ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنی ذات میں ایساکامل اور مکمل بنایا کہ آپ ﷺ کی صحبت و تربیت میں رہنے والے بھی دنیا کے تمام انسانوں میں ممتاز مقام کے حامل بن گئے۔ اس عظیم لا زوال شاہ کار کی حسین ایمانی فکراور جلوہ تابانیاں صدیاں گزرنے کے بعدبھی ماند نہیں پڑیں۔گویا ہر گل میں، ہر شجر میں محمدﷺ کا نور ہے۔مفسر قر آن مفتی احمد یار خان نعیمی نے سورۂ فتح کی آخری آ یت کے اس حصے ’’اورآپس میں نرم دل‘‘ کی تفسیر میں فر مایا ہے کہ’’تمام صحابہؓ ایک دوسرے پر ایسے مہر بان ہیں ،جیسے باپ بیٹے پر یا مہربان بھائی اپنے سگے بھائی پر مہربان ہوتا ہے،خصوصاً حضرت عثمان غنی ؓتما م صحابہ میں ایثار کے پیکر اورحد درجہ مہربان تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بیر رومہ کو خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کردے ،اس کے لئے جنت کی بشارت ہے ،اس موقع پر حضرت عثمان ؓ نے جو د و سخا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے زرکثیر سے خرید کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے وقف کردیا۔
حضرت عثمان غنی ؓکی ذات والاجامع القر آن ہونے کے ساتھ کامل الحیاء والایمان بھی ہے، جیساکہ معروف تاریخی خطبات میں سناجاتا ہے۔ آپ کی ذاتِ والا کی ایک اور ممتا زو منفرد صفت حیا ہے، خاتم النبیینﷺ کی ایک نہیں دو بیٹیاں سیدہ رقیہؓاور سیدہ امّ کلثوم ؓیکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں، اس لئے آپ کو ذوالنّورین بھی کہا جاتا ہے ۔ فرمان نبویؐ ہے،ہر دین کا ایک امتیاز ہو تا ہے ،میرے دین کا امتیاز شرم و حیاء ہے۔ایک مقام پر فرما یا، ایمان کا دارو مدار حیا پر ہے ۔
حضوراکرم ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ کے حوالے سے ارشاد فرمایا ’’ کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں،جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔(مسلم شریف)حضرت عثمان غنیؓ کا مقام کیا ہی بلند و بالا اور عظمت والا ہے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے ،یہا ںتک کہ سیدالانبیاء حضور اکرم ﷺبھی آپ سے حیا فرماتے ۔
ارشاد ربانی ہے: ’’اہل ایمان میں ایسے جواں مرد ہیں،جنہوں نے سچّا کر دکھایا وعدہ، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ان جواں مردوں میں سے کچھ تو اپنی نذر پوری کرچکے اور بعض (اس وقت کا) انتظار کر رہے ہیں (جنگی خطرات کے باوجود) ان کے رویّے میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی۔‘‘(سورۃ الاحزاب)
یہ آیت مبارکہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ وغیرہ کے حق میں نازل ہوئی۔ ان حضرات نے نذر مانی تھی کہ جب رسول کریم ﷺکے ساتھ جہاد کا موقع پائیں گے تو ثابت قدم رہیں گے، یہاں تک کہ شہید ہوجائیں، ان کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔
ارشاد ربانی ہے:’’بھلا جو شخص عبادت میں بسر کرتا ہےرات کی گھڑیاں، کبھی سجدہ کرتے ہوئے کبھی کھڑے ہوئے،ڈرتا ہے آخرت سے اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی رحمت کی۔‘‘ (سورۂ زمر)بقول حضرت ابن عمرؓ یہ آیت حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ نمازِ تہجد کے بہت پابند تھے،اس وقت آپ اپنے کسی خادم کو بیدار نہ فرماتے اور تمام کام اپنے دستِ مبارک سے انجام دیتے تھے۔
امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ جب کسی قبرکے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے تھے کہ آپ کی ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی ۔کسی نے پوچھا کہ آپ جنت اور دوزخ کے تذکرے سے اتنا نہیں روتے اور قبرکو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا، ’’رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’بلا شبہ ،قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ سو اگر قبر کی مصیبت سے کسی نے نجات پالی تو اس کے بعد کی سب منزلیں (حشر و حساب اور پل صراط وغیرہ) آسان ہیں اور اگر اس کی مصیبت سے نجات نہیں پائی تو اس کے بعد کی سب منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ قبر سے زیادہ بُرا اور مصیبت والامنظر میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔‘‘(جامع ترمذی،سُنن ابنِ ماجہ)
آپ نے اپنے عہد خلافت میں قر آن پاک کو عربی زبان کی معروف دبستان قریشی رسم الخط میں جمع کر کے تمام بلادِاسلامیہ میں بھیجا اور اسی لہجے اور رسم الخط پر آج بھی قر آن کریم امت میں محفوظ ہے جو آپ کے دینی و مذہبی کارناموں میں ایک لازوال کارنا مہ ہے ۔دین اسلام کی سربلندی کے لیے آپ کی سر گرمیاں دشمنانِ اسلام کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں ۔وہ سمجھتے تھے کہ رسول مقبول ﷺ کے نائب و خلیفہ کی زندگی کا چراغ گُل کیے بغیر مسلمانوں کی صفوں میں افترا ق و انتشار پیداکر نا اور اسلام و مسلمانو ں کی سرگرمیو ں کو روکنا ناممکن ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے پہلے مسجد نبویؐ میں آپ پر حملہ کیا گیا،لیکن حملہ ناکام رہا،پھر باغیوں نے قصرِ خلافت کو گھیر لیا، حتیٰ کہ خوراک پانی وغیرہ کی فراہمی بھی روک دی۔گھر کا محاصرہ کر لیا۔باہر سے حضرت عثمانؓ کا کوئی رابطہ نہ رہا۔بعض روایات میں اس محاصرے کی میعاد سات روز اور بعض میں چالیس روز بتائی گئی ہے ۔آپ چاہتے تو اپنے دفاع کے لیے لشکر اسلام کو کا م میں لاسکتے تھے ۔اتنی بڑی اسلامی مملکت اور اتنی بڑی مسلح فوج ،مگر آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کا خون بہایا جائے ۔دشمنوں نے جب دیکھا کہ دروازے پر ایسا سخت پہرہ ہے کہ اند ر پہنچنا بہت مشکل ہے،تو انہوں نے حضرت عثمان غنیؓ پر تیر چلانا شروع کیا جس میں سے ایک تیر حضرت امام حسن ؓ کو لگ گیا اور آپ زخمی ہوگئے ۔ایک تیر مروان کو بھی لگا ،محمد بن طلحہ بھی زخمی ہوگئے،ایک تیر حضرت علیؓ کے غلام قنبر کولگا جس سے وہ بھی زخمی ہوگئے ،دشمن نے جب ان لوگوں کو زخمی دیکھا تو انہیں خوف لاحق ہو اکہ بنی ہاشم اگر حضرت حسنؓ اوردوسرے لوگوں کو زخمی دیکھ لیں گے تو وہ بگڑ جائیں گے، اس طرح ایک نئی مصیبت پیداہوجائے گی،لہٰذا انہوں نے دوآدمیوں کے ہاتھ پکڑکر ان سے کہا کہ اگر بنی ہاشم ا س وقت آگئے اور انہوں نے حضرت حسنؓ کو زخمی حالت میں دیکھ لیا تو وہ ہم سے الجھ پڑیں گے اور ہمارا سارا منصوبہ خاک میں مل جائے گا ،لہٰذا ہمارے ساتھ چلوہم پڑوس کے مکان میں پہنچ کر (حضرت)عثمانؓ کے گھر میں کود پڑیں گے اور انہیں قتل کر دیںگے۔
اس گفتگو کے بعد وہ اپنے دوساتھیوں کے ہمرا ہ ایک انصاری کے مکان میں گُھس گئے اور وہاں سے چھت پھاند کر حضرت عثمانؓ کے مکان میں پہنچے،ان کے پہنچنے کی دوسرے لوگوں کو خبر نہ ہو ئی،اس لیے کہ جو لوگ گھر پر موجو د تھے،وہ چھت پر تھے،نیچے امیر المؤمنینؓ کے پاس صرف ان کی اہلیہ نائلہؓ بیٹھی ہوئی تھیں ،سب سے پہلے محمد بن ابو بکر نے حضرت عثمان غنیؓ کے پاس پہنچ کر ان کی داڑھی پکڑلی تو امیر المومنین نے ان سے فرمایا۔اگرحضرت ابوبکر صدیقؓتجھے میرے ساتھ ایسی گستاخی کرتے ہوئے دیکھتے تو وہ کیا کہتے؟اس بات کو سُن کر محمد بن ابو بکر نے ان کی داڑھی چھوڑ دی، لیکن اسی درمیان میں اس کے دونوں ساتھی آگئے جو امیر المؤمنین پر جھپٹ پڑے اور انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔آپ کی مظلومانہ شہادت اسلامی تاریخ کا ایک درد انگیز باب ہے۔