• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

سیاسی جماعتوں کو عوام کی آواز اورانتخابات کو وہ ذریعہ یا طریقہ قرار دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے یہ آواز اقتدار کے ا یو انوں تک پہنچتی ہے اور جمہوری معاشروں میں اس کا ا حتر ا م کیا جاتا ہے۔ پس کسی معاشرے میں جمہوری روایات کے فرو غ کے لیے ایسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے پا کستا ن کی سیاسی تاریخ میں بدقسمتی سے کبھی بھی عوام کی خوا ہشا ت اور امنگوں کا پوری طرح احترام نہیں کیا گیا۔ انتخابات سیاسی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ عوام کو ا پنے نظریات، خیالات، مستقبل کے بارے میں ا پنے تصو رات اور منشور سے آگاہ کریں، ملکی اور بین الاقوامی معا ملا ت پر اپنا نقطۂ نظر واضح کریں اور عوام کی سیاسی تربیت کر یں۔ دوسری جانب عوام کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی امور کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نقطہ ہائے نظر اور ملک کے معاملات چلانے کے لیے ان کی تر جیحا ت سے واقفیت حاصل کریں۔ ساری دنیا میں سیاسی جما عتیں اور انتخابات میں آزادانہ حیثیت میں حصہ لینے والے امیدوار انتخابات کے موقعےپر عوام کے سا منے اپنا منشور پیش کرتے ہیں، جس کی روشنی میں رائے د ہندگان یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ انتخابات میں کس کے حق میں اپنی رائے استعمال کریں گے۔

پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار کسی نہ کسی شکل میں انتخابات کے موقعےپر اپنا منشور پیش کرتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران بینرز، پوسٹرز، پمفلٹس، اسٹیکرز، وال چاکنگ وغیرہ کے ذریعے اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔پا کستان کی انتخابی سیاست میں کچھ عرصے سے بعض نئے عو ا مل داخل ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے بعض استثنائی صو ر تو ںکے علاوہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے ا نتخا با ت میں امیدوار کی حیثیت سے حصّہ لینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔اس بات کی باقاعدہ تصد یق ماضی میں خود ایک اہم سیاست داں بھی کرچکے ہیں۔ جنوری 2008ء میں ہو نے والے انتخابات کے لیے ا لیکشن کمیشن آف پا کستا ن نے ہدایت کی تھی کہ قومی اسمبلی کی نشست کے ا میدوار اپنی انتخابی مہم کے اخراجات کو پندرہ لاکھ اور صو با ئی اسمبلی کی نشست کے امیدوار دس لاکھ روپے تک محدود رکھیں، لیکن 6 دسمبر 2007ء کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل نے ایک خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کیاتھا کہ ان کی جماعت کے مطالبے پر انتخابی اخراجات کی مقررہ حد کی پابندی اٹھالی گئی ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی امیدوار اس ضابطۂ اخلاق کی پابندی نہیں کرتا۔دوسری جانب بعض آزاد ذرایع کے مطابق انتخابات میں حصّہ لینے والے زیادہ تر امیدوار ا لیکشن کمیشن کی جانب سے مقررکردہ حد سے کئی گنا زیادہ رقم اپنی انتخابی مہم پر خرچ کرتے ہیں۔

اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد40لاکھ روپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 20لاکھ روپے مقرر کی ہے ۔ تاہم آزاد ذرایع نے قومی اور صوبائی اسمبلیزکی کُل عمومی نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں امید و ا ر و ں کے مجمو عی ا خر ا جا ت کا تخمینہ 26 ارب 40 کروڑ 60 لاکھ روپے تک لگایاہے۔آزاد ذرایع کے مطابق ملک میں سر کا ر ی اور غیر سرکاری سطح پر ان انتخابا ت کے سبب 35 ارب روپے سے زاید کی معاشی سرگرمیاں ہونے کی توقع ہے۔ الیکشن کی وجہ سے ایک جانب مزدوروں اور بے روز گا ر و ں کے لیے روزگار کے مواقعےپیدا ہوئے ہیں تودوسری جانب امیدواروں کی جانب سے مختلف مزاروں پر لنگر ، غریبوں میں کھانے کی تقسیم اور انتخابی دفاتر میں وو ٹر ز کی مشر و با ت اور کھانوں سے تواضع کےباعث کھانے پینے کی اشیا کی خرید و فروخت سے وابستہ ا فر ا د کےلیے بھی آمدن کے مواقعےپیدا ہوئے ہیں ۔ یاد ر ہے کہ قومی ا سمبلی کی عمومی نشستوں کے لیے 3459 اور صو با ئی اسمبلیوں کی عمومی نشستوں کے لیے 6288 ا مید و ا ر و ں میں بہ راہ راست مقابلہ ہوگا۔اگر الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد کو مد نظر رکھا جائے تو قومی اسمبلی کے ا مید و ا ر و ںکےمجموعی ا خر اجات کا تخمینہ 13 ارب 83 کر وڑ 60 لاکھ روپے اورچاروں صوبائی اسمبلیزکے ا مید و ا ر وں کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 12 ارب 57 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتاہے۔

