محمد ریحان، اسلام آباد
آج کے مشینی دَور میں، جہاں زندگی انتہائی مصروف اور تیز تر ہوگئی ہے، وہیں انسان لاتعداد پریشانیوں اور مشکلات میں بھی گِھر کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں صحت و تَن درستی اور دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لیے سیّاحتی و تفریحی مشاغل نہایت ضروری ہیں۔سو، اس حوالے سے ہماری سیّاحتی ٹیم وقتاً فوقتاً پاکستان کی مختلف حسین و دل کش وادیوں، برف پوش پہاڑوں، صحرائوں، میدانوں اور غاروں سمیت دیگر خوب صورت مقامات کے دورے کرتی اور ان علاقوں کے سحر انگیزمناظر سے لطف اندوز ہوتی رہتی ہے۔ اس بار ہماری بیس رکنی سیّاحتی ٹیم نے دنیا کے سب سے بڑے، انسانی ہاتھوں سے بنائے جانے والے مصنوعی جنگل، ’’چھانگا مانگا‘‘ کی سیّاحت کا پروگرام بنایا۔
ضلع قصور میں واقع، جنگلی حیات کے اس پارک تک جانے کے لیے ہم سب سے پہلے راول پنڈی سے لاہور پہنچے۔ پھر وہاں سے چھانگا مانگا تک کے لیے کوسٹر بک کروائی اور ناشتے کے فوری بعد ہی جنگل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ بہ مشکل دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم جنگل کے مرکزی دروازے پر تھے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی چند گز کے فاصلے پر ایک بڑا سا بورڈ آویزاں ہے، جس پر چھانگا مانگا کی تاریخ اور مختصر معلومات درج ہیں۔ ساتھ ہی جنگل کا مکمل نقشہ اور مختلف مقامات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ قریب ہی ٹرام اسٹیشن میں بھاپ سے چلنے والا ایک قدیم انجن بھی موجود ہے۔ ابھی ہم اس قدیم جنگل کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ محکمہ ٔ جنگلات کے ایک عہدے دارنے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا، جواباً ہم نے بھی اپنی ٹیم کے تعارف کے ساتھ یہاں آنے کا مقصد بتایا، تو انہوں نے خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا اور چھانگا مانگا سے متعلق سیرحاصل معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ’’برطانوی دورِ حکومت میں اس مصنوعی جنگل کے بنائے جانے کا خاص مقصد اس وقت کے اسٹیم انجنز کو بہ طور ایندھن لکڑی کی فراہمی تھی۔ اس مقصد کے لیے 1865ء میں یہاں شجرکاری منصوبےکا آغاز کیا گیا اور لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان چلنے والے اسٹیم انجنز کے لیے سستی لکڑی کی فراہمی شروع کی گئی۔ بعدازاں، مسٹربی ریبنٹرو Mr.B.Ribbentro نے 1871ء میں اس کا ابتدائی پلان تشکیل دیا۔ 1881ء میں درختوں کی کٹائی کا باقاعدہ عمل شروع ہوا۔ پھر 1888ء میں ایک وسیع رقبے پرشیشم کی لکڑی کے حصول کے لیے کاشت کاری شروع کی گئی۔‘‘ عہدے دار نے بتایا کہ ’’اس جنگل کا نام ’’چھانگا مانگا‘‘ پڑنے کی وجہ بھی بہت دل چسپ ہے۔ یہ دراصل دو بھائیوں کی کہانی ہے، جن میں سے ایک کا نام چھانگا اور دوسرے کا مانگا تھا۔ یہ دونوں چور تھے اور انگریز حکّام سے بچنے کے لیے رات کو ان جنگلوں میں چھپ جایا کرتے تھے۔ ان بھائیوں کے قصّے بچّے بچّے کی زبان پر تھے کہ امیروں سے لوٹا گیا مال غریبوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔
