• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکنیکل ایجوکیشن کی  اہمیت و ضرورت

جب تعلیم کے میدان میں بہت سی ترجیحات موجود ہوں، اعلیٰ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ایسے میں طالب علم درست تعلیمی یا پیشہ ورانہ مہارت کے انتخاب کے راستے میں گم ہو سکتا ہے۔ ثانوی ا سکول کی بات کریںتو طلباء کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ انہیں اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے اپنی صلاحیتوں کی روشنی میں کن مضامین کا انتخاب کرنا ہے، جو ان کی سوچ اور مستقبل کے پیشے کےلیے موزوں ہوں۔ بعض اوقات طلباء مضامین کے انتخاب میں اپنے والدین، رشتہ داروں یا پھر اپنی پسندیدہ مثالی شخصیت کی پیروی کرتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے دور میں ہر طالب علم کا بنیادی مقصد ڈگر ی کاحصول ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بناسکے۔ لیکن کیا ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک طالبعلم کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟ اگر ہمارے ملک کے حالات کو دیکھا جائے تو آج کل ایسے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد ہزاروںمیں ہے جو بے روزگارہیں اور نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھررہےہیں۔ ایک عام انسان جو اپنی آدھی زندگی ڈگری کے حصول میں صرف کردیتا ہے اورکسی ہنر کو سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتا اس کو اپنی ساری زندگی بے روزگاری کی نذرکرنی پڑتی ہے۔

ہمارے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے، جسے ہم ٹیکنیکل ایجوکیشن یافنی تعلیم کہتے ہیں۔ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم دی جاتی ہے، جس کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ہمارے دیہات ، قصبوں اور شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو صرف چند پیشوں سے آگاہ کیا جاتا ہے حالانکہ حصول رزق کے لئے اختیار کئے جانے والے درجنوں، بیسیوں اور سینکڑوں پیشوں میں سے طلباء و طالبات کو وسیع پیمانے پر انتخاب کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی کا بیشتر حصہ 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جن میں 60٪ فیصد سے زیادہ نمبر لینےوالےتو کسی نہ کسی طرح کچھ چاہتے ہوئےاور کچھ نہ چاہتے ہوئے میڈیکل یا انجینرنگ فیلڈ میں چلے جاتے ہیں لیکن 60٪ فیصد سے کم نمبرحاصل کرنے والے کوئی بہتر فیصلہ نہیں کر پاتےاور ان میں سے زیادہ ترغیرتیکنیکی پیشےکا چناؤ کرتے ہیں، جس کا اکثر اوقات نہ تو انہیں اور نہ ہی معاشرے کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لاتعدادلوگ مل جائیں گے جو ایم اے اردو، تاریخ یامعاشرتی علوم وغیرہ کی ڈگری اٹھائے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اگر ان کوکسی نے بتایا ہوتا کےاس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی ہنر سیکھ لیا جائے تو آج انھیں روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوسکتے تھے۔ اور تو اورہمیں اپنے آس پاس ایسے بہت سےلوگ مل جائیں گے جن کو گھر کا ایک خراب بٹن تبدیل کرنے کا کہہ دو تو ان کہ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور یہی کام کرنے کے لئے محلے کی دکان سے کوئی الیکٹریشن آتا ہے اور تھوڑے کام کے بہت سے پیسے لے کر چلا جاتاہے۔

آپ کسی بھی تیکنیکی ادارے میںچار سالہ ڈ گری پروگرام کے دوران تیکنیکی مہارتیں حاصل کرنےاوران کے بارے میں جاننے کے بعدجب کسی معروف کمپنی یا مینوفیکچرنگ فرم میں ملازمت کا موقع حاصل کرتے ہیں تو وہا ں مہارت اور ڈگری کا امتزاج آپ کے کیریئر کو بلندی پر لے جاسکتاہے۔

اس کے علاوہ ہم اپنے نوجوانوں کوفنی تعلیم جیسےتھری ڈی ڈیزائننگ، فیشن ڈیزائننگ، الیکٹریکل اپلائنسز، موبائل ریپئرنگ اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے کورسز کی جانب راغب کریں تو اس سے نہ صرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور فرسٹریشن ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ دوسروں پر انحصار کرنے کے خطرناک رجحان کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔

ایک تواس سے یہ ہو گا کہ جتنی مدت میں آپ کا ہم عصر ایم اے یا بی اے کرے گا، کم و بیش اتنے ہی

عرصے میں آپ کوئی ٹیکنیکل ڈپلوما حاصل کر کے اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کر کے معقول آمدن کا کوئی نہ کوئی حیلہ وسیلہ کر چکے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، جب تک آپ کا ہم عصر20 سے 30 ہزار کی نوکری پہ لگے گا، توآپ خلوص نیّت سے کام کرتے ہوئے 50 سے 60 ہزار ماہانہ تک تنخواہ حاصل کررہے ہوں گے۔

تازہ ترین