آج پاکستان میں قومی انتخابات ہورہے ہیں۔ یہ انتخابات ہماری ڈگمگاتی ہوئی سیاسی تاریخ میں کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہونے جارہے، اور نہ ہی یہ آخری ہوں گے۔ لیکن ان سے پہلے چند ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے، اور ا ن کے بعد پھیلنے والی افراتفری کا تصور کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتخابات انتہائی منفر د ہوں گے ۔ بدقسمتی سے یہ پیشرفت اور انتخابات کے بعد کے امکانات روشن اور مستحکم سیاسی مستقبل کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں۔
پہلی انفرادیت یہ ہے کہ یہ انتخابات بہت حد تک ریفرنڈم جیسے ہیںجو فوجی آمروں،ضیاالحق اور پرویزمشرف نے کرائے تھے۔ ان سے پیدا ہونے والی ہلچل میں تازہ امکانات ابھر کر سامنے آتے دکھائی نہیں دیتے ۔ مندرجہ بالا ریفرنڈمز اور آنے والے انتخابات کم از کم ایک نکتے پر آپس میں ملتے ہیں: اسلام آباد میں حکمران کون ہوگا؟اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ اگلا وزیر ِاعظم کون ہوگا لیکن ہمیں ایک بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ مرکزمیں پی ایم ایل (ن) کے پاس اقتدار نہیں ہوگا۔ اس کی قیادت یا تو جیل میں ہے یا عدالتی فیصلوں، احتساب کیسز، توہین کے نوٹسز اور کچھ دیگر عوامل کی وجہ سے بے دست وپا ہے۔ کچھ کے کاغذات ِ نامزدگی ہی مسترد کردیے گئے ۔
اُن ریفرنڈمز کو قانون کا ہلکا سا آسرا حاصل تھا۔ موجودہ وقتوں میں اقتدار کی دوڑ میں شریک ایک کھلاڑی کا پتا کاٹنے کے لیے بھی قانون کی قینچی استعمال کی گئی ہے۔ ایک پارٹی کی قطع برید کرنے کے لیے اختیار کیا گیا طریق کار اتنا عجیب ہے کہ یہ وقت آنے پر بذات ِخود ایک کیس بن سکتا ہے ۔ ماضی کے ریفرنڈم احمقانہ تو تھے لیکن ا ُنہیں قانون کا سہارا میسر تھا۔ لیکن موجودہ انتخابات سے پہلے پیش آنیوالے واقعات انتہائی متنازع ہیں۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں ان پر بحث جاری رہے گی ۔
ان انتخابات کی دوسری انفرادیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ مشکوک بھی ہیں۔ اس سے پہلے ہونے والے تمام انتخابات، چاہے وہ فوجی حکمرانوں نے کرائے ہوں یا سویلین نے ، نتائج کے بعد جھگڑے کا باعث بن گئے ۔ لیکن موجودہ انتخابات کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ ان پر لگنے والے الزامات کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ درحقیقت ان انتخابات کا ایک بھی پہلو ایسا نہیں جو سنگین الزامات کی زد میں نہ ہو۔ بیلٹ پیپرز کی اشاعت اور بیلٹ باکسز کی تیاری سے لے کر کچھ جماعتوں کے ساتھ نرم برتائو، کچھ کے ساتھ سخت، انتخابی مہم سے لے کر عدالتی نوٹسز، کسی کو استثنی تو کسی کی گرد ن کے گرد شکنجہ کسا جاتا دکھائی دیا۔ ان عوامل کے ہوتے ہوئے پہلا ووٹ کاسٹ ہونے سے قبل ہی ان انتخابات کے گرد شکوک و شہبات کی فضا گہری ہوچکی ہے ۔
تیسری انفرادیت یہ ہے کہ اس ملک میں ایسے کوئی انتخابات نہیں ہوئے تھے جن میں انتخابی عمل سے وابستہ ہر ادارے کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ گیا ہو۔ بعض کیسز میں تو جانبداری محض تاثر نہیں، واضح جھکائو لیے ہوئے ہے ۔ عموماًسیاسی عمل میں شریک افراد کے اشتعال کا ہدف ریاستی مشینری کے کسی ایک پرزے کی طرف ہوتا ہے۔ ماضی میں افسرشاہی تنقید کی زد میں رہی ہے ۔ کبھی الیکشن کمیشن پر تنقید کی گئی۔ حتیٰ کہ نگران حکومتوں پر جانبدارہونے کے الزامات لگائے گئے ۔ عمران خان نے 2013 ء میں کچھ حاضر سروس فوجی افسران پرپولنگ اسٹیشنز پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے تھے ۔ عمران خان نے متعدد بار سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر الزام لگاتے ہوئے اُنہیں دھاندلی کا منصوبہ ساز قرار دیا۔
