• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسباق کو بہتر انداز میں پڑھنےاوریاد کرنے کا جادوئی فارمولا بس اتنا سا ہے کہ اپنے اندر ہر سبق کے لیے دلچسپی اور شوق پیدا کریں، اس مقصد کےلیے آپ کو مطالعے کے دوران متحرک شرکت داری کرنا ہوگی۔ یہ شراکت داری عام طور پر نصاب میں موجود سوالات کے جوابات ہوتے ہیں لیکن ایک اور ہنر بھی ہے جسے ہم اردو زبان میں دوبارہ فقرےاور جملے بنانا یا اپنے الفاظ میں لکھنا کہتے ہیں، جس کے لیے انگریزی میں لفظ ری فریزنگ(Rephrasing ) استعمال ہوتا ہے۔ ری فریزنگ کرنا اس وقت آتا ہے جب آپ پڑھے ہوئے متن کو اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں، جو امتحانات میں سوالات کے جوابات کی بنیادی ضرورت تو ہوتی ہی ہے لیکن اپنے الفاظ میں اظہارِ خیال کرنے کی یہ عادت اگر پختہ ہوجائے تو آپ کو بہترین لکھاری، مصنف اور مدیر کی حیثیت میں اُبھار کر ادیبوں کی صف میں لاسکتی ہے۔ 

اس طرح کسی بھی سبق کا مطالعہ کرنا اس کو یاد کرنے سے کہیں زیادہ سود مند ہوتا ہے کیونکہ آپ کا دھیان صرف متن کوپڑھنے پر ہوتا ہے اور جب آپ لکھی ہوئی معلومات اپنے انداز سے لکھتے ہیں تو یہی عمل آپ کے لیے اسباق کو یاد کرنے کا شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ جب آپ یہ عمل کررہے ہوں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ متن کو نقل نہ کریں بلکہ کتاب بند کرکے متن میں دی گئی معلومات کو مکمل طور پر اپنے انداز میں دوبارہ لکھنے کی کوشش کریں۔ کیسے !آئیے اس کےگُر اور اہم نکات جانتے ہیں۔

پہلا گُر:متن اپنے الفاظ میں لکھیے

1 ۔متن(content ) توجہ سےپڑھیے! سب سے پہلے متن کو توجہ اور دھیان سے پڑھیے۔ جب تک اس کو مکمل طور پر سمجھ نہ لیں، یہ عمل دہراتے رہیں۔مطالعہ کرتے وقت اہم نکات لکھتے جائیں۔ ہر پیراگراف پڑھ کر ذرا رک جائیں اور سوچیں کہ کیا کہا گیا ہے، جیسے کسی اور کو آپ نے بتانا ہے۔

2۔اصل نصاب سے الفاظ مت لیجیے! جب تک آپ کسی مفکر کی بات کومن وعن نہیں لیتے، نصاب سے الفاظ لینے سے گریز کریں، آپ کا اپنا اسلوب جھلکنا چاہیے۔ سائنسی اصطلاحات تو ناگزیر ہیں، باقی کی معلومات اپنے لفظوں میں لکھیں۔ اگر کچھ طالب علم یہ سوچ رہے ہیں کہ نصاب میں استعمال کردہ الفاظ کے ’ہم معنی الفاظ‘جھٹ سے نکال لیں گے تویہ نہ صرف بھاری پڑے گا بلکہ یہ کوشش ’سرقہ بندی‘( plagiarism) میں شمار ہوگی، اس کے لیے ضروری ہے کہ جملے کی بنیادی ساخت کو تبدیل کیا جائے۔ جیسے نصاب میں لکھا ہوا ہے’’انسانی ڈی این اے میں پائے جانے والے 46 کروموسومز میں سےجنس کا تعینXاور Y کروموسومز سے کیا جاسکتا ہے۔‘‘ اس جملے کو آپ اپنے انداز میں یوں بھی لکھ سکتے ہیں’’انسانوں میں ڈی این اے46 منفردکروموسومز سے بنا ہے۔حیاتیاتی جنس کے تعین کا انحصارX اور Y پر ہے۔‘‘

