ــ’’آپ اپنے مطلب کے اعداد وشمار نکالتے رہیں، تحریک انصاف سیٹیں نکال کر جا بھی چکی ہے‘‘۔ یہ فقرہ اس وقت سننے میں آیا جب الیکشن کے فوری بعد کراچی کی اہم سیاسی جماعت کے رہنمائوں کی میٹنگ میں ایک صاحب اعداد و شمار کی مدد سے شکست کے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تحریک انصاف کی کراچی میں حیران کن اور غیرمعمولی کامیابی پر تبصرے تجزیے ابھی تک جاری ہیں۔ کہیں سازشی کہانیوں کا تذکرہ ہے اور کہیں تبدیلی کی لہر کا۔ تحریک انصاف کی کراچی انٹری اتنی حیران کن اس لئے نہیں کہ اس کی بنیاد2013 میں رکھی جا چکی تھی، ان الیکشن کے نتائج میں پی ٹی آئی بیس میں سے سولہ سیٹوں پر دوسرے نمبر پر آئی تھی۔
گزشتہ دو سالوں میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور بعد ازاں پی ایس پی کم از کم ایک نکتے پر متفق تھے اور بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ دو ہزار تیرہ میں ساڑھے چھ لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کو بلدیاتی الیکشن میں ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے اور اب کراچی کی سیاست میں تحریک انصاف کا کوئی کردار نہیں ہو گا، لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات دونوں یکسر مختلف مزاج اور نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لودھراں میں بلدیاتی الیکشن مسلم لیگ ن نے جیتا لیکن بعد میں ضمنی انتخابات میں وہاں جہانگیر ترین جیت گئے۔ اسی طرح2015 میں لاہور میں ایاز صادق بمقابلہ علیم خان ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے بہتر ہزار ووٹ حاصل کئے اور صرف دو ہزار ووٹ سے الیکشن ہارے لیکن بلدیاتی الیکشن میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کا صرف ایک یونین کونسل میں چیئرمین کامیاب ہوسکا۔
کراچی کی ان تینوں جماعتوں کو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ ساڑھے چھ لاکھ ووٹر ایک خاموش خطرہ بن کر دوبارہ بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اس خاموش بغاوت کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ پوری انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ایس پی ایک دوسرے کو مقابلے کی جماعت جبکہ تحریک انصاف کو آسان حریف سمجھتے رہے۔ پاک سرزمین پارٹی کا موقف تھا کہ ہم ایک نئے نظریے کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور ’’لڑکے‘‘ (ایم کیو ایم کا سابقہ تنظیمی سیٹ اپ) ہمارے پاس ہیں اس لئے ہم اپنے تنظیمی سیٹ اپ کی بنیاد پر الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کا خیال تھا کہ ہمارے پاس ورکر نہیں تو کیا ہوا، ہم ووٹر کی بنیاد پر الیکشن جیتیں گے اور پیپلزپارٹی اس سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے کراچی میں اپنا شیئر وصول کرنے میدان میں آئی۔ کراچی میں تحریک انصاف کے عہدیداروں کو یہ شکوہ بھی رہا ہے کہ2013 میں بھی انکا مینڈیٹ چرایا گیا۔ یہ بات زبان زدِعام ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے دن نائن زیروعزیز آباد کے قومی اسمبلی حلقہ میں خبریں آئیں کہ تحریک انصاف کے خاموش حمایتی ووٹ ڈال رہے ہیں تو ایک پارٹی کی ’’ریسکیو ٹیمیں‘‘ کارروائی کیلئے گئیں اور صورتحال کو سنبھالا گیا۔ یہ بات اب اس لئے سامنے آئی کہ ان ’’ریسکیو ٹیموں‘‘ کے اکثر ارکان بغاوت کر کے ایک نئی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ایم کیو ایم کی شکست و ریخت اور باہمی لڑائیوں نے اسے خاصا نقصان پہنچایا ۔2013 میں خاموشی سے بلے پر مہر لگانے والے ساڑھے چھ لاکھ ووٹر اب نسبتاً آزاد ماحول میں تھے اور انہوں نے اپنے ہم خیالوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ اس کے باوجود اس مرتبہ بھی نائن زیرو کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے والا امیدوار اپنے ووٹوں سے زیادہ اپنے تحفظ کے بارے میں فکر مند رہا اور اسے تحریک انصاف کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اس کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ امن وامان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
