ہم ان دنوں اپنی داخلی سیاست اور انتخابی خرمستیوں میں مصروف کسی کی جیت اور کسی کی شکست کے اندازے لگانے اور سیاسی پارٹیوں کے بیانات اور اپنے ’’فیورٹ‘‘ امیدواروں کی کامیابی کی خواہشات میں گم ہیں۔ انتخابات کے بعد کے ایام اور حالات کےبارے میں قطعاً کوئی فکر نہیں کہ ہم پاکستانیوں کو کس صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے؟ ہمارے لئے بیرونی دنیا کے عزائم کیا ہیں؟ الیکشن کے بعد ہمیں کن معاشی، معاشرتی، ماحولیاتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا؟ ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کی مخلوط اور کمزور حکومت آنے والے مشکل حالات سے کیسے ڈیل کرے گی؟ ۔ یہ ایسے انتخابات ہیں کہ پارٹیوں کے منشور آنے سے پہلے ہی ووٹرز یعنی عوام کی ’’پولرازیشن‘‘ شروع ہوچکی ہے۔ منشور کچھ بھی ہو ’’فیورٹ‘‘ امیدواروں کو کھلی چھٹی اور غیرموافق امیدوار اور پارٹیوں کے ’’ہاتھ‘‘ باندھ کر انتخابات کروائے جارہے ہیں ہمارے فیصلہ سازوں اور سیاستدانوں نے ماضی کی انتخابی غلطیوں اور انتخابات کے جمہوری نتائج کی بجائے اپنی خواہشات کو مقدم رکھنے کے منفی نتائج اور انجام کا تجربہ کرنے کے باوجود اپنی روش تبدیل نہیں کی اور پسندیدہ گھوڑے جتوانے کی حکمت عملی بھی ترک نہیں کی۔
میں ان پاکستانیوں میں سے ہوں جن کو جنرل یحییٰ خان کے جاری کردہ (L.F.O) لیگل فریم ورک آرڈر 1969ء کے تحت متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات، انتخابی مہم، ان ’’منصفانہ‘‘ انتخابات کے نتائج اور بعد کے حالات کی سمت و رفتار دیکھنے کا موقع ملا۔ انتخابات کے نتائج کے بعد کی داخلی سیاست اقتدار کی منتقلی میں تاخیر اور تصادم کی حکمت عملی کے نتیجے میں داخلی سیاست کو پاک بھارت جنگ میں تبدیل ہوکر عالمی اہمیت کی جنگ بنتے اور پاکستان کو فوجی شکست اور ملک کو بنگلہ دیش اور پاکستان میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ زمانہ طالبعلمی میں ایوب خان کے دور حکومت میں شیخ مجیب الرحمن اور دیگر ساتھیوں کے خلاف ’اگر تلہ‘ سازش کیس کی سماعت کرنے والے مغربی پاکستان کے جج ایس اے رحمن کی مشرقی پاکستان سے ننگے پائوں واپسی کی مختصر سی خبر ’’جنگ‘‘ میں پڑھی تھی مگر ان تمام تلخ حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے اس دور کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے انہیں غیراہم معمولی واقعات قرار دے کر مٹی ڈال دی۔
قیام بنگلہ دیش کے بعد 1973ء میں مجھے بانی بنگلہ دیش (بنگلہ بندھو) شیخ مجیب الرحمن سے ملنے اور گفتگو کا موقع کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ملا اور 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے نیویارک کے پاکستانی مشن میں ملاقات اور کچھ تیکھے سوالات کا موقع ملا۔ مجھے اپنا یہ مشاہدہ بیان کرنے کی اجازت دیں کہ دونوں سیاستدانوں کو ملک کے دو حصے ہونے کا کوئی غم نہیں تھا۔ دونوں اس تاریخی ٹریجڈی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے نظر آئے۔ دونوں ہی اپنے اپنے زیرحکمرانی بنگلہ دیش اور پاکستان کے بااختیار حکمراں کے طور پر اپنے اپنے اقتدار کے استحکام کی فکر کرتے نظر آئے۔
