسلیم کیا ہو کسی کی رائے اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک شہادت ایکٹ کے سیکشن 41-45 میں بیان کئے گئے واقعات سے مطابقت رکھتی ہو اور تفتیشی افسر وہ بندہ نہیں ہے جو کہ کسی کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق حقیقت سے مطابقت رکھتا ہو اور معزز سیشن جج اور نہ .ۜ اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔پیراگراف۔23۔کسی جوڈیشل افسر کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جوڈیشل مائنڈ کو تفتیشی افسر کی آرا سے منسلک کرے کسی مجرم کی بے گناہی اور اس کا گناہگار ہونے سے متعلق معاملہ قانون کے مطابق ہی قابل قبول ہونا چاہئے اور اب یہ انتہائی خطرناک ہوگا کہ پولیس آفیسرز کی رائے پر انحصار کیا جائے تو اس سے ایسا ہی لگے گا کہ لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد متزلزل ہوا ہے ہمیں عدلیہ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ صاف شفاف انصاف کیلئے کسی حلف نامے پر کام کرے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں سیشن جز صرف قانون کے مطابق فیصلے کرسکے۔11۔ الطاف حسین وغیرہ بمع سرکار PLD2000LHR216میں بتایا گیا ہے کہ اگر تفتیشی آفیسر کی آراء حقیقت سے مطابقت رکھتی ہے تو اسے ایکسپرٹ رائے تصور کرتے ہوئے حقیقت سے قریب ترین تصور کیا جائے، اس طرح آراء سے کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن یہ کیس کو کمزور ضرور کرتی ہے۔ پراسیکیوشن میں چھوٹا سا کریک بھی مجرم کوفائدہ دیتا ہے اور ملزم کو دی جانیوالی رعایت ہمارے روایتی طریقہ تفتیش کیخلاف ہے۔12۔رائو عبدالجبار خاں بنام لاہور ہائیکورٹ لاوہر بعنوان PLD2013SC472کے پیرا گراف 4B میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک سیٹلڈقانون ہے کہ تفتیشی افسر کی کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہنگار ہونے سے متعلق عدالت کو رائے پابند نہیں ہے۔PLD2002LHR261میں لاہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ پولیس افسران کی شہادت کو فیصلے کے وقت دیکھا جائیگا، کسی مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہنگار ہونے سے متعلق رائے شہادت میں قابل قبول نہیں ہے لیکن یہ اس وقت ہی مانی جا سکتی ہے جب فیصلہ کوئی فراہم کیا جائے جیسا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے الطاف حسین وغیرہ بنام سرکار میں بتایا ہے۔بعنوان حاجی محمد حنیف بنام سرکار PCD 1992 LHR314 کے پیراگراف 25 اور 27 میں بتایا گیا ہے تفتیشی افسر کا کسی خاص مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہگار ہونے سے متعلق رائے صرف رائے کا اظہار ہو سکتی ہے جو کہ غیر ضروری اور ناقابل قبول شہادت ہے۔ کیس کے واقعات سے متعلق کوئی رائے قائم کرنا عدالتی معاملہ ہے جو کہ صرف اور صرف عدالت ہی کر سکتی ہے اور اگر کوئی گواہ واقعات سے متعلق بتانے کے علاوہ اپنی رائے جو اس نے 3 چیزوں کو محسوس کرتے ہوئے بنائی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دے سکتا ہے۔14شاکر بنام سرکار PCD2015 Pesh 157 کے پیراگرف 45 میں بتایا گیا ہے کہ سیکشن161ض ف 1898کے تحت کسی مجرم یا کسی پراسیکیوشن کے گواہ کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ معاون مجرم کے خلاف بھی ثابت نہیں کی جائے گی۔ قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 43 کے تحت جب کوئی مجرم کوئی اقبال جرم کرتا ہے تو وہ صرف اقبال جرم کرنے والے مجرم کے خلاف ہی ثابت ہو سکتا ہے اگر ان کو ایک ساتھ ٹرائل کیا جا رہا ہو تو لیکن دوسروں کے خلاف صرف Consider کیا جا سکتا ہے۔ 15، اکمل بنام سرکار 1997MLD 1253 کے پیراگراف4 میں بتایا گیا ہے کہ 161 ض ف کے تحت ریکارڈ کیا گیا بیان ناصرف اس کے دینے والے کے خلاف قابل قبول ہے بلکہ معاون مجرم کے خلاف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 16، محمد احمد بنام سرکار 2010 SCMR 660 کے پیراگراف 37-Qمیں کہا گیا ہے کہ کسی مجرم کو بے گناہ اور گناہگار ہونے سے متعلق صرف اور صرف عدالت کا اختیار ہے۔ یہ کسی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ملازم کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اگر یہ اختیار پولیس افسران کو دے دیا جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ سیکشن 155-157 اور 174ضابطہ فوجداری پولیس آفیسر کو کیس میں صرف اور صرف تفتیش تفتیشی آفیسر کا کام کیس میں صرف ثبوت اکٹھا کرنا ہیں اور ان ثبوتوں کو عدالت کے حوالے کرنا ہے۔ گزشتہ 110 سال سے جب سے فوجداری ضابطہ وجود میں آیا ہے کسی تفتیشی افسر کو ایکسپرٹ نہیں تسلیم کیا گیا کہ وہ کسی مجرم کو بے گناہ اور کسی مجرم کو گناہگار ثابت کر دے۔17، عبدالحمید وغیرہ بنام سرکار PLD PcrL-T LHR 895 کے پیراگراف 10-A,Bمیں بتایا گیا ہے کہ کیا کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق پولیس افسر کی رائے شہادت بھی قابل قبول ہے؟ تو اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق پولیس آفیسر کی رائے قابل قبول نہیں ہے اور عدالت کیس کو قانونی طور پر دستیاب شہادت پر فیصلہ کرے۔ بعنوان محمد احمد وغیرہ بنام سرکار میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ جائزہ لیا تھا کہ کسی بھی مجرم کو بے گناہ کرنے اور اسے گناہگار ٹھہرانے کا پورا اختیار عدالت کا ہے جس کی اجازت کسی طور پر بھی پولیس ملازمین کو نہیں دی جا سکتی۔ 18، 13-Aآغا وزیر عباس وغیرہ بنام سرکار کے پیراگراف 13-A,B اور 14 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فیصلہ مکمل طور پر دستیاب شہادت کے پرکھنے کی بنیاد پر دیا جائے۔ یہ عدالت کا بندھا ٹکا اصول ہے کہ کسی مجرم کو بری کرنے کا فیصلہ صرف دستیاب شہادت کو نہ پرکھنے اور نہ دیکھنے پر تبدیل کیا جائے۔ معزز وکیل استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ بریت کے فیصلہ سے کسی کے قانونی ورثاء کو کوئی بیماری ہے۔ 19،13-B، اشتہاری مہرمل جگوانی کی جانب سے چیئرمین نیب کو لکھا گیا خط قابل قبول شہادت نہیں ہے۔ قانون شہادت آرڈر کے آرٹیکل 43 کے مطابق اسے اقبال جرم کا بیان نہیں تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس بیان کو آرٹیکل 46 کا بیان مانا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 43کے مطابق جب کسی کیس میں ایک مجرم سے زیادہ کا اکٹھا ٹرائل ہو رہا ہو تو ان میں سے کوئی ایک اعتراف جرم کرتا ہے اور وہ ثابت بھی ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں کیخلاف CIRMUTANCUAL شہادت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اشتہاری مجرم اورمہرمل جگوانی کی طرف سے بھیجا گیا خط کیس میں بطور اعتراف جرم نہیں جانے جائیگا اگر وہ ابھی تک اشتہاری ہو اور نہ ہی دوسرے ہمراہی ملزمان کیساتھ اس کا کیس ملا ہو۔حتیٰ کہ اگر آرٹیکل 48کو صرف پڑھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بیان صرف ان افراد کا ہے جو وفات پا گئے یاجو مل نہیں سکتے یا جن کی تلاش نہیں کی جا سکتی ہے لیکن اس کیس میں مجرم مہرمل جگوانی زندہ بھی ہے اور انڈیا میں موجود بھی ہے۔ اس وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی مجرم کا اعتراف جرم لینے سے متعلق سیکشن 364,164صفحات میں مکمل پروسیجر دیا گیا ہےجو اس کیس میں نہیں ہے۔مندرجہ بالا خط کو سیکشن 364,164کے مطابق لئے گئے بیان کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا حتیٰ کہ ملزم کا زبانی بیان بھی اگر اسے تفتیشی افسر کی جانب سے تحریر کیا گیا ہو تو اس کا پروسیجر بھی اس کیس میں موجود نہیں ہے ۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر انوسٹی گیشن ایف آئی اے P.W.A.D KHUWJAکی جانب سے دیاگیا خط کسی بھی بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی اسےپیش کرنے کا مجاز تھےیہ مندرجہ بالا دستاویزات جیسا کہ رسید اور لفافہ جو کہ FEDEX OFFICEپاکستان میں موصول ہوا بھارت سے بھیجا گیا لیکن اس دفتر سے کوئی بھی ا س کی وصولی جرم ثابت نہیں کر پائے۔حتیٰ کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر FIAکا پتہ بھی اس کے اوپر نہیں لکھا ہوان تھالیکن ریکارڈ دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس خط کو نوٹری پبلک ممبئی انڈیا نے تصدیق کیا ہوا ہےاور اس کے دستخط گورنمنٹ مہاراشٹر کے سیکشن افسرہوم ڈیپارٹمنٹ نے ویری فائی کیا ہے۔اب تک یہ کسی بیرون ملک کا جوڈیشل ریکارڈ نہیں ہے اس لئے اسکا اصل ہونا اور حقیقی ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔انڈیا میں پاکستان ایمببی نے بھی اسے تصدیق نہیں کیا او ر نہ ہی کسی پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔اس لئے اسے کسی بھی صورت قابل قبول دستاویزی شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ قابل سماعت ہونے اور دستاویزات کے ثبوت کے حوالے سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ جو درج ذیل ہیں 1- 2010 سی ایل سی 722 سید امداد حسین شاہ بنام سید مخدوم حسین رضا کاپیرا 11جی تصدیق شدہ نقل وہ ہے جو پبلک ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس اتھارٹی نے جاری کی جسے رجسٹر یا اصل دستاویز سے موازنہ کرکے جاری کرنے کا اختیار ہے۔ صرف یہ بات کافی نہیں کہ دستاویز پر نقل کنندہ یا سیکرٹری یونین کونسل کے دستخط نظر آ رہے ہیں جب تک کہ تصدیق شدہ نقل پیش نہ کی جائے اور وہ اصل ریکارڈ سے ثابت شدہ نہ ہو۔ محمد اسلم کے کیس 2000ایم ایل ڈی کے متعلقہ حصے میں کہا گیا ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ’’ڈس پلیڈ‘‘ کا لفظ ایک بالکل مختلف صورتحال کیلئے ہے۔ متاثرہ شخص ضروری نہیں کہ ڈس پلیڈ پرسن ہو۔ مدعا علیہان کے فاضل وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ مدعا علیہان نے ترمیم کی درخواست دائر کرتے ہوئے سرٹیفکیٹس کے قانونی اور اصلی ہونے اور ان کے قبول کئے جانے پر اعتراض کیا تھا۔ ان کا جواب مورخہ 7نومبر 1992ء صفحہ 182پر ریکارڈ میں ہے۔ فاضل وکیل نے یہ بھی کہا کہ سرٹیفکیٹ ’’قانون شہادت آرڈر‘‘ 19861 کے آرٹیکلز 87 اور 89 کے مطابق تصدیق شدہ نہیں تھے اور 1991سی ایل سی صفحہ 1201پر انحصار کیا گیا۔ جہاں قراردیا گیا کہ دستاویزات کی تصدیق قانون شہادت کی متعلقہ شقوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ایسی دستاویز پر انحصار نہیں کیا جا سکتا جو ان کے مطابق تصدیق شدہ نہ ہو۔ پی ایل ڈی 1962 لاہور 92 پر انحصار کیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ صرف شہادت ایکٹ کی دفعہ 76 (آرٹیکل 87 قانونی شہادت آرڈر 1984) کے مطابق تصدیق شدہ نقل ہی تصدیق شدہ نقل مانی جائے گی اور نقل پر صرف نقل کنندہ اور تصدیق کنندہ کے دستخط کافی ہیں۔ اصل اور درست نقل لکھنا بھی ضروری ہے۔ 2- 1991سی ایل سی 1201 (لاہور) محبوب علی اور دیگر تمام شریفاں بی بی و دیگر 21 3- پی ایل ڈی1962 (ڈبلیو پی) لاہور 492خضر محمد و دیگر بنام غلام محمد و دیگر 4- فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003 ورجن آئی لینڈ 5- 1995سی ایل سی (153پشاور) جنرل منیجر ایچ بی ایف سی و دیگر بنام علی رحمٰن پیرا 13جی اور 14میں کہا گیا ہے اس کیس میں دستاویز کے گواہ اور تحریر کنندہ پر جرح کی گئی لیکن اپیل کنندہ فضل محمود نے دونوں دستاویزات پر اپنے دستخط سے انکار نہیں کیا قانون شہادت کی دفعہ 3میں لفظ Provedجب دستاویزات کیلئے استعمال کیا جائے تو اسے اس ایکٹ کے سیکشن 67کے ساتھ پڑھا جائے۔ اس لئے کوئی دستاویز اس وقت تک ایویڈنس ایکٹ کے مطابق Proved نہیں سمجھی جائے گی۔ جب تک یہ شہادت نہ ہو کہ دستخط واقعی دستاویز لکھنے والے کے ہی ہیں۔ قانون کی نظر میں دستاویز تصدیق شدہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ تصدیق کے ساتھ اس کے متعلقہ کے لکھنے کا ثبوت بھی ضروری ہے۔ اس لئے ہماری رائے ہے کہ تحریر کنندہ اور تصدیق کرنے والے گواہ کی شہادت کے علاوہ تحریر اپنے وا لے اپیل کنندہ فضل محمود سے بھی پوچھا جائے کہ کیا دستاویزات پر دستخط اسی کے ہیں۔ اگر وہ لاتعلقی ظاہر کرے تو قانون شہادت پر عمل کرتے ہوئے فضل محمودکے دستخطوں کی تصدیق کیلئے ایک یا زیادہ طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ کسی دستخط یا تحریر کی تصدیق کیلئے قانون شہادت کا تسلیم شدہ طریق کار درج ذیل ہے۔ (I) اس شخص کو طلب کرکے جس نے دستاویز لکھی یا اس پر دستخط کئے۔ (II) ااس شخص کو طلب کرکے جس کی موجودگی میں دستاویز لکھی گئی اس پر دستخط کئے گئے۔ (III) ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کو طلب کرکے (IV)ایسے شخص کو طلب کرکے جو مذکورہ دستاویز لکھنے والے یا اس پر دستخط کرنے والے کی تحریر سے واقف ہو۔ (V) تحریر کرنے یا دستخط کرنے والے کے تسلیم شدہ دستخط اور تحریر کے عدالت میں متنازعہ تحریر یا دستخط سے موازنہ کرکے (VI) تحریر کرنے یا دستخط کرنے والے کے اس بات کے اعتراف کرے۔ (VII) کوئی شخص تصدیق کرے کہ اس نے تحریر کرنے والے کی درخواست پر اس پر دستخط کئے (IX) کسی دوسری واقعاتی شہادت سے۔ 6۔ 1996سی ایل پی 74(کراچی نیشنل بینک آف پاکستان V) کسی دستاویز کی تصدیق کا طریقہ کار یہ ہے کہ اول دستاویز کے مسئولات قانون نہیں ہے۔آرٹیکل 72سے 76 کے مطابق پرائمری یا ثانونی شہادت سے ثابت ہوں۔ دوم یہ کہ دستاویز کے مسثولات کا ثبوت اس کے تعین کرنے کا ثبوت نہیں ہے۔ ایسے آرٹیکل 76 کے تحت دستخط یا تحریر سے ثابت ہونا چاہئے۔ سوم یہ کہ کسی دستاویز کا حصہ ہونا قانون شہادت میں رہنے کے طریقہ دے یا دستاویز کے مشمولات یا ریکارڈ پر موجود دوسری دستاویزوں سے ثابت ہو جو عدالت اپنی صوابدید کے مطابق کافی سمجھے۔7۔ 2004 کی آر ایل جے 371 (فیڈرل شریعت کورٹ) محمد ارشد نسیم بنام سٹیٹ پیرا8اے اور بی ہم نے فریقین کے وکلاء کے دلائل کا بغور جائزہ لیا ہے اور ان کی اعانت سے ریکارڈ کا معائنہ کیا ہے۔ وہ درخواست جس میں مدعی کے خلاف زنا کا الزام لگایا گیا پیش نہیں کی گئی۔ قانوناً جو شخص کسی دستاویز پر انحصار کرتا ہے اسے ثابت کرنا اس کا کام ہے۔ قانون شہادت آرڈر1984ء کا آرٹیکل72 کیا ہے کہ دستاویزات کے مشمولات پرائمری یا سیکنڈری شہادتوں سے ثابت کیے جا سکتے ہیں جبکہ آرٹیکل73 میں بتایا گیا ہے کہ پرائمری شہادت کا مطلب خود وہ درخواست ہے جو عدالت کے معائنے کیلئے پیش کی گئی اورآرٹیکل 75 کا تقاضا ہے کہ دستاویز لازماً ثابت کی جائے ماسوائے ان معاملات میں جن میں سیکنڈری شہادت دی جا سکے یہ نوٹ کی جائے کہ عدالت کے ریکارڈ یا کہیں اور موجود دستاویزات کا تعلق حقائق کے سلسلے میں جائزہ لیا جا سکتا ہے لیکن جب تک ان کی تصدیق نہ ہو جائے انہیں شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دستاویزات خود ایسا ثبوت نہیں ہوتیں اور محض عدالت میں پیش کر دینے سے ان کی مشمولات درست ثابت نہیں ہو جائے ا س لیے و ہ دستاویزات جن پر کوئی فریق انحصار کر رہا ہے پہلے عدالت میں پیش کی جائیں اور پھر گواہوں کو بلا کر ان کی تصدیق کی جائے۔ اس سلسلے میں ہماری رائے کو مندرجہ ذیل رپورٹڈ فیصلوں سے تقویت ملی ہے۔(i)عبدالقیوم بنام محمد رفیق2002ء ایس سی جے300،(ii)محمد اعظم بنام محمد اقبال وغیرہ(iii)فضل محمد بنام مسماۃ چھوہارا وغیرہ،1992ء ایس سی ایم آر2182، (iv)بشوا ناتھ بنام سچیدہ آنند اے ڈی آر1971ء ایس سی 1983 ممبئی 1 اور (v)راج ولی الدین بنام جوائنٹ ڈائریکٹر کنسالیڈیشن حکومت بہار سٹیٹ اے آئی آر1989ء پٹنہ66،8۔پی ایل ڈی2016ء لاہور570 ریحانہ انجم بنام ایڈیشنل سیشن جج پیرا9ایف،کوئی دستاویز بطور شہادت پیش کرنا، اس کے مشمولات ثابت کرنے سے مختلف بات ہے، کسی دستاویز کے بطور شہادت قبول کر لینے سے پیش کرنے والا آرٹیکل79 کے تحت اسے ثابت کرنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002کے تحت الیکٹرانیکلی تیار کردہ دستاویزات پر دستخط کی ضرورت نہیں، کوئی دستاویز پیش کرنا اور دستاویز کا ثبوت دو الگ الگ باتیں ہیں۔ کوئی دستاویز بطور شہادت پیش کی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ آرٹیکل 78کے تحت تفصیلی ثابت کی جائے۔ ایسا نہ ہو تو اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیکو لیگل رپورٹ یا بنکروپسی رپورٹ لکھنے والے میڈیکل آفیسر کو اس کا ایک ایک لفظ ثابت کرنا ہوتا ہے کیونکہ دفعہ 510ض ف کے تحت نہیں آتی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے کیمیکل ایگزامینر یا اسسٹنٹ کیمیکل ایگزامینر، چیف کیمسٹ سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن لمیٹڈ، کسی سیرولوجسٹ یا حکومت کے مقررکردہ فنگر پرنٹ یا فائر آرم ایکسپرٹ کی رپورٹس انہیں بلائے بغیر بطور شہادت قبول کی جا سکتی ہیں البتہ عدالت انصاف کے تقاضے کے تحت ضروری سمجھے تو انہیں بلا بھی سکتی ہے۔ 9۔ پی ایل ڈی 1973سپریم کورٹ 160خان محمد یوسف خاں خٹک بنام ایس ایم ایوب... فارم ای (ایگزیبٹ پی ای) جو کمپنی نے کمپنیز ایکٹ کی دفعہ 32کے تحت رجسٹرار آف جائنٹ سٹاک کمپنیز کو جمع کرایا ہے اس میں خان محمد یوسف خٹک کو 31دسمبر 1970کو بھی کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ظاہر کیا گیا ہے۔ اس فارم میں یہ سرٹیفکیٹ بھی ہے۔ ’’میں محمد یوسف خاں خٹک تصدیق کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا فہرست اور سمری ان حقائق کو بالکل درست بیان کرتی ہے جو 31دسمبر 1970کو تھے۔ (دستخط) محمد یوسف خٹک منیجنگ ڈائریکٹر۔‘‘ جب میں کہتا ہوں کہ دستاویز (پی ای) غیر تصدیق شدہ ہے تو میرے ذہن میں قانون شہادت کی دفعہ 67ہے، اگر مدعا علیہ کا موقف یہ ہے کہ دستاویز پی ای اور اس کے ساتھ سرٹیفکیٹ پر اپیل کنندہ نے دستخط کئے تھے تو یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ دستخط اپیل کنندہ کے ہی ہیں لیکن اس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بنگل فرینڈز اینڈ کمپنی بنام گور ہنوڈ سہا اینڈ کمپنی کے کیس میں اس عدالت نے یہ نکتہ اس طرح بیان کیا تھا۔ ’’عدالتی ریکارڈ کی نقول کے سوا کوئی دستاویز دستخط اور تحریر کے ثبوت کے بغیر بطور شہادت قبول نہ کی جائے‘‘ میرا خیال ہے کہ اگر ایسی دستاویزات کی نقول ریکارڈ پر لائی جائیں اور ان پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا جائے تو انہیں تصدیق کے بغیر سیکشن 67کے مطابق بطور شہادت قبول نہ کیا جائے۔ اگر نقل کی بجائے اصل فارم ای پیش کیا گیا ہو جو پرائمری شہادت ہو سکتی ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے کہ دستخط اور تحریر اصلی ہے۔ اسے غلط ثابت کرنا مخالف فریق کی ذمہ داری ہو گی۔ فارم ای لکھنے والے اور دستخط کرنیوالے پر شک کے پیش نظر یہ ضروری نہیں کہ اس موقف کا جائزہ لیا جائے کہ اس میں اپیل کنندہ کا یہ اعتراف موجود ہے کہ وہ 31 جنوری 1971تک کے کے اینڈ کمپنی لمیٹڈ پر منیجنگ ڈائریکٹر رہا تاہم کمپنیز ایکٹ کے سیکشن 32کے تحت الیکٹرانک ٹربیونل اور ہائی کورٹ نے اس دستاویز پر پورا انحصار کیا ہے۔ ہمارے روبرو یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ایگزیبٹ پی ای ایک جعلی دستاویز ہے جسے چوری چھپے ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ اسے قانون شہادت کے سیکشن 145کے مطابق قانون شہادت ثابت نہیں کیا گیا اس لئے اسے اپیل کنندہ کیخلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دستاویز کی قانون کے مطابق تصدیق نہیں ہوئی، میں سمجھتا ہوں کہ واقعی سیکشن 67اور 47پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ یہ دستاویز رجسٹرار جوائنٹ سٹاک کمپنیز پشاور کے ایک افسر نے ٹربیونل میں پیش کی لیکن اپیل کنندہ کی تحریر اور دستخط کے بارے میں کوئی شہادت ریکارڈ پر موجود نہیں۔ دستاویز پیش کرنے والے افسر سے اس بارے میں کوئی سوال یا جرح نہیں کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے بھی اپیل کنندہ کے تحریر اور دستخط سے واقف ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس تاریخ کو یہ دستاویز پیش کی گئی اپیل کنندہ خود عدالت میں نہیں تھا اس کا وکیل موجود تھا تاہم 19فروری 1972کو دلائل مکمل ہونے کے بعد 28فروری 1972کو اپیل کنندہ کی طرف سے الیکشن ٹربیونل میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیبٹ پی ای کو اس بنیاد پر ریکارڈ سے نکال دیا جائے کہ یہ تصدیق شدہ نہیں اور سی پی سی کے آرڈر XIII کی پابندی نہیں کی گئی۔ ٹربیونل نے درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ اپیل کنندہ کے فاضل وکیل نے دلائل کے دوران دستاویز کو تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ اپیل کنندہ نے اس پر غلطی سے یا غیر قانونی طور پر دستخط کئے ہوں گے۔ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک رجسٹرڈ شدہ ڈیڈ بذاتِ خودکسی ثبوت اوراس کےذریعےلین دین کی اصلیت کے بغیر کوئی حق نہیں دیتی۔ اسی طرح کوئی تبدیلی جو ریونیوریکارڈ میں کی گئی ہو وہ بھی لین دین کی حقیقت کو ثابت کرنےکیلئے کافی نہیں ہےیہاں تک کہ لین دین کی حقیقت ثابت ہوجائے۔ اس تجویز کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ دستاویزات پبلک ریکارڈ کاحصہ ہونے کے ناطے ثبوتوں میں قابلِ قبول ہیں لیکن وہ اپنی طاقت میں اپنی اصلیت اور اس کی تعمیل ثابت نہیں کرسکتے جس کےبارےمیں وہ ہےحتٰی کہ ان میں کی گئی ٹرانزیکشن کسی آزاداورقابلِ اعتماد ذریعےسےکی گئی ہو۔ دستاویز کی اصلیت اور حقیقت جانچنےکیلئےقانونی طورپرقابل ثبوت ہونا چاہیے۔ اس سے قبل ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے عدالت میں زیرسماعت درخواست اور عذربھی مدعی کے خلاف اٹھائے گئے تھے ۔لیکن ہمیں پتہ لگا کہ ہائی کورٹ نے انھیں اطمنان بخش طریقے سے حل کرلیا کیونکہ یہ کہاگیاتھاکہ استغاثہ نے جن دستاویزات پرانحصار کیا وہ دھوکے پر مبنی تھے اور لہذا ان کی بنیاد پر حالیہ مقدمے کو عدالت میں کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا یا مدعی کے خلاف عذرعارضی کااصول اپلائی نہیں ہوسکتا۔ 111992MLD283 (کراچی)،عنوان صدرِ پاکستان بمقابلہ بے نظیر بھٹو: اب یہ مان لیاگیاہے کہ حتٰی کہ جہاں ثبوتوں میں کوئی دستاویز قبول کیاجاتاہے اور واضح طورپر دکھایاجاتاہے کہ وہ واقع بذاتِ خود سچائی اور ایمانداری کےمعیارپرپورانہیں اترتا اگرچہ مواد خودغیرمشروط طورپر ثابت کیاجائےاور وہ سب کچھ ہوگا جو کیس کیلئےضروری ہے۔ مثال کے طورپر جہاں دستاویز میں کوئی قصہ بیان کیاگیاہو یا کسی تنازع میں پارٹیوں کیلئے کوئی شرائط بیان کی گئی ہوں جیساکہ کسی معاہدے میں کوئی ڈیڈ یا کوئی اور باہمی انتظامات کیلئے۔ جب کسی مصنف کے ذریعے کوئی دستاویز پیش کیاجاتاہے یا کسی اور قابل اجازت طریقے سے اور کارروائی کے دوران دکھایاجاتاہے تو مصنف یا گواہ جراح کیلئے کھلا ہوتا ہے اور مواد کی درستگی پرجراح کےدوران سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح محض یہ حقیقت کہ ایک دستاویز کو ثابت کیاگیاہے اور دکھایاگیاہے اس سے اس کی مطابقت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ مطابقت ایک قانونی چیز ہےجو پیش کیے گئے حقائق سے سامنے آتی ہے۔ اسی طرح کسی دستاویز کی مطابقت اور ثبوت جب یہ اپنے کردار میں مختلف چیزیں ہیں اسی دوران عام طورپر اس میں کوئی چیز شامل نہیں ہوتی جس سے ان میں دونوں کسی ایسےدستاویزاصلیت ثابت کرسکیں جسے الگ طور پر زبانی ثبوت کےذریعےمناسب طریقے سےپیش کیاگیاہو ۔حتیٰ کہ جہاں کسی بھی قابلِ اجازت طریقے میں کوئی دستاویز مرضی سےقبول کیاجاتاہے اس کے مواد کی درستگی پر بھی قبولیت لاگو ہوتی ہے۔ تاہم مطابقت ہمیشہ کیس کےحقائق اورقانونی شرائط کےذریعےہوتی ہے۔ 12. 2017CLC (سندھ (سکھر بنچ) یورس بمقابلہ زاور حاجی اور 3دیگر پیرے13(سی) اور (ڈی) یہاں دوبارہ پیش کیے جارہے ہیں: قانون شہادت آرڈر1984کا آرٹیکل 72کہتا ہے کہ کسی دستاویز کامواد کسی پہلے یا دوسرے ثبوت کے ذریعے ثابت کیاجاسکتاہے۔ قانون شہادت کے آرٹیکل 73میں پرائمری ثبوت کی تعریف کی گئی ہے کہ دستاویز خود عدالت میں معائنے کیلئے پیش کیےجائیں۔ جبکہ سیکنڈری ثبوت کی تعریف قانون شہادت کےآرٹیکل 74میں اس طرح کی گئی ہے جس کا مطلب ہے اور اس میں اصل کی نقول یا اس کا موازنہ شامل ہو۔ (d) قانون شہادت کاآرٹیکل 78 کہتا ہے کہ اگر کسی دستاویز پر دستخط کا الزام ہو یا مکمل طورپرلکھاگیاہو یا کسی شخص کی جانب سے کچھ حصوں میں لکھا گیاہوتودستاویز پر دستخط یا لکھائی اسی شخص کی ہونی چاہیے اور اسے ثابت کرناضروری ہے۔ جبکہ قانون شہادت کا آرٹیکل 79 کہتا ہےکہ اگر قانونی طورپر کسی دستاویز کی تصدیق کی ضرورت ہو تو اسے ثبوت کے طور پر استعما نہیں کیاجاسکتا جب تک کم از کم دو تصدیق کرنے والے گواہان اس کی تصدیق کیلئے پیش نہ ہوں۔ دوسری جانب قانون شہادت کاآرٹیکل 80 کہتاہے کہ اگر تصدیق کیلئے کوئی دو گواہان نہ مل سکیں تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ گواہان یا تو مر گئے ہیں اور یا مل نہیں سکتے اور دستاویز کسی ایسے شخص کی جانب سے پیش کیاگیاہے جو کہتا ہے کہ اس نے یہ کیاہے۔ یہ بھی جمع کرایاگیا کہ جرم کی نوعیت کا حوالہ عبوری ریفرنس 9(a)(iv)(v)(xii) NAO1999 یہاں جمع شدہ شیڈول کے سیریل نمبر 2 میں دیاگیاہے۔ 9(a)(iv) کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ضمنی ریفرنس میں تبدیلی کا ذکر کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل ارادے کے ساتھ انتظامیہ سے رجوع کیا ہےکہ پراسیکوشن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ 14(c)CrPCکے تحت ملزم پر ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالنے سے پہلے وہ جرم کے مندرجات ثابت کرے۔ جرم کے مندرجات یہ ہیں: (i) یہ ثابت ہوناچاہیے کہ ملزم کسی عوامی عہدے پر تھا۔ (ii) جائیداد کے حصول کے ذرائع اور ان کی نوعیت جو ان کی ملکیت میں پائے گئے۔ (iii) یہ ثابت کرناہوگا کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی پراسیکیوشن نے مکمل تحقیقات کے بعد پتہ لگائے۔ (iv) یہ غیرجانبداری سےثابت کرناہوگاکہ یہ وسائل یا ملزم کی ملکیت میں پائی گئی جائیداد کا اس کی آمدنی کے ذرائع کے ساتھ مطابقت نہیں ہے۔ 2011SCMR 136 عنوان خالد عزیز بمقابلہ ریاست،اس میں یہ کہاگیاہے کہ کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کو جرم کے مندرجات ثابت کرناضروری ہے، جہاں (1) یہ ثابت کرنا ضروری ہو کہ ملزم کے پاس کوئی عوامی عہدہ تھا۔ (2) جائیداد کےمالی ذرائع کی نوعیت اور حد جہاں اس کی ملکیت میں پائے گئے ہوں ۔ (3) یہ بھی ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی جنھیں پراسیکیوشن نے مکمل تحقیقات کےبعد پتہ لگائے ہوں۔ (4) یہ غیر جانبداری سےثابت کرناہوگا کہ ایسے ذرائع یا جائیداد جو ملکیت میں پائی گئی ہووہ اس کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایک بار جب یہ چار مندرجات ثابت ہوجائیں تو (v)(a)9میں بتایاگیا جرم مکمل ہوجائے گا تو جب تک ایک ملزم ایسے وسائل یاجائیداد کو شمارکرنےکےقابل نہیں ہوتا۔ لہذا محض ایسے مالی وسائل یا جائیداد کامالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں ہے، لیکن ایسے مالی وسائل یا جائیداد کا تسلی بخش شمار نہ ہونا ناکامی ہے جس کی وجہ سے ملکیت قابل اعتراض اور جرم بنتی ہے۔ اگر وہ واضاحت نہیں کرسکتا جیسا کہ آرڈیننس کی شق 14(c) میں کہاگیاہے کہ ملزم کرپشن اور بدعنوانی کا مجرم ہے۔ بسوا بھوشن نائک بمقابلہ ریاست (ائیر1954سپریم کورٹ 350) کا حوالہ دیاجارہاہے جس میں اسی طرح کی انسداد کرپشن ایکٹ 1947کی تشریح کی گئی تھی۔ اسی طرح کے نظریات فرخ جاوید گھمن اورریاست مہارشٹرا سپرا کے مقدمات میں بھی پیش کیے گئے تھے۔ لہذا یہ واضح ہے کہ استغاثہ کوثابت کرناہوتاہے مذکورہ بالاچارمندرجات اور پھر اپنی ملکیت کو ثابت کرنے کا بوجھ اپیل کرنےوالے پر منتقل ہوجاتاہے جیساکہ آرڈیننس کی شق(c) 14 میں کہاگیاہے۔...قانون نے قومی احتساب آرڈر 1999کی دفعہ 9اے کی سب دفعہ 5کے تحت جرم کے ارتکاب کا تعین کر دیا ہے ،استغاثہ کو ملزمان کی ملزمان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اورایک مخصوص وقت کے دوران ثابت کرنا تھا کہ یہ اثاثوں کے مطابق ہیں کہ نہیں جس کیلئے استغاثہ کی طرف سے مناسب تفصیلات مہیا کرنے کے بعد ملزمان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اثاثوں کو قانونی ہونا ثابت کریں جس میں وہ ناکام رہے ،مذید یہ کہ مقدمے میں آمدنی کے ذرائع کو کبھی بھی سامنے نہیں لایا گیا جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملزمان کے اثاثے غیر قانونی ہیں ۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ مذکورہ مقدمے کے تفتیشی افسر سمیت استغاثہ کے ذمہ دار لوگ اپنی نااہلی کے باعث مقدمہ میں ضروری کام نہ آسکے اور مقدمے کے قابل اعتراض پہلو کو آشکار نہ کیا ۔