• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آن لائن یا روایتی حصول تعلیم بہتر طریقہ کون سا؟

آن لائن یا روایتی حصول تعلیم بہتر طریقہ کون سا؟

ایم آئی ٹی، ہارورڈ، اسٹینفورڈ اور پرنسٹن سمیت بہت سی دیگر معروف یونیورسٹیوں نے انٹرنیٹ پر بہت سے فری کورسز کی پیشکش کررکھی ہے اور پوری دنیا سے10لاکھ سے زائد لوگوں نے آن لائن کورسزکے لیے اپنا نام درج کرایا ہے۔ بڑے پیمانے پر آن لائن فاصلاتی تعلیم کے کورسز (Massive Open Online Courses (MOOCs نے لوگوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ جنہوں نے ایسے بےشمار طلباء کو معیاری کالج کی تعلیم فراہم کی ہے، جو عام حالات میں اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ ان میں وہ طلباء بھی شامل ہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں یا پھر اپنے کیرئیر کے وسط میں ہیں۔

موکس (MOOCs)کے بارے میں عوامی جوش اس وقت سامنےآیا، جب لوگوں نے کالج کی تعلیم کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ کالج کی بیچلر ڈگری پر ایک لاکھ ڈالر خرچ اٹھتا ہے، جس میں نوجوانوں کے قیمتی چار سال صرف ہوتے ہیں۔ اس دوران بہت سے طلباء کالج چھوڑ بھی جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلباء پر یا ان کے والدین پر ایک بڑا مالی بوجھ بھی پڑتا ہے، یہ نا صرف ان کے ذاتی اخراجات بلکہ پوری معیشت پر بھی بوجھ ہوتاہے۔ 

اکثر لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بڑھنے کے ساتھ اس کا معیار گررہا ہے۔ سرکاری کالجوں میں تعلیم چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اور بہت سے گریجویٹ یہ ثابت نہیں کر پاتے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہےکہ نہیں۔ پی ای ڈبلیو(PEW) تحقیقی مرکزکے 2011ء ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 60فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ملکی کالج اور یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے جو رقم خرچ کی تھی، وہ ضائع ہوئی ہے۔ موکس کے حامی کہتے ہیں کہ آن لائن ہدایات کے ذریعے بتدریج ان نقصانات کا ازالہ ہو گا۔

موکس(MOOCs)کا عروج

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کا فری آن لائن کورس متعارف کروانے والے پروفیسر سباسٹین تھرون کہتے ہیں کہ جب میں نے آن لائن کورس شروع کرایا تو مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ پینتالیس سالہ روبوٹکس کے ماہر سباسٹین کا خیال تھا کہ ان کی کلاس میں10ہزار کے قریب طلباء داخلہ لیں گے، مگران کے اس خیال کےبرعکس توقع سے کہیں زیادہ لوگوں نے داخلہ لیا۔ اکتوبر 2011ء میں جب کلاس کا آغاز ہوا تو ایک لاکھ 60ہزار لوگوں نے داخلہ لیا۔ اس تجربے نے پروفیسر سباسٹین تھرون کی زندگی ہی بدل کررکھ دی۔ 

انہوں نے اعلان کیا کہ ’میں اب اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں مزید نہیں پڑھا سکتا‘۔ انہوں نے اپنے روبوٹکس کے ماہر دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی کمپنی اُڈاسٹی (Udacity) کا آغاز کیا۔ یہ مشترکہ کمپنی اپنے آپ کو 21ویں صدی کی یونیورسٹی کہتی ہے اور یونیورسٹی آف ورجینیا کے علاوہ دیگر اسکولوں مثلاً رٹگر(Ritger)کے پروفیسرز کو انٹر نیٹ پر اوپن کورسز پڑھانے کے لیے ادائیگیاں کررہی ہے۔ آن لائن کورسز کے لیے وہ مصنوعی ذہانت (AI) کلاس کی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ اُڈاسٹی میں پڑھائے جانے والے کورسز میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔ پروفیسر سباسٹین تھرون کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کی روایتی ڈگری کا طریقہ اب فرسودہ ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ، ا سٹینفورڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس شعبے میں تھرون ہی کے دوساتھیوں ڈیفنی کولر اور اینڈریو این جی نے اُڈاسٹی کی طرح کورسیرا(Coursera)کمپنی کا آغاز کیاہے۔ کورسیرا کو لاکھوں ڈالر سرمائے سے شروع کیا گیا۔ اُڈاسٹی کے برخلاف کورسیرا نے بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی کورسز کاآغاز کیا۔ ایک طرف جہاں پروفیسر سباسٹین تھرون چاہتے ہیں کہ وہ روایتی یونیورسٹیوں کا متبادل لوگوں کو فراہم کریں، وہاں کوہلر اور اینڈریوایک ایسا سسٹم بنانا چاہتے ہیں جس میں اسکول انٹرنیٹ پر اپنی کلاسز کا آغاز کریں۔ کورسیرا کے شراکت داروں میں پرنسٹن یونیورسٹی ، اسٹینفورڈ ، پین (Penn) اور یونیورسٹی آف مشی گن شامل ہیں۔ کورسیرا پہلے شماریات سے لے کر عمرانیات تک 200 کورسز متعارف کرواچکی ہے۔

دوسری طرف ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی نے مل کر ایڈ ایکس(EdX)کمپنی بنائی ہے، جہاںتمام افراد کے لیے غیر منافع بخش ٹیوشن فری کلاسز ہوں گی۔ اس کے لئےایڈ ایکس نے اوپن سورس استعمال کراتے ہوئے ایم آئی ٹی پر تدریسی پلیٹ فارم متعارف کروایا ہے۔ جس کے تحت طلباء کے لیے ویڈیو پر مشتمل اسباق اور مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ کے فورم فراہم کئے جائیںگے۔ اس کے علاوہ سائنس کے طلباء کے لیے ورچوئل لیبارٹریز ہوں گی، جہاں سے طلباءکمپیوٹر پر کیے گئے مصنوعی تجربات کی ورچوئل ویڈیو دیکھ سکیں گے۔

کلاس روم کا تصور

مُوکس کے بنانے والوں اور حامیوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ کمپیوٹرز کلاس روم کی جگہ لے لیں گے لیکن وہ یہ رائے دیتے ہیں کہ اس سے کیمپس میں طلباء کے لیے رہنمائی اور ہدایات کی نوعیت بدل جائے گی۔ اس سے طلباء کو تعلیمی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا اور اہلیت میں اضافہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔ طلباء کا کلاس میں جانا، لیکچر سننا اور اپنی اسائنمنٹ بنانے میں مصروف ہوجانا ایک روایتی طریقہ ہے جو فاصلاتی تعلیم سے بدل جائے گا۔ طلباء اپنے لیکچر اور تعلیمی مواد آن لائن حاصل کر کے ان کا مطالعہ اور تجزیہ کرسکیں گے (جیسا کہ چند مڈل اور ہائی اسکولوں نے خان اکیڈمی کے ویڈیوز استعمال کرکے ایسا کیا ہے) ۔اس طرح جب طلباء اپنے کلاس روم میں اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے پروفیسرز کے ساتھ زیادہ گہرائی سے بحث کرسکیں گے۔ اس طرح یہ بدلتا کلاس روم طلباء اور اساتذہ کے لیے بہت فائدہ مند رہے گا۔

تازہ ترین