وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سرکاری ٹی وی کو مکمل خود مختاری کیساتھ آزاد ٹی وی بنا رہی ہے جسے آزاد بورڈ کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائیگا اور اس کیلئے قانون بنانے میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ پی ٹی وی میں سنسر شپ پالیسی ختم کر دی گئی ہے۔ اب تو اپوزیشن جماعتوں اور رہنمائوں کے بیانات بھی نشر ہو رہے ہیں۔یہ خبر مجھ سمیت ہر پروفیشنل صحافی کے لئے حبس کے اس موسم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، گو وزیراطلاعات پیمرا ، پریس کونسل ختم کر کے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں ، مگر آج کے کالم میں صرف پی ٹی وی کی آزادی پر ہی بات ہوسکے گی۔ پی ٹی وی کی آزادی بڑی نیک خواہش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ آزاد کیسے ہوگا؟ مجھے ٹرسٹ کے اخبارات کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب کے کہے گئے وہ تاریخی الفاظ یاد آرہے ہیں کہ ٹرسٹ کے اخبارات کی حیثیت نیاز کی دیگوں جیسی تھی جسے ہر حکومت نے اپنے اپنے چمچوں سے بانٹا،آج پی ٹی وی کی بھی یہی حیثیت ہے۔ ایسے حالات میں نئی حکومت کا یہ اعلان تو بہت بڑی مثبت تبدیلی ہے ،کیونکہ
1۔وہ سرکاری ٹی وی جس کا پورا بورڈ آف ڈائریکٹرز سرکاری ہو، جس کے بورڈآف ڈائریکٹرز میں ایڈیشنل سیکریٹری اسٹیبشلمنٹ ، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ، ڈی جی آئی ایس پی آر، ڈی جی ریڈیواور سیکریٹری انفرمیشن ہیں۔ پی ٹی وی ڈائریکٹرز کی تمام تر تقرریاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کرتا ہے ۔ اس طرح کا بورڈ ہوگا تو سوچ اور پالیسی کیسے آزاد ہوگی ۔
2۔کہنے کو پی ٹی وی کارپوریشن ہے مگرجب آپ اسکے گیٹ پر پہنچتے ہیں تو اس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’ ممنوعہ علاقہ ‘‘ ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا شمار لازمی سروسز میں ہوتا ہے۔ جہاں حکومت پاکستان کے تمام رولز اور ریگولیشنز لاگو ہوتے ہیں ۔ پی ٹی وی کے سو فیصد حصص کی مالک خود حکومت پاکستان ہے ۔ کارپوریشن کا نام صرف اسلئے دیا گیا کہ اس پر من مانے قوانین لاگو کئےجا سکیں۔
3۔یہ سرکار کا وہ ٹی وی ہے جس کا ایم ڈی اکیلا تمام اختیارات کا مالک ہوتاہے۔ اسکی اور چیئرمین کی تقرری ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوئی ۔ ہر سیاسی جماعت کے وزیر اطلاعات نے سیاسی بنیادوںبھرتیاں کیں اور پھر انہیں ریگولر بھی کرایا۔اسوقت پی ٹی وی میں ضرورت سے کئی سو گُنا زیادہ سیاسی ملازمتیں دی گئیں ۔ اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ پی ٹی وی کے لوگ جو 2016ء اور اس کے بعد اب تک ریٹائرڈ ہوئے ہیں اُن کو پنشن کے بقایاجات دینے کیلئے پیسے تک نہیں۔
4۔پی ٹی وی ایسا ادارہ ہے جس کے آرکائیو میں اتنی قیمتی تاریخی ریکارڈنگ تھیں مگر یہاں کے بعض بددیانت عہدیداروں نے مبینہ طور پر انہیں بیچ دیا۔