3۔متن میں اضافہ کیجیے! آپ کا بنیادی مقصد نقل کے بجائے اس معلومات کا استعمال ہونا چاہیے جو آپ کےامتحانی پیپر یا دلیل کی حمایت کرتی ہے۔ اس لیے موجود متن سے آگے بڑھتے ہوئےاپنے مضمون یا پیپر میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

4۔ماخذ(source ) کا حوالہ دیجیے! جب آپ کام مکمل کرچکیں تو ماخذ کا حوالہ دیں کہ یہ معلومات آپ نے کہاں سے حاصل کی ہیں۔ کبھی یہ حوالہ حاشیوں میں متن کے اندر آتا ہے، کبھی مضمون کے آخر میں، تو کبھی مذکورہ معلومات کے صفحے کے آخر میں۔یہ اہتمام نصاب سے باہرحاصل کردہ معلومات کے لیے اشد ضروری ہے جس کی اہمیت تحقیقی مقالے کے دوران سِوا ہوجاتی ہے۔

دوسرا گُر:ابہام سے بچنے اور وضاحت و صفائی کیلئے دوبارہ لکھیے!

1۔اپنے مرکزی نکات کاجائزہ لیجیے! پیراگراف یا جملہ لکھنے کے بعد جائزہ لینے کے لیےاصل سبق کو دیکھیے کہ کہیں اہم نکات چھوٹ تو نہیں گئے۔ کوشش کریں کہ یہ اہم نکات ایک دوجملوں میں مکمل ہوجائیں، پھر اسے پڑھ کر یقین کرلیں کہ کوئی اور اہم نکتہ رہ تو نہیں گیا۔

2۔کسی بھی الجھادینے والے جملے کو دوبارہ لکھیے! جب آپ کوئی جملہ بڑا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ابہام رہ جاتا ہے۔ اس لیے چھوٹے چھوٹے جملے بنائیے تاکہ بات واضح ہو اور آپ کو پڑھ کر بھی مزہ آئے۔ آج کل چھوٹے جملے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اور اخبارات میں بھی طویل جملوں سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ یہی آج کل کے ادیبوں کا اسٹائل ہے۔

3۔تمام ضروری تفصیلات مہیا کریں! جب دوبارہ لکھیں توتمام ضروری معلومات پر دھیان دیں اور غیر ضروری تفصیلات نکال دیں۔

تیسرا گُر:نقل سے بچیے!

1۔الفاظ بڑھا کر جملے کی ساخت تبدیل کیجیے! جب آپ اپنے حساب سے دوبارہ لکھیں تو اپنے جملے کی ملتی جلتی ساخت کو تبدیل کرکے نقل سے بچیں۔ اگر ادبی تجزیے میں موضوع کے بجائے کرداروں کے تعلقات پر نقد و نظر پیش کی گئی ہے تو آپ ناول کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کرداروں کے تعلقات کو ناقدانہ نگاہ سے تحریر کرسکتے ہیں۔

2۔اپناتحریری اسلوب شامل کیجیے! اپنی تحریر کی فطری آواز، لہجے اور اسلوب کے بارے میں سوچیے۔ اپنے منفرد لہجے میں لکھنے کی کوشش کیجیے۔ اس سے آپ آزادانہ انداز میں سوچ اور لکھ سکیں گے اور بار بار سبق کی طرف رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔

3۔بوقتِ ضرورت حوالہ جات کا استعمال کریں! ضروری معلومات کی صداقت کے لیے کبھی کبھار تو حوالہ جات ضروری ہوجاتے ہیں لیکن ہر جگہ بقول آئن اسٹائن’’ادب ِ عالیہ کےمطالعے کے بغیر سائنس لولی لنگڑی ہے۔‘‘ کی بھرمار نہ صرف آپ کی تحریر کو بدنما کردے گی بلکہ پڑھنے والے پر بھی اچھا تاثر قائم نہیںہوگا۔ جیسے ہماری امی حضور کہا کرتیں ہیں کہ ’’بیٹا دوسروں کے دماغ سے نہ سوچو!کچھ اپنا دماغ بھی لڑاؤ‘‘۔

اس لیے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجیے کہ اب ہم تخلیقی اور انفرادیت کے دور میں جی رہے ہیں۔ 

تازہ ترین