• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ سے دعا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں بند سابق وزیراعظم نوازشریف کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور ان کی شدید علیل زوجہ بیگم کلثوم کی بھی مشکلات آسان کرے۔اچھی خبر یہ آئی ہے کہ بیگم صاحبہ کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور روزانہ کچھ گھنٹوں کے لئے وینٹی لیٹر ہٹایا جاتا ہے۔وہ کئی ماہ سے لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں ۔ نوازشریف ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے مگر ان کی تشویشناک حالت کی وجہ سے ان سے بات نہ کر سکے جس کا اظہار انہوں نے بار بار کیا اوراس پر افسوس کرتے رہے ۔ تاہم سیاست کی مجبوریاں تھیں کہ وہ اور ان کی دختر مریم نواز، بیگم کلثوم کو اسی حالت میں چھوڑ کر پاکستان واپس آگئے تاکہ احتساب عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزاکی وجہ سے اپنی گرفتاری دے سکیں۔ چند دنوں بعد ہی جیل میں غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک کی وجہ سے ان کی صحت بہت خراب ہو گئی اور خصوصاً ان کی دل کی بیماری شدید ہو گئی ۔ تمام ڈاکٹرز بار بار ان پر زور دیتے رہے اور لکھ کر بھی سفارش کرتے رہے کہ ان کو فوراً اسپتال منتقل کیا جائے مگر سابق وزیراعظم نہ مانے کیونکہ وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ ان کے ٹارمنٹرز ان کو بریک کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں بالآخر جب ان کی حالت بہت بگڑگئی اور ڈاکٹرز کافی پریشان ہو گئے تو انہوں نے دوبارہ نوازشریف کو اسپتال منتقل کرنے کا کہا مگر وہ پھر بھی نہ مانے ۔ اسی جیل میں بند مریم نواز اور ان کے دامادکیپٹن (ر) محمد صفدر کی ان سے ملاقات کرائی گئی جنہوں نے بار بار زور دے کر ان کو جیل سے باہر اسپتال جانے پر آمادہ کیا ۔ تاہم جونہی نوازشریف پمز لائے گئے تو انہوں نے ڈاکٹرز کو کہا کہ انہیں جیل واپس لے جایا جائے ۔ ایک دو دن علاج کے بعد سابق وزیراعظم کے اصرار پر انہیں واپس جیل بھجوا دیا گیا ۔ ڈاکٹرز نے ان کی میڈیکل رپورٹ میں یہ لکھ دیاکہ مریض کے اصرار پر انہیں جیل منتقل کیا جارہاہے ۔ڈاکٹرز اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے تھے اور وہ یہ بات ریکارڈ پر لے آئے کہ جیل واپسی ان کا نہیں بلکہ مریض کا فیصلہ ہے ۔
آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف جیل سے اسپتال منتقل ہونے سے کیوں انکاری تھے اور کیوں ان کا اصرار تھا کہ انہیں جلد از جلد واپس اڈیالہ بھیجا جائے ۔ایک تو انکی انتہائی پدرانہ شفقت جو وہ اپنی بیٹی مریم کیلئے رکھتے ہیں نے انہیں مجبور کیا کہ باپ ہوتے ہوئے وہ بیٹی کو اکیلے جیل میں نہیں چھوڑ سکتے حالانکہ اڈیالہ کے اندر بھی کونسی ان کی روزانہ ملاقات ہو رہی ہے بلکہ یہاں تک ظلم کیا گیا کہ ا کی گرفتاری کے پہلے ایک ہفتے کے دوران تو باپ اور بیٹی ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکے ملاقات تو دور کی بات ہے۔ باوجود ان سختیوں کے نوازشریف نہیں چاہتے کہ وہ باہر اسپتال میں رہیں اور انکی بیٹی جیل میں اکیلی ہو ۔ انہیں مریم کے بارے میں کتنی تشویش ہے اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جب انہیں 13جولائی کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تو انہوں نے اصرار کیا کہ دونوں کو ایک ہی جہاز میں جہاں بھی منتقل کرنا ہے لے جایا جائے ۔ اس کے بعد بھی اس اسکیم پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی کہ باپ بیٹی کو کسی طرح الگ الگ جیلوں میں رکھا جائے یعنی مریم کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں اور نوازشریف کو اڈیالہ میں مگر نہ بیٹی مانی اور نہ والد ۔سابق وزیراعظم کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور مریم کو عام قیدیوں کے ساتھ ۔ ایسا سلوک جو خصوصاًٰ مریم کے ساتھ کیا جارہاہے پر ہمارے سر شرم سے جھکنے چاہئیں ۔تاہم جیل میں ہونیوالے اس سلوک کے بارے میں نوازشریف اور مریم کی طرف سے کوئی قابل ذکر شکایت سامنے نہیں آئی کیونکہ جب وہ لندن سے پاکستان آئے تھے تو ذہنی طور پر مکمل تیار تھے کہ ان کے ساتھ جیل میں کیا ہونیوالا ہے اور انہیں اپنے مخالفین کی ذہنی پستی کامکمل ادراک تھا لہذا گلہ کس بات کا ۔