دنیا بھر میں مختلف اقسام کے پُل تعمیر کیے گئے ہیں۔ جن میں بدلتے دور کے ساتھ ساتھ جدت آئی ہے اب نت نئی تیکنک کا استعمال کرکے دلفریب اور دیدہ زیب پل بنائے جا رہے ہیں۔ ان کی تعمیر اپنے انداز، استعمال اور ساخت کے اعتبار سے یکسر جداگانہ ہے۔ ان کے ڈیزائن کا مکمل انحصار علاقے کی نوعیت جہاں پل قیام کیا جا رہا ہے، اس کا مقصد اور اس پر آنے والے اخراجات پر ہوتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں چند تاریخی، خوب صورت، و خطرناک پلوں کے بارے میں پڑھئے، یقیناً ان کے بارے میں جان کر آپ بھی ہماری طرح ان کی تعمیر کرنے والوں کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
’’گولڈن برج‘‘ویت نام کے شہر دانانگ کے حسین و سبز پہاڑوں کے بیچ و بیچ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا اقتتاح حال ہی میں ہوا ہے۔ یہ اپنے منفرد ڈیزائن کے باعث چند ہی دنوں میں دنیا بھر کے سیاحیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ اسے دیکھنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ، دیوہیکل ہاتھوں میں سنہرے رنگ کا دھاگہ ہو۔ دراصل یہ دیوہیکل ہاتھ اس پل کی بنیادیں ہیں، جنہیں قدرتی پہاڑوں کو تراش کر اور رنگ و روغن کر کے ہاتھوں کی شکل دی گئی ہے، جب کہ سنہرے رنگ کا دھاگہ پل کی راہ داری ہے جس پر سنہرا رنگ کیا گیا ہے۔ اسی سنہرے رنگ کی نسبت سے اسے گولڈن برج کا نام دیا گیا ہے، جب کہ مقامی افراد اور اس پل کی تعمیر کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کہ اس پُل کو کسی نے اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا ہے۔ اسے پیدل چلنے والوں کے لیے بنایا گیا ہے، جس کی لمبائی ایک سو پچاس میٹر (500 فٹ) ہے۔ یہ دانانگ میں بانا کی پہاڑیوں پر بنایا گیا ہے، جو کیبل کار اسٹیشن کو سبز باغات سے جوڑتا ہے۔ سمندر کی سطح سے ایک ہزار میٹر (3280 فٹ) کی اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے راہ گیر اس پل پر چلتے وقت یوں محسوس کرتے ہیں، جیسے وہ بادلوں کے بیچ ہوں، جب کہ اطراف میں موجود سبز باغات جیسے کسی طلسماتی کہانیوں کا دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ 2بلین امریکی ڈالرز کی لاگت سے تیار کردہ اس پل کو مقامی کمپنی ’’ٹی اے لینڈ اسکیپ‘‘ نے ڈیزائن کیا ہے۔ اس کے فن تعمیر کو دیکھنے کے لیے صرف دو ماہ کے مختصر عرصے میں دنیا بھر سے ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کر چکے ہیں، جب کہ ویت نام کی حکومت کا کہنا ہے کہ، رواں سال گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ سیاح ویت نام آئیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر سے 2.7 ملین سیاحوں نے چھٹیاں گزار نے کے لیے ویت نام کا رُخ کیا تھا۔
ویت نام جس قدر قدرتی حسن سے مالا مال ہے وہاں کی تعمیرات بھی اتنی ہی حسین ہیں۔ دنیا کے جدید اور منفرد انداز میں تعمیر پلوں کی فہرست میں ویت نام کے چار پل شامل ہیں، جن میں سے پہلے منفرد پل گولڈن برج کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں، جب کہ دوسرا منفرد پل ’’ڈریگن برج‘‘ ہے۔ اس کا نام سنتے ہی گمان ہوتا ہے کہ یہ چین کے کسی شہر میں بنایا گیا ہوگا، کیوں کہ ڈریگن چینی ثقافت کا ایک اہم جز ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے یہ پل ویت نام کے شہر دانانگ سے ائیر پورٹ جانے والے راستے پر دریائے ہین عبور کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پُل کی تعمیر سے قبل 19 جولائی 2009 کو شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں ویت نام کے سابق وزیر اعظم ’’نگیون تان ڈنگ‘‘ (Nguyen Tan Dung) سمیت اعلیٰ سطح کے حکومتی وفد نے شرکت کی تھی۔ 85 ملین ڈالرز کی لاگت سے چار سال میں مکمل ہونے والے اس پل میں تمام تر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی مہارت سے کیا گیا ہے، اسے حقیقت سے اتنا قریب تر بنایا گیا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اس پُل کا شمار دنیا کے ان چند پلوں میں ہوتا ہے جن میں جدید تیکنک کا استعمال ہے۔ اس پل کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے ایسا نظام ترتیب دیا ہے کہ یہ ڈریگن منہ سے آگ کے شعلے اُگلتا ہے، ہمہ وقت اس کے منہ سے مصنوعی آب شار بھی بہتی ہے۔ یہ پل دنیا بھر میں ویت نام کی جدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جدید تیکنک سے تیار کردہ یہ پُل ایک ہزار ٹن وزنی اسٹیل، لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیا گیا۔ یہ پُل 666 میٹر طویل اور 37.5 میٹر چوڑا ہے، جس پر ٹریفک کی آمد و رفت اور پیدل چلنے والوں کے لئے چھ علیحدہ علیحدہ راہ داریاں بنائی گئی ہیں، نیز پندرہ ہزار جدید رنگ برنگی ایل ای ڈی روشنیوں سے مزین یہ دلکش اور انوکھا ڈریگن پُل 29 مارچ 2013 کو آمد و رفت کے لئے کھولا گیا۔ پل کا ڈیزائن امریکی ماہر تعمیرات ’’امان اینڈ ویٹنی کنسٹرکشن‘‘ نے بنایا تھا۔
ہیلکس برج جسے ہیلکس اور ڈبل ہیلکس برج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سنگاپور کے علاقے ’’مرینا بے‘‘ میں واقع ہے۔ اس پل کی خاصیت، جو اسے دیگر پلوں سے منفرد بناتی ہے، اس کا ڈھانچہ ہے۔ جو انسانی خلیوں میں موجود ڈی این اے سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ انسانی ڈی این اے کی چار بنیادوں، سائٹوسن، گوانائن، ایڈنائن اور تھائمین کی مانند اسے بھی چار حصوں میں برقی قمقموں سے تقسیم کیا گیا ہے۔ اس پُل کے ایک جانب بینجمن شائرس پُل ہے جس کا شمار سنگاپور کے طویل ترین پُلوں میں ہوتا ہے۔ یہ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے اور ہیلکس برج پیدل چلنے والوں کے لیے ہے۔ جب کہ اس کے دوسری جانب مرینا بے ہے۔ شام ڈھلتے ہی ہیلکس برج ایل ای ڈی لائٹس سے روشن ہوجاتا ہے۔ دیدہ زیب مناظر دیکھنے کے لیے سنگاپور کے سیاح بڑی تعداد میں اس پُل کا رخ کرتے ہیں۔ اس کا آرکیٹیکچر آسٹریلوی کمپنی کوز گروپ نے مقامی کمپنی آرکیٹیکچر61 کے اشتراک سے ڈیزائن کیا ہے۔ اسے مکمل طور پر عوام کے لیے 18 جولائی 2010ء میں کھول دیا گیا تھا۔ لینڈ ٹرانسپورٹ اٹھارٹی نے اس پل کے ڈیزائن کو دنیا کا پہلا ’’آرکیٹیکچریل اینڈ انجینئرنگ ڈیزائن‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پل نے پہلے ہی سال میں ’’عالمی آرکیٹیکچر فیسٹیول ایواڈز‘‘ میں دنیا کی بہترین آمد و رفت کی اعمارت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ 2011 میں ’’بلڈنگ اینڈ اٹھارٹی ایکسیلینسی ایوارڈ‘‘ بھی حاصل کیا۔
وسطی چین کے صوبے ہونان میں شینجیاجی کے مقام پر بنایا گیا گلاس برج، دنیا کا سب سے طویل اور اونچا پُل ہے، جو شیشے سے بنا ہوا ہے۔ یہ پل ’’اوتار‘‘ نامی دو پہاڑیوں کی چوٹیوں کو ملاتا ہے۔ واضح رہے کہ ان پہاڑیوں کے نام کی نسبت اوتار نامی فلم ہے، جو اسی مقام پر فلمائی گئی تھی۔ اسرائیلی آرکیٹیکٹ ’’ہیم دوتان‘‘ نے اسے ڈیزائن کیا تھا، جو اس سے قبل تعمیراتی کاموں میں کئی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ 34 لاکھ ڈالرز کی لاگت سے تیار کردہ شیشے کا یہ پل سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ یہ 430 میٹر طویل، چھ میٹر چوڑا اور تقریباً 300 میٹر گہری کھائی پر بنا ہوا ہے۔ اس پُل کا ننانوے فی صد حصہ شیشے کی تین شفاف تہوں سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ 20 اگست 2016ء کو عوام کے لیے پہلی بار کھولا گیا لیکن صرف تیرہ دن بعد ہی اسے عوام کے بے پناہ رش کے باعث بند کرنا پڑا۔ اس پُل پر بیک وقت آٹھ سو افراد کی گنجائش ہے، جب کہ ایک دن میں آٹھ ہزار افراد کو خوش آمدید کہتا ہے۔ لیکن اس کی انفرادیت کے باعث سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں سیر کی غرض سے امڈ آئی، بعدازاں افتتاح کے یہ پُل مہم جو افراد کی توجہ کا خاص مرکز رہا، وہ خود کو ثابت کر دکھانے کے لیے تیزی سے یہاں کا رخ کرنے لگے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پُل کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ، جب اس پر چلتے ہیں تو اچانگ خود بخود شگاف پڑنے لگتے ہیں، جس سے اس پر چلنے والوں کا خون جم جاتا اور دل دہل جاتے ہیں۔ لیکن گھبرائیں نہیں یہ مصنوعی شگاف ہوتے ہیں، جو پُل میں نصب سینسر اورخاص افیکٹس کے سبب پڑتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں صحیح ہوجاتے ہیں۔ ان خصوصیات کے باعث اس کا شمار دنیا کے چند خطرناک پلوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ تقریباً 80 ہزار سیاح یہاں کا رخ کر رہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد کے باعث پُل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے اسے 2 ستمبر 2016 کو بند کر دیا گیا اور پھر 30 ستمبر 2016 کو ٹکٹ اور ایڈوانس بُکینگ کی بنیاد پر دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا گیا، چوں کہ یہ اتنے طویل رقبے اور گہرائی پر شیشے سے بنا ہوا ہے، اس لیے عوام کے ذہن و دل سے خدشات کو دور کرنے اور اس کی مضبوطی کو جانچنے کے لیے اس پُل کو مختلف مراحل سے گزارا گیا۔ جن میں اس پر ہتھوڑے چلانا اور مسافروں سے بھری گاڑی کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلانا بھی شامل ہے۔ افتتاح کے بعد یہاں مہم جوئی یوگا کے ایک بڑے گروہ نے یوگا کرکے حاضرین کی داد وصول کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں شادی کی تقریب بھی منعقد کی گئی اور ہونان صوبے میں ’’ہی پنگ جیانگ‘‘ کے لوگوں نے اپنا ایک خاص دن بھی اس پل سے نیچے لٹک کر گزارا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں وقتاً فوقتاً دلچسپ اور دل دہلا دینے والے مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
آپ کو یہ جان کریقیناً حیرات ہوگی کہ دنیا کے خطرناک ترین پلوں میں پاکستان کا ایک پُل بھی ہے۔ یہ ہے’’حسینی برج‘‘جو دریائے ہنزہ پر قائم ہے۔ اسے حسینی گاؤں کے ایک حصے سے دوسرے حصے زر آباد آمد ورفت کے لیے 1964 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ چھ سو فٹ طویل اس پُل کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پُلوں میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اسے صرف لوہے کے تاروں اور لکڑیوں سے تعمیر کیا ہے۔ جس کے وجہ سے یہ بے حد لچکدار ہے۔ اس کی لچک کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معمولی ہوا چلنے یا کسی انسان کے اس پہ تیزی سے چلنے پر پورا پل جھولتا ہے۔ اس پُل کو دریا عبور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن یہ اس قدر خطرناک ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک فرد ہی اسے استعمال کرتے ہوئے دریا عبور کر سکتا ہے اور اگر اسے پار کرتے وقت وزن زیادہ ہوجائے تو گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ 1984 میں فنڈز سے اس پُل کو دوبارہ بنایا کر لکڑی کے تختوں کو قریب قریب نصب کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ان لکڑی کے تختوں کے درمیان دو فٹ کا فاصلہ تھا۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ 2012 میں جب سیلاب آیا تو یہ پل ڈوب گیا اور بعدازاں صرف لوہے کے تار رہے گئے، جس کے ذریعے مقامی افراد دو برس تک دریا پار کرتے رہے۔ 2014 کے آخر میں حکومت نے ان تاروں پر دوبارہ لکڑیاں لگا دی۔
دنیا کے خطرناک ترین پلوں میں شمار ہونے والا ’’کیپیلانوں سسپینشن برج‘‘ کینیڈا کے علاقے شمالی وینکوور کی حسین وادیوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کے قدیم پلوں میں سے ایک ہے جسے 1889ء میں جارج گرینٹ میکی نے بنایا تھا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کا کام ہوتا رہا ہے۔ 1983 میں اس پل اور اس سے منسلک پارک کو کیپیلانوں کمپنی کی ملکن ’’نینسی اسٹیبارڈ‘‘ نے خرید لیا تھا، اس وقت سے اب تک یہ پل ان ہی کے زیر نگرانی ہے، 2004 میں اس کی از سرنوع تعمیر کے بعد سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دو سیاحوں کی موت اس پل سے گرنے کے سبب ہوچکی ہے۔ جب کہ ایک ڈیڑھ سالہ بچہ اس پل سے گرنے کے بعد قدرتی طور پر محفوظ رہا۔ اس کے باوجود سالانہ تقریباً آٹھ لاکھ سیاح وینکوور کی حسین وادیوں کے روح پرور مناظر سے لطف اندوز ہونے یہاں آتے ہیں۔ 2011 میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے اس پل کا ایک حصہ شیشے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پانچ فٹ چوڑا یہ پل ایک سو چالیس میٹر (460 فٹ) طویل اور سمندر کی سطح سے ستر میٹر (230 فٹ) بلندئی پر بنایا گیا ہے، جو تقریباً ایک لاکھ پاونڈ وزن بیک وقت برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے۔
