محمد باسط اللہ بیگ،میرپورخاص
صحرائے تھرکا شمار دنیا کے بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے، اگر اسے سیاحتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے ،تو یہ خطّہ اپنی خوبصو رتی میں بے انتہا جاذب نظر اور دل کش ہے۔ برسات کے موسم میں یہ جنت نظیر کہلاتا ہے، ہر طرف ہریالی، خوبصورت جڑی بوٹیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ ہر طرف مور، ہرن بھاگتے دوڑتےاور خوب صورت پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا قدرت کا حسین نظارہ چاروں جانب دکھائی دیتا ہے اور ریگستان کے جہاز اونٹ کے تو کیا ہی کہنے۔
آج سےتقریباً تیس سال پہلے تک صحرائے تھر جانا ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا۔ تھر جانے کے لیے’’کھیکڑا‘‘ (ٹرک )کا استعمال کیا جاتا تھا، جس میں کثیر سامان کے ساتھ مسافر بھی سفر کیا کرتے تھے یا پھر ہیوی وہیکل کا استعمال ہوتا تھا۔ یہاں کے تمام راستے کچّے تھےاور منزل تک پہنچنے کے لیے طویل وقت درکار ہوتا تھا۔ آج ہم تھر کو دیکھتے ہیں، تو بہت خوشی ہوتی ہے، ہر جانب سڑکوں کا جال سا بنا ہوا ہے، ہر طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواںرہتی ہیں۔تھر میں آمدورفت اور سامان کی ترسیل ، اندرون ِ ملک و بیرون ملک ہر جگہ ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہاں کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے،میٹھے پانی کی پائپ لائن لوگوں کے گھروں تک فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بجلی کا نظام ہر جگہ موجود ہے، صحرائے تھر جانے کے لیےمختلف راستے ہیں،ایک راستہ عمرکوٹ سے ، دوسرا نوکوٹ سے جاتا ہے، علاوہ ازیںایک راستہ بہ ذریعہ ٹرین کراچی سے کوکھراپار بھی جاتا ہے ،کئی برسوں سے حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے تھر ایکسپریس کے نام سے ایک ٹرین کراچی کینٹ سے کھوکھراپار تک چلائی ، جو ہفتے میں ایک دن کراچی کینٹ سے رات 12 بجے بہ روز جمعہ روانہ ہوتی ہے ۔ اس میں زیادہ تر مسافر ہندوستان جانے والے ہوتے ہیں۔
یہ تھر ایکسپریس سات گھنٹے کا سفر طے کر کے ہفتہ کے دن صبح تقریباً سات بجے کھوکھراپار پھر زیرو پوائنٹ پہنچتی ہے، اسی طرح ہندوستان سے پاکستان آنے والے مسافر بھی تھرایکسپریس سے زیرو پوائنٹ سے ہوتے ہوئے کھوکھراپار آتے ہیں ۔یہ ٹرین زیروپوائنٹ پر ٹھہرتی ہے، تاکہ مسافروںکی چیکنگ کا عمل ٹھیک طریقے سے ہو سکے۔ جس طرح پاکستان کا بارڈر کھوکھراپار ہے اسی طرح سے ہندوستان کا بارڈر مونابائو ہے اور بیچ میں زیروپوائنٹ مسافروں اور سامان کی چیکنگ کے لیےبنایا گیا ہے۔ ٹرین میں سفر کے دوران ہم تھر کا بھرپور نظارہ بھی کر سکتے ہیں، راستے میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشن بھی آتے ہیں۔ دور سےتھر کے روایتی گھرجنہیںچوئنرے کہا جاتا ہے، وہ بھی نظر آتےہیں ، اب تھر بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح ترقی کر رہا ہے۔
یہاں کا کلچر اور ’’تھری زبان‘‘ جسے ڈھاٹکی زبان بھی کہا جاتاہے ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ تھر کی تہذیب اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ یہاںکے لوک گیت ملک کے کونے کونے میں گونجتے ہیں۔ ’’مائی بھاگی‘‘ ایک عظیم گلوکارہ کی حیثیت سے تھر کی پہچان بنیں،انہیں ’’بلبل ِتھر‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ صحرائے تھراپنے اندر ایک وسیع تاریخ سمیٹےہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھر کی تہذیب، ادب اور ثقافت جو کہ ہزاروں سال پرانی ہے، پر تحقیق کی جائے تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہو سکے کہ پاکستان تہذیبوں اور مختلف زبانوں کا گہوارہ ہے۔