• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم... حکومتوں کی ترجیحات نہیں

میزبان: شازیہ ناہید

(ایڈیٹر فورم جنگ ملتان)

معاونت: خالد نور

عکاسی: وسیم خان

جنگ نیوز

تمام سیاسی جماعتیں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے اور ابتدائی تعلیم مادری اور قومی زبان میں دینے کا وعدہ کرتی ہیں لیکن عمل درآمد کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جاتے

پروفیسر حمید رضا صدیقی


جنگ نیوز

بے جا سیاسی مداخلت نے تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کیا، اراکین اسمبلی کے کوٹے پر بھرتی ہونے والے اساتذہ سے معیاری تعلیم کے فروغ کی توقع نہیں کی جا سکتی اسی لئے پرائمری ایجوکیشن میں بہت بڑا خلاء موجود ہے

ڈاکٹر حیات اعوان

جنگ نیوز

عوام کو سیاسی نمائندوں سے سوال کرنا چاہئے کہ وہ تعلیم کے فروغ کے لئے کیا اقدامات کریں گے کیونکہ اب سیاسی جماعتوں کو ڈلیور کرنا ہو گا دوسری صورت میں عوام کو جواب دینے کے لئے سیاست دان خود کو تیار رکھیں

عابد فرید بزدار

جنگ نیوز

تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت ماہرین کو آن بورڈ نہ لینے کی وجہ بیورو کریسی اور سیاست دان ہیں۔ سیاسی مداخلت ختم کئے بغیر تعلیمی پالیسیوں پر عملدرآمد کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا

پروفیسر تنویر احمد شاہ


تعلیم... حکومتوں کی ترجیحات نہیں

پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو مختلف حکومتوں کی جانب سے جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کے نتائج وقت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتی اس دنیا میں تعلیم پاکستان کے لئے موت یا حیات کا پیام ہے۔ تعلیم کے بغیر ہم نہ صرف قوموں میں پسماندہ ہو کر رہ جائیں گے بلکہ ملک کے وجود کو بھی انتہائی خطرہ ہو گا۔ پاکستان میں اب تک 9قومی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں جن میں تعلیم کو عام کرنے ، تکنیکی تعلیم، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے،اعلیٰ معیاری تعلیم اور تعلیم بالغاں کے فروغ پر زور دیا گیا ہے لیکن مصمم ارادے، مالی معاونت اور گڈ گورننس کے فقدان کی وجہ سے مطلوبہ اہداف کو کبھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ 2013ء میں تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے، یکساں نظام تعلیم رائج کرنے اور جی ڈی پی میں 4فیصد حصہ مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کو ایفا نہ کیا جا سکا۔اب 2018ء کے انتخابات سے قبل بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں تعلیم کے فروغ اور تعلیم سب کے لئے کا نعرہ بلند کر رہی ہیں اور پاکستان کی کل جی ڈی پی میں مسلم لیگ ن 4فیصد، پاکستان تحریک انصاف 4فیصد سے زائد، پاکستان پیپلز پارٹی5فیصد اور متحدہ مجلس عمل 5فیصد کے برابر حصہ مختص کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد اس وعدے کو کس حد تک نبھایا جائے گا۔پاکستان میں شعبہ تعلیم سے وابستہ مسائل اور پالیسیوں کی صورتحال پر روزنامہ جنگ ملتان کے زیر اہتمام فورم کا انعقاد کیا گیا۔ تفصیلی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔

جنگ: گزشتہ 5سالوںکے دوران شرح خواندگی، تعلیمی پالیسیوں پر عملدرآمد اور بجٹ پر آپ کی کیا رائے ہے؟

پروفیسرڈاکٹر حمید رضا صدیقی: (سابق ای ڈی او ایجوکیشن، ماہر تعلیم)