ماضی میں ایسی بھی مثالیں دیکھنے میں آئیں جب سیاسی جماعتوں نے انتہا پسند گروہوں پر الزام لگایا کہ اُن کی پر تشدد کارروائیوں کی وجہ سے وہ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ نہ سکے ۔ میڈیا بھی الزامات کی زد میں آنے سے نہ بچ سکا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے سیاسی اور انتخابی عمل کو کنٹرول کرنے کی تو اصغر خان کیس کی صورت دستاویزی شہادت موجود ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ نیک سیرت افراد بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف مڈنائٹ جیکال آپریشن کو بھول چکے ہوں، لیکن ایسا ہوا تھا۔ ماضی میں جب سیاسی جماعتوں کی صفوں سے امیدوار نکل کر کوئی نیا گروپ یا الائنس بناتے تو فائول پلے کا شور مچ جاتا۔ جب بھی فارورڈ بلاک بنائے جاتے ، ان سے پس ِ پردہ سازش کی بو آتی ۔
لیکن ہماری قومی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے جب اس نظام میں شامل ہر حصہ مختلف نوعیت کے الزامات کی زد میں ہے ۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے خطرات پر بھی بات نہیں کی جاسکتی ۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام ریاستی ڈھانچہ اور اس کے ستون شکو ک و شہبات کی زد میں ہیں۔ اس وقت ایسا کوئی میکانزم موجود نہیں جو ان الزامات کی جانچ کرکے معاملات درست کرسکے ۔ درحقیقت انتخابات کے قریب کچھ سیاست دانوں کو عدالتی کارروائی سے میدان سے نکال دینے سے ہم نے ایک خطرناک ڈھلوان پر قدم رکھ دیا ہے۔
نواز شریف کی آمد پر نواز لیگ کے حامیوں کی ریلی اس حوالے سے بہت چونکا دینے والی تھی کہ ان کے نعروں میں مایوسی کے علاوہ غصے کا پہلو غالب تھا۔ عام مبصرین کی توجہ شرکا کی تعداد پر مرکوز رہی ۔ لیکن اُس شام تعداد اتنی اہم نہیں تھی۔ لاہور سے ایسا تاثر ابھررہا تھا جیسے اسے دیوار کے ساتھ لگایا جارہاہو۔ پی پی پی اور اے این پی کو بھی ایسی ہی شکایات ہیں۔ ان میں سے سب سے سنگین اور واضح شکایت امیدواروں پر دبائو ڈال کر اُنہیں وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی انتخابی سیاست میں اتنے مختلف حلقوں سے ایسے واقعات کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ اور یہ صرف خیال یا التباسی الزامات نہیں۔ افراد کے نام لیے گئے ہیں۔ جگہ اور مقام کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ اور پھر جیپ کے انتخابی نشان ، اور اس سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی اور پھر جی ڈی اے کی تخلیق ’’قدرتی مظاہر ‘‘ نہیں ہیں۔ اب تخیل پرواز کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ سب کچھ اتنا شفاف کہ تمام حجابات اٹھ گئے ہیں۔
بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات اور سیاسی تقسیم کی لکیر گہری ہوتی جارہی ہے۔ جس ماحول میں انتخابات ہو رہے ہیں، وہ سیاسی مخالفین سے نفرت، تعصب اور دشمنی سے لبریز ہے۔اس ماحول میں عمران خان نے ائیرپورٹ کی طرف جانے والے نواز لیگ کے حامیوں کو گدھا کہہ دیا ۔ یہ بدزبانی اُس نفرت کا اظہار ہے جس نے سیاسی عمل میں جمہوری رویوں کی جگہ لے لی ہے ۔اس دوران میڈیا پر سنسر شپ اور بلیک آئوٹ کی چادر تنی ہے ۔ معلومات کا بہائومن پسند اور مسدود ہے ۔ ایسا کبھی ہمارے نہیں ہوا تھا، کم از کم اس پیمانے پر نہیں۔
زیادہ تر انتخابات سے پہلے ماحول کو آزاد کردیا جاتا تھا۔ میڈیا کھلے اظہار کا پلیٹ فارم بن جاتا تھا۔ رائے سازی ہوتی تھی۔ بیانات ، نہ کہ گالی سے جذبات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ اس وقت ہم ایک غیر معمولی ماحول میں انتخابی معرکے میں قدم رکھ رہے ہیں۔ سنسر شپ کی وجہ سے انتخابات کے حقیقی معروضات کو سامنے نہ لایا جاسکا۔ سب سے اہم خبر یہ ہے کہ ان عوامل پربحث نہ کی جاسکی جو اس نظام کو کنٹرول کررہے ہیں۔یہ ہیں وہ منفرد حالات جن میںقوم آج ووٹ ڈالنے جارہی ہے ۔ اس کھیل کا دستیاب میدان کسی طور ہموار نہ تھا۔ تو کیا نتائج ہموار ہوںگے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)