ریفرنس کے مطابق ملزم اس کی اہلیہ اور بیٹوں کے نام اثاثے جن کی مالیت 5کروڑ15لاکھ35ہزار روپے بنتی ہے ذرائع آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے ،اپیلنٹ کی بیوی اور اس کے بیٹے کو اس مقدمہ میں پھنسایا گیا ،اور اپیلنٹ کی بیوی اور بیٹے کو بے نامی اورتسلیم شدہ جائیداد کیلئے معزز ٹرائل کورٹ کی طرف سے کبھی نہیں بلایا گیا تاکہ وہ اپنے حوالہ سے ملکیتی ثبوت پیش کر سکیں یا اپنی جائیداد کے بارے میں ایسے ثبوت پیش کر یں جسے حاصل کرنے کے ان کے پاس کافی ذرائع ہیں ۔2010ایس سی ایم آرعنوان محمد ہاشم بابربر خلاف ریاست اور دیگر اے بی اور سی کا حوالہ نیچے دیا گیا ہے کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ جرم کے مندرجات بھی ثابت کرے ۔1:یہ ثابت کرنا ہوگا ملزم کے پاس کوئی عوامی عہدہ ہے2:اس کی ملکیت میں پائے گئے مالی وسائل کی نوعیت اور حد3:یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں4غیر جانبداری سے ثابت کرنا ہوگا کہ وسائل یا جائیداد جوملزم کی ملکیت میں پائی گئی ہیں اس کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔مذکورہ بالا مندرجات ثابت کئے جاتے ہیں تب جرم سیکشن 9اے وی کے تحت مکمل ہوتا ہے ،حتیٰ کہ ملزم ایسے ذرائع اور پراپرٹی کو شمار کرنے کے قابل نہ ہوقانونی طور پر یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ محض کوئی بھی مالی وسائل یا جائیداد کا مالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں لیکن مالی وسائل یا جائیدادکا شمار کرنے میں ناکافی قابل اعتراض اور جرم ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ملزم یہ ثابت نہیں کر سکتا یعنی آرڈیننس کی سیکشن 14(سی) کے تحت وہ ملزم کرپشن اور بدعنوانی کا مرتکب ہے ۔ سی بسوا بھوشن نائیک برخلاف ریاست(اے آئی آر 1954 ایس سی 350) یہ ثبوت جو ریکارڈ میں لائے گئے یہ آرڈیننس کے سیکشن 14 کے مطابق تھے۔ درخواست گزار کے وکیل نے درخواست گزار کے جرم کے بارے میں فیصلے کو دیکھتے ہوئے اخراجات کی مد میں محض 14لاکھ روپےکا ذکر کیا اور وہ کسی ایسے ثبوت کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا ماتحت عدالتوں نے غلط مفہوم لیا ہو یا ان کی نظر سے اوجھل رہا ہو۔ اس سے درخواست گزارپرآنے والا بار ثبوت ختم نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ بالا رقم کے حوالے سے ذرائع کی وضاحت درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے نہیں کی گئی جس طرح کہ ماتحت عدالتوں کی طرف سے ریکارڈ کئے گئے جرم کے فیصلے سے واضح ہے۔ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جائیداد کے قبضہ و تصرف کو ثابت کرنے کے لئے بار ثبوت استغاثہ پر ہے تاکہ نیب آرڈیننس 1999 کی رو سے کرپشن کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے آمدن کے معلوم ذرائع کا پتہ چلایا جا سکے اور جب ایک دفعہ یہ بار ثبوت تسلی بخش طریقے سے ڈسچارج ہو جائے تو پھر یہ ملزم پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ اگر معاملہ کچھ اورہے تو ثابت ہو سکے اور اگر ملزم اپنے حق میں کچھ ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے تو عدالت جرم کے مفروضہ کا سوال اٹھا سکتی ہے۔ ایس سی ایم آر 2009کے صفحہ 790پر ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘ کے کیس میںجو اصول وضع کیا گیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ’’آرڈیننس کے سیکشن 14سی کی رو سے ابتدائی بار ثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہے۔ یہ اچھی طرح سے بتایا جا چکا ہے کہ الزام کے تمام لوازمات کو ثابت کرنے کا بوجھ ہمیشہ استغاثے پر ہی ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی ملزم پر نہیں ہوتا جو کہ اس وقت تک معصوم ہے جب تک کہ اس کے خلاف الزام ثابت نہ ہو سکے۔ دوسرے الفاظ میں جب تک ملزم پر لگایا گیا الزام شک کا فائدہ دے کر دھل نہ جائے یہی کہا جائے گا کہ الزام جھوٹا اور ملزم بے گناہ ہے۔ استغاثہ کو اس لئے کبھی بھی الزام ثابت کرنے سے چھٹکارا نہیں ہے اور بار ثبوت ملزم پر آتا ہے جب استغاثہ جرم کا مفروضہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ‘‘ پی ایل ڈی 2017، لاہور 27، بعنوان ’’بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد بنام سرکار‘‘ کے پیراگراف 19کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ ’’مذکورہ ثبوت اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ موقف اختیار کرتے ہوئے جھجک محسوس کر رہے ہیں کہ مذکورہ جائیدادیں صرف اس وجہ سے قبضے میں نہیں لی جا سکتیں کہ فیصلے وعدہ معاف گواہ کے بیانات پر منحصر تھے جو چیئرمین نیب کے حکم پر وعدہ معاف گواہ نہیں بنے تھے اور مذکورہ جائیدادوں کے مقدمہ میں فروخت کنندہ کو پیش نہیں کیا گیا تھا۔ مزید برآں، بے نامی دار ٹرانزیکشنز کے اجزائے ترکیبی جو ’’مسماۃ زاہدہ ستار بنام وفاق و دیگر‘‘ (پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ 408) کے مقدمے میں مذکور اصول قانون میں مقرر کئے گئے ہیں، کو پیش نہ کیا جا سکا۔ جائیداد کا قبضہ، تحریری لین دین، اور وہ حالات و واقعات جن میں بے نامی دار ٹرانزیکشنز کی گئیں، کے بارے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش کریں۔‘‘YLR,2016 2547, پیراگراف 11کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ اوپر ذکر کی گئی پراپرٹی کے حوالے سے لگائے گئے الزام کی حمایت میں دیئے گئے ثبوت کی طرف دھیان دینے سے پہلے یہ ضروری اور فائدہ مند ہے کہ نیب آرڈیننس 1999کے سیکشن 9اے (وی)کے تحت جرم کو ثابت کرنے کیلئے ضروری اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے۔ اب تک یہ ایک مسلمہ اصول مانا گیا ہے کہ استغاثے کو اوپر بیان کردہ پینل کلاز کی روشنی میں ملزم کی سزا ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اجزائے ترکیبی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔) (1)ملزم کے پاس سرکاری عہدہ ہے (2) اس نے جائیداد بنائی، اپنے نام کی یا جائیداد کو اپنے تصرف میں لا یا یا اس کا جائیداد میں کوئی مفاد وابستہ ہے۔ (3) اس کے آمدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں۔ (4)ملزم کے پراپرٹی کے قبضے پر اخراجات کیا آئے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ محض منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں اثاثہ جات اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر رکھنا نیب آرڈیننس کے سیکشن 9کے تحت ملزم کی سزا کے تعین کی ایک وجہ نہیں ہے۔ استغاثہ کو ہمیشہ بھاری بار ثبوت سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس طرح سے حاصل کئے گئے اثا ثے ملزم کی آمدن کے معلوم ذرائع سے موافقت نہیں رکھتے۔2016 پی سی آر ایل 300 بعنوان ’’سردار محمد نعیم بنام سرکار‘‘ میں ایسا ہی اصول وضع ہوا۔ 2016 پی سی آرایل جے 1343 بعنوان ’’غلام سرور خاں للوانی بنام سرکار‘‘ 2013 پی سی ایل جے 1697 اور 2007 پی سی آر ایل جے 1972(کراچی) بعنوان ’’محمد اکرم ندیم بنام نیب سندھ‘‘ کا پیرا 9کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ (1) ملزم کے پاس سرکاری عہدہ تھا۔ 2- اس کے زیر قبضہ جائیداد کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے۔ 3- اس کے آمدن کے معلوم ذرائع کیا تھے یعنی مکمل تحقیقات کے بعد استغاثہ کو کیا علم ہوا۔ (4) ملزم کے زیر قبضہ جائیداد کے ذرائع آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔2007پی سی آر ایل جے 1997 (کراچی) بعوان ’’محمد ارشاد خان بنام چیئرمین نیب و دو دیگر‘‘۔ 2007 ایم ایل ڈی 910 (کراچی) بعنوان حاکم علی زرداری بنام سرکار حوالہ جات اے بی اور سی کا خلاصہ درج ذیل ہے:۔ کیس کوثابت کرنے کے لئے استغاثہ کیلئے جرم کے اجزائے ترکیبی کو ثابت کرنا ضرور ی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :۔ (1) اسے ثابت کرنا ہوگا کہ ملزم کے پاس سرکاری عہدہ تھا (2) جو جائیداد اس کے پاس ہے اس کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے (3) یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آمدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں (4) معروضی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی جائیداد کے معلوم ذرائع کی آمدن کے معلوم ذرائع سے درست ثابت نہیں رکھے۔ جب یہ چاروں اجزئے بہتر مکمل ہوجائیں تو جرم مکمل ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے محض مالی وسائل سے جائیداد کا کہیں ہونا بذات خود جرم نہیں ہے لیکن اس جائیداد کے تسلی بخش رکھنے کے ذرائع پیش کرنے میں ناکامی سے اس جائیداد کی ملکیت یا تصرف جرم بن جاتا ہے اگر ثابت نہ کرسکے آرڈیننس کے سیکشن 14سی کے تحت کرپشن کا جرم تشکیل پاتا ہے جہاں تک جرم اور آمدن کے معلوم ذرائع کے بارے میں تیسرے اور چوتھے اجزائے ترکیبی کا تعلق ہے ’’آمدن کےمعلوم ذرائع‘‘کے الفاظ کا مفہوم یہ لیا جانا چاہیئے کہ ان ذرائع کا استغاثہ کو مکمل تحقیقات کے بعد پتہ چل چکا ہے ۔وہ معاملات قانون شہادت کے آرٹیکل 122کے تحت خصوصاً ملزم کے علم میں ہیں جو کہتا ہے کہ ’’جب کوئی حقائق خاص طور پر کسی شخص کے علم میں نہیں ہو تو اس بات کو ثابت کرنے کا بار بھی اسی شخص کے او پر ہے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ استغاثہ ذرائع آمدن کے بارے میں انکوائری یا تفتیش نہیں کر سکتا۔آرڈی نینس کی رو سے سرکاری عہدہ دو قسم کا ہوتا ہے:۔سرکاری ملازم اور دوسرے افراد جن کے پاس سرکاری عہدہ ہو۔ ان دونوں کے معاملات کو الگ الگ طریقے سے دیکھا جاتا ہے۔اولذکر میں آمدن کے ذرائع تنخواہ تصور ہو گی اور وہ اثاثہ جات کی سالانہ ڈیکلیریشن میں بیان کرنے کا پابند ہےجس کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرایا جاتا ہے۔جبکہ قانون کے مطابق رسید حاصل کی جاتی ہے اس طرح سرکاری ملازم کی جائیداد یااثاثوں کا ان دستاویزات کو ساتھ رکھتے ہوئے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی ہے۔سرکاری ٗعہدے پرفائز دوسرے افراد کو سرکاری ملازم سے کافی مختلف ہے کیونکہ ایک مخصوص آدمی کے آمدن کے ذرائع کا انحصار اس کے پیشے کے حوالے سے طرز زندگی پر ہے لہٰذا ایسے فراد کے حقیقی ذرائع آمدن کو جاننے کیلئے تفصیل انکوائری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، لفظ ’’آمدن‘‘ بھی قانونی لحاظ سے بہت معنی خیز ہے اس کے معنی Chambers 21st Century Dictionary میں بیان کئے گئے ہیں کہ ’’یہ وہ رقم ہے جو کچھ وقت کیلئے کام وغیرہ کے عوض پے منٹ یا یہ شیئرز یا سرمایہ کاری کرنے پر مفاد یااس سےحاصل ہونے والے نفع کے طور پر حاصل کی جاتی ہے‘‘۔ نیب آرڈیننس سیکشن 9 (a)پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے i کہ ملزم عوامی عہدہ رکھتاہے،کہ غیر ملکی ذرائع اور پراپرٹی جو اسکے پاس ہے انکی حد کیا ہے،اسکی ذریعہ معاش کیا ہے،غیرملکی جائیداد جس کا ملزم پر الزام ہے وہ غیر متناسب تو نہیں ،ایک دفعہ یہ سب چیزیں مل جائیں تو اسکے بعد 9 (a) سیکشن vکے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے،تاہم اس وقت تک کہ ملزم جائیداد خریدنے کے اپنے جائز ذرئعے نہ بتا دے جس سے اس نے یہ خریدی ہوں ،جیسا کہ نیب آرڈننس 14سی کے تحت مہیا کیا جائے،سیکشن میں لفظ مطمعن استعمال کیا گیا ہے(a) 9سیکشن v میں لفظ مناسب طریقے سے کا ذکر ہے، پی ایل ڈی 2004لاہور 155عنوان فرخ جاویدگھمن بمقابلہ ریاست 15 ڈی کے تحت دوبارہ تیار کیا۔ آمد ن کے معلوم ذرائع کا مطلب پراسیکیوشن کو تحقیات کے بعد علم ہو کے اسکے ذرئعے کیا ہیں ،ظاہر ہے اس بات کی امید نہیں کی جا سکتی کے پراسیکیوشن کو آمد ن کے ساری تفصیلات کا علم ہو،لیکن کسی کے خلاف قانون کے مطابق الزام لگانا قابل توجہ ہے،پراسیکیوشن نے معلوم ذریعہ کی تفصیلات دے چکا ، جسکا معقول طور پر جائیداد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے،اور بعد میں کیس میں دیکھا جاتا ہے کہ غیر متناسب ہے تو کیا ریفرنس سے فائل کیا جا سکتا ہے، ایک عوامی عہدہ رکھنے والے کی تنخواہ اسکے الاونس اور دیگر مراعات جیساکہ ٹرانسپورٹ وغیر ہ اسکی حقیقی ذریعہ سے ملتے ہیں ، اگر وہ زرعی زمین کا مالک ہے تو اسکی زرعی آمدن بھی شامل کی جاتی ہے،یہ تحقیق کرنے والے آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ پو ری طرح سے اسکے معلوم ذریعے آمد ن کی تحقیق کرے اور بعد میں ملزم کو اس حوالے سے پو را موقع دیا جائے،کئی ایک وجوہات کی بنیاد پر یہ تحقیاتی آفیسر کیلئے زرعی آمد ن کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں ہے،پہلا،ہمارےدیہی علاقو ں میں اسکا حساب کتاب رکھنے کا رواج بہت نایاب ہے،دوسرا یہ لازمی نہیں ہے کہ اسکا ٹیکس دیا جاتا ہے کہ نہیں ،تیسرا اگر کو ئی دیتا ہے تو لازم نہیںہے کہ و ہ اسکا حساب رکھتاہو،چوتھا جب ملزم عوامی عہدہ رکھتا ہو تو یہ قانو نی شکنی نہیں ہے کہ وہ انکا حساب نہیں رکھتا، وہ اس سے متفق ہے کہ گواہوں کے بیانات جو ریکارڈ کیے گئے 161 سی آر پی سی کے تحت ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کے جا سکتے اور نہ ہی انکی طر ف سے پر اکسی گواہ کا کردار ادا کر سکتا ہے،کو ئی بھی ڈاکومنٹ یہ ثابت نہیں کرتا جب تک قانون کے مطابق اسکے مواد پر عملدرامد نہ کیا جائے،یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ثبوت کو خارج کر دیا گیا ہے، وہ اور اس پر انحصار کرنے والے یا بے نام داری استعمال کیا گیا ہو , پراسکیوشن کسی بھی ملزم کا انحصار ایک نمبر ملزم سے ثابت نہیں کر سکا،بے نام دار کی تعریف این اے او 1999 میں دی گئی ہے کہ کو ئی بھی ملزم پکڑتا ہے یہ قبضے میں رکھتاہے کو ئی بھی جائیداد ملزم کی یا اسکی طرف سے مفادات کیلئے ملزم ہے، اثاثے کی تعریف ایس 5 سی کا مطلب ہے کہ کو ئی بھی خریدی گئی جائیداد جو وہ سنبھلاتاہو براہ راست یا بلاواسطہ بے نامی رکھتاہے شریک حیات یا رشتے داروں کے نام سے ملک کے اند ر یا ملک کے باہر ،جس کو وہ قانونی طور پر جائزہ ثابت نہ کر سکے بے نامی اثاثے ہیں ،ڈیفنس کونسل کی طرف سے حوالہ دیا گیا ہے، 2016پی سی آر ایل جے 1343 لاہور غلام سرور خان لال وانی بمقابلہ ریاست پیرا نمبر25کسی بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنے کیلئے پر اسکیوٹر کو درج ذیل چیزیں ثابت کرنی ہوں گی جیساکہ پشاور ہائی کورٹ میں محمد حیات اور دو اور لوگوں کیخلاف بمقابلہ ریاست (پی ایل ڈی 2002پشاور 1آمدان کے ذریعے پر غور (ب) 2013ء پی سی آر ایل 1607 پشاور، سیدانور بادشاہ،512بنام چیئرمین نیب یہ بات فاضل عدالت کے مشاہدے میں آئی کہ استغاثہ کی طرف سے تحقیقات یا مقدمے کی سماعت کے دوران اپیل کنندہ کے ذریعہ آمدن کی تفصیلات فراہم کی گئیں نہ ہی اپیل کنندہ کے ذرائع آمدن کا تعین کیا گیا تو پھرماہانہ کمیشن ثابت کرنے کیلئے قانون اب اس بارے میں ساکت ہے، اپیل کنندہ کے ذرائع آمدن کیا تھے یہ ثابت کرنا اب استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔ اس خاص وقت میں اپیل کنندہ کے ذرائع اور جائیداد اس کے ذرائع آمدن سے کیسے مطابقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ کسی منافع بخش ذرائع کا کسی کی دسترس میں ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، تاہم اس منافع بخش ذرائع آمدن کے اکائونٹس کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں اس کی ملکیت قابل اعتراض ہو جاتی ہے۔ (سی)پی ایل ڈی 2009ء اس سی ایم آر202 احمد ریاض شیخ ودیگر بنام ریاست پیرا9،لفظ’’بے نامی راء‘‘ کا مطلب ہے کہ ایسا شخص جو کسی دوسرے کی جانب سے ظاہری طور پر کسی جائیداد کا مالک ہو؟(ڈی)2003ء پی سی آر ایل جے1 محمد حسین بنام ریاست فیصلے کے پیرا،15کے مطابق لفظ بے نامی راء کسی جائیداد کی کم سے کم ملکیت ظاہر کرا ہے، وہ شخص جس نے جائیداد خریدی ، اب یہ جائیداد بے نامی راء کے نام پر ہے۔ بے نامی جائیداد کےتعین کیلئے سپریم کورٹ نے 4ٹیسٹ رکھے ہیں۔ محمد سجاد حسین بنا محمد حسین کیس1991ء (i)ذرائع پرغور کرنا (ii)کس سے خریدی، خریداری کا معاہدہ اوردیگر دستاویزات (iii) جائیداد کا حصہ کس کے پاس تھا (iv)بے نامی رقم،لین دین کی وجوہات یہ بھی معروف قانون ہے کہ بار ثبوت الزام لگانے والی پارٹی پر ہو گا۔ دفاعی ثبوتوں کی کمزوری کے باوجود اپیل کنندہ کی ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کم نہیں ہوگی۔ (ایف) پی ایل ڈی 2004ء لاہور155 اختر علی بنام جج سپیشل کورٹ (آفینس ان بینکنگ) معلوم ذرائع آمدن سے مراد وہ ذرائع آمدن ہیں جو استغاثہ نے کسی مقدمے کی تفتیش کے دوران علم میں آئے۔ استغاثہ کو کیو نکہ ملزم کی آمدن کی تمام تفصیلات معلوم نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے یہ انکوائری آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے تمام ممکنہ ذارئع آمدن کی تحقیقات کرے اور اسے اس سلسلے میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ وہ مطمئن ہیں کہ ملزم کے ذرائع آمدن کے بارے میں مکمل تحقیقات نہیں کی گئیں، مختلف چارٹس پیش نہیں کیے جاسکتے۔ پیش کیے گئے ایک چارٹ(ای ایس ایچ ، پی ڈبلیو18.13) کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ کس نے تیار کیا۔ یہ کسی اور ریکارڈ کی معلومات پرمبنی ہے اور اس کا اس ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اس چارٹ کو پیش کرنے والا اس مقدمے میں گواہ بھی نہیں ہے۔ تفتیش میں بھی ایک غلطی یہ ہے کہ انہوں نے فری مین باکس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اس یکس کے انکوائری آفیسرز نے متعدد بار لندن اور برطانیہ کے دورے کئے جبکہ اس نے وضاحت پیش کی کہ اس نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ انکوائری آفیسر کا خیال درست نہیں۔ اس نے مندرجہ ذیل حکام سے رابطہ کرنے کا کہا۔ (1) پی ایل ای 2018ایس سی178 (ب) 1986 ایس سی ایم آر 1763 (س) 2011 پی سی آر ایل جے 2010-885 ایس سی ایم آر 660 کو 1992 لاہور 324 انکوائری آفیسر ماہر نہیں ہے (ر) پی ایل ڈی 2000 لاہور 2016 (ای) پی ایل ڈی 1998 لاہور300 (الف)1998 پی سی آر ایل جے 58 پر تنقید۔
عدالت میں بطورگواہ یا ثبوت پیش کرے اور عدالت میں آنے والے گواہوں کے بیانات ریکارڈکرے تاہم مندرجہ بالا شہادت کے ضمن میں عدالت میں وہ کسی کے نعم البدل نہیں ہونگے۔ وہ کسی ایسی دستاویزکو ثابت نہیں کرسکتا جس کا وہ خودتحریر کردہ نہ ہو۔
فوجداری مقدمات میں دفاع(PLD 2011 SC 554pg 576 para17)
انصاف کے تقاضوں کی صحیح معنوں میں تکمیل کے لئے عدالتوں کا چنداصولوں پر چلنا لازمی ہوتا ہے‘ جیسے کہ ملزم کو تب تک بے گناہ تصورکیاجائے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ وکیل صفائی کئی درخواستیں لاسکتا ہے‘ اور اگر تمام غلط بھی ہوں تب بھی پراسیکیوشن(استغاثہ) کی ذمہ دار ی ہے کہ اپناکیس ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کرے‘ ایک انگریزی محاورہ ہے کہ یہ اچھاہے کہ دس گناہگار بچ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو(ولیم بلیک سٹون )
مجسم مجرم کی تشریح(PLD 1995 SC1)
اگر کسی بھی قانونی شق کی دو وضاحتیں ہوں تو اس وضاحت کواختیار کرنا ہوگا جو ملزم کے لئے فائدہ مند ہو۔
دستاویزا ت کے مندرجات کا ثبوت(PLD 1988 Karachi 131)
ہم یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ تحریر کنندہ کے دستاویز پر دستخط اورمندرجات کی درستگی ثابت کرنے میں بڑافرق ہے‘موخرالذکر کو لکھاری کو جانچے بغیرثابت نہیں کیاجاسکتا ‘لکھاری کی غیرموجودگی ‘ موت یا کسی دوسری قابل یقین وجہ کی صورت میں ایسا فرد جو دستاویز کی تیاری میں اس کامعاون رہا ہو یا اس کے مندرجات کی درستگی کے حوالے سے معاون سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔
(2010) 4 Supreme court cases 491 India
قراردیا جاتا ہے کہ عدالت میں محض دستاویزات جمع کرنا یا دکھانا اس کے مندرجات کا ثبوت نہیں۔
Notice U/S 19 OF NAO 1999
PLD 2012 SC 903قومی احتساب بیورو کی ذمہ داریاں
قومی احتساب بیورو کی ذمہ داری ہے کہ کسی فرد کو سمن بھیجنے سے قبل اس کے خلاف شواہد کی شناخت کرے اوراس بات کی چھان پھٹک کرے کہ آیاایسی اطلاعات اورنیب کی انکوائری میں کوئی نزدیکی ہے(pg. 914)
PLD 2007 Karachi 469
اس لئے کسی کو طلب کرتے وقت نوٹس میں حقائق ‘نکتے اورالزامات اورملزم کانام لکھا جائے تاکہ وہ ایسی معلومات مہیا کرسکے‘ اگر کوئی مطلوبہ معلومات مہیا کرے جس سے مقصدپورا ہوسکے تو اس فرد کو بذات خودحاضری سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ اور اسے تنگ نہیں کیا جائے گا‘ اس کو تمام سہولتیں دی جائیں‘ اسے مختصر وقت میں چھوڑا جائے‘ اسے بلاوجہ تحویل میں نہیں رکھا جائے‘ علاوہ ازیں ابتدائی مراحل میں اسے بذات خودحاضر ہوکر اطلاعات دینے پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتھارٹی کے پاس اسے بلانے کا اختیار نہیں ‘ اتھارٹی سیکشن 24-A کے تحت ناگزیر صورت میں اسے بلا سکتی ہے‘ ایسے اختیارات شفاف اور انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے استعمال کرنے ہونگے اور ایسے حکم کے اجرا کی وجوہات دینی ہونگی۔ ایسے کسی حکم کی کاپی مقدمے کی ڈائری میں دستیا ب ہونی چاہئے۔ڈیفنس کونسل نے اپنے دلائل میں درج ذیل نکات پر زوردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود استغاثہ اس کیس میں کوئی ایک بھی شرط پوری کرنے میں ناکام رہا۔ مزید برآں دونوں تفتیشوں میں ذرائع آمدن کے حوالے سے تحقیقات نہیں کی گئیں۔ اگر یہ تصوربھی کیا جائے کہ میاں نوازشریف فلیٹس کے مالک ہیں‘ یہ تب تک جرم نہیں جب تک استغاثہ اپنےکیس سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق قائم نہیں کرتا۔کمپنی کے سرمایہ ایف زیڈ ای کا ایون فیلڈ پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی پی وی ڈبلیو واجدضیاء جس نے لندن فلیٹس کے استعمال بارے جھوٹ بولا اسے بطور ثبوت پیش کیا‘ یہ نکتہ بھی اٹھا یا گیا کہ اس مقدمے میں معلوم آمدن کے ذرائع کے بارے میں کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی گئیں مزید یہ کہ واجد ضیاء کے بیان میں بے شمار تضادات ہیں۔ جی آئی ٹی کے بیانات مقدمے میں بطور ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔ ملزم کا بیان صرف اس صورت میں تسلیم ہوگا اگر ان کامشترکہ ٹرائل کیاگیا ہو جس میں انہیں نے اعتراف کیا ہو۔ ڈیفنس کونسل کے مطابق نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کبھی ان کی ملکیت رہے۔ نہ کبھی حسن نوازنے یہ بیان دیا کہ ملزم نوازشریف ان فلیٹس کے مالک رہے یا ان میں رہائش پذیررہے۔ بی وی آئی سے موصولہ دستاویزات کے مطابق نوازشریف 16 Aاور17اے فلیٹوں کے مالک نہیں۔ پراسکیوشن کے پاس کوئی گواہ نہیں کہ نوازشریف Neilson اور Nescoll آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔یہ استغاثہ پر لازم تھاکہ ذرائع آمدن اورٹرانزیکشن ثابت کرتا تاکہ اس کی بے نامی پراپرٹی کی ملکیت ظاہر کی جاسکتی ‘ مزیدیہ نیب کے پاس ٹرانزیکشن کے حوالے سے کوئی ثبوت ہوتا ‘ واجدضیاء نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جے آئی ٹی نےایسی کوئی دستاویز وصول نہیں کی جس کی بنیادپریہ بات کہی جائے کہ نوازشریف مذکورہ کمپنیوں کے مالک ہیں‘ واجد ضیاء نے یہ بھی مانا کہ کسی بھی گواہ نےآف شورکمپنیوں کے بارے میں بیان نہیں دیا۔سدرہ منصور نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس نوازشریف کی فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کونسا جواب ایم ایل اے دستاویزات بارے اس نے وصول کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیب مقدمات میں انوسٹی گیشن ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن اس کیس میں وہ نہیں نبھائی گئی۔ مزید یہ کہ نیب کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ بے نامی پرپراپرٹی ملزم نوازشریف کے بیٹوں کی ہے۔تفتیشی آفیسر اورنیب حکام نے لندن کا دورہ کیا لیکن وہ وہاں پر ایسے کسی بھی متعلقہ گواہ کی تفتیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس میں لائرنس ریڈلی جیسے اہم گواہ تھے جنہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے 1993 میں شریف خاندان کی ہدایت پر کوئی بھی فلیٹس نہیں خریدے۔اسی طرح نیب حکام نے جیری فری مین سے بھی تفتیش نہیں کی جنہوں نے کہا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ Trust Deedانکی موجودگی میں دستخط کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کومجرم ثابت کرنے کے لئے کوششیں کی گئیں جس میں التوفیق کے فیصلے کی روشنی میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کے ہی فیلٹس زیر ملکیت ہیں۔ایسی تمام دستاویزات جو واجدضیاء نے پیش کیں جس میں قطری شہزادےکے خط،گلف سٹیل مل کی خریدوفروخت اورطارق شریف کی طرف سےدیئے گئے بیان حلفی وغیرہ قابل قبول نہیںتھے جس کوبطورثبوت کے طورپر پیش کیا جاتا۔ان دستاویزات کو نہ ہی اصل اور نہ ہی فوٹوکاپی کی شکل میں بطورگواہی حوالہ کے طورپر پیش کیا گیا۔اسی طرح پراسیکیوشن کی جانب سےایکسپرٹ Opinionکے طورپر پیش کیا گیا جوکہ متعلقہ گواہی کے زمرے میں نہیں آتا۔میاں نواز شریف کی فیلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے پراسکیوشن کی طرف سے جمع کردہ شہادتوں پرمختلف سی ایم ایز کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے ،قانونی نقطہ نظر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سی ایم ایز کی تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔گلف سٹیل ملزدوبئی کی فروختگی کے حوالےسےہونے والے معاہدے اورطارق شریف کی طرف سے پیش کردہ بیان حلفی اوردیگردستاویزات جس میںمیاں نواز شریف کی مداخلت اورلین دین کے بارے میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔قانون کے مطابق تمام شہادتیں فوٹوکاپیز کی شکل میں پیش کی گئی ہیں جومبینہ طورپر قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح شیزی نیکوی کےبیان حلفی اورالتوفیق کےSettlementپیپرزمیں جوکہ پراسکیوشن نے پیش کیا ہے میں بھی ملزم نوازشریف کا ذکرنہیں ہے۔ مریم صفدر اورکیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے انکے وکیل امجد پرویز کے دیئے گئے دلائل 1۔سریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملزمہ مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدرکو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا بھی نہیںکہا گیا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے 13صفحات کے سوالات میں ان دونوں کا ذکرکیا گیاہے۔ملزمان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائرکی گئی ہے۔جائنٹ ایوسٹی گیشن ٹیمJIT کو اختیارنہیں دیا گیا کہ وہ وکلاء کی خدمات لے سکے لیکن ابھی تک ماہرین کے مطابق جے آئی ٹی نے کویسٹ وکلاء کی خدمات حاصل کی ہیں۔PW-15اورPW-16کے سوالات پروکیل اخترراجہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی فیس اورخدمات کے حصول کا معاہدہ کیا گیاہے۔اس کا کیس میں دلچسپی اس حوالے سے تھی کہ وہ جے آئی ٹی کے سربراہ کے رشتہ دارتھے۔ملزمہ مریم صفدرجوکہ کسی بھی حکومتی عہدیدار نہیں رہی ہیں اس لئے نیب کے قوانین ان پر خلاف استعمال نہیں کئے گئے،موجودہ مقدمہ ثبوتوں پر نہیںبلکہخیالات پر تیار کیا گیا ہے۔یہ ایک کمزورثبوتوں کا مقدمہ ہے جس میں ملکیت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی مثالوں کی روشنی میںجس میںاپنے ذرائع آمد ن سے ہٹ کراثاثے بنانے کے جرم کےبارے میںذکرکیا گیا ہے اس کیس میں مطابقت نہیں رکھتے۔قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ ملزم کومحض مفروضوں پر مجرم نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔انہوں نےوکیل دفاع خواجہ حارس کےایم ایل اے کےحوالے سے پیش کردہ جوابات پربھی اپنے دلائل دیئے۔انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلی Fontکے ماہرنہیں ہیںان کی رپورٹ کو سپورٹ حاصل نہیں ہے۔انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے Fontکی قسم کے بارے میں کوذکرنہیں کیا ہے۔اگر وہ Fontکے ماہر ہوتے تو وہ پہلی بارڈیڈ کا معائنہ بند آنکھوں سے نہ کرتے۔انہوں نے وکیل دفاع خواجہ حارس پر بھی دلائل دیئے جس میں نیب کی طرف سے ملزم کے نام پر NAO 1999کے سیکشن19کے تحت نوٹس جاری کیا گیا۔انہوں نے تفتیشی آفیسرکی جانب سے پیش کردہ دستاویزات پر قانونی اورحقائق پر مبنی اعتراضات اٹھاتے ہوئےعدم اطمینان کا اظہارکیاجس میں نوازشریف کے خلاف کیس بنایا جائے۔ جب رکاوٹوں کوعبورنہیں کیا جاتایعنی نوازشریف اوراسکے ذرائع کوپیش نہ کیا جائے۔ ملزمہ مریم صفدر کریمنل ایکٹ کے تحت کسی بھی طورپر ذمہ دارنہیں ہیں۔ یہ کیس ملزمہ مریم صفدر اورکیپٹن (ر) صفدر کے خلاف شہادتوں پر مبنی نہیں ہے۔حکام نے پیش کردہ دلائل کے حق میں مختلف پوائنٹس پیش کئے ہیں۔معروف وکیل دفاع خواجہ حارس کے پیش کردہ دلائل سے مطابقت رکھتے ہیں۔رولنگ کے دوران وکیل دفاع کے دلائل کو وضاحت کے طورپر متعلقہ وقت میں دلائل کے طورپر پیش کیا جائے گاجوکہ قابل ذکرثبوت ہے۔PLJ 196 sc appellate jurisdictionعنوان محمد اسارف خان ترین بمقابلہ سٹیٹ پیراEکے ہی ہیں جوپیش کئے جاتے ہیں۔