حضرت ابو محمد حریریؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ کی وفات کے وقت میں اُن کے پاس موجود تھا، یہ جمعے کا دن تھا اور وہ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے، میں نے کہا: ’’شیخ! کچھ اپنی جان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجیے‘‘ حضرت جنید بغدادی ؒ نے جواب دیا: ’’ابو محمد! کیا اِس وقت آپ کو کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جو اس عبادت کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، وہ دیکھو میرا نامہ اعمال لپٹ رہا ہے‘‘۔وفات سے قبل حضرت جنید بغدادیؒ نے وصیت فرمائی کہ میری طرف جتنی علم کی باتیں منسوب ہیں اور لوگوں نے انہیں لکھ لیا ہے، وہ سب دفن کردی جائیں، لوگوں نے اِس کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ’’جب لوگوں کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم (علم حدیث) موجود ہے توپھر میری خواہش یہ ہے کہ اللہ سے میری ملاقات اس حالت میں ہو کہ میں نے اپنی طرف منسوب کوئی چیز نہ چھوڑی ہو۔وفات کے بعد جعفر خلدی ؒنے حضرت جنید بغدادیؒ کو خواب میں دیکھا توپوچھا: ’’اللہ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟‘‘حضرت جنید بغدادیؒ نے جواب دیا: ’’وہ اشارے ختم ہوئے، وہ عبارتیں غائب ہوگئیں، وہ علوم فنا ہوگئے، وہ نقوش مٹ گئے اور ہمیں نفع پہنچایا تو چند رکعتوں نے جو ہم سحری کے وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد،ازخطیب بغدادیؒ)