الیکشن کمیشن اور انتخابی اخراجات کی نگرانی

آزاد ذرایع کافی عرصے سے انتخابی امیدواروں کی جانب سے مقررہ حد سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرنےکی شکایت کررہے ہیں۔چناں چہ ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران سے مانیٹر نگ ٹیمزکےلیےنام مانگ لیے تھے اور کہا گیاتھا کہ عد لیہ سے ہٹ کر بھی سرکاری محکموںکےدیانت دارافراد کے نام دیے جاسکتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ریٹرننگ افسران نے مانیٹرنگ ٹیمز کےلیے نام بھجوا دیے تھے اور الیکشن کمیشن نے مانیٹرنگ ٹیمزکےاراکین کے ناموں کا جائزہ لینا شروع کردیاتھا۔بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ انتخابی اخرا جا ت سے متعلق سخت نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے علاوہ اس مرتبہ انتخابات میںحصہ لینے والے امیدواروں کے لیے میں کاغذات نام زدگی داخل کرنے کی فیس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے امیدوار کےلیے فیس 4 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزارروپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کےلیے 2 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزارروپے کر دی گئی ہے۔

انتخابی گوشوارے جمع کرانے کی پابندی

الیکشن کمیشن کے قواعدو ضوابط کے مطابق قومی اسمبلی ، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیز کے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ میعاد میں انتخابی اخر اجا ت کے گوشوارے جمع کرائیں۔ اس پابندی کی وجہ سے یہ گوشوارے جمع تو کرادیے جاتے ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ اس بارے میں یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ امیدوار انتخابی مہم کے دوران اپنا نقطۂ نظر عوام تک پہنچانے کے لیے کس قسم کی تشہیری سرگرمیاں کرتے ہیں، اس ضمن میں کن افراد سے رجوع کرتے ہیں اور ان سرگرمیوں پر کتنی رقم خرچ کی جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے طباعت اور انتخابی تشہیر کے کام سے وابستہ بعض افراد کو ٹٹولا گیا۔ ان سے حاصل ہونے والی معلومات ہوش اڑادینے کے لیےکافی ہیں۔

آزاد ذرایع کے مطابق اس مرتبہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے ایک امیدوار صرف اشتہاری مہم کی مد میںتقریبا ایک کروڑ روپےکے اخراجات کر رہا ہے ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوارتقریبا ساٹھ لاکھ روپےکے اخراجات کر رہا ہے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کی حد سے دوگنا زیادہ ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ میں شاید ہی کسی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس اصول پر عمل کیا ہو۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے اپنا ئے جانے والے حربوں میں پیسے کا بے دریغ استعمال ا یک اہم حربہ سمجھا جاتاہے اور کروڑوں روپےکے ا خر ا جات کیے جاتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ اشتہاری مہم میں اڑائی جانے والی رقوم انتخابات جیتنے کے بعد مختلف غیر قانونی طریقوں سےبہت بھاری سود سمیت وصول کی جا تی ہیں۔