تعلیم کے شعبے کو ترجیح دے کر ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ہم شرح خواندگی کے مقصد کو محض پڑھنا لکھنا سمجھتے ہیں۔ 72سال کے عرصے میں ہماری شرح خواندگی 60فیصد سے نہیں بڑھ سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں کبھی سر فہرست نہیں رہی۔ ترجیحات مختلف ہیںاور اس لحاظ سے تعلیم پر جو پیسہ خرچ کیا جانا چاہئے وہ نہیں ہوتا جبکہ یونیسکو کے مطابق تعلیم پر کل جی ڈی پی کا 4فیصدخرچ کیا جانا چاہئے۔ ہمارے ہاں وعدے تو کئے جاتے ہیں لیکن ڈھائی فیصد سے زیادہ کا بجٹ کبھی نہیں رکھا جا سکا۔ پاکستان میں اب تک دس پالیسیاں آ چکی ہیں۔ ہر پالیسی اپنی جگہ مکمل ہوتی ہے جس میںبہت سے اقدامات کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ پہلی تعلیمی پالیسی قیام پاکستان کے فوراً بعد نومبر، دسمبر1947 ء میں آئی۔ اس وقت قائد اعظم ؒنے بھی قوم کو یہی پیغام دیا تھا کہ تعلیم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو ہم قوموں کی صف میں باوقار مقام حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔

پہلی تعلیمی پالیسی پر من و عن عمل کر لیا جاتا تو مطلوبہ مقاصد کو کافی حد تک حاصل کر لیا جاتالیکن کوئی بھی تعلیمی پالیسی اپنے اہداف حاصل نہ کر سکی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے کم از کم 56لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد وہ بچے ہیں جو میٹرک سے آگے نہیں جاتے یعنی اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ شرح خواندگی 60فیصد سے کم ہے۔حکومت تمام بچوں کے لئے داخلے کا ہدف تو مقرر کر لیتی ہے لیکن اتنے تعلیمی ادارے ہمارے پاس نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ اور سرکاری ملا کر کتنے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں جو تمام بچوں کو داخلہ دے سکیں۔ پنجاب حکومت نے سو فیصدداخلوں کا جو ہدف مقرر کیا تھا اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکااس سلسلے میں اساتذہ کو بھرپور تعاون کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔

اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے۔ تمام صوبے شعبہ تعلیم کے بجٹ اوردیگر معاملات کے لئے ذمہ دار ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے صرف گائیڈ لائن دی جاتی ہے عملدرآمد کروانا صوبوں کا کام ہے کیونکہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا اطلاق وفاقی اداروں پر ہو سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی بات کرتی ہیں ، سفارشات بھی تیار کر لی جاتی ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جا سکے۔اسی طرح ابتدائی تعلیم مادری اور قومی زبان میںدینے کا وعدہ تو کیا جاتا ہے اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔مذہبی مدارس کو قومی دائرے میں لانے کی بات ایک عرصے سے کی جا رہی ہے تاکہ انہیں بھی عمومی نظام تعلیم کے تحت لایا جا سکے۔ قومی اسمبلی میں وفاق کے حوالے سے قرآن پاک کی لازمی تعلیم اور چھٹی سے بارہویں تک ناظرہ کی تعلیم کو ضروری قرار دینا خوش آئند ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کو بھی قرآن اور ناظرہ کی لازمی تعلیم کے لئے ایسا قانون منظور کرنے کی ضرورت ہے۔پرائیویٹ سکولوںکا جو مسئلہ ہے ا س میں فیسوںکا اضافہ یاحکومتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے کوئی حکمت عملی طے نہیں کی جا سکی۔

