ہر کسی نے سو دنوں کی الٹی گنتی شروع کر دی ہے۔ میرے گزشتہ کالم ’’ معصوم مسائل کانٹوں کی سیج پر ‘‘ کے حوالے سے جس قدر تیزی اور سنجیدگی سے فیڈ بیک مل رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن سے لیکر ہر ووٹر تک اور ہر شہری سے لیکر بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی کی نظر یں نئی حکومت اور اس کے ایجنڈے کی طرف لگی ہوئی ہیں اور حکومت نے بھی روزانہ کی بنیاد پر کام کی رفتار کو ماپنا شروع کردیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد قوم سے جو پہلا خطاب کیا ، وہ روایتی خطاب سے یکسر مختلف تھا ، ایسالگ رہا تھا کہ واقعتاً کسی لیڈر کا خطاب ہے ۔ جس میں پاکستانی ریاست کو درپیش مسائل کا حقیقی معنوں میں نہ صرف احاطہ کیا گیا بلکہ ان کو سنجیدگی سے حل کرنے کا تیز ترین طریقہ کار اختیار کرنے کا عزم بھی سامنے آیا ۔ تقریباً سوا گھنٹے کے طویل خطاب کامحوریہ تھا کہ قوم تیار رہے اب ملک بچے گا یا کرپٹ لوگ ، ہمیں سخت ترین مذاحمت کا سامنا بھی ہوگا ، یہاں تک کہ جمہوریت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ لیکن قوم کو ہمارا ساتھ دینا ہے ۔ ہم سول سروس سے لیکر عدالتی اصلاحات ، ہمسایہ ملکوں سے بہتر تعلقات ، نیا بلدیاتی نظام لائیں گے تاکہ عوام کو سہولتیں فراہم کر کے انکی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ بلوچستان اور کراچی میں بہتری لائیں گے ۔ پاکستان 28ارب روپے کا مقروض ہے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ، انشاء اللہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے۔ میں 11سوکنال پر مشتمل وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہوں گا بلکہ اس کو ایک بین الاقوامی ریسرچ یونیورسٹی بنانے کیلئے اقدامات کریں گے۔ ہمارا کوئی گورنر ، گورنر ہائوس میں نہیں رہے گا ۔سادگی کو اپنایا جائیگا ،اس کی ابتدا خود سے کر رہا ہوں، تین بیڈ روم کے گھر میں رہونگا،میں صرف دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھونگا۔ باقی تمام گاڑیاں نیلام اور ملازمین کو دوسرے محکموں میں بھیج دیا جائیگا۔ لیڈر کے خطاب کے اگلے روز 20اگست کو 16رکنی وفاقی کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد کابینہ کا پہلا اجلاس بلا کر اس میں کئی ایک اہم فیصلے کئے گئے ۔ ایک طرف نواز شریف ، مریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی گئی جبکہ حسن ، حسین نواز اور اسحاق ڈار کو گرفتار کر کے پاکستان لانے اور ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت لینے کیلئے برطانوی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پھر ایک طرف وزیراعظم سے لیکر وزرا تک کا پہلے احتساب کرنے کی منظوری دی گئی اور سب کو اپنے ڈکلیئر اثاثے عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ طرز حکمرانی میں بہتری سادگی سے آئیگی۔ اداروں میں کفایت شعاری اور اصلاحات کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کو مشیر مقرر کر کے انہیں فوری کام کے آغاز کا حکم دیا گیا۔ تمام وزراء سمیت ارکان اسمبلی کے بیرون ملک علاج پر پابندی ہوگی، وزیراعظم سمیت تمام وزراء اگلے تین ماہ میں کوئی بیرونی دورہ نہیں کرینگے، ماسوائے ناگزیر ضرورت کے، اسی طرح بیوروکریسی کے دوروں پر پابندی ہوگی۔ بیرون ملک غیر قانونی اثاثوں کو واپس لانے کیلئے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو کام سونپا گیا ہے۔ سفارتخانوں کو ہدایت کر دی گئی ہیں کہ وہ وہاں مقیم پاکستانیوںکوسہولتیں فراہم کریں وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کا دوسرا اجلاس عید الاضحی کی چھٹیوں کے فوراً بعد 24اگست کو ہوا، جوفیصلے کئے گئے اُن میں سب سے اہم یہ تھا کہ صدر، وزیراعظم ، وزراء ،اور ایم این ایز کے صوابدیدی فنڈز کے استعمال ختم کر دیئے گئے ، اس موقع پر کہا گیا کہ یہ شاہانہ طریقہ پسند نہیں ،اسی طرح یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم بیرون ملک دوروں کیلئے اپنا خصوصی طیارہ استعمال نہیں کرینگے اور فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کی بجائے کلب کلاس میں سفر کرینگے۔ جبکہ تمام وزراء اور ایسی شخصیات بھی جن کو فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کی سہولت تھی وہ ختم کر دی گئی ۔ ایک اور اہم فیصلہ کیا گیا کہ لاہور میں میٹرو بس ، اورنج ٹرین ، ملتان اور پشاور میٹرو بس کے منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائیگا، اور یہ تمام حقائق عوام کے سامنے رکھیں جائینگے۔ وفاقی حکومت کے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح آٹھ بجے کی بجائے 9بجے سے شام 5بجے تک ہونگے ۔ حاضری بائیو میٹرک سسٹم کے تحت لگائی جائیگی اور جمعہ کے روز بھی شام 5بجے تک ملازمین کے کام کو یقینی بنایا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ نئی حکومت نے جس طرح اپنے پہلے سو دنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے یہ بالکل درست ہے، اب عوام کو بھی اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی اور یہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ باخبررہیں کہ کوئی بھی محکمہ خواہ وہ وفاقی ہو ،صوبائی یا مقامی صحیح سمت چل رہا ہے یانہیں ، کیا کسی محکمے کی کار کردگی میں بہتری آرہی ہے، اگر آ رہی ہے تو کس حد تک ، ان محکموں میںعوام کے مسائل حل ہور ہے ہیں ، کیا بغیر رشوت بجلی، گیس ، پانی کے کنکشن لگنا شروع ہوگئے ہیں ، کیا اُنکے علاقے میںصفائی کا کام ہو رہا ہے،کیا بلدیاتی ادارے اپنا صحیح کردار ادا کر رہے ہیں، اگر انہیں ترقیاتی فنڈز ملے ہیں تو کیاانہوں نے اپنے علاقے میں انہیں مشتہر کیا ہے اور پھر اس کے مطابق خرچ ہو رہے ہیں۔ کیاتعلیمی ادارروں میں کام صحیح ہو رہا ہے۔ اسپتالوں کی حالت میں بہتری آرہی ہے؟ کیا غریب کو مفت علاج کی سہولتیں مل رہی ہیں۔ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ چیک رکھیں کہ ان کے علاقے کے مقامی افسران یا سیاستداںقانون تو نہیں توڑ رہے ، وہ پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے تو نہیں کر رہے ، ان کے علاقوں میں سرکاری افسران کا طرز رہائش کیا ہے ، وہ کتنی بڑی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں ۔ ان کے علاقے کے بڑے زمیندار ، صنعت کار ، ٹیکس دیتے ہیں ، بجلی ، گیس چوری تو نہیں کرتے ، عوام کو اپنے علاقے کے پارکوں اور صفائی و سیوریج کے کام پر بھی نظر رکھنا ہوگی اور اگر یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہے تو اس کیلئے فوری آواز اٹھانا اور احتساب جاری رکھنا ہوگا جبکہ حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی آواز سننے کیلئے خصوصی انتظام کرے ۔ وہ سرکاری ٹی وی پرخصوصی پروگرام ’’ میری ذمہ داری ‘‘ کے نام سے شروع کرسکتی ہے ۔ اس کیلئے خصوصی ٹیلی فون اور وٹس ایپ نمبر دیئے جائیں ،ایسے نمبروںکی تمام چینلز اور اخبارات میں تشہیر کی جائے ،ان نمبروں پر عوام 24گھنٹے اپنے مسائل ریکارڈ کرواسکیں اور وٹس ایپ بھیج سکیں ۔ ان تمام مسائل کی ریکارڈنگ کو باقاعدہ مانیٹر کیا جائے اور ٹیلی کاسٹ بھی کیاجائے تاکہ صحیح حقائق وزیراعظم اور متعلقہ ذمہ داروں کے نوٹس میں آئیں۔ ایسے مسائل کی سمری ہفت روزہ کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوں ،ان کے حل کیلئے فیصلے کر کے اُن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ میرے خیال میں اس سے بہتر طرز حکمرانی اور طرز احتساب کوئی نہیں ہو سکتا ،اگر پہلے سو دنوں میں کامیابی سے یہ عمل ہو جاتا ہے تو پھر آئندہ کیلئے حکومت کرنا نہ صرف آسان ترین ہوگا بلکہ عوام میں بھی ایک احساس ذمہ داری پیدا ہوگا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)