فریئر روڈ پر مالکانی محل نامی عمارت میں نذر محمد چھبیس، ستائیس برس سے پینٹر اور آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ہر طرح کے بینرز بناتے ہیں، بلکہ دیواروں پر تشہیری مواد لکھتے اور اسکرین پرنٹنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کے بہ قول انتخابات کے دوران ان کے پاس تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ کام کرانے آتے ہیں۔ تاہم امیدوار خود آنےکے بجائے عموماً اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھیجتے ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے عموماً امیدوار سوتی کپڑوں کے بینرز بنواتے ہیں۔ سوتی کپڑے میں ڈک بھی شامل ہے، جو زین کی طرح موٹا ہوتا ہے۔ امیدوار سڑکوں پر لگانے کے لیے عموماً 3 تا 4 میٹر لمبے اور کھمبوں وغیرہ پر لگانے کے لیے ڈیڑھ تا دو میٹر طویل بینر بنواتے ہیں۔ان کے مطابق انتخابات کے دوران امیدوار عموماً دیواروںپر اپنے حق میں چاکنگ بھی کراتے ہیں، جو عام طور پر 8×4،10×4 اور 12×4 فیٹ رقبے پر کی جاتی ہے۔ان کے مطابق بعض ا مید و ا ر وں کے انتخابی نشانات ذرا مشکل ہوتے ہیں ،لہٰذا انہیں بینر بنانے یا وال چاکنگ کرنے میں کچھ مشکل پیش آتی ہے اور نسبتاً زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ اسکرین پرنٹنگ کی تیکنیک متعارف ہونے سے کام میں صفائی آگئی ہے اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اس تیکنیک کی مدد سے وہ عام سائز کے 100 بینرز، ایک دن میں بنا سکتے ہیں۔اگر ایسے بینر پر امیدوار کی تصویر اور کوئی نشان بنانا ہو تو ہاف ٹون کا تاثر پیدا کرنے کے لیے چھپائی کے لیے فلم بنوانا پڑ تی ہے۔ تاہم اسکرین پرنٹنگ کی مدد سے بینر بنوانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کم از کم 50 بینر بنوائیں اور کام کا مناسب معاوضہ دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ تعداد سے کم بینرز بنانے کی صورت میں انہیں مناسب معاوضہ نہیںملتا۔ وہ اب حتی المقدور انتخابی مہم کا کام کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ انتخابات کے ایام میں ان کے پاس دیگر کام نسبتاً کم آتے ہیں ،ایسے میں اگر وہ انتخابی مہم کا کام بھی نہ کریں تو انہیں مالی مشکلات آ گھیرتی ہیں۔

جنگ نیوز

فریئر مارکیٹ، کراچی میں طباعتی سرگرمیوں کا ایک بڑا اور پرانا مرکز ہے۔ یہاں یہ کام کرنے والے محمد رفیع ، احسان اور دیگر افراد کے مطابق انتخابات کے موقعےپر یہاں ہینڈ بلز، بینرز، ووٹر سلپس اور اسٹیکرز وغیرہ کی طباعت کے لیے امیدواروں کے کارکنان آتے ہیں۔ ہینڈ بلز عموماً 11.5×9 سائز کے بنوائے جاتے ہیں۔ آج کل یہ عموماً چار رنگوں میں اور ہر امیدوار تقریباً لاکھ کی تعداد میں بنواتا ہے۔ موٹر گاڑیوںپر لگانے کے لیے 4×6 سائز کے 5 تا7 ہزار اسٹیکر ز بنوائے جاتے ہیں۔ شاہ راہوں پر لگانے کے لیے 2 تا3 ہزار پوسٹر ،چار رنگوں میں 30×20 سائز کے طبع کرائے جاتے ہیں۔ عموماً آزاد امیدوار انتخابی مہم پر کم سے کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ وہ عام طور سے 11.5×9 کے 8 تا 10 ہزار پوسٹرز، 2 تا5 ہزار اسٹیکرز اور 100 تا 200 بینرز بنواتے ہیں، جس پرایک ذیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

ان افراد کے مطابق آج کل زیادہ تر انتخابی امیدوار چار رنگوں والے پوسٹر طبع کرواتے ہیں ،جن پر ان کی تصویر اور انتخابی نشان نمایاں ہوتا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ تر آزاد،نسبتاً کم مالی استطاعت رکھنے والے اور صو بے کے دیگر علاقوں سے امیدوار طباعت کے لیے آتے ہیں۔پہلے کی نسبت اب طباعت آسان اور سستی ہوگئی ہے، کیوں کہ چین سے پلیٹ،اسٹیکر،فلم وغیرہ سستے داموں آرہی ہے۔ کمپیوٹر کی آمد سے کاتب اور ڈیزائنرز کاجھنجھٹ بہت کم ہوگیا ہے۔ جگہ جگہ امیج سیٹرز لگ گئے ہیں، جدید طباعتی مشینیں آ گئی ہیں اور فلم بنانے والوں کے ملازمین دکان پر آ کر خدمات فراہم کردیتے ہیں۔ اس مرکز میں پرنٹنگ پریس والے کام کرنے سے قبل تھوڑی رقم ایڈوانس کے طور پر طلب کرتے ہیں ۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں یہاں سے امیدواروں نے کافی طباعتی کام کرایا، جس میں 11.5×9 سائز کے پوسٹرز، ہینڈبلز، اسٹیکرز، ووٹر سلپس اور بیجز کی طباعت شامل تھی۔

