بے نامی اور جعلی بینک اکاوئنٹس کےذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں گزشتہ ڈھائی برس سے جاری تحقیقات میں ڈیڑھ ماہ قبل مقدمہ درج کرلیا گیا۔مقدمے میں گرفتار نجی بینک کے سابق سربراہ حسین لوائی اور طحہ رضا کو ابتداءمیں ہی جیل بھیج دیا گیاجبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور اومنی گروپ کے سربراہ انورمجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتار کر کے تفتیش کے لئے کراچی منتقل کردیا گیا ہے ۔سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کوبھی اس کیس میں تین نوٹسز جاری کئے گئے تھے تاہم وہ حاضر نہیں ہوئے جب کہ چوتھے نوٹس پر پیر 27اگست کوایف آئی اے کے سامنے حاضر ہوکر انہوں نے تفتیش کاروں کے سوالات کے جواب دئیے۔ایف آئی کی جانب سے جاری کیے جانے والے مذکورہ نوٹسز کو قانونی ماہرین، ایف آئی اے کی اہم مقدمے میں تفتیش کم اور سیاسی کارروائیاں زیادہ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ ایف آئی اے نے مذکورہ نوٹس اربوں روپے کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کی تفتیش کے لئے جاری کئے یا کسی سیاسی غرض و غایت کے لئےبہ طور حربہ ان کا استعمال کیا گیا ۔ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ نمبر4/18 درج ہونے کے بعد ڈی جی ایف آئی اے ،بشیر میمن نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نجف قلی مرزا کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس میں ایف آئی اے سندھ، لاہور ،راولپنڈی اور اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انسپکٹرز کو شامل کیا گیااور اس تحقیقاتی ٹیم نے پہلے مقدمے میں درج 29بینک اکاوئنٹس سے اربوں روپے کی منتقلی کے ثبوت حاصل کرنا شروع کئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان اکاوئنٹس سے نکلنے والے دیگر اکاوئنٹس کی بھی چھان بین کا عمل شروع کردیا ہے تاہم اس مقدمے میں اصل موڑ اس وقت آیا جبب اومنی گروپ کے سربراہ انور مجیداور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو ایف آئی اے حکام نے سپریم کورٹ اسلام آباد کے باہر سے گرفتار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد کورٹ سے فوراً ہی ضمانت قبل ازوقت گرفتاری حاصل کرلی جب کہ ان کی بہن فریال تالپور نے سندھ ہائی کورٹ سے پہلے ہی ضمانت قبل ازوقت گرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔
بے نامی اور جعلی بینک اکاوئنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں درج مقدمہ نمبر 04/18میں اسلام آباد سپریم کورٹ سے گرفتار ملزمان انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو جمعرات کی شام کوکراچی منتقل کیا گیاتو کراچی ائیرپورٹ پر ڈومیسٹک لاونج سے باہر نکلنے سے قبل مقدمے کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی ابڑونے ملزم عبدالغنی مجید کو ہتھکڑی پہنانے کی کوشش کی جس پر انہوں نے تفتیشی افسر علی ابڑو کے ہاتھ میں موجود ہتھکڑی پر اپنی چھڑی ماری اوران سےکہا کہ ہم جرائم پیشہ لوگ نہیں ہیں جو ہتھکڑی پہنیں ،جس کے بعد تفتیشی افسر نے ہتھکڑی پہنانے کا فیصلہ فوراً واپس لے لیا اور دونوں ملزمان کو لائونج سے باہر لے جا کر گاڑیوں میںبٹھایا گیاجہاں سے انہیں ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل منتقل کردیا گیا۔تاہم ملزمان کو لاک اپ میں رکھنے کے بجائےانہیں سرکل میں موجود ڈپٹی ڈائریکٹرکےکمرے میں منتقل کیا گیا جہاںانہیں ائیر کنڈیشن اور آرام دہ بستر بھی فراہم کردئیے گئے تاہم اگلے ہی دن انور مجید طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے قومی ادارہ برائے امراض قلب کے وی وی آئی پی وارڈ کے کمرہ نمبر210میں منتقل ہوگئے جہاں ڈاکٹروں کے مطابق 1998میں انہیں اسٹنٹ ڈالا گیا تھا اور اس وقت ان کی طبیعت ایسی نہیںکہ وہ کسی کے سوالوں کا جواب دے سکیں۔ذرائع نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم نے انور مجید سے مختلف اکاوئنٹس کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا اور تفتیشی ٹیم کو کہا کہ مجھے کچھ یاد نہیں اگر تفتیشی ٹیم مجھے کچھ ریکارڈ دکھائے تو اسے دیکھ کر کوئی جواب دے سکتا ہوں۔دوسری جانب ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کی کمرشل بینکنگ سرکل میں انور مجید کے بیٹے عبدالغنی مجید سے تفتیش جاری ہے جس میں ان سے میسرز اومنی پولی میر پیکجز (پرائیوٹ ) لمیٹیڈ ،میسرز پاک ایتھول (پرائیوٹ) لمیٹیڈ اور میسرز اومنی گروپ آف انڈسڑیز کے کھاتوں سے غیر قانونی رقوم کی منتقلی پر سوالات کئے تاہم عبدالغنی مجید زیادہ تر سوالات کے جوابات دینے سے گریز کرتے رہے۔
ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات میں مزید نجی بینکوں میں کھولے گئے اکاوئنٹس کے متعلق کچھ ریکارڈ جمع کرادیا ہے جبکہ مزید ریکارڈ جمع کرانے کے لئے وقت طلب کر لیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے 29اکاوئنٹس کو ہی فوکس کیا ہوا ہے جس سے 35 ارب روپےکی غیر قانونی طریقے سے ٹرانزیکشن کی گئی اور یہ رقم 2008سے2015کے دوران سرکاری اسکیموں کی رقوم تھیں جنہیں ٹھیکوں میں استعمال کرنے کے بجائے بے نامی اکاوئنٹس سے بیرون ملک منتقل کردیا گیا اور ان ہی رقوم کی منتقلی کے متعلق گرفتار ملزمان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ۔ اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں درج مقدمہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچتا ہے یا ماضی کی طرح یہ بھی سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے سرد خانے کی نذر ہوجائے گا ؟۔ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں مقدمہ درج ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے خلاف درخواستیں جمع کرائی ہیں جن میں تحریر کیا گیا ہے کہ ان کے بھائی نے حالیہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا جب کہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نجف قلی مرزا ، نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں جیل میںقید کے دوران، سابق صدر آصف علی زرداری کی زبان کاٹنے کے مقدمے میں نامزد ملزم ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے عدالت سے حکم امتناع بھی حاصل کیا ہوا ہے۔