سید محمد جعفری
پھر آگیا ہے ملک میں قربانیوں کا مال
کی اختیار قیمتوں نے راکٹوں کی چال
قامت میں بکرا اُونٹ کی قیمت کا ہم خیال
دِل بیٹھتا ہے اُٹھتے ہی قربانی کا سوال
…
چوراہوں پر کھڑے ہوئے بکروں کے ہیں جو غول
تُو اُن کے مونہہ کو کھول کے دانتوں کو مت ٹٹول
قیمت میں ورنہ آئے گا فوراً ہی اتنا جھول
سونے کاجیسے بکرا ہوا ایسا پڑے گا مول
…
بکرا جو سینگ والا بھی ہے اور فسادی ہے
اُس نے سیاسی جلسوں میں گڑ بڑ مچا دی ہے
چلتے ہوئے جلوس میں ٹکّر لگا دی ہے
اور ووٹروں میں پارٹی بازی کرادی ہے
…
قربانیوں کا دَور ہے بکروں کی خیر ہو
ہے اور بات حالتِ اِنسان غیر ہو
قرضے میںاُس کا جکڑا ہوا ہاتھ پیر ہو
لیکن نصیب بکرے کو جنت کی سیر ہو