پاک فوج نے اس بار یوم دفاع منفرد انداز سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔قوم 6 ستمبر 2018 کو ’’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘‘ کے عنوان کے تحت شان دار انداز میں اپنے شہداء کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ یومِ دفاع کے سلسلے میں افواجِ پاکستان ہتھیاروں کی نمائش بھی کریں گی۔ تعلیمی اداروں میں شہداء کی یاد اور وطن سے محبت کی تقریبات ہوں گی اور افواجِ پاکستان کے شہداء کے لواحقین اور غازیوں کے لیے ہر چھاؤنی میں دن کے وقت تقاریب ہوں گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم سے اس دن بھرپور شمولیت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’’آئیے زندہ قوم کی طرح اپنے شہداء کو یاد رکھیں۔‘‘ میجر جزل آصف غفور نے شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ شہید ہی ہمارے اصل ہیرو ہیں۔‘‘ اس دن شاپنگ مال شہیدوں کی تصاویر سے سجائے جائیں گے اور بسوں، ویگنوں، ٹرکوں، پرائیویٹ گاڑیوں، ٹرینوں، اسٹیشنوں اور تمام ایئرپورٹس پر شہدا کی تصاویر لگائی جائیں گی۔‘‘
6؍ستمبر 1965ء کا وہ لمحہ کون بُھلاسکتا ہے، جب پڑوسی ملک بھارت نے وطن عزیز پر شبِ خون مارنے کے بعد عبرت ناک شکست کھائی تھی۔ یہ وہ گھڑی تھی ، جب دشمن کی فوجیں سیالکوٹ اور لاہور کے سرحدی علاقوں سے داخل ہو کر ہمارے ملک پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم لے کر آئی تھی، گویا یوں کہیے سوئے ہوئے شیروں کو جگانے کے لیے بھیڑیوں کا ایک ریوڑ صبح صادق کے وقت حملہ آور ہوا تھا۔ اُس وقت کے صدر مملکت، جنرل ایوب خان کے قوم سے تاریخی خطاب اور پاک فوج کے ساتھ پوری قوم کے تاریخی کر دار نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایسی شکست سے دوچار کیا،جس کے زخم آج بھی بھارت کی تاریخ میں ہیں۔ پاکستانی شیروں اور بھارتی بھیڑوں کے درمیان یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی۔ بھارتی میڈیا اپنی مکار اور بزدل فوج کے حوصلہ بڑھانے میں دنیا بھر کا جھوٹ بول کر قوم کو ہر روز اپنی فوج کے کارناموں اور فتوحات کے جھوٹے قصے سُنا رہا تھا۔ یہ وہ تاریخ ساز موقع تھا، جب قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی فوج کے سامنے آگئی، مسلک ، نہ قوم ، نہ زبان ، چھوٹے بڑے سبھی وطن کے دفاع کے لیے پش پیش تھے، اس وقت کراچی میں ایک ڈاکو مٹکو پالاری ایک اشتہاری ملزم تھا، مگر جنگ کے زمانے میں اس نے خود اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرکے پاک فوج کے ساتھ محاذ پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ایسی بے شمار مثالیں اس موقع پر ملک بھر سے سامنے آئیں۔
14؍اگست کے بعد یہ دن وطن عزیز کے بہت اہم ترین ہے۔ یہ وہ قابلِ فخر لمحات تھے ، جب پُوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ ہمارے شاعر، موسیقار ، فن کار ، ادیب اور اداکار سبھی وطن عزیز کے لیے حاضر ہوئے، محاذ جنگ پر بہادر افواج کے حوصلے بڑھانے کے لیے ملی ترانوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ قوم کے جوان ، بوڑھے ، بچے، پاک فوج کو خون کے عطیات دینے کے لیے پیش پیش رہے، جن دنوں جنگ شروع ہوئی تو انہی دنوں فلم ساز و عکاس ریاض بخاری کی فلم ’’مجاہد‘‘ ریلیز ہوئی ۔ اس فلم کا ایک ترانہ جسے، حمایت علی شاعر نے لکھا اور خلیل احمد نے اس کی دُھن بنائی، ’’ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ محمدعلی، مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا اور یہ وہ پہلا فلمی ترانہ تھا، جو پُورے پاکستان میں ریڈیو کے ذریعے نشر ہوا تھا۔علاوہ ازیں نغمہ نگار طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا ترانہ ، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا، گلوکار عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کی آوازوں میں سارے ملک میں گونج رہا تھا۔ اس روح کو گرمادینے والے ترانے کی دُھن رشید عطرے نے فلم ’’چنگیز خان‘‘ کے لیے بنائی تھی۔ دشمن کی فوجیں جیسے جیسے ہولناک تباہیاں اور بربادیاں پھیلا رہی تھیں، ویسے ویسے پاکستانی فوج کے حوصلے بلند سے بلند تر ہورہے تھے۔ ایسے میں شہنشاہ غزل مہدی حسن خان کی آواز ریڈیو پر گونجی، ؎ ’’خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام‘‘۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے اس جنگی ماحول میں اپنی مترنم آواز میں جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ’’ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔‘‘ پیش کیا، جسے سُن کر فوجی بھائیوں میں ایک غیبی طاقت پیدا ہوگئی، جس نے اپنے سے چار گنا طاقت ور فوج کے چھکے چھڑا دیے، گلوکار تاج ملتانی مرحوم کا ولولہ انگیز ترانہ بھی سماعتوں کو نئے جذبوں سے آشنا کر رہا تھا۔