جنگ: گزشتہ 5سالوں میں صوبوں کی کارکردگی کیسی رہی؟

ڈاکٹرپروفیسر حمید رضا صدیقی: پنجاب کی کارکردگی دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر رہی ہے اور اب بھی بہتر ہے۔ کم وسیلہ بچے حکومتی سرپرستی میں سرکاری خرچے پر پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جس سے 25لاکھ سے زائد طلباء مستفید ہو رہے ہیں ۔ اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن اکیڈمی کے قیام کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا جس سے اساتذہ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے مواقع پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اساتذہ کی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ لاہور، رحیم یارخان، فیصل آبادمیںیونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ترکی اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کے پیش نظر زبانوں کی تعلیم کے لئے لینگوئیج سکالر شپس دئیے گئے۔میٹرک تک مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ فیس نہ ہونے کے برابر ہے اور کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔پبلک اور پرائیویٹ سطح پر 20نئی یونیورسٹیاں اور دانش سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔مانیٹرنگ سسٹم ، اساتذہ کی کارکردگی اور نتائج میں بہتری لانے کے لئے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ اساتذہ کے لئے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ صوبے میں ایجوکیشن اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔سکولوں میں میرٹ پراساتذہ کی بھرتیوںکو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے گئے جس سے اراکین اسمبلی کی مداخلت کو کم کرنے میں مدد ملی۔ اربوں روپے کے انڈومنٹ فنڈسے امداد اور سکالر شپس دئیے جا رہے ہیں۔دیہی سکولوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان پر قابو پانے کے لئے توجہ دی جا رہی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی دلچسپی کی بناء پر ان اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

خیبر پختونخوا میں دیگر شعبوں کے حوالے سے ایجوکیشن پر زیادہ کام کیا گیا۔ اساتذہ کی بھرتی کے عمل کو شفاف بناتے ہوئے 62ہزار نئے اساتذہ بھرتی کئے گئے۔ 40ہزار اساتذہ این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کئے گئے۔ سیاسی اثرو رسوخ کی بجائے میرٹ کو بنیاد بنایا گیا۔ اساتذہ کی سیاسی پوسٹنگ اور ٹرانسفر پر پابندی لگائی گئی۔ صوبے میں نئی یونیورسٹیاں نہیں بنائی جا سکیں ۔ یکساں نظام تعلیم کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے نظام کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نسبت بہتر بنانے اور مانیٹرنگ کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔صوبائی حکومت نے ٹیکنیکل ایڈ اور نئے رجحانات سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے دوسرے ممالک کو ایجوکیشن سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ سازی کی لیکن اس پر عملدر آمد نہیں ہو سکا۔مجموعی طور پر دوسرے شعبوں کے مقابلے میں تعلیم کے نظام میں کافی بہتری نظر آئی۔

سندھ اور بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے قابل ذکر میگا پراجیکٹس نہیں بنائے گئے۔ اساتذہ کی بھرتی کے شفاف عمل کو بھی ممکن نہیں بنایا جا سکا۔نئی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام میں قابل ذکر پیش رفت ہو سکی اور نہ دونوں صوبوں میں امتحانی عمل کو شفاف بنایا جا سکا۔امن و امان کے مسائل نے بھی طلبا کو دوسرے صوبوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا۔

جنگ: سندھ اور بلوچستان میں تعلیمی مسائل اور محرومیوں کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر حیات اعوان: 2013-14 کے مقابلے 2016-17 میں پنجاب نے تعلیم پراپنے اخراجات میں سے کل 19فیصد اخراجات کئے ۔ بلوچستان نے 30فیصد، خیبر پختوانے 57فیصد ، سندھ نے 30فیصد تعلیم پر خرچ کیا یعنی اخراجات کے حوالے سے پنجاب سب سے پیچھے رہا ہے۔ تعلیم کا کل بجٹ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے 2فیصد کے اردگرد ہی رہا ہے ۔ ملائیشیا نے گزشتہ چند سالوں سے تعلیم کی بنیاد پر خاصی ترقی کی ہے جس کی بڑی وجہ کل جی ڈی پی میں شیئر 5سے 10فیصد تک مختص کیا جانا ہے۔ترکی کل قومی پیداوار کا 5.5فیصد اور بھارت 5فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ماضی میں میرٹ پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کو اپنے پیشے کے ساتھ بہت لگائو ہوتا تھا اسی لئے وہ کسی بھی ذاتی مفاد کی پرواہ کئے بغیر اپنی تمام تر توجہ اور وقت طلباء کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے۔بے جا سیاسی مداخلت نے تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کیا ۔ اراکین اسمبلی کے کوٹے پر بھرتی ہونے والے اساتذہ سے ہم کس معیار کی امید کر سکتے ہیں۔اسی لئے پرائمری ایجوکیشن میں ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جس کو پر کرنے کے لئے انتھک محنت، خلوص ، جدوجہد اور میرٹ کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کو تعلیم و تربیت کے ذریعے مثبت سوچ کے حامل اور کارآمد شہری بنایا جا سکے۔