کراچی میں اضلاع کی سطح پر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی کارکردگی کا اندازہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں سے لگایا جا سکتا ہے، ضلع وسطی کی چار سیٹوں میں سے دونوں جماعتوں نے دو دو جیت لیں، ایم کیو ایم نے دو لاکھ جبکہ پی ٹی آئی نے ڈھائی لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ ضلع غربی میں پانچ نشستوں پر مقابلے میں پی ٹی آئی تین اور ایم کیو ایم دو پر کامیاب ہوئی۔ ایم کیو ایم نے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار اور پی ٹی آئی نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ووٹ لئے۔ ضلع جنوبی میں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا اور دونوں سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ ووٹوں میں بھی تحریک انصاف کو ایک لاکھ ووٹ کی برتری ملی اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر عارف علوی کا پینسٹھ ہزار ووٹ کی برتری سے فاروق ستار کو شکست دینا تھا۔ اس ضلع میں ایم کیو ایم نے چونتیس ہزار اور پی ٹی آئی نے ایک لاکھ چوالیس ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اسی طر ح ضلع شرقی میں بھی چاروں نشستیں تحریک انصاف نے جیتیں اور دو لاکھ چوالیس ہزار ووٹ حاصل کئے جبکہ ایم کیوایم پچاسی ہزار ووٹ لے سکی۔ ضلع کورنگی میں تین میں سے دو ایم این ایز تحریک انصاف کے منتخب ہوئے جبکہ ایک سیٹ پر ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی نے تحریک انصاف کو تیس ہزار ووٹوں سے ہرایا۔ ملیر میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر تحریک انصاف کے76 ہزار ووٹ حا صل کئے جبکہ ایم کیو ایم کو ساڑھے14 ہزار ملے، دونوں جماعتیں کوئی سیٹ نہ جیت سکیں۔
اگر ووٹوں کے اعتبار سے پرکھا جائے تو تحریک انصاف نے پورے کراچی میں اپنے سابقہ ووٹوں میں ساڑھے تین لاکھ کا اضافہ کرتے ہوئے تیرہ نشستوں پر کامیابی اپنے نام کر لی۔ اس اضافی ساڑھے تین لاکھ ووٹ کو کراچی کی اکیس نشستوں پر تقسیم کیا جائے تو تحریک انصاف کو ہر سیٹ پر اوسطً سولہ ہزار ووٹ مزید حاصل کرنے کیلئے محنت کرنا پڑی۔ مزید آسانی سے سمجھا جائے تو تحریک انصاف کے ایک سو ووٹرز میں سے پینسٹھ ووٹر پرانے تھے اور پینتیس ووٹر نئے۔ یہ بات اہم ہے کہ تحریک انصاف نے تین سیٹوں پر ایک سے تین ہزار ووٹ کی برتری سے کامیابی حاصل کی۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال2002 کے الیکشن میں بھی پیش آئی تھی جب قومی اسمبلی کی تین سیٹوں پر ایم ایم اے ایک سے تین ہزار ووٹ کی برتری سے ایم کیو ایم کو ہرا کر جیت گئی تھی اور جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان، اسد اللہ بھٹو اور محمد حسین محنتی ایم این اے بننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ تحریک انصاف کے مرکزی حلقوں میں بھی کراچی تنظیم پر خاص توجہ نہیں دی گئی اور اس کے باوجود امیدواروں کو ان کی محنت کا صلہ مل ہی گیا۔
آخری بات یہ کہ، الیکشن سے پہلے عمران خان کے دورہ کراچی میں دوران سفر تحریک انصاف کے ایک مقامی رہنما نے کہا کہ خان صاحب ہم لیاری اور نائن زیرو کی سیٹ پر بھی مضبوط ہیں ، اگر تھوڑی اور توجہ دیں تو ہم وہاں سے جیت جائیں گے۔ اس بات کے جواب میں گاڑی میں موجود تمام رہنمائوں نے ایک قہقہہ بلند کیا۔ اس حوصلہ شکن ردعمل کے بعد اس رہنما کو خاموش ہو جانا چاہئے تھا لیکن وہ پھر بولا اور کہا کہ خان صاحب ہمارے ڈیفنس کے دوستوں کو اندازہ نہیں کہ شہر کی سیاسی ہوا بدل چکی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)