دونوں بھائی محب ِوطن تھے اور انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ انگریزوں کی جانب سے اشتہاری قرار دئیے جانے کے بعد وہ جنگل میں روپوش ہوگئے۔ مقامی افراد انہیں ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیتے تھے، ان ہی بھائیوں کے نام پر اس جنگل کا نام ’’چھانگا مانگا‘‘ پڑا، جو آج بھی ان ہی کے نام سے معروف ہے اور یہی نام سرکاری ریکارڈ کا حصّہ بھی ہے۔‘‘
چھانگا مانگا جنگل ابتدا میں صرف ایک بے نام جنگل تھا، جہاں قدرتی طور پرجا بہ جا چندیر، بیری اور وَن وغیرہ کے درخت اگتے تھے۔ پھر1865ء میں لاہور کے نواح میں لکڑی کی سپلائی کے لیے مصنوعی جنگل کے کام یاب تجربے کے بعد 780 ایکڑ رقبے پر اس عظیم الشان جنگل کی بنیاد رکھی گئی۔ چھانگا مانگا میں شجرکاری کا باقاعدہ آغاز 1866ء میں کیا گیا اور درختوں کی کٹائی 1881ء میں شروع ہوئی۔بعدازاں، نہری پانی کی سہولت مہیّا ہونے پر 1886ء میں یہاں باقاعدہ نہری نظام بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا گیا۔1888ء میں ایک وسیع رقبے پر شیشم کی لکڑی کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں درخت لگائے گئے اور محض دو عشروں ہی میں شیشم کے درخت، پنجاب کے ایندھن اور عمارتی لکڑی کی بڑھتی ضروریات پوری کرنے لگے۔اُس زمانے میں روزانہ بذریعہ ٹرام لکڑی سپلائی کی جاتی تھی۔1888ء میں ضلع جہلم، ڈنڈوت کے مقام پر کوئلے کے کان کی دریافت کے بعد بڑی مقدار میں کوئلہ دست یاب ہونے پر ریلوے انجنز کو چلانے کے لیے لکڑی کا متبادل دست یاب ہوگیا، تو مذکورہ جنگل کی ترقی میں عارضی رکاوٹ آگئی۔ تاہم، اس وقت تک پنجاب بھر میں لکڑی کی طلب میں اضافہ ہوچکا تھا۔
چوں کہ دیگر مقاصد کے لیے بھی لکڑی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، چناں چہ مختلف اقسام کی شجرکاری کا عمل ہنوز جاری رہا۔ ان میں شیشم اور شہتوت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کا شیشم پورے پاکستان میں مشہور ہے کہ اس کی لکڑی بہت مضبوط اور قیمتی تصور کی جاتی ہے۔12510ایکڑ رقبے پر پھیلے اس جنگل میں کئی قسم کے درخت موجود ہیں، جن میں سمبل، توت، بکائن، پاپلر، پیپر، ملبری، پھلاہی، سرس، تُن، پیپلز، کیکر، گل نشتر، سلوراوک، آم اوربانس کے علاوہ چاروں طرف وسیع پیمانے پر شہتوت کے درخت بھی ہیں۔ اس حوالے سے عہدے دار نے ہمیں بتایا کہ ’’دراصل سائبیریا کی یخ فضائوں سے عارضی طور پر یہاں ہجرت کرنے والے پرندے، جو شہتوت کھا کر آتے تھے، ان کی بِیٹوں کی وجہ سے یہاں چاروں جانب شہتوت کے درخت پھیلتے چلے گئے۔ آج بھی سیال کوٹ میں کھیلوں کے سامان میں استعمال ہونے والی بیش تر لکڑی یہیں کے شہتوت کے درختوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اگائے گئے سفیدے کے درختوں سے ماچس فیکٹری کو لکڑی فراہم کی جاتی ہے۔ جب کہ پاپلر اور سنبل کے درختوں کی لکڑی سے دِیا سلائی، پلائی وُڈ اور کاغذ تیار ہوتا ہے۔ نیز، سنبل کے درخت سے روئی بھی حاصل کی جاتی ہے، جو تکیے، گدّے اور صوفہ سیٹ وغیرہ بنانے کا کام آتی ہے۔‘‘ درختوں کی کٹائی اور لکڑی کے حصول کے حوالے سے عہدے دار نے بتایا کہ ’’ایک سال کے دوران تقریباً پانچ، چھے سو ایکڑ درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے، کٹائی کے بعد لکڑی ڈپو منتقل کردی جاتی ہے۔ اس طرح لگ بھگ بیس سال کے عرصے کے بعد پہلے حصّے کی دوبارہ کٹائی کی باری آتی ہے۔ جن رقبوں سے کٹائی ہوجاتی ہے، وہاں دوبارہ پودے لگادیئے جاتے ہیں۔ پہلے پہل پودوں کا درمیانی فاصلہ کم رکھا جاتا ہے، پھر ہر پانچ سال بعد ناکارہ اور کم زور درختوں کو کاٹ کر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھادیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل باقاعدہ ایک منظّم منصوبہ بندی کے تحت جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں ایک پلانٹ بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ایک خاص درجہ ٔ حرارت پر لکڑی خشک کی جاتی ہے، اس سے لکڑی میں کوئی دراڑ نہیں بنتی، اسے ’’سیزن کرنا‘‘ کہتے ہیں اور اس طرح سے لکڑی بہت مضبوط ہوجاتی ہے۔ انتظامی لحاظ سے جنگل کو پانچ مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر بلاک کا انچارج فاریسٹ بلاک آفیسر کہلاتا ہے، جس کے ساتھ پانچ فاریسٹ گارڈز ہوتے ہیں۔ درختوں کی آب یاری، کاٹ چھانٹ اور پانی دینے کے لیے بیلداروں کی رہائشی کالونیاں بھی جنگل کے احاطے میں بنائی گئی ہیں۔ ملازمین کے لیے جنگل کے احاطے ہی میں ایک ڈسپینسری اور بچّوں کے لیے پرائمری اسکول بھی موجودہے۔‘‘
چھانگا مانگا کا جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے، بلکہ یہ ایک بہترین سیرگاہ کی حیثیت سے بھی پورے ملک میں شہرت کا حامل ہے۔ 1960ء میں یہاں قومی پارک بنایا گیا، جس کے بعدہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیّاح، یہاںسیّاحت کی غرض سے آنے لگے۔ سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے مہتابی جھیل، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں، جھولا پل، مہتاب محل، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ کی سہولت مہیّا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام ہے۔ علاوہ ازیں، سیّاحوں کی دل چسپی کے لیے بھاپ سے چلنے والی ٹرین بھی چلائی جاتی ہے۔ چھانگا مانگاجنگل کے درمیان سے ایک نہر برانچ لوئر گزرتی ہے،جو پورے جنگل کو سیراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی ایک خوب صورت جھیل بھی ہے، جو جنگل کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ جھیل کی خوب صورتی کے پیشِ نظر اس کا نام’’ مہتابی جھیل‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں چلنے والی کشتیاں سیّاحوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہیں۔ جھیل کے دوسری جانب جانے کے لیے ایک’’ جھولا پل‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس پر ایک وقت میں آٹھ سے زیادہ افرادکو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر جھیل کے بیچوں بیچ، پانی میں کھڑے دو منزلہ’’ مہتاب محل‘‘ کے کناروں پر سدا بہار درختوں کی شاخوں کاجھک کر جھیل کے پانی کو چھونے کا حسین منظر تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
جنگل کے تحفّظ اور اسے خوب صورت بنانے میں ’’محکمۂ تحفّظِ جنگلی حیات‘‘ کابھر پور حصّہ ہے۔جنگلی حیات کی افزائش کے لیے جھیل سے متصل، ایک بریڈنگ سینٹر بنایا گیا ہے، جس میں نیل گائے، ہرن، اڑیال اور گدھ سمیت دیگر جانور رکھے گئے ہیں، جانوروں کو حتی الامکان جنگلی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات نے فیزنٹ (جنگلی مرغے) کی نسل کو بڑھانے کے لیے دو سو کے قریب جنگلی مرغے پال کر جنگل میں آزاد چھوڑے ہیں۔ علاوہ ازیں، کافی تعداد میں خرگوش تیتر، تلور، بٹیر اور مور بھی پائے جاتے ہیں۔ مہمان پرندے تلور، مارچ اور اپریل میں ایشیائے کوچک سے یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جب کہ قیمتی اقسام کے باز کے علاوہ بڑے سائز کے بلّے بھی اچھلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، جنگل میں کسی بھی قسم کا شکارممنوع ہے۔