جنگ: اساتذہ کی تقرریوں میں میرٹ کو کس حد تک مدنظر رکھا گیا؟

ڈاکٹر حیات اعوان: اس وقت ملک میں شرح خواندگی 58فیصد ہے،42فیصد کو تعلیم دینے کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ضروری ہے لیکن مانیٹرنگ کو ہر سطح پر یقینی بنانا چاہئے۔ ایسے اداروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے جو تعلیم کو صرف کاروبار سمجھ کر ملک کے مستقبل کو تاریک راستوں پر دھکیل رہے ہیں۔ گلی محلوں میں قائم چھوٹے سکول، کالجوں میں بچوں کی کیا کردار سازی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔یونیورسٹیوں کو بھی باقاعدہ طور پر ریگولیٹ کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کیا جا سکا جس کی ذمہ دار حکومتیں ہیں۔

جنگ: صوبوں میں شعبہ تعلیم کو چلانے کی صلاحیت ہے یا اس شعبے کو وفاق کے ماتحت ہی رہنا چاہئے تھا؟

ڈاکٹر حیات اعوان: پرائمری اورسیکنڈری ایجوکیشن کو صوبوں کے حوالے کرنے سے بہتری آئی ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کو وفاق کے تحت ہی رہنا چاہئے تھا ۔ پوری دنیا میں ہائر ایجوکیشن کا شعبہ وفاقی حکومت خود چلاتی ہے جبکہ پاکستان میں صوبوں نے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کئے جس سے مسائل میں اضافہ ہوا۔وفاق کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد میں اضافہ بھی انہی کاوشوں کی ایک کڑی ہے۔

جنگ نیوز

جنگ: نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے تعلیم کا معیار بہتر ہوا یا نئے مسائل نے جنم لیا؟

ڈاکٹر حیات اعوان: ہائر ایجوکیشن کمیشن صوبوں کے تحت قائم کرنا حکومت کا غلط اقدام ہے اس وجہ سے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے جبکہ ملکی یکجہتی کے لئے پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم ہونا ضروری ہے۔پنجاب میںنئی یونیورسٹیاں بنا کر نظام کو تباہ کیا گیا۔ متعدد یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کا تقرر نہیں کیا جا سکا۔اس سے تعلیمی معیار بھی بہت زیادہ متاثر ہوا۔

جنگ: وائس چانسلر کے تقرر کے لئے کیا پیمانہ مقرر ہے؟

ڈاکٹر حیات اعوان: جب تک وائس چانسلر جامعات کے اپنے اساتذہ تھے اس وقت تک یونیورسٹیوں کی حالت اور تعلیم کا معیار بہتر تھا۔اب ایسے افراد کو وائس چانسلر تعینات کر دیا جاتا ہے جن کی تعلیمی اہلیت بھی نہیں ہوتی اور انہوں نے درخواست بھی نہیں دی ہوتی حالانکہ کسی بھی جامعہ کا وائس چانسلر کا انتخاب یونیورسٹی کے دس سینئر اساتذہ میں سے ہونا چاہئے۔بدقسمتی سے سرکاری جامعات میں میرٹ بالکل ختم ہو چکا ہے۔اساتذہ کی بھرتیوں میں میرٹ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔

جنگ: بچوں کو سیکھنے کے لئے ساز گار ماحول، باصلاحیت اساتذہ اور بلند معیار کے حامل نصاب کی دستیابی کو کتنا یقینی بنایا جا سکا؟

عابد فرید بزدار(صدر ڈسٹرکٹ ہیڈ ماسٹر اینڈ پرنسپل ایسوسی ایشن ملتان)

