• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پہلے والدین کو حج یا عمرہ کرائے یا بیٹی کی شادی کرے ؟

تفہیم المسائل

سوال:لوگوں میں رجحان پایاجاتاہے کہ اگر والدین نے حج وعمرہ نہیں کیا ،گھر میں جوان بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہوں ،تو پہلے والدین کو حج یا عمرہ کرائے ،بیٹی کی شادی کرے ،پھر وہ خود حج یا عمرہ کرسکتاہے ، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟(قاضی محمد اشرف،کراچی)

جواب: حج واجب ہونے کی آٹھ شرائط ہیں ،ان میں سے کوئی ایک شرط بھی ایسی نہیں جس سے یہ مسئلہ اخذ کیاجاسکے کہ والدین کو حج کرائے بغیر یا بیٹی کی شادی کیے بغیر کوئی شخص اپنا حج نہیں کرسکتا ۔علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اتنا مال ہے ،جس سے حج کرسکتاہے اور نکاح بھی کرنا چاہتاہے ،تو حج کرے ،نکاح نہ کرے ،اس لیے کہ حج ایسا فریضہ ہے ،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر فرض کیاہے ، ’’تبیین ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:217)‘‘۔

دُرّمختار میں ہے :ترجمہ:’’ الاشباہ والنظائر میں ہے : ایک آدمی کے پاس ہزار درہم ہیں اوراسے مجرد رہنے سے گناہ کا خوف ہے ،اگر یہ ہزار درہم شہر کے لوگوں کے حج پر جانے (یعنی موسمِ حج)سے پہلے ہوں تو اسے شادی کرلینی چاہیے ۔اگر اس کے پاس یہ رقم لوگوں کے حج کے لیے روانہ ہونے کے وقت(یعنی موسمِ حج میں) ہوتو اس پر حج لازم ہوگا اورحج کے واجب ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ مال اس کے زیرِ کفالت افراد کے نفقہ سے زیادہ ہو ، کیونکہ اس کے حج سے واپس آنے تک بندے کا حق مقدم ہے اور ایک قول کے مطابق حج سے واپسی کے ایک دن بعد تک اورایک قول کی رُو سے ایک ماہ تک کے کفایت کرے ‘‘ ۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’الاشباہ والنظائر میں یہ قول : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے نقل کیاگیاہے کہ حج شادی پر مقدم ہے اور مذکورہ تفصیل کو صاحبِ ہدایہ نے ’’التجنیس‘‘ میں ذکر کیاہے اور ’’ہدایہ ‘‘ میں اسے مطلق ذکر کیاہے اور اس سے یہ استشہاد کیاہے کہ امام صاحبؒ کے نزدیک(استطاعت پر) حج فوری واجب ہوتاہے ۔ اس کا مقتضا یہ ہے کہ حج کو نکاح پر مقدم کیاجائے گا اگرچہ شہوت کی زیادتی کے وقت شادی کرنا واجب ہوتاہے ۔’’العنایہ‘‘ میں اس کی صراحت ہے۔ حالانکہ اس وقت یہ حوائج اصلیہ میں ہوگا ۔اسی وجہ سے ابن کمال پاشا نے اپنی شرحِ ’’ہدایہ‘‘میں اس پر اعتراض کیاہے کہ شہوت کے غلبہ کے وقت تو نکاح بالاتفاق حج پر مقدم ہوگا کیونکہ اس کے ترک میں دوخرابیاں ہیں :ایک فرض کو ترک کرنا اوردوسرازنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہونا ۔اورامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے (حج کو مقدم کرنے کا) جواب اس حالت کے بارے میں ہے ، جس میں شہوت کا غلبہ نہ ہو،یعنی جب زنا کے تحقق کی حالت نہ ہو، کیونکہ اگروہ حالت مُتحقق ہوجائے تو شادی کرنا فرض ہوگا،مگر جب زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تونکاح واجب ہوگا ،فرض نہیں ہوگا ۔پس شادی پر حج فرض مقدم ہوگا ،پس اس مسئلے کو سمجھنا چاہیے ،(حاشیہ ابن عابدین ، جلد6،ص:477،دمشق)‘‘۔

غرض کوئی عاقل بالغ مسلمان صاحبِ استطاعت ہے ،تووہ حج کو اس لیے مؤخر نہ کرے کہ ابھی والدین نے حج نہیں کیا یا ابھی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی ، والدین اگرچہ خود صاحبِ استطاعت ہیں تو ان پر اپنے مال سے حج کرنا فرض ہے ، اولاد پر انہیں حج کرانا فرض نہیں ہے ،اگر اللہ تعالیٰ نے اولاد کو وسعتِ مال سے نوازاہے اور والدین کو حج کروادیں تویہ ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے ۔

تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ اگر وہ حج کو اختیارکرے تو وہ حج وجوب کے ساتھ مُتّصف ہوگا ،اور بعض اوقات حُرمت کے ساتھ مُتصف ہوگا ، جیسے کہ کسی نے حرام مال سے حج کیا اور بعض اوقات کراہت سے مُتصف ہوگا ،جس طرح وہ شخص جس نے ان لوگوں کی اجازت لیے بغیر حج کیا ،جن سے اجازت لینا واجب ہوتی ہے ‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ جیسے اس کے والدین میں سے کوئی ایساہو ،جسے اس کی خدمت کی ضرورت ہو اور (والدین نہ ہوں تو) دادا ،دادی والدین کی طرح ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایسا مقروض جس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کوئی مال نہ ہو ،اسی طرح ضامن اگرچہ اجازت کے ساتھ ہو ،ان لوگوں کی اجازت کے بغیر اس کا حج کے لیے نکلنا مکروہ ہوگا ، ’’فتح القدیر ‘‘ میں اسی طرح ہے ۔اس کا ظاہرمعنی یہ ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے ،اسی وجہ سے شارح نے وجوب سے تعبیر کیا۔

’’اَلْبَحْرُالرَّائِق ‘‘ میں ’’اَلسِّیَرُ الْکَبِیْر‘‘ کے حوالہ سے یہ اضافہ کیاہے :’’اور اسی طرح اگر اس کی بیوی اور زیرِ کفالت افراد جن کا نفقہ اس کے ذمے ہے، اس کے حج پر جانے کو ناپسند کریں ‘‘۔ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام اس صورت میں ہے ،جب اس حج کرنے والے کے پاس (مصارف ِ حج کے سوا) اتنامال نہ ہو ،جو وہ اپنی عدم موجودگی کے عرصے کے لیے انہیں نفقہ کے طورپر د ے ۔’’البحرالرائق ‘‘ میں لکھا: یہ سب فرض حج کی بابت ہے ،جہاں تک نفل حج کا تعلق ہے ،تو والدین کی اطاعت مطلقاً اَولیٰ ہے ،جس طرح ’’اَلْمُلْتَقَطْ‘‘ میں اس کی تصریح ہے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد6،ص: 457-458، دمشق)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین
تازہ ترین