• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ جو پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک کی سیاست اور اندرونی معاملات میں گہری دلچسپی لیتا رہا ہے اب ان ممالک سے دوری اختیار کرنے کیلئے مختلف طریقہ کار استعمال کررہا ہے۔ ایران کے ساتھ تو امریکہ کے تعلقات1989ء کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد ہی ختم ہوگئے تھے جو آج تک بحال نہ ہوسکے ۔ اگرچہ اوباما دور میں فائیو پلس ون اور ایران کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے سے ایران نے کچھ حد تک سکھ کا سانس لیا تھا صدر ٹرمپ نے سمجھوتے کو ردی کی ٹوکری کی زینت بناتے ہوئے ایران پر ایک بار پھر نہ صرف خود پابندیاں عائد کردیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ان پابندیوں پر عمل درآمد کروانے کیلئے دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی استوارہو گئے تھے اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان جنہیں سویت یونین کے دورے کی دعوت دی گئی تھی، نے امریکہ کے دورے کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بنانے کی راہ ہموار کردی اور اس کے بعد پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے اور انیس سو چون میں پاکستان نے امریکہ کے ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر انیس سو پچپن میں بغداد پیکٹ میں شرکت اختیار کرلی جس میں عراق، ایران، ترکی جیسے اسلامی ممالک بھی شامل تھے۔ اس معاہدے کا اصل محرک امریکہ تھا جو بعد میں 1959ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔ 1958ء میں جنرل کریم قاسم نے عراق میں قائم بادشاہت کا تختہ الُٹ دیا اور 1959ء میں حکومتِ عراق نے بغداد پیکٹ سے دست برداری کا اعلان کردیاجس پر اسے ’’سینٹرل ٹریٹی اورگنائزیشن (سینٹو)‘‘ کا نام دے دیا گیا اور اس ادارے کو ترکی منتقل کردیا گیا۔ یہ ادارہ جو ابتدا میں اراکین کے اجتماعی دفاع کیلئے قائم کیا گیا تھا، فوجی اتحاد سے بڑھ کر رفتہ رفتہ معاشی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا ذریعہ بنتا گیا۔ سینٹو کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ جبکہ بھارت نے سوویت یونین کے پُرجوش اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے غیروابستہ تحریک (NAM)کے پلیٹ فارم سے سینٹو (اور سیٹو) کی کھل کر مخالفت کی۔ جولائی 1964ء میں امریکہ ہی کے اصرار پرایران، پاکستان اور ترکی جو دنیا سے متعلق ایک جیسا موقف رکھتے تھےپر مشتمل علاقائی تعاون و ترقی تنظیم (RCD)کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد خطے میں سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کا فروغ تھا۔ اقتصادی، سیاسی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ابتداً تجارتی سرگرمیوں کی رفتار سست رہی۔ تجارت کا مجموعی حجم ارکان کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فی صد تک پہنچ سکا۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے آر سی ڈی سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ فورم تحلیل ہوگیا جو بعد میں جنوری 1985ء میں پاکستان، ایران اور ترکی ہی کی کوششوں کے نتیجے میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کے نام سے ابھر کر سامنے آیا اور 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی تاہم ابھی تک یہ ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتا ہے تاہم اقتصادی تعاون تنظیم میں ایک مضبوط سیاسی اتحادبننے کی بھرپور صلاحیت ہے اور شاید موجودہ حالات میں جب امریکہ ترکی اور پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے اس تنظیم کے ذریعے مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔

دیکھا جائے امریکہ ہمیشہ ہی مشکل حالات میں پاکستان کی جانب دیکھتا رہا ہے اگر چین سے تعلقات قائم کرنے تھے تو پاکستان ہی نے امریکہ اور چین کے درمیان حالات بہتر بنانے اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا بندو بست کیا۔ صدر نکسن اور انکے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے زمانہ میں امریکی انتظامیہ کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات تھے ستر کی دہائی کے دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہےلیکن امریکہ نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور سوویت یونین کے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے بعد امریکہ نے فوری طور پر پاکستان کی امداد بحال کی۔ انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔

جہاں تک ترکی کا تعلق ہے ترکی کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات بڑے قریبی رہے ہیں اور امریکہ نے ترک فوج کی تنظیم اور اسے مضبوط بنانے میں بڑانمایاں کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر 1974کی قبرص جنگ میں پابندیاں عائد کی تھیں حالانکہ ترکی اس وقت سینٹو اور نیٹو کا رکن تھا۔ ترکی کے ساتھ صدر اوباما کے آخری دور ہی میں تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے اور خاص طور پر 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور پھر صدر ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک میں کشیدگی اسوقت بڑھ گئی جب صدر ٹرمپ نے صدر ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکی پادری انڈریو برنسن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی دھمکی دی اور ترکی کے انکار پر امریکہ نے ترکی پر فولاد اور ایلومینیم پر لگا ئے جانے والے ٹیکس پر پچاس فیصد اضافہ کر کے ترک اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ دیکھا جائے تو یہ ترکی پاکستان اور ایران کیلئے بہترین موقع ہے کہ یہ تینوں ممالک ایک بار پھر آر سی ڈی جو کہ ایکو کا روپ اختیار کرچکی ہے کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں روس اور چین کیساتھ مل کر اپنے مستقبل کی راہ متعین کریں تاکہ امریکہ ترکی اور پاکستان کو انکی ضرورت کے وقت بلیک میل نہ کرسکے ۔ ترکی کے روس کیساتھ بڑے گہرے تعلقات قائم ہوچکے ہیں جبکہ چین پاکستان کا سب سے قابلِ بھروسہ ملک ہےاور یہی وقت ہے کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنی من مانی کارروائیوں سے روکاجائے تاکہ خطے میں امریکہ نے اسلامی ممالک کیساتھ طویل عرصے سے کھیل کھیلنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کو لگام دی جاسکے اور خطے کے ممالک کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ ترکی اسوقت دفاعی پروڈکٹس میں دنیا کے گنے چنے ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے اور وہ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کیساتھ مل کر ایف 35طیاروں کی تیاری کے منصوبوں میں شریک ہےلیکن امریکہ کو ترکی کے روس سے ایس 400میزائلوں کی خریداری پر سخت اعتراض ہے اور اس نےترکی سے روس کیساتھ اس ڈیل کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہےجبکہ پاکستان چین کیساتھ مل کر ایف 17تھنڈر طیارے تیار کررہا ہے جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ یہ تمام علاقائی ممالک دفاعی سازو سامان خود تیار کرتے ہوئے امریکہ کے کھیل کو ختم کریں اور ساتھ مل کر خطے کو ایک نیا رنگ و روپ عطا کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین