• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اللہ کے جلیلُ القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور قُربانی کی بے مثال تاریخ

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

’’اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت میں تاریخ انسانی کا وہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ،جس کا مشاہدہ نہ اس سے پہلے کبھی زمین وآسمان نے کیا، اور نہ اس کے بعد کریں گے‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی اورعظیم پیغمبر ہیں، جنہیں خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہا جاتا ہے،آپ تقریباً چار ہزار سال قبل عراق میں پیدا ہوئے، تین بڑے مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے عظیم پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ یہودی اور عیسائی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ دین اسلام میں انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چناںچہ قرآن کریم کی’’سورۂ ابراہیم‘‘ ان ہی سے موسوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے احوال واوصاف بیان فرمائے ہیں۔ انہیں ’’امت‘‘ اور ’’امام الناس‘‘ کے لقب سے پکارا ہے۔ آپ کومتعدد مرتبہ ’’حنیف‘‘ بھی کہا گیا۔ انہیں ’’مسلم‘‘ بھی کہا گیا ۔ قرآن کریم میں بہت سے انبیائے کرام کا تذکرہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچپن سے ہی قلب سلیم عطا کیا گیا تھا، چناںچہ انہوں نے ابتدا ہی سے بت پرستی کی مخالفت کی۔ اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کے بعد انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ساری کائنات کو پیدا کرنے والا ایک معبود حقیقی اللہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ، جیساکہ فرمان الہٰی ہے: اور اس طرح ہم ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں۔ چناںچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ کہنے لگے: یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ: یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے، اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں یقیناً گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں ۔ پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا، تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں اُن سب سےبےزار ہوں۔ میں نے تو پوری طرح یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (سورۃ الانعام ۷۴ ۔ ۷۹)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی بابت جب سمجھنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی مثال کے ذریعے اُنہیں یہ راز سمجھایا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت ۲۶۰ میں بیان فرمایا ہے: اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے پروردگار! مجھے دکھائیے کہ آپ مُردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں؟ اللہ نے کہا: کیا تمہیں یقین نہیں؟ کہنے لگے: یقین کیوں نہ ہوتا؟ مگر (یہ خواہش اس لئے ہے) تاکہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہوجائے۔ اللہ نے کہا: اچھا تو چار پرندے لو اور انہیں اپنے سے مانوس کرلو، پھر (ان کو ذبح کرکے) ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑی پر رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ چاروں تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔

ان کا والد آزر مذہبی پیشوا تھا، بت بناکر بیچا کرتاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زمانۂ طفولت سے ہی بتوں کی عبادت کی مخالفت کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کھل کر بتوں کی مخالفت کے بعد انہیں قتل کرنے اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دی گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک عبادت گاہ میں گھس کر بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا واقعہ پیش آیا، جس کا ذکر قرآن کریم (سورۃ الانبیاء ۵۸ ۔ ۶۳) میں ہے: چنانچہ ابراہیمؑ نے ان کے بڑے بت کے سوا سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، تاکہ وہ لوگ اُن کی طرف رجوع کریں۔ وہ کہنے لگے کہ: ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ وہ کوئی بڑا ہی ظالم تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں باتیں بنایا کرتا ہے۔ اسے ابراہیم کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر اسے سب لوگوں کے سامنے لے کر آؤ، تاکہ سب گواہ بن جائیں۔ (پھر جب ابراہیم کو لایا گیا تو) وہ بولے: ابراہیم! کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تم ہی نے کی ہے؟ ابراہیمؑ نے کہا: نہیں، بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے۔ اب انہی بتوں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہوں۔ سورۃ الصافات ۸۸ ۔ ۸۹ میں مذکور ہے کہ وہ کوئی جشن کا دن تھا جس میں ساری قوم شہر چھوڑکر کہیں جایا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت چاہی اور جب سارے لوگ چلے گئے تو بت خانے میں جاکر سارے بتوں کو توڑ ڈالا، صرف ایک بت کو چھوڑ دیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی کلہاڑی بھی اس کی گردن میں لٹکاکر چھوڑدی۔ اس عمل سے حضرت ابراہیمؑ کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان بتوں کی بے بسی کا منظر دیکھ سکیں اور یہ سوچیں جو بت خود اپنا دفاع نہیں کرسکتے، وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ اور پھر نمرود بادشاہ کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ مناظرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منطقی جواب پر غور کرنے کے بجائے یہ شاہی فرمان جاری کیا گیاکہ اسے جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں ڈالے جانے کا واقعہ پیش آیا مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہونے کے ساتھ سلامتی اور راحت کا سامان بن گئی، جیساکہ فرمان الہٰی ہے:وہ (ایک دوسرے سے) کہنے لگے: آگ میں جلا ڈالو اس شخص کو، اور اپنے خداؤں کی مدد کرو، اگر تم میںکچھ کرنے کا دم خم ہے۔ (چناںچہ انہوں نے ابراہیم ؑکو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہوجا،ا ور ابراہیم کے لئے سلامتی بن جا۔ (سورۃ الانبیاء ۶۸ و ۶۹) غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکی۔

اس قوم کی بدنصیبی کی حد یہ تھی کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ایک آدمی بھی ایمان نہیں لایا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق چھوڑکر ملک شام تشریف لے گئے۔ وہاں سے فلسطین چلے گئے اور وہیں مستقل قیام فرماکر اسی کو دعوت کا مرکز بنایا۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت سارہ کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے۔ وہاں کے بادشاہ نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کی اہلیہ حضرت سارہ کی خدمت کے لئے پیش کیا۔ اس وقت تک حضرت سارہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ مصر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر فلسطین واپس تشریف لائے۔ حضرت سارہ نے خود حضرت ہاجرہ کا نکاح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کروادیا۔ بڑھاپے میں حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ کے چٹیل میدان میں بیت اللہ کے قریب چھوڑ دیا، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں لابسایا ہے جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی۔ ہمارے پروردگار! (یہ میں نے اس لئے کیا) تاکہ یہ نماز قائم کریں، لہٰذا لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے کشش پیدا کردیجئے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرمائیے تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔ (سورۂ ابراہیم ۳۷) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ایسی قبول ہوئی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مکہ مکرمہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، چنانچہ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی ضرور زیارت کرے اور پھلوں کی افراط کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے پھل بڑی تعداد میں وہاں موجود نظر آتے ہیں۔

جب کھانے پینے کے لئے کچھ نہ رہا تو حضرت ہاجرہ بے چین ہوکر قریب کی صفا اور مروہ پہاڑیوں پر پانی کی تلاش میں دوڑیں۔ چنانچہ پانی کا چشمہ زمزم جاری ہوا۔ کچھ مدت کے بعد قبیلہ بنو جرہم کا ادھر سے گزر ہوا ۔ پانی کی سہولت دیکھ کر انہوں نے حضرت ہاجرہ سے قیام کی اجازت چاہی، حضرت ہاجرہ نے وہاں قیام کرنے کی اجازت دے دی۔

دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے (حضرت اسماعیلؑ)کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے ، چنانچہ اللہ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: پھر جب وہ لڑکا ابراہیم ؑکے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب سوچ کربتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے؟ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرماں بردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا : ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرڈالئے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ (سورۃ الصافات ۱۰۲)

اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاریخ انسانی کا وہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ،جس کا مشاہدہ نہ اس سے پہلے کبھی زمین وآسمان نے کیا، اور نہ اس کے بعد کریں گے۔ اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیا، چھری تیز کی، آنکھو ںپر پٹی باندھی اور اُس وقت تک پوری طاقت سے چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ اے ابراہیمؑ! تو نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔(سورۃ الصافات ۱۰۵) چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا ،جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا۔ اس واقعے کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چناںچہ حضور اکرم ﷺ کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اسے اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم ﷺ کے طریقے پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا،ان شاء اللہ ۔

تازہ ترین
تازہ ترین