برنس روڈ کے اردگرد کا علاقہ بھی طباعت کی سر گر میو ں کا بڑا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں راجا کوئر اسکوائر اور المومن پلازا میں طباعت کے کاروبار سے وابستہ امین میمن ، غلام نبی، ہارون اور سہیل خان کے مطابق پہلے سندھ اور بلوچستان کے متعدد شہروں اور قصبوں سے لوگ طباعت کا کام کرانے کے لیے کراچی آتے تھے۔ انتخابات کے مو قعے پر اس مقصد کے لیے کراچی آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ لیکن چند برسوں میں سندھ اور بلو چستان کے کئی مقامات پر طباعت کے مراکز قائم ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کمپیوٹر کی آمد ہے۔ پہلے طباعت کے لیے آرٹسٹ، کاتب، بلاک بنانے والے اور کاپی جوڑنے والوںکی ضرورت ہوتی تھی، اب کمپیوٹر کی مدد سے ایک شخص بہ آسانی یہ کام کر لیتا ہے اور سی ڈی یا یو ایس بی پر اسے منتقل کر کے کسی پرنٹنگ پریس میںلے جا کر طبع کروا لیتا ہے ۔ اب زیادہ تر بینر اسکرین پرنٹنگ کے ذریعے بنتےہیں۔انتخابی مہم کے دوران استعمال ہونے والا تشہیر ی مواد اور نعرے پہلے جیسے ہی ہوتے ہیں، مثلاً فلاں لیڈر سب سے بہتر، بے باک قیادت، نہ جھکنے والا،نہ دبنے والا،نہ بکنے والا، آپ کے قیمتی ووٹ کا حق دار، امنگوں اور خواہشات کا ترجمان وغیرہ وغیرہ۔ان افراد کے مطابق اگر چار رنگوں میں اسکرین پرنٹنگ کی مدد سے 100 بینرز بنوائے جائیں تو پندرہ تا بیس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ رسی، لکڑی، گاڑی اورسیڑھی کے ساتھ فی بینر باندھنے کا معاوضہ تقریبا پچاس روپے طلب کیا جاتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے کم از کم 400 تا 500 بینرز درکار ہوتے ہیں۔

تلخ تجربات

پینٹر اور آرٹسٹ نذر محمدکے مطابق انتخابات کے تشہیر ی کام کے ضمن میں انہیں بعض بہت تلخ تجربات ہوئے ہیں۔ بعض افراد کام کرانے کے بعد پیسے دینے کے مر حلے میں تنگ کرتے ہیں یا بار بار چکر لگواتے ہیں۔ بعض افراد کام کے لیے کچھ ایڈوانس رقم دے دیتے ہیں۔کام مکمل ہونے کے بعد بینرز وغیرہ لے جاتے ہیں اور پھر لوٹ کر نہیںآتے۔ ایک مرتبہ ایک امیدوار کی انتخابی مہم کے لیے اسکرین پرنٹنگ والے 3700 بینرز بنانے تھے، جس کے لیے تھوڑی بہت رقم ایڈوانس کے طور پر دی گئی تھی۔ کام مکمل ہونے پر اس امیدوار کے کارکن آئے اور بینرزلے گئے۔اس کے بعد ان لوگوں سے کئی بار را بطہ کرنے پر قسطوں میں ادائیگی ہوئی۔ تاہم پوری رقم پھر بھی نہیں ملی۔ لہٰذا اب وہ انتخابات کے لیے صرف وہ کام کرتے ہیں ،جس کے لیے پہلے انہیں مکمل رقم ادا کی جاتی ہے۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران، جو لوگ ان سے کام کرانے کے لیے رابطہ کرتے ہیں ،وہ کام کی تکمیل کے لیے عموماً کم وقت دیتے ہیں۔ بعض افراد دو سروں کا کام روک کر اپنا کام کرالیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے انتخابی مہم کا کام کرنے سے انکار کیا تو انہیں دھمکیاں دی گئیں اور جھگڑا کیا گیا۔ کبھی انہیں دکان بند کرنے کے وقت بعض افراد آ کر اپنے ساتھ لے گئے، رات گئے تک کام کرایا اور معاوضہ دیے بغیر روانہ کردیا گیا۔ معاوضہ پورا نہ دینے، کام کے لیے کم وقت دینے اور آرڈر دے کر طبع شدہ پوسٹرز، پمفلٹس وغیرہ نہ لینے آنے کی شکایت فریئر مارکیٹ میں بھی کی گئی۔