ہمارے دین اور آئین کے مطابق تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان میں تعلیم کو ترجیحات میں نہیں رکھا جا سکا ۔ شرح خواندگی کی بجائے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے پنجاب میں تمام تر سکیموں کا فائدہ مخصوص افراد کو دیا گیا۔اکیڈمی آف ایجوکیشن ، پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران شرح خواندگی بڑھنے کی بجائے 2فیصد کم ہو گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی 56.4فیصد ہے، لڑکے 69.6اور لڑکیاں 42.7ہیں۔شرح خواندگی کی عمومی تعریف کے مطابق اپنا نام پڑھنے اور لکھنے والے کو ہم خواندہ کہتے ہیںحالانکہ دنیا میں کمپیوٹر کا استعمال جاننے والے کو خواندہ قرار دیا جاتا ہے۔گزشتہ 16سال سے تعلیم کے شعبے کے لئے جی ڈی پی میں 2فیصد سے زائد حصہ نہیں رکھا گیا۔سابقہ حکومت نے تعلیم کے لئے 4فیصد شیئر مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 2.3فیصد نہیں رکھا جا سکا جس کا 17فیصد سیلز اور 5فیصد انکم ٹیکس کی نذر ہو جاتا ہے یعنی کل 20فیصد حصہ حکومت کے پاس واپس چلا جاتا ہے۔پنجاب کے72ہزار سکولوں میں سے 52ہزار سکول کام کر رہے ہیں جبکہ باقی سکول بند ہو چکے ہیں۔26فیصد سکولوں کے لئے ایک استاد، 18فیصد سکول ایک کلاس پر مشتمل ہیں جبکہ 32فیصد سکولوں میں بجلی ،22فیصد سکولوں میں ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں ، 21فیصد سکولوں کی چار دیواری نہیں ہے جبکہ 7فیصد سکولوں کی عمارت تسلی بخش نہیں ہے۔44فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ اور بلوچستان کے بچوں کی ہے۔ پرائمری تا سیکنڈری 40فیصد لڑکے، 49فیصد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ہمیشہ اپنا ووٹ پکا کرنے کے لئے عوام پر خرچ کیا ہے۔خیبر پختونخوا میں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر تعلیم کے لئے اقدامات کئے گئے۔انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولتوں کے فقدان پر قابوپانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔اگر ہمارے سیاستدان یہ دلیل پیش کریں کہ ابھی تعلیمی نظام کو درست کرنے کے لئے ہمیں بہت وقت درکار ہے تو شاید یہ درست نہیں ہے کیونکہ اساتذہ سے مطلوبہ اہداف کو یکدم حاصل کرنے کی امید رکھی جاتی ہے حالانکہ اساتذہ بھی کمیونٹی کا ایک حصہ ہیں اور ان کے معاملات میں بھی وقت کے ساتھ بہتری آئے گی۔بجٹ کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں خرچ کیا جاتا ہے اس کے باوجود یہ خوش آئند ہے کہ دوسرے صوبوں میں تعلیم کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔پنجاب میں مسائل کی وجہ یہی ہے کہ بجٹ کو مطلوبہ مسائل کے لئے خرچ نہیں کیا جاتا کیونکہ ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔پنجاب کا زیادہ تر بجٹ بالائی پنجاب میں خرچ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ بالائی پنجاب کے طلبا بھی جنوبی پنجاب کی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پرائمری ایجوکیشن کو وفاق کے تحت رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان مضبوط رابطہ رہنا ضروری ہے تاکہ نصاب کا تعین قومی سطح پر کیا جا سکے۔ہائر ایجوکیشن کا شعبہ صرف وفاق کے پاس ہونا چاہئے۔ اس وقت عوام میں اتنا شعور ہے کہ وہ اپنے نمائندوں سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ ان کے علاقے میں ماضی میں تعلیم کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے یا پھر مستقبل میں تعلیم کے فروغ کے لئے کیا کیا جائے گا۔ اب سیاسی جماعتوں کو ڈلیور کرنا ہو گادوسری صورت میں عوام کو جواب دینے کے لئے سیاستدان تیار رہیں۔بنیادی ڈھانچے پر خرچ کئے بغیر تعلیم کے شعبے میں بہتری لانا ممکن نہیںکیونکہ تعلیم ہی ملکی ترقی کی اصل بنیاد ہے۔