خدا کرے اگلے چند روز میں ہونے والے پاکستانی انتخابات پرامن اوران کے نتائج و اثرات پاکستانی عوام اور پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوں۔ فی الوقت تو امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کو صرف اپنی انتخابی جیت سے آگے کی قطعاً کوئی فکر نہیں ہے۔پاکستان کی داخلی اور انتقامی سیاست نے پاکستان کیلئے ایک بڑے عالمی چیلنج کا سامان کر رکھا ہے جس کے بارے میں تمام سیاستدان خاموش ہیں۔ عوام بے چارے تو اپنی غربت ناخواندگی اور گزر اوقات کی آزمائشوں میں الجھے ہوئے ہیں وہ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی داخلی اور انتخابی سیاست کے کھیل اور اثرات کو کیسے اور کیا جانیں؟
ہمارے حکمرانوں نے عالمی معاہدوں اور غیرملکی سرمایہ کاری کے سلسلے میں مذاکرات اور پھر سمجھوتوں پر قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے جو دستخط فرمائے ان کا بوجھ بھی عوام کے کاندھوں پر آنے والا ہے اربوں ڈالرز کے جو قرضے لئے اس نے عوام کے مسائل تو حل نہیں کئے لیکن قوم پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کی داخلی انتخابی سیاست کے نتائج کچھ ہوں عالمی قرضوں کا بوجھ تو پاکستانی عوام نے ہی اتارنا ہوگا۔ اب آئیے اصل حقائق کی طرف۔ بلوچستان میں مائننگ کے حوالے سے ریکوڈک کا منصوبہ کینیڈا اور چلی کی مائننگ کمپنی کو دیا گیا تھا۔ مذاکرات اور معاہدہ کرتے وقت خود کو عقل کل اور بااختیار ہونے کے زعم میں نہ تو مذاکرات کے ماہرین اور تنازع کی صورت میں قانونی حل کے میکنزم کی پروا کئے بغیر معاہدے پر دستخط کرکے نہ صرف خود کو پابند کرلیا بلکہ عالمی ثالثی کا پابند بننا قبول کرلیا اور خود اپنی ملکی عدالتوں اور قوانین کی حدود سے بھی آزاد کردیا۔ اسی طرح ترک کمپنی کارے کردنیز کے ساتھ ’’رینٹل پاور‘‘ پلانٹ کے لئے بھی معاہدہ کیا۔ یہ دونوں منصوبے ہمارے باخبر نمائندوں اور مذاکرات کرنے والوں کی غفلت، لاعلمی اور پاکستان کو اپنی ذاگی جاگیر سمجھ کر سمجھوتوں پر دستخط کرنے والوں کی وجہ سے پاکستانی مفادات کا قانونی تحفظ نہ کرسکے جبکہ داخلی سیاست میں مصروف سیاستدانوں نے ان منصوبوں کو اپنی سیاست کا نشانہ بنایا اور دونوں منصوبوں پر عملدرآمد رک گیا۔ لہٰذا دونوں غیرملکی کمپنیاں معاہدے کی شق کے مطابق عالمی ثالثی عدالت میں چلی گئیں۔ پاکستانی عدالت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی مداخلت کی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ریکوڈک کے تنازع میں ورلڈ بنک کے انٹرنیشنل سینٹر برائے تصفیہ تنازعات (ICSID) نے کہاہے کہ فریقین آپس میں معاملہ طے کرلیں ورنہ ثالثی عدالت اپنا فیصلہ سنادے گی۔ ادھر ترک کمپنی کو رینٹل پاور پلانٹ کے معاملے میں پاکستان کے خلاف فیصلہ مل گیا۔ عیرملکی لافرم، وکلااور دیگر فیسوں اور اخراجات کے علاوہ پاکستان کو 800 ملین ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔ ریکوڈک کے معاملے میں چونکہ عالمی ثالثی کورٹ کا فیصلہ محفوظ ہے اور دونوں کے درمیان مذاکرات سے مسئلہ طے ہونے کا انتظار ہے مگر اس معاملے کی خبر رکھنے والوں کا اندازہ ہے کہ یہ معاملہ بھی غیرملکی وکلا کی فیس اور دیگر اخراجات کے علاوہ 8 تا دس ارب ڈالرز کے ہرجانے تک جاسکتا ہے یہ تمام جرمانے، ادائیگیاں اور مالی بوجھ پاکستان کو کسی فائدے کے بغیر ہی ادا کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان نے عالمی معاہدات کیلئے مذاکرات کے ماہرین کی کوئی ٹیم تیار نہیں کی۔ تنازع کی صورت میں اپنے ماہر ثالث بھی تیار نہیں کئے اور ان معاہدات کے تنازعات کی صورت میں کرپشن کہانیوں سے بچنے کیلئے اپنی عدالتوں کا دائرہ محدود کرکے عالمی ثالثی کا راستہ ہموار کردیا۔ پھر 2011ء میں غیرملکی سرمایہ کاری اور معاہدوں کے سلسلے میں جس آرڈیننس کو ایکٹ میں تبدیل کرکے قانون بنایا گیا۔ اس نے تو نہ صرف 1937 کے برطانوی سامراجی نظام میں بھی جو تحفظات حاصل تھے انہیں بھی ختم کرتے ہوئے پاکستانی عدالتوں کا اختیار ہی محدود کردیا۔ اس نئے ایکٹ کے سیکشن 3 تا 7 کے تحت غیرملکی کمپنیوں نے عالمی ثالثی کیلئے مقدمات دائر کرنا شروع کردیئے آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی ثالثی کے محاذ پر پاکستان ’’رینٹل پاور پلانٹ، ریکوڈک اور LPG کے پروگاس سمیت تمام کیس ہار چکا ہے۔ ان تینوں معاملات کو ہمارے سیاستدانوں نے داخلی سیاست کا معاملہ بنایا۔ دستخط کرنے والے بااختیار حکمرانوں نے نہ تو کوئی متفقہ مذاکراتی اور معاہداتی نظام وضع کیا اور نہ ہی تنازع کی صورت میں اپنی عدلیہ اور اپنی آزادی کو اختیار اور تحفظ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان تین کیسوں میں ہی پاکستان کو تقریباً بارہ ارب ڈالرز کے ہرجانے، معاوضے وغیرہ ادا کرنا ہوں گے باقی غیرملکی وکلا اور ماہرین کی فیس اور دیگر اخراجات الگ ہیں۔
گزشتہ روز پاکستان کے ایک متحرک وکیل سجاد رانا اقوام متحدہ عالمی ثالثی یعنی انٹرنیشنل آربٹریشن کے معاملات سے متعلق اجلاس میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں سینٹر برائے انٹرنیشنل انوسٹمنٹ اینڈ کمرشل آربٹریشن قائم کرکے عالمی ثالثی نظام کی جانب پاکستانی سفر کا آغاز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکمراں انٹرنیشنل سمجھوتوں، معاہدات اور ثالثی کے پاکستانی انتظامات کو فروغ دیں تو اس شعبہ میں پاکستان کے مفادات کا بہتر طور پر تحفظ کیا جاسکتا ہے۔
انتخابات کے نتائج کچھ ہوں اور حکومت کوئی بھی بنائے۔ ہمارے حکمرانوں نے داخلی سیاست کے ذریعے معاہدہ شدہ منصوبوں کو سبوتاژ کرکے عالمی ثالثی عدالتوں کے مذکورہ فیصلوں کے ذریعے بارہ ارب ڈالرز کے ہرجانے اور جرمانے پاکستانی قوم پر جولاد دیئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انتقامی، داخلی سیاست نے ہمیں عالمی برادری میں بھی قصوروار کے طور پر کھڑا کردیا۔ ان غلطیوں کی بھاری قیمت بھی اب پاکستانی قوم ادا کرے گی۔خدا کرے کہ الیکشن اور اس کے نتائج و اثرات پاکستانی عوام کیلئے امن اور بہتری لائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)