ماہروکیل برائے اپیل کنندہ کے مزید دلائل ہیں کہ پہلی رپورٹ نمبر14کینٹ پولیس سٹیشن جس میں اپیل کنندہ نے کمانچے سے فائرنگ کی جوکہ 38بور کا پستول ہےجسے ایس ایس پی فیاض خان نے برآمد کیا ہے،ڈرائیورمحمد یونس،ایس ایچ اوصادق حسین اورریکوری میموEX-PW 12/1شامل ہیں۔جس کے جواب میںماہر وکیل کے دلائل یہ ہیںکہ جان بچانے کے لئے اسلحے کا غلط استعمال جائزنہیں۔محمد گل کے کیس میں بھی ایف آئی آر میں بندوق کو بطورگن اورطماچے کو بطورریوالور ذکرکیا گیا ہے۔اپیل کنندہ کے ماہروکیل کی طرف سے عدالت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مختلف اخبارات کی اخباری تراشوں کو بھی زیرغورلایا جائے۔اخباری تراشے بطورگواہی کے طورقانون کی لوازمات پورے نہیں کرتے۔خاص طورپر کریمنل کے مقدمات میں ایسے اخباری تراشےنہ ہی پراسکیوشن اور نہ ہی ڈیفنس کے حق میں مددگارثابت ہوتے ہیں PLD 1961(w.p) Karachiعنوان میسرزبالاگموالہ کنٹون گننگ اینڈپریسنگ فیکٹری،کراچی بمقابلہ لالچند پارٹFکودوبارہ پیش کیا جاتاہے:ہمارے نقطہ نظر میں ماہرسب جج اخبارات میں آنے والے ایسے مواد سے مطمئن نہیں ہیں جوکہ ثبوت کے بنادستاویزات میں ذرائع کے طورپر پیش کئے گئے ہیں۔PLD 2007 Karachi 448 بعنوان عارف ہاشوانی اور3دیگربمقابلہ صدرالدین ہاشوانی اور3دیگر۔پیرBکودوبارہ پیش کیا جاتا ہے۔آٹیکل70میں آرڈیننس2002کے مطابق اگرکسی بھی پارٹی کے الیکٹرانک معلومات سے انکارکیا جائے تواس صورت میں دستاویزات کو ثابت کیا جاتاہے۔ جیساکہ آرڈیننس2002میں الیکٹرانک معلومات کو قابل قبول نہ جاناجائے توایسی صورت میں ان معلومات کو بطور آواز ،ویڈیو کے طورپر جاناجاتاہے۔قانون شہادت کی روشنی میں جہاں آرڈر1984میں بتایاگیا ہے کہ سی ڈی ڈاکومنٹس کاریکار بطورشہادت تسلیم نہیں کیا جاتاہےاور اس حوالے سے قانون سازی میں بھی ذکرنہیں ہے ۔اگر قانون شہادت آرڈ1984میں الیکڑانک ٹرانزیکشن آرڈیننس2002میں ترامیم لائی جائیں توالیکٹرانک کی پیش کردہ معلومات اور دستاویزات بطورگواہی قابل قبول ہونگی۔میری رائے ہے کہ آڈیو،ویڈیو اورسی ڈیز کی دیگرشہادتیں قابل قبول ہیںتاہم اس کی تصدیق اورمخالف پارٹی کی طرف سے اس کے حقیقی ہونے سے انکارپر تنازعہ کا سبب بن سکتاہے۔1985 SCMR 359بعنوان محمد افضل ذل اللہ، شفیع الرحمان اورمیاں برحان الدین خان،جے جے چوہدری عبدالحمید بمقابلہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر وغیرہ کو دوبارہ پیش کیا جاتاہے:ان تما م حقائق کی روشنی میںہیڈرائٹنگ کے ماہر کی نقطہ نظرکو قابل غور کولایا جائے گا۔جتنے بھی شواہد عدالت میں جمع کئے گئے ہیں یہ ان سب میں سب سے زیادہ غیر تسلی بخش رہیں یہ اتنے کمزور اور خستہ حال ہیں کہ ہمارے قانون میں اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا شہادت کے اس نقطہ نظر سے یہ ایک عام اور دہرایا ہوا عمل ہے کہ ایک نتیجہ اخذ کرنے کے لئے صرف ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہ کیا جائے صرف ہاتھ کی لکھائی کا موازنہ کرنے سے نتیجہ غیر فیصلہ کن ہوگا اور صرف ٹھوس ثبوت کے ساتھ ضمیم کےطور پر استعمال ہونا چاہیے۔فیصلہ کے پرا گراف (D) اور پیرا گراف (E)9 کو دوبارہ نیچے لکھا گیا ہے ( جعفر عالم کے کیس میں چوہدری بمقابلہ ریاست )ہاتھ کی لکھائی کے ماہرین کی رائے میں غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ہر ایک بہت کمزور شہادت ہے ۔ ماہر کی رائے ضروری طور پر دھوکہ دہی ثابت نہیں کرتی یہ مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی کہ جس آدمی کے دستخط ہیں لیکن اس کی ظاہری افادیت کمزور ہے اس کیس میں خطاطی کے ماہر خود بھی 100 فیصد یقین نہیں رکھتا کہ چیک میں ظاہر شدہ خطاطی اور دستخط دعویدار کے ہی ہیں ۔اگلا نقطہ جو معین الحق نے اٹھایا کہ نتیجہ اس کیس میں خطاطی کے ماہر کی رائے پر قائم کیا گیا تھا جو کہ ایک کمزور اور ماہر ہے اور جس کی گواہی بھی اسی طرح کمزور ہے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ خطاطی کے ماہر کی رائے غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔اس سے شہادت کی اہمیت کافی کم ہوگئی ہے دھونک سنگھ ٹھاکر بمقابلہ ریاست گجرات کے کیس میں صورت حال یہ ہےکہ سارہ فیصلہ ماہر اچاریہ کی شہادت پر منحصر ہے عدالت کو پتہ چلا ہے کہ اچار یہ (ماہر ) نے ان افراد کے بارےمیں بھی رائے دی ہے کہ جنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ادائیگی کے لئے کئے گئے دستخط جعلی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے کیونکہ جب شہادتوں نے خود کہا قسم اٹھا کر کہ یہ دستخط ان کے ہیں تو پھر ماہر کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ دستخط جعلی ہیں اس وجہ سے ماہر کی رائے پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ایک دفعہ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اپیل کنندہ نے دھوکہ دہی نہیں کی اور جس پر حکومت کا سارا کیس پر منحصر ہے پھر کوئی قانونی شہادت نہیں ،کہ یا الزام ثابت کرے یا دھوکہ دہی یہی نقطہ خاص طور پر اٹھایا گیا عدالت کے سامنے اس طرح کوئی ثبوت نہیں ملتا اس طرح یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عدالت کیس کی مہارت سے مکمل طور پر مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خطاطی کا بہترین ماہر ہونا چاہیے اور پتہ ہونا چاہیے کہ ایک خاص خطاطی کسی کی ہے یانہیں جیسے ماہر کی خطاطی غیر تسلی بخش ہے عدالت کے لئے، عدالت یہ غیر محفوظ تصور کرتی ہے کہ صرف ایک ماہر کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے۔2001ء YIR 448لاہور خواجہ اعجاز احمد اور دیگر بمقابلہ ڈی آر او اور دیگر کے کیس کے پیرا 9‘ 12اور 13کے مطابق مقامی اخبارات میں جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو کیس کے حوالے سے کوئی بھی ثبوت نہیں دیا گیا نہ ہی کوئی ایسے شواہد ہیں جن سے معلومات حاصل کی جا سکیں‘ اخبارات میں متعلقہ شخص کے حوالے سے نہ کوئی بیان آیا اور نہ ہی کوئی ایسا بیان حلفی اس حوالے سے ہے‘ اخبارات میں شائع رپورٹ ریکارڈ پر ہے اب یہ واضح ہے کہ اخبارات کے تراشے یا اور اخبارات میں شائع شدہ کوئی بھی مضمون کو ممکنہ طور پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے ‘ عبد الولی خان کے کیس پی ایل ڈی 1976ایس سی 57میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم اٹارنی جنرل سے متفق ہیں جنہوں نے امریکن قانون کے والیو 29کو پڑھا ‘ دوسرے ایڈیشن کے صفحہ 989کے مطابق یہ بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹ یا کسی پروگرام (ایونٹ ) کے حوالے سے شائع رپورٹ کی اہمیت نہیں‘ اخباری رپورٹس یا تراشوں کو اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ایسا واقعہ ہوا ہو یا مقامی لوگوں کا انٹرسٹ ہو یا پوری کمیونٹی کی جانب سے ہو ‘ اس کے علاوہ کسی چشم دید گواہ کا بیان جو کہ اخبار میں شائع ہوا ہوں وہ اگر موجود نہ ہو تو وہ پیش کیا جا سکتا ہے ‘ اپیکس کورٹ نے مزید قرار دیا کہ اخباری تراشوں یا رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور امریکی عدالتوں میں ایسا اکثر ہو چکا ہے ‘ کوئی کاروباری ریکارڈ یا کسی حادثے کی دستاویزات نہ ہوں لیکن کیونکہ اخباری رپورٹس واقعے کے حوالے سے قابل اعتماد ہو سکتی ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ‘ شیر محمد بمقابلہ دی کرائون پی ایل ڈی 1949لاہور 511کے کیس میں اخباری رپورٹ کو قبول کرلیا گیا تھا جو کہ مقامی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی اس موقع پر قرار دیا گیا کہ اگر ایک شخص اس کا فائدہ نہ لے کہ اس پر جو الزامات کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ شائع ہوئی ہے اور کوئی شکایت بھی نہ کر تو شائع شدہ رپورٹ اس کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے ۔جہاں تک وڈیو فلم کا سوال ہے اس میں کچھ نہیں کہ وہ کسنے مہیا کی ہیں یہاں پر عبد الولی خان اور مملکت کے کیس کا حوالہ دونگا کہ جس میں ثبوت تب تک نہیں مانے گئے جب تک تصاویر ریکارڈ کرنے والے افسر کو پیش نہیں کیا گیا ۔کیس عدالت میں چلالی گئی اور متعلقہ افسر نے اوازوں کی نشاندہی کی ایسے شخص کی عدالت میں پیش اور اس کی افادیت کے بارے میں کیا گیا جائے جس کو کوئی جانتا ہی نہیں وڈیو فلم جس کو (او آر) افسر نے دیکھا کوئی قانونی شہادت نہیں تھی اور اس طرح اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ۔جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے اس کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کی اصل (Negatines)کہاں ہیں تصاویر کس نے لی اور کس نے صاف کی اس طرح یہ تصاویر بھی شہادت کے طورپر قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ نہیں پتہ کہ فوٹو گرافرکون تھا اور تصویریں صاف کرنے والا کون تھا ۔پی ایل ڈی 2016 لاہور 570 ج شاہد حمید ریحانہ انجم بمقابلہ ایڈیشنل سیشن جج ایک دستاویز کی پیشی اور ایک دستاویزی ثبوت 2 مختلف چیزیں ہیں ایک دستاویز ایک ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے یہ ثبوت بن بھی سکتا ہے آرٹیکل 78 کے تحت اگر ایک دستاویز پر ایک فریق انحصار کرتا ہے او رعدالت میں دیکھایا جاتا ہے لیکن ثابت نہیں کر سکتا لہٰذا اس پر عدالت انحصار نہیں کر سکتی قانون کے مطابق ایک میڈیکل (طبعی ) افسرکی لکھی ہوئی رپورٹ کا ہر نقطہ دستاویزات کی ہر بات کو ثابت کرنا چاہیے کوڈ 510 کے تحت ایک رپورٹ چاہیے وہ انگوٹوں کے نشانات یا بندوقوں کے ماہرین کسی بھی معاملے میں چھان بین کے لئے جمع کئے گئے ثابت کرنا چاہیے اور یہ مبہم نہیں ہونے چاہیے عدالت ایسے شخص کو گواہ بنائے بغیر ایسے آدمی کو پکڑ کر اس کی ماہرانہ رائے معلوم کر سکتی ہے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو شخص یہ رپورٹ بناتا ہو ڈی ڈبلیو دفعہ 510 کے کسی بھی درج بند ی میں نہیں آتا پٹیشنز اپنی حدود میں رہ کر دوسرے سے سوال کر سکتا ہے اس طرح کہ اس کی گواہی کی اصلیت کو جانچا جا سکے ڈیفنس وٹنس کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ عدالت اس کی شہادت کو جانچ سکے۔1995ء ایس سی ایم آر 1621 سپریم کورٹ آف پاکستان ملک خدا بخش بمقابلہ ریاست ، پرا گراف 11 یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا کہ نصیر بیگم بمقابلہ سائیں عدالت نے دیکھا کہ شہادتی ایکٹ اس نتیجے پر نہیں پہنچتی لہٰذا ایک فیصلہ ایک سول کورٹ جس طرح ایم منیر نے قانون شہادت میں لکھا ’’ یہ قابل قبول نہیں ہے مجرمانہ کارروائی میں کہ شہادت میں سچائی اور حقائق کی تہہ تک پہنچاجائے ایک مجرمانہ کیس میں یہ عدالت کااستحقاق ہے کہ وہ مشتبہ شخص کی غلطی کا تعین کرے عدالت میں اس کیس میں جمع کئے گئے ثبوتوں پر فیصلہ کیا جائے ۔ایس این گپتا کے کیس میں دکن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بری کرنے کا فیصلہ ایک مجرمانہ کیس میں اس پر انحصار کرتا ہے کہ غلطی ثابت نہیں کی گئی ہے اور اس طرح اس قسم کی شہادت کو سچ نہیں مانا گیا ۔یہ نصیر بیگم ورسیس سیان سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق جس میں صفحہ585پر یہ قرار دیا گیا ہے "اس پیٹیشن کی سپورٹ میں کونسل نے کہا ہے کہ سول کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے ہم اس فیصلے پر متفق نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ پرائوی کونسل نے کمار گپتا رامن رائے بمقابلہ اتل سنگھ میں نکتہ اٹھایا ہے کہ ؒ۔۔ ۔ ۔ جو حقائق پیش کئے گئے وہ ایویڈنس ایکٹ کے مطابق نیہں اسی لئے سول کورٹ کا فیصلہ جس کی طرف ایم منیر نے اشارہ کیا ہے کہ فوجداری مقدمات میں قابل قبول نہیں ۔فوجداری مقدمات میں عدالتیں قصوروار کو نامزد ٹھہراتی ہیں ریکارڈ بتاتا ہے کہ انوسٹی گیشن کے دوران پیٹیشنر نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو مہیا کرنے کی کوشش کی اس میں کوئی شبہ نٓہیں کہ عدالت حکم /1984/164کے تحت سی سی ٹی فوٹیج مہیا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے لیکن 1984میں جاری حکم کے تحت ہی ایسا کرسکتی ہے ۔سی سی ٹی وی کا فوٹیج کو عدالت میں ایک ثبوت کے طور پر کافی نہیں ہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ یہ جائزہیں۔ ایسے فوٹیجز کی جائز ہونے کو ثابت کرنے کیلئے یہ ڈیفنس اور پراسکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کا مشاہد ہ کرےجس سے سی سی ٹی وی سسٹم سے یہ فوٹیج تیار کی ہوں لہذا ملزم کو مزید شواہد اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے آرڈر 1984کے دفعات کے ساتھ سختی سے ثابت کرے۔ اور یہ محض آرٹکل 79آف دی آرڈر 1984تک محدود نہیں ہے۔ 216YLR254ٹائٹل محمد اقبال احمد vsدی سٹیٹ پیرا11،13،14کو دوبارہ پیش کیاجاتا ہے۔ پی 11:اس جائیدار کے کیس کے حوالے سےسیکشن نو) a)(v) آف NAO1999کے تحت یہ ضروری اورفائدہ مند ہے کہ اس جرم کو ثابت کرنے کیلئے تمام ضروری جواز کا مشاہد ہ کیا جائے ۔ ملزم کے بارے میں ضروری ہے کہ معلوم کیاجائے کہ وہ ایک پبلک آفس ہولڈر ہے۔ اس نے جائیداد جمع کی اور اسکی جائیدار اس کے ٹائٹل سے ہے۔ اس کے ظاہری ذرائع آمدن کیا ہیں اور جو اخراجات ملزم نے خرچ کیے ۔ یہ ظاہر ہے کہ محض اثاثہ جات کا رکھنا جووہ اپنے نام پر ٹرانسفارمر یا شفٹ کرسکتا ہو یا کسی اور کے نام کرسکتا ہو ، سے وہ مجرم نہیں ٹھہرتا جیسا کہ سیکشن نو(اے)(v)آف NAO1999بھی یہی کہتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے غنی الرحمان vsنیب اور دیگر کے کیس میں )PLD2011SC1144) میں مندرجہ ذیل اصول وضع کیے تھے۔ 6۔ اب قانون وضع ہوچکا ہے کہ اس جرم کو سیکشن 9(a)(v)آف دی نیب آرڈی نیشن 1999کے تحت لیکن وکیل دفاع اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جو قانون شہادت کے آرٹیکل 79,78 اور 80 کے مطابق ہےلہٰذا آرٹیکل 84 کے تحت ماہرانہ موقف پیش کیا جائے اور یہی کچھ انگوٹھے کے نشان بارے ہے ۔ تاہم حقائق دفاع کے دعوئوں کے برعکس ہیں جو متنازعہ فروختگی سے متعلق ہیں ۔ لہٰذا فائل میں موجود ثبوت بھی کسی اہمیت کے حامل نہیں اور نہ ہی پیش کردہ ثبوت اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جا سکے۔ جب کوئی ایک فریق ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دیا جا سکتا ، اس حوالہ سے سید عمر شاہ بنام بشیر احمد کیس دیکھا جا سکتا ہے ۔ آرٹیکل 61 ,ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے ، سکوپ <=ہینڈ رائٹنگ ماہر کے ثبوت اور رائے کو ہمیشہ ایک کمزور ثبوت تصور کیا جائے گا۔