سید فرقان حیدر کی طرح خادم حُسین اچوی نے بھی اسٹیج پر نت نئے تجربات کیے ۔ ان کے ایک اسٹیج ڈرامے میں ہیلی کاپٹر سے فن کارہ کو اسٹیج پر اتارا گیا۔اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ مقام بہت طویل سفر کے بعد حاصل کیا۔ یُوں تو دُنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے، جن کی زندگی کا سفر اندھیروں سے اجالوں کی طرف شروع ہوا ہوگا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا رب مجھے اس قدر عزت دولت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچائے گا۔ اس میں شاید میری والدہ اور والد کی دُعاؤں کے سبب ہے۔ جب میں کراچی آیا تھا تو میری چپل بھی ٹوٹی ہوئی تھی اور ایک جوڑا ساتھ لایاتھا۔میں نے آغاز میں نمائش پر مصری سرکس میں بھی کام کیا، پھر میں فلیٹ کلب میں گلزار بٹ کی نمائش میں بھی کام کرتا رہا ۔وہیں سے فلیٹ کلب میں ہونے والے ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔اس وقت آدم جی تھیٹر میں ہونے والے ڈراموں کی کراچی میں دُھوم مچی ہوئی تھی۔ میں عمرشریف،معین اختر اور لیاقت سولجر جیسے اسٹیج ڈرامے کرنا چاہتا تھا۔
اس لیے میں نے اپنا ایک ون ڈے ڈراما ’’ادھورے خواب‘‘ کے نام سے کیا، بعد میں ایک ڈرامے ’’کامیڈی رشتے‘‘ کے مسلسل چار شو کیے اور پھر کشتیاں جلاکر کمرشل عوامی ڈراموں کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔سب سے پہلے فلیٹ کلب میں کمرشل عوامی ڈرامے ’’چھکا مارا پھر بھی ہمارا‘‘ کے 20 شوز کیے۔اس وقت ریو آڈیٹوریم میں سید فرقان حیدر اور عمرشریف کے ڈرامے میں فلم اسٹار مسرت شاہین بھی جلوہ گرتھیں اور میرے ڈرامے کے شو بھی کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔اس سے میرے اور میری ٹیم کے حوصلے بلند ہوگئے اور پھر ہم نے ہاشو آڈیٹوریم کا رُخ کرلیا۔ہم نے وہاں ڈراما ’’میں بنی دلہن‘‘ کا اعلان کیا ۔ اس وقت سید فرقان حیدر اور عمرشریف، ریو میں اپنا ڈراما ’’دلہن میں لے کرجائوں گا‘‘ کررہے تھے۔ میں نے اپنے ڈرامے میں ذوالقرنین حیدر اور ملتان سے زرقاسانپوں والی لےکر آیا۔پہلی مرتبہ اسٹیج پر بیسوں سانپوں کے ساتھ ایک لڑکی کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے ڈراما شائقین نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔
اسی طرح اصغر ندیم سید کے مشہور زمانہ ٹی وی ڈرامے ’’چاند گرہن‘‘ کے نامور فن کار سہیل اصغر کو اپنے اسٹیج ڈرامے ’’ہم ہیں نمبرون‘‘ میں کاسٹ کیا۔’’ہم ہیں نمبرون‘‘ میں چنا سرحدی فلم اسٹار صائقہ‘ اطہرشاہ خان جیدی کے علاوہ کراچی سے شکیل صدیقی‘روحی صنم اور رؤف لالہ، سلمیٰ ظفر حنیف راجا کے ساتھ پہلی مرتبہ ریناصدیقی ‘سکندر صنم کو کمرشل ڈرامے میں متعارف کرانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے۔ ویسے تو میرے استاد سید اصغر ندیم سید ہیں، لیکن میں عمرشریف کو اپنا روحانی استاد مانتاہوں۔ میں سمجھتا ہوں اسٹیج کے حوالے سے تھیٹر کی تاریخ میں عمرشریف جیسا رائٹر اور اداکار کوئی دوسرا مجھے نظرنہیں آتا۔سید فرقان حیدر کو میں بابائے اسٹیج مانتا ہوں۔ریوآڈیٹوریم بند ہونے کے بعد ہمارے دوست نوید بھائی نے بہادرآباد میں امبر آڈیٹوریم بنایا تو اس میں پہلا ڈراما میرے دوست شہنشاہ عالم نے پیش کیا ۔میری ٹیم میں شکیل شاہ‘ ذاکر مستانہ‘ روحی صنم اور روفی انعم تو لازم و ملزوم تھے۔