ویت نام، جہاں دنیا کے خوب صورت، دیدہ زیب اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پُلوں کی تعمیرات کی گئیں ہیں، وہیں چند قدیم طرز کے پُل بھی موجود ہیں۔ جن میں سے ایک ’’مونکی برج‘‘بھی شامل ہے۔ جسے علاقائی زبان میں ’’ cầu khỉ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ منفرد پُل ویت نام کی قدیم روایت اور طرز زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی بناوٹ انتہائی خطرناک اور عجیب ہے۔ کیوں کہ پائوں کے نیچے صرف ایک بانس کی لکڑی سے راستہ بنایا گیا ہے جب کہ دوسری بانس کی لکڑی سے بنے راستے کو ہاتھوں سے پکڑا جاتا ہے۔ اس پُل پر چلتے ہوئے نیچے دریا میں گرنے سے بچنے کے لئے چلنے والے کی پوزیشن خود بخود بندر کی طرح ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا نام مونکی برج بن پڑ گیا ہے۔ لیکن اس پل کا اصل نام ’’بیمبو برج‘‘ ہے، کیوں کہ یہ بانس کی لکڑیوں سے بنایا جاتا ہے۔ جب کہ اسی طرز کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی پُل بنائے گئے ہیں جن میں ناریل کی لکڑی کا استعمال ہوا ہے، جس کے باعث انہیں ’’کوکونٹ برج‘‘ کہاجاتا ہے۔ سیاحوں کو اس پل پر چلتے ہوئے دشواری کا سامنا رہتا ہے جب کہ مقامی افراد اس قدر ماہر ہیں کہ وہ بیس سے پچاس کلو تک وزن اُٹھا کر پُل پار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید صنعتی دور میں قدیم روایت کو زندہ رکھنے کی خاطر وقتاً فوقتاً ان پلوں کو تیزی سے پار کرنے کے مختلف مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
امریکا میں بھی قدیم طرز پر بنے ہوئے خطرناک پل ہیں۔ ان میں ہوا میں معلق ایک پُل ’’رائل جارج برج‘‘ ہے۔ یہ امریکی ریاست کولاراڈو میں دریائے آرکنساس پر دو پہاڑیوں کی چوٹی پر بنایا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس پُل کے دونوں اطراف تین سو ساٹھ ایکڑ رقبے پر رائل جارج امیوزمنٹ پارک بنایا گیا ہے۔ جس کے باعث یہ پُل سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 969 فٹ اونچائی پر بنایا گیا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند بلند ترین پلوں میں ہوتا ہے جب کہ 2001 تک اسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ یہ دنیا کے بلند ترین مقام پر قائم ہونے والا واحد پُل ہے۔ 1260 فٹ لمبے پُل کی تعمیرات کا کام 1929ء میں جون سے نومبر تک، صرف چھ ماہ کے مختصر عرصے میں تین لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کی لاگت سے مکمل ہوا۔ یہ پُل اس قدر خطرناک ہے کہ اگر ہلکی سی بھی ہوا چلتی تھی تو یہ پُل جھولنے لگتا تھا تاہم 1982ء میں اس پر تاریں لگا کر اسے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن آج بھی اس کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پُلوں میں ہوتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں واقع معلق پُل صرف پیدل چلنے والوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس پُل کو عوام کے لئے کھولنے کے لئے صرف اچھے موسم کا انتظار کیا جاتا ہے کیوں کہ تیز ہواؤں میں یہ بہت خطرناک حد تک جھولتا ہے جس سے خوف کے مارے لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ 2009ء میں ٹریفٹ پُل کو مضبوط بنانے کے لئے اس پر تاریں لگائی گئی تھیں لیکن اس کے باجود خطرہ بدستور ہے۔ سوئزالپس کے علاقے میں بنائے گئے اس خطرناک پُل کی بلندی 328 فٹ جبکہ اس کی لمبائی 558 فٹ ہے۔