حتیٰ کہ زبردست زبانی و تحریری اور واقعاتی ثبوتوں کے باوجود ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے باطل قرار دی جائے گی۔پی ایل ڈی 2005 کوئٹہ : اشفاق خالد بنام سرکار ،پیراگراف 33 ، ا یم این او پی 358 اور 37 یو کو یوں پڑھا جائے۔’’ جہاں تک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رپورٹ کا تعلق ہے تو یہ ناقابل یقین ہے ، سپریم کورٹ نے 1985ء میں اپنی ایک رپورٹ ایس سی ایم آرصفحہ 359 میں کہا ہے کہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل نہیں۔ اس حوالہ سے عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ ’’ عدالت میں جمع کردہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹس کی ہر قسم کی رائے اب تک غیر اطمینان بخش رہی ہیں ۔ ایسے ثبوت اس قدر کمزور اور ناقص تھے کہ ان کو عدالتی نظام میں جگہ دینا ممکن نہیں، عدالتیں صرف ان پر اعتماد نہیں کر سکتیں ۔ اسی طرح 1947ءاے آئی آر صفحہ 180 کے مطابق ’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے سے ملکیت خطرہ میں پڑ جاتی ہے ۔’’ڈی ڈبلیو 22 کے تناظر میں آخری گواہی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی ہونی چاہیے ، ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے ثبوتوں کو متنازعہ دستاویزات میں الگ رکھا جائے ، میں ان کو قبول کرنے میں وقت اور جھجھک محسوس کررہا ہوں ۔ مسٹر وسیم نے متعدد اتھارٹیز اور کتب سے اس حوالہ سے جو رائے دی ہے میں شعوری طور پر کہتا ہوں کہ یہ بہت خطرناک ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ ماہر کسی ایک فریق کے حق میں جس نے انہیں بلایا ہوںفائدہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک فیصلہ پی ایل ڈی 1958ء لاہور صفحہ 447 کا حوالہ دے سکتے ہیں ۔’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو بڑی احتیاط سے لیا جائے چاہیے وہ ایک غیر جانبدار ماہر ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ وہ ماہر غیر شعوری ہر اس ایک فریق کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جس نے اسے بلایا ہو۔ صرف ان حقائق کو دیکھتے ہوئے کہ ایک ماہر کہے کہ دستاویز ایک خاص شخص نے لکھی ہے اس کو حتمی نہ مانا جائے بلکہ عدالت فیصلہ دینے سے پہلے تمام ثبوتوں کو متعلقہ نکتہ پر دیکھے اور ان کی جانچ کرے ۔اسی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ’’ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے اسے ناقابل یقین نہ تصور کیا جائے ، ایسے حالات اور واقعات ہو سکتے ہیں لہٰذا ایک ماہر کے بیان کی درستگی کو جانچا جائے‘‘ملکیت سے متعلق فیصلہ جو 1969ء میں ہوا پی سی آر ایل ہے صفحہ 259،جب ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر بحث ہوئی تو ’’ ایک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر سوال اٹھ سکتے ہیں ۔تحریر اور دستخط ناقابل یقین ہیں لیکن ان میں غلطی ممکن ہے ایک ماہر سے بھول ہو سکتی ہے کہ مذکورہ تحریر اور دستخط اسی شخص کے نہیں جس کی تحریر اور دستخط صاف ہیں ۔بہر حال تحریر اور دستخط ایک ثبوت ہو سکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت خاطر خواہ نہیں۔‘‘35-s ، عدالت اپنے طور اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ماہر تحریر کی رائے کو قبول کرتے ، حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے کہ پی ایل ڈی 1966 ء ، ڈھاکہ ، صفحہ 444 میں ہے اسے دوبارہ بیان کرتی ہے ۔’’ سیکشن کا مطالعہ کرتے ہوئے ،یہ عدالت ہے جس نے ماہر کی رائے کو متعلقہ بنانا ہے عدالت اسے یکسر مسترد یا منسوخ نہیں کر سکتی ۔ عدالت ایک ماہر تحریر کو مدد کے لئے بلا سکتی ہے ۔ ایک کیس میں جہاں تاثر بالکل واضح ہو عدالت خود اپنے طور فیصلہ کیوں نہیں کرتی؟37 یو ۔دو مختلف ہینڈ رائٹنگ یا دستخوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ماہر تحر یر سے کہا جائے کہ وہ دونوں تحریر وں یا دستخطوں کو دیکھے اور ان کا موازانہ کرے کہ قلم کیسے پکڑا گیا؟قلم کا دبائو کیا تھا ؟ لکھنے کی رفتار ، الفاظ کا حجم ، الفاظ کی ترتیب اور تمام الفاظ میں فاصلہ وغیرہ کیا تھا؟ اسی طرح اصول ’’ اصل اصل جیسا ہے ‘‘ کی بنیاد کو بھی دیکھا جائے ۔ اسی طرح نمونہ کی تحریر کے لئے اس شخص کو بالکل ویسا ہی کاغذ ، سیاہی اور لکھنے کے آلات دیئے جائیں جس کی تحریر درکار ہے ۔ اگر متنازعہ تحریر پنسل سے لکھی گئی ہے تو پنسل میں تحریر کا نمونہ لیا جائے ۔ اگر بال پین کی تحریر ہے تو اسی میں لی جائے ۔( ’’ ہارڈلیس متنازعہ دستاویزات ، ہینڈ رائٹنگ اور انگوٹھے کی چھاپ کی شناخت ‘‘ جو ٹی جے گجر نے دہرائے تھرڈ ایڈیشن 1983)2010ء پی سی آرایل جے 1832 ۔ میر فیاض احمد بنام سرکار، پارس نمبر 19,20,21A کو دہرایا جاتا ہے ۔19۔عبدالرشید کیس ( سپرا ) یہ دیکھا گیا ہے کہ جیسا کہ کوئی اپیل کنندہ اپنی صفائی میں ان الزامات کا ثبوت نہیں دے سکا جو اس کے خلاف ہیں تو یہ اس کے خلاف جائیں گے۔پی ۔20۔آخری قاضی نسیم احمد کیس میں اپیل کنندہ کو انسداد بدعنوانی کے سیکشن 5سی کے تحت ، سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ملزم ناجائز ذرائع سے اپنے نام پر اور اپنے زیر کفالت والدہ اور چھوٹے بھائی کےنام پر جائیدادیں خریدیں ۔ عدالت نے ہر جائیداد کاجائزہ لیاور اس نتیجہ پر پہنچی کہ الزام ثابت نہیں ہوتا۔ ماہر تحریر کی رائے پر عدالت نے آبزرویشن دی کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی میں ایک ماہر تحریر کی رائے بھی کافی نہیں کہ اپیل کنندہ نے دستاویزات میں کوئی جعل سازی اور چھیڑ چھاڑ کی ہے ۔پی ڈی 21 ۔ مندرجہ بالا مقدمہ کو دیکھتے ہوئے قانورن اس حوالہ سے واضح ہے کہ ایک ماہر تحریر کی رائے محض رائے ہی ہے اس لئے صرف رائے پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 696 لینڈ ایکوزیشن کلکٹر سرگودھا بنام محمد سلطان وغیرہ ، پیرا 5 ڈی اور 6 بی پڑھا جا سکتا ہے ۔5D۔قانون شہادت حکم 1984 جس میں آرٹیکل 59 شامل ہے ، یہ بات واضح ہے کہ ایک گواہ کی رائے اسی وقت اہمیت کی حامل ہوگی اگر وہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت مخصوص میدان میں ماہر بھی ہے ۔ علاوہ ازیں رائے دینے کے مقصد کی خاطر گواہ نے پہلے کسی ماہر سے رائے لی ہو یا اس کی تعلیمی قابلیت یا تجربہ اسے حاصل ہو ۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو یہ رائے محض رائے ہوگی اور اسے ثبوت کی حیثیت نہیں ہوگی۔B-6موجودہ کیس میں عدالت میں ایک ایسا شخص آیا ہے جو ماہر نہیں ہے ۔پی ایل ڈی 1993، سپریم کورٹ 88، اٹالا نسٹک سٹیمر سپلائی کمپنی بنام ایم وی ٹائٹس ودیگر ، ہیرا 13دوبارہ دیا جاتا ہے ۔’’ دونوں فریقوں میں تنازعہ غیر ملکی قانون کے ثبوتوں کے حوالے سے ہے ۔ثبوتوں کے حوالے سے سیکشن 38قانون شہادت اور آرٹیکل 52کو دیکھتے ہوئے یہ کافی ہوگا ۔52۔ کتاب قانون کے تحت بیانات میں تعلق :۔ جب عدالت کوئی رائے قائم کرے جیسا کہ کسی ملک کا قانون ہو یا ایسا بیان ہو جو اس ملک کی حکومت کی اجازت سے قانون کی کسی کتاب میں چھپا یا شائع ہوا ہوں ۔تو اس قانون کو متعلقہ مانا جائے گا ، مندرجہ بالا آرٹیکل کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی قانون کو اس ملک کی حکومت کی اجازت شائع کی گئی کتاب سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون شہادت کے آرٹیکل 59کے تحت ایک ماہر کابھی تجزیہ کیاجاسکتا ہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ برطانیہ ملکی قوانین کو ماہرین کے ثبوتوں سے ثابت کیاجاتا ہے ۔پی ایل ڈی 1972سپریم کورٹ 25، مسماۃ خیر النساء اور 6دیگر بنام ملک محمد اسحاق اور دیگر میں یہ کہا گیا کہ تحریری بیانات کو کیسز میں اس شخص کے بغیر نہیں لیا جاسکتا جس کاعدالت میں ٹرائل نہیں کیا گیا ۔صرف تصدیق شدہ ہو تاہم اس تحریری بیان کو ثبوت پر کے طور پر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کو وی سی آر سریون اور دیگر ( ائر 1917CAL269(2)) اور محمد صدیقی بمقابلہ پھوپندرا نارائن روئے چوہدری سے مدد لی گئی ہے ۔پی ایل ڈی 1962ء ڈھاکہ 643اس کیس میں بھی ایسے ہی ہوا ’’ کیس خارج کرنے کیلئے تصدیق ضروری ہے ‘ اگر نہیں روکا گیا تو جھوٹ ہوگا ‘ قانون سازی کبھی مکمل نہیں ہو گی کہ مدعی کی جانب سے تصدیق شدہ تحریر بیان کو مخالف کیخلاف بطور ثبوت تصور کیا جائے ‘قانون کے سیکشن 191اور 193میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کے مطابق تصدیق شدہ تحریر بیان کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا تاہم سیکشن 191کو ایک خاص مقصد کیلئے نافذ کیاگیا ہے ۔2016ء ای سی ایم آر 274سپریم کورٹ آف پاکستان عظیم خان اور دیگر بمقابلہ مجاہد خان اور دیگر (جے) پینل کوڈ (XLV of 1960)سیکشن 365اے اور 302(بی ) انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء ‘ کریمنل پروسیجر کوڈ (V of 1998) اغواءبرائے تاون قتل ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ مقتول کی شناخت کیلئے ہڈیوں کا حصول ہڈیوں کی ڈی این اے رپورٹ یہ سب کچھ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سزا دینے کیلئے کافی ثبوت ہیں‘ اس کے علاوہ اگر موجودہ کیس میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کرکے اس پر انحصار کر دیا جائے تو یہ بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے کافی نہیں ہو گا‘ جب ثبوت کے انبار بھی لگا دئیے جائیں پھر بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے ڈی این اے رپورٹ پر انحصار کرنا کافی نہیں ہوگا‘ یہاں غیر جانبداری اور مکمل شفافیت ظاہر کر نا ہوگی ‘ مجسٹریٹ یا ان جیسی غیر جانبدارانہ اتھارٹی رکھنے والے حکام کی موجودگی میں مقتول کے جسم کے جو نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں اور جائے وقوعہ سے بھی قتل کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں انہیں محفوظ کرنا ہو گا لیکن اس کیس میں ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ‘ سپریم کورٹ نے ایک طرف ملزم کو جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس پر ذمہ داری عائد کی اور اسے سزائے موت سنائی ۔پی ایل جے 2002 لاہور 454 : مقرب حسین بوساطت قانونی نمائندگان اور دیگر بنام پیر زادہ محمد رفیق بوساطت قانونی نمائندگان ، پیرا 8A,7,4 اور 10c کو دوبارہ لیا جاتا ہے پی 4 ۔ اپیل کنندہ نے کرایہ کے بارےمیں 13 جنوری 1962ء کے حکم پر تکیہ کیا دستاویزات کی غیر تصدیق شدہ نقول دیں ۔پی7 ۔ دستاویزات کے تحت جواب دہندہ کو اجازت ملی کہ بنگلہ کے سامنے پلاٹ پر کوارٹر بنا سکے درحقیقت اس سے اپیل کنندہ کو پوزیشن سی ملا۔پی 8 اے ۔ میں یہ کہوں گا کہ مذکرہ دستاویزات کے سرسری مطالعہ سے یہ تاثر ملا ہے کہ ان غیر تصدیق شدہ دستاویزات پر بجا اعتراض اٹھایا گیا کہ اپیل کنندہ بیان ڈی ڈبلیو 3 تھا ۔ میرے ذہن کے مطابق یہ دستاویزات قانون شہادت حکم کے تحت قابل قبول نہیں ۔ ڈی ڈبلیو 3 کے تحت یہ دستاویزات غیر تصدیق شدہ نقل کی آگے نقل تھی ۔ یہ بھی قابل قبول نہیں ۔بی 10 ۔ میں قانونی مشیر سے متفق ہوں کہ مذکورہ 2۔ دستاویزات ثبوتوں کے طور پر ہر قابل قبول ہیں ۔اورنہ ہی تصدیق کیا گیا ہےیہ تمام داخلے محض عدالتی کارروائی کے حوالے سے ہیں اورنہ ہی اسے بطور داخلہ موجودہ کیس میں استعمال کیا جائےجوکہ ثبوتوں کی روشنی میں اسکے اپنے میرٹ پر ہو نے کا ریکار ڈ کیا جائے۔2016SCMR2084بعنوان اسفندیار اوردیگر بمقابلہ کامران اوردیگر وغیرہریکارڈ کے مطابق درخواست گزار نے دوران تفتیش سی سی ٹی وی کی فوٹیج پیش کیںجس کودرخواست گزارنے تفتیش آفیسر کے سامنے پیش کیا۔عدالتی سماعت کے دوران انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجازت لی گئی لیکن آرڈر1984کی روشنی میں پیش کرنے کو کہا گیا۔مخالف پارٹی کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مذکورہ فوٹیج کا جائزہ لے۔تمام جائزہ لینے کے بعد عدالت نے بتایاکہ عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج پر بطورثبوت بھروسہ نہیں کرسکتی۔لہٰذاعدالت کے فیصلے میں آرڈر1984کے مطابق کیس کے ثبوت پیش کئے جائیںجوکہ آرٹیکل 79تک محدود نہیں ہونے چاہیے۔2011 clj 233 Peshawarبعنوان مسزنشاتا بمقابلہ مسلم خان عرف مصلی وغیرہ Para 11 Bکودوبارہ پیش کیا جاتاہے۔مسز نشاط ،مدعی مقدمہ اورعبدالحکیم وغیرہ کے دستخط کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں ACW-3کے ثبوت پر بتایا گیا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات بھی مسزنشاط سے مطابقت رکھتے ہیں۔لہٰذایہ ثبوت کے طور قابل غورنہیں لائے جاتے جوکہ کمزورتصورکئے جاتے ہیں۔مگرمدعا علیہ قرآن شہادت کے آرٹیکل 8اور9پر پورانہیں اترتے اور اسکی تعمیل میں ناکام ہوئے ہیں۔لہٰذا انگوٹھوں کے نشانات بھی اس سیل ڈیڈ کو متنازعہ بنادیتے ہیں۔ مذکورہ کیس میں بھی ایکسپرٹ رائے کو بھی ثبوت کے طورپرکمزورتصورکیا جاتا ہے۔جب پارٹی اپنے کیس کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے توایسی صورت میں بھی Expert Opinionکوترجیح دی جاتی ہے جوکہ ثبوت کا کمزورذریعہ تصورکیا جاتاہے۔ جیساکہ سید محمد عمر شاہ بمقابلہ بشیراحمد کے کیس میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 61کے مطابق Hand writingکی ماہر ین کے رائے کو بھی ثبوت کے طورپر کمزورتصورکیا جاتاہے،بیشترزبانی،دستاویزی اوردیگرحقائق پرمبنی ثبوت ہونے کے باوجوداس پر ایسے ثبوتوں پر ترجیح نہیں دی جاتی۔PLD 2005 Quetta عنوان اشفاق خالد بمقابلہ سٹیٹ پیرا33 کودوبارہ پیش کیا جاتاہے:جہاں تک Handwritingکے ماہر کا تعلق ہے ۔1985میںSCMR کاسپریم کورٹ میں کیس رپورٹ ہواجسکے پیج359میں بتایا گیا کہ Handwritingایکسپرٹ کی رائے کو فائنل تصورنہیں کیا جاتاہے۔اس حوالے سے متعلقہ آبزویشن دوبارہ پیش کی جاتی ہیں۔ہینڈرائیٹنگ کی رائے، ایکسپرٹ ہینڈرائٹنگ کی رائےاورتمام قسم کے شواہد جو عدالت میں جمع کیے گئے غیرتسلی بخش تھے۔ یہ شواہد اتنے کمزور اورپرانے تھے کہ جسے قانونی نظام میں پیش کرنے کے قابل نہیں ۔عدالتیں محض ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہیں کرتیں ۔ AIR1947 oudh page 180کے فیصلے کے مطابق جج نے بتایا تھا کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائے پر انحصار کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔DW 22کے سلسلے میں آخری گواہ ہ پر غور کیاجاسکتا ہے میری خواہش ہے کہ کہوں کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی جانب سے متنازعہ دستاویزکے حوالے سے پیش کی گئیں ثبوت کافی نہیں۔ میں اسے منظور کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں۔ مسٹر وسیم نے رائے کا اظہار کیا مختلف کتابوں میں ہینڈرائیٹنگ ایکسپرٹ کی شواہد کے حوالے سے ۔ لہذا میں مکمل طور پر حوش وہواس میں کہتا ہوں کہ ایسے گواہوں کے شواہد پر انحصار کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک ماہر مختلف کیسز میں تعصب پسند ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم پی ایل ڈی 1958لاہور پیج 447کے فیصلہ کا حوالہ دے سکتے ہیں، ہینڈنگ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائےسے متعلق احتیاط برتنا چاہیے تاہم ایک ایکسپرٹ جانبدار بھی ہوسکتا ہے لہذا اس حوالے سے کورٹ کو تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح کے ایک اور فیصلے میں بتایا گیا کہ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے لیکن اس پر فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ۔ لہذا وہاں کچھ شواہد ہونے چاہیے تاکہ ان بیانات کی تدرستگی کا جائزہ لیاجاسکے۔ 1969 ء کے‘ پی سی آر ایل جے‘ کی ملکیت کے حوالے سے فیصلے میں ہاتھ کی لکھائی کے ماہر کی رائے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس کے مطابق ’’ہاتھ کی لکھائی اور دستخط کے حوالے سے ماہرکی رائے ہے کہ لکھائی اور دستخط قابل یقین نہیں تاہم ان میں ردوبدل ہو سکتا ہے اور ماہر اسے جعلی ثابت نہیں کر سکتا جب تک لکھنے والے اور دستخط کرنے والے کی لکھائی اور دستخط صاف نہ ہوں جس کیلئے لکھائی اور دستخط کا ایک متن بھی دیکھنا ہوگا لیکن ایسے عمل کی قانون حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے‘‘۔اسی طرح لکھائی کے ماہر کی رائے پر غور کرنے کے بعد حالات و واقعات کے تحت عدالت آزادانہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے جبکہ ڈی ایل ڈی ڈھاکہ کے 1966ء کے ایک کیس کے فیصلے کے صفحہ نمبر 444 کے مطابق ’’قانون کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کو مان سکتی ہے لیکن عدالت کی یہ ڈیوٹی بھی نہیں کہ وہ ان سب کو ہی منسوخ یا مسترد کر دے‘ عدالت حتمی فیصلے کے نتیجے پر پہنچنے کیلئے کسی ماہر کو اپنی رائے دینے کیلئے بلا سکتی ہے تاہم اس کیس میں نقوش صاف ظاہر ہیں ‘ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کے بغیر ازخود آزادانہ طور پر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ‘‘۔دو مختلف لکھائیوںاور دسختطوں کے موازنہ کریں تو لکھائی کے ماہر تو لکھائیوں اور دستخطوں کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ہے جیسے کہ پین کا پکڑنا‘ پین کا پریشر‘ لچکداری‘ سپیڈ ‘سائز‘ سپیس ‘ لائن کی کوالٹی ‘ریدھم اور لمحات ‘ تمام الفاظ ‘ سیاہی اور لکھنے کے آلات کا جائزہ لینا ہوتا ہے‘ اسی طرح لکھائی کے اصولوں کے موازنہ سے قبل اس کو دیکھا جاتا ہے‘ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی شخص سے اس کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے موازنہ کیلئے نمونے ایک جیسے لئے جائیں‘ ممکن ہو تو ایک ہی قسم کی سیاہی ‘ ایک ہی قسم کے لکھائی کے آلات ‘ اگر پینسل کے ساتھ لکھا گیا ہے تو پینسل کا نمونہ لیا جائے اگر بال پین ہو تو بال پین کا ۔2016ء پی سی آر ایل جے 1343لاہور غلام سرور خان لالوانی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 20ڈی کے مطابق ’’استغاثہ کیلئے ضرور ہے کہ و ہ تمام ثبوت اکٹھے کرے کہ جس اثاثوں سے پلاٹ خریدا گیا ہے اس کیلئے وسائل کہاں سے آئے تاہم ایسے کوئی ثبوت اکٹھے نہیں کئے گئے ۔پی ایل ڈی 2002ء پشاور 118محمد حیات خان سمیت دو دیگر افراد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 81کے مطابق ’’ اگر ہم کسی ڈکشنری سے ’’ڈیپنڈنٹ ‘‘ لفظ کا مطلب حاصل کر لیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص معاشی طور پر کسی دوسرے شخص پر انحصار کر رہا ہے اور اسےگزر بسر کیلئے معاشی طور پر اس شخص سے تحفظ ملے ‘‘پی ایل ڈی 1993سپریم کورٹ 88ایٹلانٹک سٹیمرز سپلائی کمپنی بمقابلہ ایم وی ٹائٹسی و دیگر کیس کے پیرا13جی کے مطابق اوپر والے مضمون کے متن کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی بھی بیرونی ملک کے قانون کے مطابق ایک شخص کسی کتاب کی چھپائی اس ملک کے قانون کے تحت کر سکتا ہے اور یہی ’’ قانون شہادت ‘‘ کے آرٹیکل 59سے بھی ثابت ہے کہ غیر ملک کے قانون پر ماہر کی رائے درست ہے تاہم ایک ماہر چانچ پڑتال بھی کر سکتا ہے‘‘۔پی ایل ڈی 1972ء سپریم کورٹ 25مسز خیر النساء اور دیگر 6افراد بمقابلہ ملک محمد اسحاق و دیگر افراد ’’ عدالت میں دائر کردہ کسی شخص کے تحریر بیان کو اسی شخص کے بغیر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ تحریر بیان حلفیہ طور پر نہ ہو اور اس کی صرف تصدیق ہوئی ہو تو یہ کسی بھی کیس میں شہادت کے طور پر پیش نہیں ہو گا‘ اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کمپنی سی آر سریون اور دیگر کے کیس سے مدد لی گئی ‘‘ ۔2010ء سی آر ایل جے 1832کراچی میر فیاض احمد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 21کے مطابق ’’مذکورہ کیس کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ قانون بڑا واضح ہے کہ لکھائی کے ماہر کی رائےکیا ہے ‘ صرف رائے ہے تاہم مبینہ ہاتھ کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے کسی بھی نتیجے پر پہنچے کیلئے یہ رائے کافی نہیں ہو گی ‘ماہر کی رائے کی حیثیت سے معمولی ہے تاہم سزا کا تعلق ماہر کی رائے سے نہیں ہو گا ‘‘۔پی ایل ڈی 2005ء کراچی 443منصور احمد قریشی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 141کے مطابق ’’جہاں متعلقہ سزا کے ساتھ نیا جرم سرزد ہو جائے یا پہلے سے ہوئے جرائم پر نئی سزا دی جائے یہ ترمیم شدہ قانون کے تحت یہ سزا قابل عمل نہیں ہوگی‘‘۔پی ایل ڈی 2010ء سپریم کورٹ 1109بینک آف پنجاب و دیگر بمقابلہ حارث سٹیل انڈسٹریز (پرائیویٹ ) لمیٹڈ کیس کے پیرا 30ای کے مطابق ’’ایماندارانہ تحقیقات ہوں اور غیر جانبداری کے بغیر اس تحقیقات کے منصفانہ ہونے کی گارنٹی بھی ہو تو تحقیقاتی افسر صرف ایک مریض اور الجھن کا شکار ہو گا ‘‘۔ثبوتوں کے انبار اور ملزم کی جانب سے صفائی 2007ء ایم ایل ڈی 210کراچی حاکم علی زرداری بمقابلہ ریاست کیس کے آخری پیرا کے صفحہ نمبر 923کے مطابق ’’ثبوتوں کے انبار کے سلسلے میں عام قانون کے مطابق ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو اور جرم ثابت کرنا ہمیشہ استغاثہ کا کام ہے تاہم اسی آرڈیننس کے سیکشن 14(سی ) جو کہ عام قانون سے ہی لیا گیا ہے کے مطابق کرپشن کے ممکنہ امکانات یا کرپٹ کاموں کو واضح کرنا ہوگا‘ اگر کوئی ملزم یا کوئی بھی شخص غیر ملکی سرمائے یا زمین کے حوالے سے چھوٹے سے سرمائے کیلئے کمائی کا ذریعہ بتانے میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے توکمائی کے ذرائع کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈالنے کیلئے قانون خاموش ہے تاہم ہمیشہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہونی چاہیے ‘ قانون کے مطابق ایسے کیسز میں استغاثہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملزم کیخلاف ثبوت فراہم کرکے عدالت کو مطمئن کرے کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں‘ اس نے کیسے زمین یا غیر ملکی سرمایہ حاصل کیا‘ عدالت کو ضرورت ہے کہ تصور کرے کہ قانون کے سیکشن 14(سی) کے تحت فراہم کردہ ثبوتوں کے تحت ملزم نے جرم کیا ہے‘ استغاثہ کیلئے ضرورت ہے کہ وہ پہلے ملزم کے اثاثوں اور کمائی کے درمیان فرق واضح کرے لیکن جہاں ملزم اس حوالے سے مطمئن نہ کر سکے تو ثبوت کی ذمہ داری ملزم پر ہرگزنہیں ڈالی جا سکتی ہے وہ ثبوت لا کر مطمئن کرے‘ رامیشور پرساد اُدھاپیا بمقابلہ حکومت بہار ریفرنس (ائر 1971ایس سی 2474) کے مطابق ملزم کی جانب ثبوت فراہم کرنے کی حدتک یہ کہ ملزم پر ضروری نہیں کہ اس پر جو الزامات ہیں وہ اسی کے ثبوت بھی فراہم کرےاور نہ ہی وہ اس کا ذمہ دار ہے تاہم پراسکیوشن کا کام ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے جو ملزم پر الزام ہے تاہم جب ملزم کیخلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران مندرجہ بالااصولوں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ملزم اس قابل ہو کہ وہ حالات بیان کرکے عدالت کو مطمئن کر سکے تو یہ کافی ہو گا اور ملزم پرثبوت لانے کا سلسلہ ختم کر دیا جائے ۔ثبوت کے معیار کی تین اقسا م ہیں I۔ ثبوتوں کے پیش نظر امکانات کی برابری
II۔ ممکنہ حد تک کسی شک پر ثبوت معیاری اور واضح ثبوت پر قائل کر نا سیکشن 14(سی) کے مطالعہ کے مطابق9(اے) (V) کے جرم میں معیاری ثبوت ضروری ہیں ۔2009ء کے ایس سی ایم آر 790کو یہاں پیش کیا جا سکتا ہے جہاں یہ ہوا ‘ اگر این اے او کو استعمال نہ کیا جا سکے تو ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ دار ملزم پر نہیں بلکہ استغاثہ پر ہو گی اور ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری خاص ثبوت کے بغیر کبھی بھی عائد نہیں ہوگی ۔2010ء ایس سی ایم آر 1697ء
محمد ہاشم بابر بمقابلہ ریاست و دیگر کے کیس کے مطابق ’’یہاں یہ اضافہ کرنا ضرور ی ہے کہ کسی کیس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اور استغاثہ کے الزامات یا جرم کو ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور ہونگے ۔
(V)یہ ثابت کرنا ضرور ہے کہ ملزم کے پاس کسی بھی قسم کا حکومتی عہدہ تھا ۔
(VI)غیر ملکی سرمایہ یا زمین کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرنا ضرور ہے ۔
(VII) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں ۔
(VIII) یہ بھی ثابت کرنا ضرور ی ہے کہ سرمایہ یا زمین ملزم کے قبضے سے ملی ہے اور وہ سرمایہ بھی واضح نہیں ہے ۔
اگرپہلے سے جرم ثابت ہو جائے اور قانون کے سیکشن 9(اے) (وی) کے مطابق مکمل ہو جب تک ملزم سرمایہ یا زمین ثابت نہ کر سکے لیکن قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ کسی سرمائے پر زمین پر صرف قبضہ کوئی جرم نہیں لیکن اس سرمائے یا زمین کے حصول کیلئے استعمال ہونے والے سرمائے یا ذرائع آمدن کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکنے کی صورت میں اس سرمائے یا زمین پر سوالات اٹھیں گے اور ملزم ثابت نہ کر سکے تو یہ ایک جرم ضرور ہوگا ‘ قانون کے سیکشن 14(سی ) کے ملزم جس ملزم پر کرپشن اور کرپٹ کام کرنے کے الزامات ہوں تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا‘ بصوابوشان نائیک بمقابلہ سرکاری (ائر 1954ایس سی 350) کیس کو دیکھیں کہ یہاں قانون کے سیشن 14کے تحت ریکارڈ سے ثبوت لا کر پیش کئے گئے اور اگر کونسل ثبوتوں میں کسی ایک صفحہ یا سیکشن پر یہ ثابت کردے کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں یا صحیح طریقے سے اس کی چھپائی نہیں ہوئی یا عدالت اس کو پڑھ ہی نہ سکے تو تو پٹیشنرکی جانب سے خرچ کردہ 14لاکھ روپے ختم نہیںہونگے ‘ یہ بھی قانون سے ہی واضح ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے حوالے سے ذمہ دار استغاثہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملزم پر ثابت کریں کہ یہ سرمایہ یا زمین اسی کی ہے یا نہیں‘ اور یہ اس نے کس سرمائے سے کیسے حاصل کئے ہیں‘ اور نیب قانون 1999ء کے مطابق استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس سرمائے یا زمین کو حاصل کرنے میں کرپشن ہوئی ہے یا نہیں ‘ اگر استغاثہ اس میں ناکام رہے تو یہ ذمہ داری ملزم پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ثابت کرے اور مطمئن کرے کہ سرمایہ کہاں سے آیا ‘ عدالت احتساب بھی کر سکتی ہے ۔
فاضل جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے ایس سی ایم آر 790 /سال2009 بعنوان ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ اگرچہ دفعہ 14(سی) نیب آرڈیننس میں موجود ہے مگر اس کے باوجود ابتدائی بارثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہوتاہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور جب تک ابتدائی بار ثبوت درست طور پر ڈسچارج نہ کیا جائے اس وقت تک ملزم کے حق میں بے گناہی کا ٹھوس یقین موجود رہتا ہے اور تمام حالات میں استغاثہ کسی طور ملزم کا جرم ثابت کرنے سے بری الذمہ نہ ہو سکتا ہے۔ مزید فاضل جج نے 2010ء وائی ایل آرصفحہ 230کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر کیس کے اپنے واقعات اور پس منظر ہے اور کسی کیس کے واقعات آنکھ بند کر کے دوسرے کیس پر منطبق نہ کئے جا سکتے ہیں۔ فاضل عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے نظائر کے پس منظر میں فاضل جج نے ریفرنس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ سال 2016ء میں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے ’’موزیک فونسیکا‘‘ جو کہ پاناما ملک میں ایک لا فرم ہے کا ڈیٹا ہیک کیا اور اس کو شائع کر دیا جس میں ان تمام لوگوں کے نام موجود تھے جنہوں نے بین الاقوامی کمپنیوں سے روابط استوار کئے ہوئے تھے اور ٹیکس سے بچنے کیلئے اور اپنی دولت کو چھپانے کیلئے انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی اور مزید یہ کہ ان کا سب سے بڑا مقصد کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔پاناما پیپرزکے شائع ہونے کے بعد فاضل عدالت عظمیٰ نے معاملے کا جائزہ لیا اور ملزمان فاضل عدالت عظمیٰ کی تمام کارروائی میں شامل ہوئے ابتدائی طور پر فاضل عدالت عظمیٰ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ 20اپریل 2017ء کودیااور نیب کو تفتیش کرنے کیلئے ہدایت دی اور اس بارے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی اور اس بابت وضاحت دی گئی کہ اس میں ایف آئی اے کا سینئر آفیسر نمائندہ نیب ، ایس ای سی پی کا نامزد، سٹیٹ بینک کا نامزد کردہ ممبر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سینئر افسران شامل ہونگے۔ تفتیشی ٹیم کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس امر کا تفصیلی جائزہ لے کر آیا ملزم نواز شریف یا اس کے بچوں یا بے نامی دارنے اپنے وسائل اور آمدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کئے تھے تمام ملزمان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی اور تفتیشی ٹیم کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ایف آئی اے اور نیب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس یا دیگر اثاثہ جات اور آمدن کی بابت کوئی بھی ریکارڈ حاصل کر سکتی تھی‘ فاضل عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر تحقیقاتی ٹیم واجد ضیاء پی ایس پی ، بریگیڈئیر(ر) محمد نعمان سعید نمائندہ آئی ایس آئی، بریگیڈئیر کا مران خورشید ممبر ملٹری انٹیلی جنس عامر عزیز ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بینک آف پاکستان، بلال رسول ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی پی اور عرفان نعیم منگی ڈائریکٹر نیب پر مشتمل تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کو مندرجہ ذیل واقعات پر تفتیش کرنے کی ہدایت کی گئی کہ گلف سٹیل ملز کیسے بنی ؟اور کب فروخت ہوئی، اس کی ذمہ داریوں کا کیا بنا؟ اس کی قیمت وصول شدہ کہاں استعمال ہوئی ، جدہ ، قطر اور انگلینڈ کیسے پہنچی؟ کیا ملزمان حسن اور حسین نواز کے پاس 90ء کی دہائی کے اوائل میں اتنے اثاثہ جات موجود تھے کہ وہ فلیٹ خرید سکیں؟ کیا حماد بن جاسم بن جبر الثانی کے خطوط حقائق پر مبنی تھے؟ حصص کو کیسے فروخت کر کے ان سے فلیٹ کی خریداری کی گئی؟ درحقیقت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نسکول لمیٹڈ کا مفاد اٹھانے والا اصل کون ہے؟ ھل میٹل کب اور کیسے وجود میں آئی؟ ، مدعا علیہ نمبر 8نے کب اور کیسے کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ اور مزید یہ کہ حسین نواز نے کس طرح ملزم نواز شریف کو کروڑوں روپے گفٹ کئے؟ تحقیقاتی ٹیم نے 16جولائی 2017ء کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی فاضل عدالت عظمیٰ نے مورخہ 28جولائی 2017 کو نیب کو ریفرنس تیار کر کے تحقیقاتی ٹیم کے جمع شدہ مواد پر مبنی نیب عدالت میں داخل کرنے کی ہدایت کی جنکی بنیاد پر ایون فیلڈ فلیٹس عزیز یہ سٹیل کمپنی اور دیگر کمپنیوں کی بابت ریفرنس دائر کئے گئے فیصلے میں فرد جرم کی بابت تفصیل بیان کی گئی جس میں مرکزی ملزم میاں نواز شریف کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے موردالزام ٹھہرایا گیا کہ وہ اپارٹمنٹ نمبر16اے، 17اور 17اے سے پارک لین لندن کے مالک تھے اور یہ کہ یہ فلیٹس نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکال لمٹیڈ کے ملکیت تھے اور مزید انکو ہدایت کی گئی کہ انکی خرید قانونی طور پر کرنے کے وسائل انکے پاس نہ تھے۔ مزید یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے وسائل ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کس طرح انہوں نے یہ اپارٹمنٹس خرید کئے تمام ملزمان نے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا‘ فاضل عدالت نے نیب آرڈیننس 1999کی دفعہ 9کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی کہ ہر وہ شخص جو کہ اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر اپنے وسائل اور آمدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کرے تو وہ دفعہ 9اے آرڈیننس کے تحت جرم کا مرتکب ہو گا۔ مزید دفعہ 14(سی) آرڈیننس ہذا کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہر شخص جس کے اثاثہ جات اس کی آمدن سے زائد ہیں اگر اس کی وصاحت نہ کر سکے تو وہ جرم کا مرتکب تصور ہو گا۔ آرٹیکل 122اور 129قانون شہادت آرڈر 1984کا مزیدحوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جب کوئی خاص واقعہ کسی شحص کے علم میں ہو تو پھر اس واقعہ کے ثابت کرنے کا بار ثبوت اسی شخص پر ہو گا اپنے فیصلے میں فاضل جج نے بار ثبوت کے معیار کی بابت تحریر کیا کہ بار ثبوت تین قسم کا ہوتاہے جس میں (i)حقائق زیادہ واضح ہوں یا (ii)جرم کو بلا شک و شبہ ثابت کیا جائے یا(iii)درمیانی راستہ یہ ہے کہ حقائق واضح ہوں اور مثبت شہادت موجود ہو ، فاضل جج نے 2007 ایم ایل ڈی کراچی صفحہ 210’’حاکم علی زرداری بنام سرکار‘‘210ایس سی ایم آر 1697’’محمد ہاشم بابر بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی شحص کو جرم ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ کسی سرکاری منصب پر فائز تھا، اس کے معلوم ذرائع آمدن کیا تھے اور مزید یہ کہ اس کے اثاثہ جات اس کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتے تھے‘ فاضل جج نے آرٹیکل (4)2قانون شہادت آرڈر کا حوالہ بھی دیا کہ شہادت دراصل واقعات ہوتے ہیں جو کہ صفحہ مثل پر آ جائیں تو یہ واقعات شہادت سے زیادہ وسعت رکھتے ہیں ملزمان حسن نواز اور حسین نواز نے واضح موقف اختیار کیا کہ اپارٹمنٹس نیلسن انٹر پرائزز کے ملکیت تھے اور یہ کہ ان کمپنیوں کے حصص قطر کی شاہی فیملی نے ایک معاہدے کے تحت انکے حوالے کئے۔استغاثہ کی جانب سے واجد ضیاء دوران شہادت بطور گواہ نمبر 16 پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے انگلینڈ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خطوط تحریر کئے اور وہاں سے اپارٹمنٹس کی بابت تفصیلات حاصل کیں۔ مزید برآں ظاہر شاہ ڈائریکٹر جنرل آپریشن نیب استغاثہ کے گواہ نمبر 17 پیش ہوئے اور انہوں نے وہ دستاویزات پیش کیں جو کہ عثمان نامی شخص نے حوالے کی تھیں اگرچہ فاضل جج نے فیصلے میں یہ تحریر کیا کہ ملزمان کی جانب سے اس امر پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ دستاویزات پیش کردہ قابل ادخال شہادت نہ تھیں کیونکہ نہ تو عثمان نامی شخص پیش ہوا نہ ہی دستاویزات پیش کردہ کسی بھی ادارے کی تصدیق شدہ تھیں تاہم فاضل جج نے اعتراضات اس بنیاد پر مسترد کئے کہ چونکہ استغاثہ کا گواہ نمبر 17 اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے اور انہوں نے برحلف بیان دیا تھا لہٰذا ان سے جھوٹ کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں فاضل جج نے دفعہ 21 (بی) نیب آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دستاویز جو کہ کسی غیر ملک سے پاکستان منتقل ہو دوران شہادت پیش کی جا سکتی ہے لہٰذا اعتراضات ملزمان مسترد کر دیئے گئے۔ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا کہ فلیٹ نمبر 16، 31 جولائی 1995ء کو نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 16 اسے بھی تاریخ مذکورہ پر اسی کمپنی کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 17 مورخہ یکم جون 1993ء اور فلیٹ نمبر 17 اسے 23 جولائی 1996ء کو نیلسن کمپنی کی ملکیت میں آیا دیگر دستاویزات جو کہ استغاثہ کے گواہ نمبر 16 نے پیش کی لیکن ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں صفحہ نمبر 152 پر بتایا کہ یہ کس کی ملکیت تھیں اور مزید یہ لکھا کہ یہ نیلسن انٹرپرائزز کی ملکیت 1993ء اور 1996ء میں مکمل طور پر بن گئیں۔ واجدضیاء کے بیان کا مزید حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے ایف آئی اے کے جاری کردہ ایک خط کا حوالہ دیا جو کہ بطور استغاثہ کے ثبوت نمبر 48 پیش کیا گیا۔ واجد ضیاء نے دوران شہادت ایف آئی اے کے خط مورخہ 12 جون 2012ء کا حوالہ دیا جو کہ موزیک فونیسکا سے متعلق تھا اور فرم مذکورہ سے اس امر کی وضاحت طلب کی گئی تھی کہ نیلسن کمپنی کا اصل مفاد اٹھانے والا کون تھا اور یہ کہ اس فرم نے یہ تحریر کیا کہ مریم صفدر نیلسن کمپنی کی مفاد کنندہ تھیں، مختلف اعتراضات ملزمان کی جانب سے اٹھائے گئے مگر فاضل جج نے ان کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کی تردید میں کوئی ثبوت یا دستاویز پیش نہ کر سکیں اور یہ کہ دستاویزات ازاں استغاثہ ملزمہ مریم صفدر کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ فاضل جج نے واضح طور پر تحریر کیا کہ غیر ملکی کمپنیاں جنت میں بنائی گئی تھیں تاکہ اس کے پیچھے چھپائے جا سکیں اور یہ کہ ان سے پردہ ہٹانا بہت مشکل تھا۔ مزید برآں فاضل جج نے اسسٹنٹ جنرل منیجر سامبا جو کہ مناروا کا ایک فنانشل گروپ ہے کے خط مورخہ 3 دسمبر 2005ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس خط کی رو سے مریم صفدر ان کی کسٹمر تھیں اور اس نے سرور پیلس جدہ کا ایڈریس دیا تھا اور مزید یہ کہ خط مذکور ملزمہ کی گناہگاری مکمل طور پر ثابت کرتا تھا۔ فاضل جج نے گواہ نمبر 16 کی جانب سے پیش کردہ تیتمہ بیانات ملزمان کا حوالہ بھی دیا جن کے مطابق گلف سٹیل فیکٹری ملزم نواز شریف کے والد محمد شریف نے 1974ء میں بنائی جس کو طارق شفیع ظاہری طور پر چلاتا تھا۔ اصل مالک محمد شریف اور مزید یہ کہ اس کمپنی کے 75 فیصد حصص 21 ملین ابوظہبی درہم کے عوض فروخت کئے گئے جو کہ بی سی سی آئی کو اپنے قرض کی واپسی کے لئے دیئے گئے اور مزید یہ کہ ایک دیگر معاہدہ عبداللہ آہلی کے ساتھ کیا گیا جو کہ 75 فیصد کا مالک بنا جبکہ طارق شفیع 25 فیصد کا مالک بنا اور ایک نئی کمپنی آہلی سٹیل ملز کے نام سے قائم کی گئی۔ 1980میں طارق شفیع نے محمد شریف کی ایماء پر 12ملین درہم کے عوـض 25فیصد حصص فروحت کئے جو کہ قطر رائل فیملی میں انویسٹ کئے گئے اور یہ کہ رائل فیملی قطر نے نیلسن کمپنی کے نام پر اپارٹمنٹس خریدے جن میں ملزمان حسین اور حسن نواز رہائش پذیر رہے ۔سال 2006میں حسین نواز اور قطر کے رائل شہزادے کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے وہ اپارٹمنٹس کا مالک بن گیا اور اس کا طریقہ کار یہ بنا رکھا گیا کہ حسین نواز کمپنی کے شیئر کا مالک بنایا گیا۔ فاضل جج نے تیتمہ بیان پر اٹھائے گئے اعتراضات ملزمان جو کہ اس بنیاد پر کئے گئے تھے کہ گواہ استغاثہ نمبر 16دستاویز کا تحریر کنندہ نہ تھا کہ قانون شہادت کے آرٹیکل نمبر 76کا حوالہ دیکر مسترد کر دیا اور تحریر فرما کر بطور ثانوی ثبوت دستاویز مذکور قابل ادخال شہادت ہیں۔ فاضل جج نے آرٹیکل 89اور 77کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ثانوی شہادت قابل ادخال شہادت تھیں اور اس کے لئے اس دستاویز کو پیش کرایا جانا ضروری نہ تھا ۔ فاصل عدالت نے حسین نواز کے اس موقف کہ 12ملین درہم قطر شاہی فیملی میں انویسٹ کئے گئے کو بعیدازقیاس تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے حماد بن حاثم التہانی جو کہ قطر کی شاہی فیملی کا فرد ہے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے تعاون نہ کیا اور چونکہ ملزم نے بھی کوئی تحرک نہ کیا لہذا استـغاثہ جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بابت پیش کردہ سی ڈی/ڈی وی ڈی کا ذکر کیا گیا جو کہ مختلف انٹرویوز کی بابت تھیں جن میں اپارٹمنٹس کی بابت مختلف موقف اختیار کئے گئے تھے اور جو سوالات ملزمان سے انکی بابت کئے گئے انکے جوابات کا حوالہ بھی فیصلے میں دیا گیا جس میں ملزم نواز شریف واضح طور پر سی ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دبئی فیکٹری کی کسی بھی ڈیل میں شرکت نہ کی اور انہوں نے قوم سے اپنے خطاب میں کبھی بھی اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم نہ کی تھی اور یہ کہ ملزم نے نیسکال اور نیلسن کمپنی کی ملکیت سے بھی مکمل طور پر انکار کیا۔حسین نواز کے انٹرویوز کی بابت ملزم نوازشریف سے مختلف سوالات کئے گئے تاہم انہوں نے صریحاََ انکار کرتے ہوئے کہاکہ ان چیزوں کاان سے کوئی تعلق نہ تھا اورکسی طورپر کمپنیوں اورانکی جائیداد کی خریداری میں شریک نہ رہے ۔ فاضل جج نے اس امر کی بھی وضاحت دی کہ ملزم نے یہ کہاتھاکہ تمام کمپنیاں حسین نواز اورآف شور کمپنی سینکال کی ملکیت تھیں جبکہ ملزم نوازشریف کاان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ فاضل جج نے یہ بھی تحریرکیاکہ مریم صفدر ،حسین نواز اورحسن نواز کی جائیداد کی تفصیلات جوکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیش کیں انکے انکم ٹیکس اورویلتھ ٹیکس بیان سے مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔فاضل جج نے برٹش ورجن آئی لینڈ کے قوانین کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ انٹرنیشنل بزنس کمپنیز ایکٹ 1984ء کی روسے کوئی بھی شخص مفاد اٹھانے والی مالکانہ حیثیت میں جائیداد رکھ سکتا تھا اوراس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جوبھی قابض ہے وہ مالک ہے فاضل جج نے تحریر کیا کہ 2006ء میں قوانین تبدیل ہوئے جسکی وجہ سے حصص کو رجسٹر کرایاگیا اورمریم صفدر انکی مفاد گریندہ بنی ۔فاضل جج نے التوفیق کی کارروائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مفاد گریندہ کی حیثیت کوثابت کرنابہت مشکل تھا ۔فاضل جج نے تحریر کیا کہ اگرچہ ملزم نواز شریف نے اپنے آپ کو تمام جائیداد ہائے سے لاتعلق ظاہر کیا مگر شہادت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ چونکہ حسن نواز نے مختلف کمپنیوں کے نام پر قرضے حاصل کئے جن میں ملزم نواز شریف ملازم تھا لہٰذا محض ملزم کے بیان کی روشنی میں اس کو بری الذمہ قرار نہ دیا جا سکتا ہے۔ فاضل جج نے اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ ملزم نے سوال نامے کا جواب جو کہ نیب کی طرف سے جاری کیا گیا تھا داخل نہ کیا تھا اور حسین نواز، مریم نواز اور حسن نواز کی عمریں 1993ء میں بالتریب 18,20 اور 16 سال تھیں اور جو کہ طالب علم تھے وہ اپارٹمنٹس خرید نہ سکتے تھے اور چونکہ ملزم نواز شریف خریداری کے ٹائم کے دوران وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے لہٰذا وہ جرم میں ملوث تھے اور اس طور جرم ثابت ہو چکا تھا۔ فاضل جج نے اس امر پر زور دیا کہ 1993-95-96ء میں ملزم کے بچے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ وہ جائیداد خرید کر سکیں لہٰذا ملزم ہی ذمہ دار تھا۔ فاضل جج نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے مکمل طور پر جرم ثابت کر دیا تھا فاضل جج نے تحریر کیا کہ چونکہ ملزم نواز شریف اقتدار میں تھے لہٰذا اس کا ناجائز فائدہ ان کے بچوں نے اٹھایا اور اس طور ملزم کا جرم ثابت ہو گیا تھا اور مریم صفدر کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جو دستاویزات انہوں نے پیش کیں وہ بوگس تھیں اور اس طور وہ جائیداد کو چھپانے میں ذمہ دار تھیں ان حالات وواقعات کی روشنی میں ملزم نواز شریف کو دس سال قید بامشقت اور 8 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا جبکہ ملزمہ مریم صفدر کو 7 سال قید بامشقت اور دو ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد صفدر ملزم کے حوالے سے تحریر کیا گیا چونکہ وہ جرم کی سازش میں شریک ہے لہٰذا ان کو ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی اور جائیداد ہائے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔ مزید برآں ملزمان کو دس سال تک الیکشن لڑنے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