باوجود اسکے کہ سابق وزیراعظم کی صحت قطعاً اچھی نہیں ہے اور انکے دل کا مرض تشویشناک حد تک پہنچ گیا ہے وہ نہیں چاہتے کہ اسپتال میں رہ کر یہ تاثر دیں اور اپنے مخالفین کو بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے کے مواقع فراہم کریں کہ وہ جیل سے باہر کسی ڈیل کی وجہ سے ہیں اور وہ چند ہفتے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرسکے ۔ ان کو اذیت پہنچانے والے طاقتور لوگوں نے یقیناً اس 70سال کے بوڑھے قومی پاپولرلیڈر کو انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے ۔ ایسے عناصر تو ہر وقت یہ بے پرکی اڑاتے رہتے ہیں کہ نوازشریف ڈیل کیلئے بڑے بے چین ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب وہ 14جون سے 12 جولائی تک لندن میں رہے تو کم از کم 4بار انہیں اور ان کی بیٹی کو پیغامات بھجوائے گئے کہ الیکشن تک وہ پاکستان نہ آئیںاور انتخابات کے بعد آجائیں تو انکی بیل بھی ہو جائے گی اور تمام کیسز بھی ختم کر دیئے جائیں گے مگر باپ بیٹی نہ مانے کیونکہ وہ اپنے سیاسی نظریئے اور بیانیے کی خاطر کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں مگر وہ کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے سیاستدانوں کے چہروں پر لگے ہوئے دھبوں کو دھو دیا ہے کہ یہ حضرات تو جیل سے ڈر کر ملک سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر وہیں کئی سال خود ساختہ جلاوطنی میں رہتے ہیں ۔ان کیلئے تو بڑا آسان تھا کہ وہ لندن میں ہی رہتے اور جب پاکستان میں سیاسی حالات بہتر ہوتے تو واپس آجاتے تاہم اگر وہ ایسا کرتے تو انکی سیاست کو شدید ترین جھٹکا لگتا اور انکی پارٹی کااکھٹا رہنا مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے اور اپنے کارکنوں کو بھی یہ پیغام دیاہے کہ وہ تنگیوں اور سختیوں سے نہیں ڈرتے۔
سیاسی طور پر نیوزمیکر صرف اور صرف نوازشریف ہی ہیں وہ چاہے جیل میں رہیں یا آزاد ۔ ان کا جیل میں رہنا یا آزاد ہونا ان کے مخالفین کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ باوجود اس کے کہ بدترین انداز میں عام انتخابات کروا کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر لئے گئے ہیں اور ایسے نتائج جس سے ملک نے پیچھے ہی جانا ہے آگے نہیں کیونکہ سیاسی استحکام ہونا ہی نہیں ہے مگر پھر بھی ڈر اور خوف نوازشریف سے ہی ہے۔ چاہےجتنی مرضی انتخابات سے قبل یا پولنگ کے بعد دھاندلی کر لی جاتی نتائج پھر بھی بہت مختلف آنے تھے اگر نوازشریف جیل میں نہ ہوتے کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے ن لیگ میں بہت انرجی اور نئی زندگی آجاتی ہے۔ تاہم اتناسب کچھ کے بعد بھی کیا نتائج حاصل کئے گئے کہ اب آزاد امیدوار کو حمایتی بنانے کے لئے منڈی لگی ہوئی ہے یہ کہنا کہ آزاد امیدوار بڑی خوشی سے ان کے ساتھ مل رہے ہیں صرف اپنے آپ کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے ۔ بقول خود عمران خان کے ایسے لوگ الیکشن میں پیسہ لگا کر جیتے ہیں اور پھر اپنی بولی لگا کر قیمت وصول کر کے حکومتی جماعت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔نہ صرف ہمیں بلکہ کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم پاکستان کی تاریخ کے کمزور ترین چیف ایگزیکٹو ہوں گے ، ان کی حکومت ہر وقت سروائیول کی جنگ لڑتی رہی گی ، وہ کوئی قانون سازی نہیں کر سکے گی ، اسے بہت بڑی اپوزیشن جس میں بڑے بڑے گھاگ موجود ہیں کا سامنا ہو گا ، جو سادہ اکثریت سے بھی کم تعداد میں ووٹ لے کر وزیراعظم بنا سکے گی اور جو ہر وقت چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت کی مرہون منت رہے گی ۔ اس کے علاوہ پچھلے 5سال میں جو کپتان نے بے سروپا نعرے بازی ، گالی گلوچ ، الزام تراشیاں ، دھمکیاں اور بلند بانگ دعوے کئے وہ انہیں ہانٹ کرتے رہیں گے اور اپوزیشن انہیں یہ یاد دلا دلا کر ان کا جینا دوبھر کرتی رہے گی ۔ خواب بھی پورا ہوا مگر کیا گھنائونے انداز میں اور اس کی تعبیر اس سے بھی زیادہ ڈرائونی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین