• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یتیم شہزادہ ’’ماہ عالم‘‘ کی ٹھوکریں

ماہ عالم ایک شہزادے کا نام تھا جو دشاہِ عالم بادشاہ دہلی کے بہادر شاہ ظفر کا نواسہ تھاغدر میں اس کی عمر صرف گیارہ برس کی تھی۔ شہزادہ ماہ عالم کے باپ مرزا نوروز حیدر دیگر خاندان شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے، مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانے کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو اس روپیہ کی چنداں پروا نہیں تھی وہ بڑی بڑی تنخواہ پانے والے شہزادوں کی طرح گزر اوقات کرتے تھے۔

جب غدر پڑا تو ماہ عالم کی والدہ بیمار تھیں علاج ہورہا تھا۔ مگر مرض تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز ،جبکہ بہادر شاہ قلعے سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہوکر چاروں طرف بھاگنے لگی۔ ماہ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اس موت نے عجیب ہراس پیدا کردیا۔ اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا۔ نہ غسل دینے والی عورت میسر آسکتی تھی۔ نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا۔ جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود و تیار رہتے تھے۔ غدر کی عالمگیرمصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت انجام کو پہنچاتا، گھر میں دو لونڈیاں تھیں وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نوروز حیدر اگرچہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چونکہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے وہ بھی واقفیت نہ رکھتے تھے۔

القصّہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ڈال کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا، بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دئیے کفن کہاں سے ملتا شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دو اجلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔ اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں باہر لے جانے کا موقع نہیں تھا ، اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہ عالم کو گرفتار کرلیا، اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے الماریوں کے کواڑ اکھاڑ دئیے۔ کتابوں کو آگ لگادی۔ دونوں لونڈیاں غسل خانوں میں چھپی تھیں ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹا ہوا باہر لے آیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہوگیا تھا، مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھڑیاں لونڈیوں اور خود مرزا نوروز حیدر اور ان کے لڑکے ماہ عالم کے سر پر رکھیں اور بکرے، بکریوں کی طرح ان کو ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے گئے اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گورو کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر ظالم سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نوروز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے، مگر غریب ماہ عالم کی بری حالت تھی اوّل تو اس کے سر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طورپر نہایت نازک اور کمزور واقع ہوا تھا، اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی پیٹ چلنے سے چکر آتے تھے کجا یہ نوبت کہ سر پر بوجھ پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید بچارے کے پائوں لڑ کھڑاتے تھے۔ دم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہوگیا تھا آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا۔ ’’ابا حضرت مجھ سے تو چلا نہیں جاتا گردن بوجھ کے مارے ٹوٹی جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آرہا ہے، ایسا نہ ہو گر پڑوں‘‘ باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں اور اس نے مڑکر سپاہی سے کہا، ’’صاحب

اس بچے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بدنیتی سمجھ کر دو تین مکے کمر میں مارے اور آگے دھکا دے دیا۔ مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی، مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھڑی لے کر ماہ عالم کے سر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بےکس و ناتواں کو بھی مارا گھونسا کھاکر ماہ عالم آہ کہہ کر گر پڑااور بے ہوش ہوگیا۔ مرزا نوروز اپنے لخت جگر کی حالت دیکھ کر جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکا گورے کے کلے پر رسید کیا اور پھر فورا ً ہی دوسرا گھونسہ اس کی ناک پر مارا، جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوراہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جارہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری ،مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔ تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورنے یہ حالت دیکھ کر پستون وکرچ تو بھول گئے اور ایک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔ لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی، اس ناگہانی آٖفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بے کار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی مرزا نے فوراً اسے گھسیٹ لی اور ایک ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانے سے سینہ تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کردیا۔ ان دونوں کو ہلاک کرکے ماہ عالم کی طرف متوجہ ہوئے وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیرلیا اور لڑکے سے جدا کرکے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا سنتے ہی گوروں کی حالت غصہ سے غیر ہوگئی، انہوں نے پستول کے چھ فائر یک دم کردئیے، جن سے زخمی ہوکر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نوروز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہ عالم کو لونڈیوں سمیت پہاڑی کے کیمپ لے گئے۔

جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہوگیا تو لونڈیاں دو پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے ماہ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پاس کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا۔ لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے جو میرٹھ چھائونی میں تھے۔ ان افسر کا مزاج سخت تھا بات بات پر ٹھوکریں مارتے تھے۔ ماہ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کرسکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ ایک رات کو گھر سے نکلے۔ پہرہ دار نے ٹوکا تو کہدیا، فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گائوں میں جاتا ہوں، تاکہ سویرے ہی پہنچ جائوں، اس حیلیہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

چھوٹی عمر، راستے سے بے خبر پکڑے جانے کا خوف عجب پریشانی کا عالم تھا آخرکار صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ سامنے گائوں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ ملا صاحب نے سوالات شروع کئے تو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے، کہاں جائے گا، ماہ عالم نے ان باتوں کو باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پاکر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہ عالم کو سینہ سے لگا کر پیار کیا اور تسلی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو خدا حافظ و ناصر ہے، انہوں نے ایک رنگین کرتا ان کو پہنادیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہ عالم نے کہا حضرت اب تو میں تھک گیا ہوں کسی گائوں میں ٹھہر جاتے ہیں لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہوگئی اور پوری منزل چلنے لگے مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے، یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے

تھے ،ملے ان کو جب ماہ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔ تب شاہ صاحب نے ان کی وہیں کسی نیک بخت سے شادی کردی اور انہوں نے اسی جگہ اپنی رہائش اختیار کرلی۔

تازہ ترین