یہ بھی بتایا گیاکہ انتخابات میں شکست کے بعد کسی امیدوار سے محنت کا معاوضہ وصول کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے امیدوار اوّل تو شکست کے بعد کافی عرصے تک لوگوںسے ملنے سے کتراتے ہیں اور جب ان سے ملاقا ت ہوتی ہے تو وہ اپنی شکست کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے نقصان اور مالی بوجھ کا بہانہ بناکر ان لوگوں کو ا د ا ئیگی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

انتخابی مہم کا بجٹ

فریئر مارکیٹ میں طباعت کا کام کرنے والوں کے مطابق اب قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار تشہیری مہم پر تقریباپچاس لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا امیدوارتیس تا پینتیس لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔ برنس روڈ کے علاقے میں یہ کام کرنے والوں کے مطابق کراچی میں 1985ء تک قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار 8 تا 10 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی نشست کا امیدوار 5 تا7 لاکھ روپے اس مقصد کے لیے خرچ کرتا تھا، لیکن 1985ء کے بعد کراچی میں انتخابی سیاست کے انداز بدل گئےتھے۔ اس شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے انتخا با ت میں حصہ لینے والے امیدواروں کے مقابلوں میں د یگر سیاسی جماعتوں کے اور آزاد امیدواروں کی پوزیشن عموماً بہت کم زور ہوتی تھی، لہٰذا ایسے امیدوار انتخابات کے دوران دو،چار لاکھ روپے خرچ کرتے تھے۔تاہم اس مرتبہ صورت حال نے پھر پلٹا کھایا ہے اور دوتین جما عتیں تشہیری مہم پرکافی رقوم خرچ کررہی ہیں۔

بتایا گیا کہ امیدوار انتخابی مہم کے کُل بجٹ کا تقریباً 30 فی صد حصہ تشہیری کام کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔ باقی 70 فی صد انتخابات کے روز کارکنوں یا کرائے کے لوگوں، رائے دہندگان اور پولنگ بوتھس میں موجود اپنے نمائندوں اور سرکاری اہل کاروں کو کھانا کھلانے، رائے دہندگان کو لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ، پولنگ کیمپس قائم کرنے وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔

لاکھوں کا پیکیج اور خوف کا عنصر

طباعت کے کام سے وابستہ اکثر افراد کے بہ قول زمانے کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب زیادہ تر بڑ ی سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر اپنے ا مید و ا ر وں کے لیے طباعت کے کاموں کا ٹھیکہ جماعت کی سطح پر بڑ ے بڑے پرنٹنگ یونٹس کو دے دیتی ہیں۔قومی یا صو با ئی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیےبیس،پچیس لاکھ روپے کے کُل پیکیج کی ڈیل ہوتی ہے۔ ایسے زیادہ تر یونٹس کرا چی کے صنعتی علاقوں میں اور چند ایک پاکستان چوک کے ا ردگرد واقع علاقوں میں قائم ہیں۔ ان یونٹس میں ڈیز ا ئننگ، کمپوزنگ، فلم اور پلیٹ بنانے، طباعت، کٹنگ، ڈا ئی کٹنگ،پن لگانے وغیرہ کی سہولتیں ایک چھت تلے مو جو د ہوتی ہیں۔پاکستان چوک کے قریب اور کورنگی کے صنعتی علاقے میں واقع ایسے دو یونٹس کے ذمے داران سے گفتگو کی گئی۔ ان افراد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض معلومات فراہم کیں۔ ان کے بہ قول انتخابی کام کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ذمے داران سے ذاتی تعلقات، سفارش اور جماعتی وابستگی کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ اس طرح بعض اوقات لاکھوں اور کروڑوں کے ٹھیکے حاصل کیے جاتے ہیں۔