ان کے علاوہ سلیم آفریدی ‘صفدر حیدر‘ رئوف لالہ‘ سکندر صنم‘ شکیل صدیقی‘ لیاقت سولجر اور شہزاد رضا نے بھی میرے ساتھ بہت سے ڈراموں میں کام کیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم نے مسلسل ایک ایک ماہ کا اسپیل کرنے کا پروگرام بنایا تھا،تو اس میں ڈراما ناظرین کے ساتھ فن کاروں نے بھی بھرپور تعاون کرنے کی حامی بھری تھی۔ایک ماہ کا پہلا ڈرامہ ’’بیگم بادشاہ ہے‘‘ کیا، جس میں زریں غزل نے ٹائٹل رول ادا کیا تھا۔ امبر آڈیٹوریم میں ریوالوینگ اسٹیج متعارف کروایا۔ بعد ازاں ہم نے چار ماہ کے لیے مسلسل اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ہم نے ایک ’’ب نام‘‘ ڈرامہ تحریر کیا۔اس ڈرامے میں ایک مسئلہ پیش آیا۔میرے پاس رئوف لالہ اور شکیل صدیقی بھی کاسٹ میں شامل تھے۔ کراچی میں پہلی مرتبہ مسلسل چار ماہ کے لیے کمرشل ڈرامہ پیش کرنا کوئی آسان نہیں تھا ۔ہم نے اعلان کردیا اور تیاریاں شروع کردیں۔ ریہرسل شروع ہونے سے چار دن پہلے ہمارے شعیب پپو بھائی آئے اور کہا کہ شکیل صدیقی اور رئوف لالہ کو امریکا لے جانا ہے۔میں شعیب بھائی کو انکار نہ کرسکا۔لہذا میں نے لاہور سے ذوالقرنین حیدر کو بلایا اور ’’ب نام‘‘ ڈراما پیش کیا،جس کی سب سے بڑی اور یادگار بات یہ ہے کہ اس ڈرامے میں 4 ماہ تک ہر اتوار کو دو شوز ہوتے تھے۔ لاہور سے فلم اسٹار ہمایوں قریشی‘ صائقہ ‘خیام سرحدی‘ افضل ریمبو‘ رنگیلا اور نعمت سرحدی نے بھی کام کیا ہے۔ تاہم میری خواہش تھی عمرشریف اور معین اختر بھی کسی ایک ڈرامے میں جلوہ گرہوتے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عوامی فن کاروں اور ڈراما کرنے والوں ادیبوں شاعروں کے لیے ثقافتی مرکز بن گیا ہے۔
میں احمد شاہ اوران کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتاہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کے فن کار کسی سے کم نہیں ہیں۔ بھارت کے بند چینل چلانے میں بھی ہمارے فن کاروں کا ہاتھ ہے اور دنیا میں اسٹیج ڈراموں کو بام عروج پر پہنچانے کا اعزاز بھی کراچی کے فن کاروں کو ہی حاصل ہے۔ آج کل تو نان پروفیشنل لوگ بھی آگئے ہیں ، جس کی وجہ ڈراما کم ورائٹی پروگرام زیادہ بن گیا ہے۔ میں نے کراچی اسٹیج کے لیے تقریباً سو سے زائد ڈرامے تحریر کیے اور اپنے ڈراموں کی ہدایات بھی خود دیتا رہا ہوں۔ خادم حسین اچوی نے مزید بتایا کہ’’ میری خواہش ہے حکومت کراچی اسٹیج کی سرپرستی کرے اور فن کار، کراچی کو تھیٹر کی دنیا کا عظیم شہر بنائیں۔ ایک دور میں کراچی کی صورت حال غیریقینی تھی ، شہری عدم تحفظ کا شکار تھے،ہڑتالیں عروج پر تھیں، مگر ہم فن کاروں نے اسٹیج کو زندہ رکھا۔ میرے ڈرامے ’’ہم ہیں نمبرون‘‘ کے دوران عظیم احمد طارق کا مرڈر ہوگیا تھا،پورا شہر بند ہوگیا تھا۔
معروف اداکارہ سلمیٰ ظفر کو ایمبولینس میں ہال تک لایاگیا۔اسی طرح امبر آڈیٹوریم میں ڈراما ’’آئے پیاجاپان سے‘‘ منصور چاچا کا مرڈر ہوگیا شہر پھر بند ہوگیا، مگر ڈرامہ پیش کیا گیا اسی طرح ڈراما ’’لاکھوں میں ایک‘‘ چل رہا تھا مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوگیا تھا، مگر ہم نے ڈرامہ پیش کیا۔ہم عید لے کر جائیں گے‘ ہماری عیدی آپ کے پاس، جس میں ہم نے ریموٹ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ روفی انعم کو اسٹیج پر اتارا، وہ گانا پرفارم کرکے ہیلی کاپٹر میں واپس جاتی ہیں۔ ایک روز ڈراما ’’بیوی کا غلام‘‘ چل رہا تھا ، اسٹیج پر شکیل صدیقی‘ سلیم آفریدی وغیرہ کا سین تھا، معین اختر کسی طرح وہاں اچانک آگئے اور وہ خود ہی اسٹیج پر چلے گئے، جو ہم سب کے لیے اعزاز تھا، معین اختر نے ڈرامے کے سین کے مطابق خود ہی ایسے ڈائیلاگ ادا کیے کہ شائقین نے بھرپور داد دی۔