اساتذہ کی بھرتیوں کے حوالے سے پنجاب میں صورتحال ماضی کی نسبت بہتر ہے لیکن ہر سال بھرتیوں کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی بہت سے ابہام پیدا کرتی ہے۔ایک پالیسی کو کم از کم پانچ سال کے لئے بنایا جانا چاہئے۔ اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے جو سختی کی جا رہی ہے، تنخواہوں میں اس تناسب سے اضافہ نہیں کیا گیا حالانکہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اساتذہ کو بھی تمام تر سہولیات مہیاکرنے کی ضرورت ہے۔ استاد آسودہ ہو گا تو ہی نسل نو کی تعلیم و تربیت میں خلوص اور دلچسپی سے کام کرے گا۔تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت ماہرین تعلیم کی رائے یا مشاورت کو کبھی مقدم نہیں رکھا گیا۔ جی ڈی پی میں تعلیم کے لئے مختص کی جانے والی رقم کا دو فیصد سے کم ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

ڈاکٹر حیات اعوان :بجٹ میں تمام سکیلوں کے لئے دس فیصد اضافے کی پالیسی درست نہیں ہے۔ اس طرح چھوٹے سکیل والوں کی تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے کے برابرہوتا ہے جبکہ زیادہ تنخواہوںوالے ملازمین اس پالیسی سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔

جنگ:پاکستان میں کالجوں کی صورتحال کیا ہے؟

پروفیسر تنویر احمد شاہ :یونیسکو کے مطابق جب تک تعلیم پر کل جی ڈی پی کا6فیصد خرچ نہیں کیا جا تا اس وقت تک ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکلنا مشکل ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے تعلیمی شعبے کا بجٹ دو فیصد سے زیادہ نہیں رکھا جا سکا جس میں پچاس فیصد سے زائد غیر ترقیاتی بجٹ ہے۔تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لئے انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے ۔ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے ایس او پیز موجود ہیں جس کے مطابق عمارت کا رقبہ ، کھیل کے میدان ، کلاس رومز کی پیمائش ، فیکلٹی کی پوزیشن سے متعلق تمام تر نکات کو واضح کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں ایس او پیز کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ سے دس مرلے کے رقبے پر یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں جن کے لئے کوئی کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور بورڈ میں ان کی رجسٹریشن کیسے ہوتی ہے یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ایسی صورتحال میں معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی دس کروڑ آبادی کے لئے 720 کالجز ہیں۔ ایک لاکھ 38ہزار 888 افراد کے لئے ایک کالج ہے۔ یعنی قریباً ڈیڑھ لاکھ کی آبادی کے لئے ایک کالج میسر ہے۔54ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیاجس میں سے 27ارب روپے غیر ترقیاتی کاموں کے لئے رکھے گئے۔ باقی 23ارب کا بجٹ جامعات، مقامی اور بیرونی سکالر شپس ، عمارات کی تعمیر ، بنیادی سہولیات کے فقدان پر قابو پانے کے اقدامات اور کسی بھی ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لئے بچتا ہے۔پنجاب کے 7سو 20کالجوں میں اساتذہ کی کل تعداد 27ہزار جبکہ ایک کالج کے لئے 35اساتذہ ہیں۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ اور مقتدر طبقات کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لئے انہیں ملکی مسائل کاا دراک نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے بنائے ہوئے نظام پر اعتماد کرتے ہیں۔