بڑے یونٹس سیاسی نوعیت کے کام بہت خاموشی سے کرتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ سیاست میں در آنے والا تشدد کا عنصر ہے۔ مخالف امیدواروں کو ایسے کام کی اطلاع ملنے پر کسی یونٹ پر حملہ ہونے سے لے کر انتخابات میں مخالف امیدوار کی کام یابی کے بعد اس کی جانب سے اس یونٹ کے خلاف انتقامی کارروائی تک کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔اسی طرح کا خوف شہر میں چھوٹےپیمانےپر طبا عت کا کام کرنے والے بعض افراد نے بھی ظاہر کیا۔ ان کے بہ قول وہ حالات کو دیکھ بھال کر سیاسی نوعیت کا کام کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔ اس ضمن میں جان پہچان کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے بہ قول ماضی میں بعض پرنٹنگ پریس پر مخالف امیدواروں کی طرف سے حملوں کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، لہٰذا اب سیاسی نوعیت کا کام پہلے کی طرح کھلے بندوں نہیں کیا جاتا۔

انتخابی مہم اور جدید ٹیکنالوجی

پہلے امیدوار تشہیر کے لیے ایک رنگ کا پو سٹر ، ہینڈ بل،بینرز وغیرہ بنواتے،دیواروں پر اپنے حق میں تحریر لکھواتے،سائیکلواسٹائل مشین کی مددسےتیارکردہ پمفلٹس تقسیم کرتے اور لوہے کی چادر کو کاٹ کر بنائے گئے اسٹینسلز سے دیواروں پر ایک رنگ سے اپنے حق میں نعر ے چھپواتےتھے۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے خصوصاً بڑے شہروں میں انتخابی مہم کا رنگ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ہاتھ کی لکھائی والے بینرز کم ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ اسکرین پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی سے تیار کیے گئے بینرز نے لے لی ہے۔ جو امیدوار مالی طور پر نسبتاً زیادہ مستحکم ہوتے ہیں، وہ اسکرین پرنٹنگ کے بجائے پینافلیکس ٹیکنالوجی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم کے لیے کیبل ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز کی بھی مدد لی جاتی ہے۔کمپیوٹر عام ہونے کی وجہ سے اب گلیوں اور محلوں میں بہت سا تشہیری مواد کمپیوٹر کی مدد سے طبع ہو جاتا ہے۔ نسبتاً کم ترقی یافتہ یا دور دراز علاقوں میں فوٹواسٹیٹ مشین سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ موبائل فون نے بھی بعض مراحل آسان کر دیے ہیں ۔

مواد خود تیار کرلینا

طباعت ،بینر بنانے اور دیواروں پر لکھنے کے کام سے وابستہ بعض افراد کے بہ قول عموماً بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کےانتخابی بینرز، پوسٹرز، پمفلٹس، ہینڈ بلز وغیرہ کی تیاری کے لیے انہیں مکمل مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں لوگ خاکے بنا کر بھی لاتے ہیں، جس کی مدد سے وہ ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ تصویر، انتخابی نشان، امیدوار کا نام، انتخابی حلقے کا نمبر اور نعرہ کس جگہ اور کس رنگ میں لکھا جائے گا یا طبع کیا جائے گا۔ بعض افراد یہ بھی بتاتے ہیں کہ کون سی عبارت جلی حروف میں لکھی جائے گی، تاہم بعض چھوٹی سیاسی جماعتوں کے آزاد، کم تعلیم یافتہ یا انتخابی سیاست کا تجربہ نہ رکھنے والے امیدوار ان لوگوں کے پاس آکر اس بارے میںمشورہ کرتے ہیں کہ کون سا کام کس طرح کرانا چاہیے۔ بعض ایسے امیدوار انہیں اپنا نام، تصویر اور انتخابی حلقے کا نمبر فراہم کر کے کہتے ہیں کہ باقی مواد وہ خود تیار کر لیں اور خود ہی مناسب ڈیزائن کا بھی انتخاب کر لیں۔ اسی طرح بعض امیدوار اپنے ساتھ مخالف امیدواروں کے یا گزشتہ ا نتخا با ت کے موقعے پر طبع ہونے والے پمفلٹس، ہینڈ بلزوغیرہ لاتے ہیں اور انہیں سامنے رکھ کر مواد اور ڈیزائن کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔

تازہ ترین