5-پی ٹی وی کے پاس مختلف سیٹ کیلئے اتنا زیادہ سامان ہے کہ سارے ٹی وی چینلز مل کر بھی اتنا سامان نہیں رکھتے ، لیکن لائٹس سے لیکر چھوٹے سے چھوٹا سامان بھی کرائے پر لیا جاتا ہے۔ جن کمپنیوں سے یہ سامان لیا جاتا ہے وہ دراصل یہاں کے ملازمین کی ہی ہیں اور سامان باہر سے نہیں آتا بلکہ پی ٹی وی کی ملکیت ہی ہوتاہے۔ جس سرکاری ٹی وی پر وزیراعظم اور صدر مملکت کے مختلف پروگراموں کی لائیو کوریج پر اربوں روپے خرچ کئے جائیں کیا وہ آزاد ہوسکتاہے۔ پی ٹی وی وہ سرکاری چینل ہے جس کے انتظامی اخراجات پروڈکشن اخراجات سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں ۔ جس ٹی وی چینل کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرنیوالے ماہرین کا معیار صرف سفارش اور پیسہ ہو، پھر حکومت بدلنے کیساتھ ماہرین بھی اُن کے من پسند اور بدل جائیں تو ایسا چینل منافع میں کیسے جا سکتاہے۔ جس سرکاری ٹی وی پرسیاسی مداخلت اس قدر ہو کہ ذرا سی غلطی یا میرٹ پر کام کرنے کی پاداش میں دور دراز سٹیشن پر ٹرانسفر کر دیا جائے وہ کیسے معیاری نشریات دے سکتاہے۔
6۔ وہ سرکاری ٹی وی کیسے آزاد ہو سکتا ہے ماضی میں جس کے وزیر اور سیکرٹری کے گھر میں تمام تر ٹی وی سیٹ و دیگر ایسا سارا سامان ٹی وی کے خرچے پر لگے اور اُنکے گھروں میں پی ٹی وی کی نئی گاڑیاں غیر قانونی زیراستعمال رہی ہوں۔ سگار تک سرکاری خرچے میں سے خریدے جائیں۔ جسکے دور دراز علاقوں کے نمائندے نئی حکومت آنے کے بعد بدل کر اپنی پسند کے رکھ لئے جائیں۔ جہاں ماضی میں تقرری اور تنخواہوں میں اضافے کا معیار صرف سفارش اور سیاست ہو اور میرٹ پر بھرتی ہونے والوں کو کھڈے لائے لگا دیا جائے اور اپنے بنیادی مقصد تعلیم ،تفریح اور رہنمائی سے ہٹ کر صرف وزرا کے پروٹوکول ہو ۔ جہاں پروفیشنل ازم اور ایڈیٹوریل مینجمنٹ کا گلا دبا دیا جائے ، جس چینل کے کمرشل ریٹس سب سے زیادہ ہوں اور کئی کئی مہینوں کی بکنگ ہو پھر وہ نہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ ہی منافع کما سکتا ہے۔ اسلئے وزیر اطلاعات کا یہ اعلان بہت بڑا اور اہم ہے ۔ جس کیلئے اس ادارہ کی مکمل طور پر ری اسٹرکچرنگ کرنا ہوگی۔ آزاد بورڈ بنانیکا مطلب سرکاری ممبران نہیں بلکہ صرف ایک یادو ممبر سرکاری ہوں باقی تمام ممبران والدین، اساتذہ ، غیر جانبدار میڈیا پرسنز، مذہبی اور ثقافتی ماہرین پرمشتمل ہوں۔ موجودہ تمام ملازمین کی تعلیمی اسناد چیک کرائی جائیں اور صرف اُنکو رکھا جاہے جو میرٹ پر پورا ترتے ہوں۔ خبر نامے کو وزرا نامہ بنانے اور بیانات پر مشتمل خبریں دینے کی بجائے پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے تحقیقی اور معلوماتی رپورٹنگ کی جائے۔ ایسے پروگرام پیش کئے جائیں جنکا مقصد اور محور صرف اور صرف ایک ذمہ دار قوم بنانا ہو۔ اس کیلئے نئی قانون سازی کی جائے اور کل اختیارات صرف ایک شخص کو دینے کی بجائے ہر بڑے فیصلے کی منظوری یہ آزاد بورڈ دے ۔ اس قانون میں یہ بھی شامل ہو کہ پی ٹی وی میں کوئی ایسا شخص بھرتی نہیں کیا جاسکتا جو میڈیا اور ایڈورٹائزنگ سے متعلقہ کوئی ادارہ چلا رہا ہو۔ حکومتی کارکردگی کی رپورٹس دکھانے کیلئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی کریڈیبلٹی بنانے اور پی ٹی وی کو آزاد کرنے کیلئے یہ بڑا آسان نسخہ ہے۔