سندھ کی آبادی قریباً4کروڑ 78لاکھ ہے۔ دو لاکھ افراد کے لئے ایک کالج ہے ۔ تعلیم کے لئے 181.5 ملین کا بجٹ مختص کیا گیا ۔ پنجاب کے بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کا بجٹ جامعات اور کالجوں کے لئے علیحدہ سے مختص ہے جبکہ سندھ کے اسی بجٹ میں سے پرائمری، اعلیٰ تعلیم ، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل اور ہیلتھ کو بھی دیا جاتا ہے۔تعلیم کے شعبے کے لئے نہ تو اہداف رکھے جاتے ہیں اور نہ ہی خصوصی اقدامات کرنے کی طرف توجہ دی جا سکی ہے۔افسوس ناک امر ہے کہ باقاعدہ ایساکوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا جس کے تحت سکالر شپس، جامعات کا قیام اور شرح خواندگی میں اضافے کے اقدامات کا تعین کیا جا سکے۔بچوں کو تعلیم کی طرف رغبت دلانے اور مقابلے کے لئے تیار کرنے کے حوالے سے سندھ میں پنجاب کی طرز پر خصوصی مراعات دینے کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا میں 3کروڑ 50لاکھ کی آبادی کے لئے 204کالج موجود ہیں،ایک لاکھ 71ہزار افراد کے لئے ایک کالج ہے۔صوبے میں نئے کالجز کا قیام ممکن نہیں بنایا جا سکا لیکن معیار کی بہتری کے لئے پرفارمنس گرانٹ کا اجراء کیا گیا۔جس کے تحت بہترین نتائج دینے والے کالج کو حکومت کی طرف سے پرفارمنس گرانٹ دی جاتی ہے۔اس طرح اساتذہ کی کارکردگی میں بھی بہتری دکھائی دی۔ صوبے میں کالجوں کے لئے اساتذہ کی تعداد 7ہزار ہے ، ایک کالج کے لئے 34 اساتذہ ہیں۔رواں مالی سال ہائر ایجوکیشن کے لئے بجٹ 7ارب روپے مختص کیا گیا ہے جو کل صوبائی بجٹ کا 5.8فیصد ہے۔خیبر پختونخوا میں تمام کالجوں میں بی ایس پروگرام شروع کرنے سے قبل پشاور یونیورسٹی میں تمام اساتذہ کی ٹریننگ کروائی گئی ۔

بلوچستان میںایک کروڑ 34لاکھ کی آبادی کے لئے 128کالجز ہیں۔ ایک لاکھ چار ہزار افراد کے لئے ایک کالج ہے۔ 67بلین میں سے ہائر ایجوکیشن کے لئے صرف 6فیصد مختص کیا گیا ہے۔4.02بلین بجٹ تعلیم کے شعبے کے لئے رکھا گیا ہے جو کہ مسائل کے پیش نظر کافی کم ہے۔ اتنے بجٹ میں تعلیمی معیار اور ترقی کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔

گلگت بلتستان کی 15لاکھ آبادی کے لئے 21کالج ہیں۔ 71ہزار چار سو 28افراد کے لئے ایک کالج ہے۔یہاں کے لئے کوئی بجٹ مخصوص نہیں ہے۔ مسائل کے پیش نظر کبھی فیڈرل گرانٹ اور کبھی خیبر پختونخوا کے بجٹ سے کچھ حصہ مل جاتا ہے۔ ایک لاکھ افراد کے لئے ایک کالج ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کو ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں کیا گیا۔ایسی صورتحال میں ہم دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔

جنگ: تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت ماہرین کو نظر انداز کرنے کی آپ کے نزدیک کیا وجہ ہے؟