’’جنگ کھیڈنئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ چونڈا کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کا سامنا کرنے والے جوانوں کے لیے میڈم نورجہاں کا یہ گیت ان کے حوصلوں کی صحیح ترجمانی کررہا تھا۔؎ ’’ہو میریاں ڈھول سپاہیا تینوں رب دِیاں راکھا۔‘‘ فلموں میں کام کرنے والے فن کار، ٹیکنیشنز سب ہی لوگ خون کے عطیات کے لیے عام لوگوں کے ساتھ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہے۔ اس فتح اور قوم کی شجاعت اور فوجی بھائیوں کے زندہ کارناموں کو ہمارے ادیبوں ، شعرائے کرام اور فن کاروں نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ فلم سازوں نے اس فتح مبین کو اپنی فلموں کا موضوع بناتے ہوئے شجاعت اور قربانی سے لبریز ان کارناموں کو اپنی فلموں میں ٹری بیوٹ پیش کیا۔ 1966ء میں کراچی میں بننے والی فلم’’ آزادی یا موت‘‘ کا موضوع جنگ 6ستمبر تھا، جس میں اداکار حنیف اور اداکارہ صوفیہ بانو نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم میں محمد عالم لوہار کی گائی ہوئی ’’جگنی‘‘ ، ہو دنیا جانے میرے وطن کی شان، نے قوم کا سر فخرسے بلند کردیا۔ ایک اور نغمہ جس کے بول تھے ، شیروں کا وہ نعرہ گونجا آزادی یا موت ، ہماری پاک فوج کی عظمت کو سلام پیش کررہا تھا۔ ان دونوں گیتوں کے خالق صہبا اختر تھے، جب کہ موسیقی لال محمد اقبال نے ترتیب دی تھی۔ محمدعلی اور شمیم آراء کی یادگار فلم ’’آگ کا دریا‘‘ ، جس کے ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے۔ جوش ملیح آبادی کا ملی جذبے سے گھلا ہوا انقلابی ترانہ، ’’اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں‘‘جسے مسعود رانا، آئرن پروین اور ساتھیوں نے گایا تھا، اس ترانے کے موسیقار غلام نبی عبداللطیف تھے۔ یہ وہ سال تھا، جب کئی فلموں میں اس طرح کے ملی ترانے اور مناظر شامل کیے گئے، جو 6ستمبر کی جنگ کے پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ایسی ہی فلم ’’معجزہ‘‘ بھی انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی، جس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے۔ اس فلم میں حُب الوطنی کے جذبے اور اس کی حفاظت کرنے والوں کو اس نغمے میں خراج تحسین پیش کیا گیا ،’’توحید کے متوالو، باطل کو مٹادیں گے‘‘۔ اس ملی نغمے کو سلیم رضا، مسعود رانا اور ساتھیوں نے گایا تھا، جس کی طرز اختر حسین اور بول ساحل فارانی نے لکھے تھے، اس فلم میں ایک پنجابی گیت نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیاگیا، جس کےبول تھے، ’’میریا شیر جیا ویرا لکھا عزتاں بچاویں‘‘، اس گیت کو شاعر عوام حبیب جالب نے لکھا اور دُھن اختر حسین نے ترتیب دی، جب کہ فلم میں یہ گیت اداکارہ فردوس پر فلم بند ہوا۔
اب بات کرتے ہیں ہم اس عظیم گیت کی جو آزادی کی حفاظت کرنے والے شہیدوں کے لہو سے تحریر کیاگیا جو آج تک وطن عزیز کی عزت و ناموس پر قربان ہونے والوں پر خراج عقیدت پیش کررہا ہے۔ نغمہ نگار مشیر کاظمی کا لکھا ہوا ملی ترانہ ، اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو ، جسے گلوکارہ نسیم بیگم نے گایا اور اس ایمان افروز ترانے کو موسیقار سلیم اقبال نے تخلیق کیا۔ فلم ساز و ہدایت کار سیف الدین سیف کی فلم ’’مادروطن‘‘ کو اس غیر معمولی گیت کو شامل کیا گیا۔ محمدعلی اور دیبا نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے بھی اس پس منظر میں فلم ’’وطن کا سپاہی‘‘ بنائی، جس میں محمدعلی اور فردوس نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم میؒں محاذ جنگ پر جانے والے محبوب شوہر کو اس کی بیوی رخصت کرتے ہوئے ایک گیت گاتی ہے، جس کے بول تھے ، تجھے وطن نے پکارا ہے جا میرے محبوب۔ اسے اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا۔ نورجہاں کے گائے ہوئے اس گیت کے موسیقار منظور اشرف تھے۔ فلم میں ایک اور ترانہ پوری قوم کے لہو کو گرمانے کے لیے اپنی مثال آپ تھا، جس کے بول تھے، پھر سومناتیوں نے اٹھایا ہے اپنا سر، یہ کورس نغمے کو مسعود رانا اور شوکت علی نے ریکارڈ کروایا تھا۔ اس وقت قومی غیرت اور جذبے سے سرشار فلم سازوں نے جنگ کے ہیروز ایم ایم عالم اور شہید میجر عزیز بھٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی زندگی پر فلمیں بنانے کا اعلان کیا تھا، مگر اُس وقت کی حکومت نے اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون نہ کیا، جس کی وجہ سے فلم سازوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلموں میں ’’وار‘‘ ’’پرواز ایک جنون‘‘ اور آزادی، اس سلسلے کی اچھی کوشش تھیں، جسے قوم نے بے حد پسند کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بدمعاشوں اور جرائم پیشہ، اشتہاری ملزموں کے بجائے، اپنے قومی ہیروز پر فلمیں بنانی چاہئیٔں، کیوں کہ یہی وہ لوگ تھے، جنہیں کبھی نہیں بُھلایا جاسکتا۔ جو ہمیشہ یاد رٓہیں گے۔