جنگل کے مختلف حصّوں کی سیر کرتے ہوئے ہم کافی دور نکل آئے تھے اور اس وقت بانس کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑے، آسمان سے باتیں کرتے لمبے لمبے درختوں کو دیکھ رہے تھے، جن کی وجہ سے ہر طرف نیم تاریکی سی چھائی ہوئی تھی۔ بانس کے سوکھے پتّے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، جن سے گزرتے ہوئے شٹراپ شٹراپ کی آواز فضا میں عجیب خوف پیدا کررہی تھی۔ سیر کے دوران یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں ہم جنگل میں بھٹک ہی نہ جائیں اور پھر شام بھی گہری ہوتی جارہی تھی، اگرچہ مختصر سے وقت میں ہم جنگل کا کافی حصّہ گھوم پھر کر دیکھ چکے تھے، لیکن اب بھی بہت سے مقامات دیکھنے سے رہ گئے تھے۔ بہرحال، مغرب ہوتے ہی ہماری سیّاحتی ٹیم نے بیش بہا معلومات اور حسین یادوں سمیت یہ سوچ کر واپسی کی راہ لی کہ زندگی نے وفا کی تو پھرآئیں گے۔
لکڑی کا سلیقے اور مہارت سے استعمال.....
جنگل کا عمومی موسم،شہر لاہور کے نزدیک ہونے کی وجہ سے لاہور سے ملتا جلتا ہے۔ تاہم، موسمِ گرما میں یہاں دوپہر کو مرطوبیت میں اضافہ اور شام کافی خوش گوار ہوجاتی ہے۔سالانہ بارش 400ملی میٹر ہوتی ہے۔ یہاں لکڑی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مختلف کمپارٹمنٹس بھی بنائے گئے ہیں، جن کی تعداد 232، اورایک کمپارٹمنٹ کا رقبہ اوسطاً 50ایکڑ پر مشتمل ہے۔ جنگل کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جا بہ جا لکڑی کا استعمال نظر آتا ہے۔ چاہے پکّی عمارت ہو، شیلٹرزہوں، پل یا دیگر اشیاء، ہر تعمیر میں لکڑی کا استعمال خاصے سلیقے اور مہارت سے کیا گیا ہے۔
چار ہزار من خام ریشم.....
یہاں حکومت کی جانب سے مختلف اسکیموں پر کام جاری ہے۔ سیریکلچر ڈیپارٹمنٹ نے جاپانی شہتوت اگانے کا کام یاب تجربہ کیا ہے، جو ریشم کے کیڑے پالنے کے لیے پتّے حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جاپانی شہتوت موسمِ بہار میں فوری پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چھے سات ہفتوں میں تقریباً دو کروڑ روپے مالیت کا ریشم، مختلف فیکٹریز کو فراہم کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھانگا مانگا اور اس کے گردونواح میں رہنے والے افراد ریشم کے کیڑے پالنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ جنگل میں شہتوت کے لاتعداد درخت ہیں، جس کے پتّوں پر ریشم کے کیڑے پالے جاتے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق، یہاں سے تقریباً چار ہزار من خام ریشم حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہتوت کی ٹہنیوں سے ٹوکریاں بھی بنائی جاتی ہیں۔ پورے جنگل کے ایندھن اور ٹمبر کی دھلائی کے لیے24 کلو میٹر لمبی نہر بھی بنائی گئی ہے۔ لکڑی اور ایندھن کی ترسیل بہ ذریعہ ریل گاڑی کی جاتی ہے۔ ڈیزل یا بھاپ سے چلنے والے انجن، 25 ٹرالیوں پر مشتمل گاڑی میں 35 ٹن تک لکڑی لے جاتے ہیں۔