پروفیسر تنویر احمد شاہ:سرکاری سطح پر6 قومی تعلیمی پالیسیاں اور دیگر پروگرام ترتیب دئیے جا چکے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔تعلیمی پالیسیاں بیورو کریٹس نے بنائیں، کسی تعلیمی ماہر کو مشاورت کے لئے اہمیت نہیں دی گئی۔پاکستان میں تعلیمی ماہرین کی کمی نہیں ہے۔ پالیسیاں بناتے وقت ماہرین کو آن بورڈ نہ لینے کی وجہ بیورو کریسی اور سیاست دان ہیں۔سیاسی مداخلت ختم کئے بغیر تعلیمی پالیسیوں پر عملدرآمدکو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران پنجاب حکومت نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی ہے جس سے کنٹریکٹ اور ریگولر ملازمین کو بھی پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے ذریعے ہی ملازمت حاصل کرنی پڑتی ہے لیکن پرنسپل، ڈائریکٹر، سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، چیئرمین بورڈ ،سیکرٹری بورڈ اور کنٹرولر بورڈسیاسی اثر و رسوخ سے ہی تعینات کئے جاتے ہیں۔

جنگ: کنٹریکٹ سسٹم ہونا چاہئے یا نہیں؟

عابد فرید بزدار:ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا ایک ظلم ہے۔ ہر وقت ایسے ملازمین کے سروں پر ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے جس سے وہ اپنے کام کی طرف توجہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔سکولوں میں 17اور 18گریڈ تک کے ملازمین کو ابھی تک کنٹریکٹ پر رکھا جا رہا ہے۔مستقبل میں بھی یہی پالیسی جاری رکھی جائے گی۔

پروفیسر تنویر احمد شاہ :کنٹریکٹ کے سلسلے کو بالکل ختم کر دینا چاہئے۔

جنگ:میلینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے اہداف کے حصول کی طرف حکومتوں کی کتنی توجہ رہی؟

پروفیسر حمید رضا صدیقی: اس حوالے سے مختلف ادوار میں کچھ خاص اقدامات نہیں کئے گئے۔ تعلیمی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا تو بہت سے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکتے تھے۔ ہماری تعلیمی پالیسیوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔ صوبوں کی سطح پر بھی ان پر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکاورنہ آج پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی صورتحال کافی بہتر ہوتی اور ترقی کے پائیدار اہداف حاصل کرنے میں کچھ دشواری پیش نہ آتی۔پوری دنیا میں تعلیم پر سرمایہ کاری کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے ۔ ماہرین معاشیات کی بھی یہی رائے ہے کہ تعلیم پر کئے جانے والے اخراجات کے فوائد منافع کی صورت میں واپس ملتے ہیں جس کے اثرات دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں تعلیم کو پہلی ترجیح سمجھا جاتا ہے۔

جنگ: اکیڈمی کا رجحان فروغ پانے کا ذمہ دار کون ہے؟

پروفیسر تنویر احمد شاہ:اکیڈمیوں کے فروغ کے لئے حکومت ذمہ دار ہے۔جس کی بڑی وجہ انٹری ٹیسٹ ہے ۔دو سال میں حاصل کی جانے والی تعلیم اور پھر تین ماہ میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کو پچاس ،پچاس فیصد کی شرح سے برابر قرار دینا کہاں کی عقلمندی ہے یعنی حکومت کو اپنے اداروں پر ہی اعتماد نہیںہے۔حالانکہ گزشتہ چند سالوں میں بوٹی مافیا کا خاتمہ ہوا اور امتحانی نظام میں بہتری پائی گئی ہے لیکن حکومت پھر بھی انٹری ٹیسٹ کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔جس کی وجہ بڑی اکیڈمیوں کے پیچھے بھی سیاسی اثر و رسوخ کا ہونا ہے۔

ڈاکٹر حیات اعوان: اکیڈمی کے نظام کو مکمل طور پر ختم ہونا چاہئے۔ اساتذہ کو اپنی ذمہ داریاں سکول اور کالج کی سطح پر پوری کرنی چاہئیں۔ ہم سب کی متفقہ رائے ہے کہ انٹری ٹیسٹ نہیں ہونا چاہئے ۔اس سے ملک کی 55فیصد آبادی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔بہت سے قابل اور ذہین طلباء استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اکیڈمی میں نہیں پڑھ سکتے حالانکہ کالجوں میں ان کی تعلیمی قابلیت کی مثالیں موجود ہوتی ہیں لیکن انٹری ٹیسٹ پاس نہ کرنے کی وجہ سے ان کا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے۔

تازہ ترین