مولانا مجیب الرحمن انقلابی
روایت کے مطابق جب آنحضرت ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ ﷺنے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے دو خوشی کے تہوار مناتے ہیں، صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں؟آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الفطر کا دن ، دوسرا عیدالاضحی کا‘‘۔عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں فرض روزوں کی تکمیل کر کے اس مقدس مہینے کے ایک تربیتی دور سے گزر کر اپنی روحانیت کو جلا بخشتے ہیں اور عید الاضحی اس وقت منائی جاتی ہے، جب ایک دوسری عبادت یعنی حج کی تکمیل ہوتی ہے اور لاکھوں مسلمان عرفات کے میدان میں اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعائیں کر کے ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں۔
عید الاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے، اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺنے یہاں تک فرمایا: ’’جو شخص استطاعت رکھنے (صاحبِ نصاب ہونے) کے باوجود قربانی نہیں کرتا ،وہ ہماری عید گاہ نہ آئے‘‘۔(ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی ایسی فضیلت والا عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں۔قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے دن) دس ذوالحجہ کو کوئی بھی نیک عمل (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں اور قیامت کے دن بندہ اپنی قربانی کے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا ، میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ ایسی بات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیئے جانے کے مترادف مانی جاتی تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا!ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کر لیجیے، آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(سورۂ صٰفٰت )آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا، ابھی ذبح کرنے نہ پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئی۔ اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بجائے قربانی کے لئے بھیجا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جذبہ قربانی اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک ان کے اس عمل اور جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کر دی۔چناںچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور پوری امت مسلمہ دنیا بھر میں اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺیہ قربانی کیا ہے؟حضور اکرم ﷺنے فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس میں ہمارے لیے کیا اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (تمہارا اجر یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا : اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔(مشکوٰۃ)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں، اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو، لہٰذا ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی، اسی طرح دوسرے حلال جانور قربانی میں ذبح نہیں کیے جاسکتے۔چوںکہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے، اس لئے جانور خوب عمدہ موٹا تازہ ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان چرا ہوا ہو یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔(ترمذی)
حضرت براء بن عازبؓکا بیان ہے کہ حضور اقدسﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کن کن جانوروں سے پرہیز کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (خصوصیت کے ساتھ) چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو (۱) ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (۲) ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ (۳) ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو ۔(۴) ایسا دُبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (مؤطا امام مالک، ترمذی، ابوداؤد)
قربانی کا وقت بقرہ عید کی دسویں تاریخ سے بارہویں تاریخ کی شام تک کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے ،لیکن قربانی کرنے کا سب سے افضل دن بقرہ عید کا پہلا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔ بقرہ عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے، نماز عید پڑھ چکیں تب قربانی کریں۔ البتہ اگر کوئی دیہات میں یا گاؤں میں ہو، جہاں عید کی نماز واجب نہیں تو وہاں دسویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد قربانی کر دینا درست ہے۔
قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم ،مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے، صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زائد سامان ہو اور سب کو جمع کر کے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے تو اس پر قربانی اور صدقہ فطر واجب ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جس پر زکوٰۃ واجب نہیں، اس پر قربانی بھی واجب نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ یوں کہنا تو درست ہے کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہے، اس پر قربانی بھی واجب ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اس پر قربانی بھی واجب نہیں، کیوںکہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ،جن پر زکوٰۃ فرض نہیں، اس لئے ان کے پاس سونا، چاندی یا مال تجارت یا نقدی نصاب کے بقدر نہیں ہوتی، لیکن بہت سا فاضل (ضروت اصلیہ سے زائد) سامان ہوتا ہے۔اگر یہ فاضل سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہو جاتی ہے، لیکن زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، اور ایک فرق اور بھی ہے وہ یہ کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے، جب صاحب ِنصاب پرچاند کے اعتبار سے بارہ مہینے یعنی سال گزر جائے اورقربانی واجب ہونے کے لئے قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ہے، اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے یا قربانی کے ان تین ایام میںہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔
قربانی کا مقصد گوشت کھانا ، دکھاوا یا ریا کاری نہیں، بلکہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک جان قربان کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی نیت اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ ( سورۃ الحج)