حکومت سازی کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے اب معاملات کسی مثبت سمت کو چل نکلیں گے۔ کیونکہ اپوزیشن نے انتخابات کے فوراً بعد مؤقف اختیار کیا تھا وہ تقریباً اس سے کنارہ کش ہو چکی ہے۔ نہ صرف کنارہ کشی ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو اتحاد کے ابتدائی عوامل تھے وہ بھی پارہ پارہ ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ پہلے وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر اے پی سی کے فیصلوں سے انحراف کیا گیا اور اس کے بعد جب صدارت کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو متحدہ اپوزیشن کوئی متفقہ فیصلہ نہ کر سکی اور اپوزیشن کی طرف سے دو امیدوار میدان میں اترے جس کا لامحالہ فائدہ حکومتی جماعت کے امیدوار کو ہوا اب یہ لگتا ہے جیسے تحریک انصاف کی حکومت کو مستقبل قریب میں کوئی بڑا چیلنج اپوزیشن کی طرف سے درپیش نہیں ہوگا اور وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز سے بات کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ انہیں اپوزیشن سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب اس صورت میں تحریک انصاف کو سب سے بڑا چیلنج اپنے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے درپیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جو بلند بانگ دعوے کئے وہ اس قدر دشوار نظر آتے ہیں کہ ان کی طرف پیشرفت بھی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ یہاں جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ایک اور زاویے سے دیکھا جا رہا ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک عرصہ دراز سے چل رہی ہے اور اب اس میں اتنا دم پیدا ہو چکا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس مطالبے کو نظر انداز کرنے کی جرات نہیں کر سکتی ۔ تحریک انصاف نے تو اپنی پوری انتخابی مہم میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے وعدے کو سرفہرست رکھا۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ ن سے منحرف ہو کر صوبہ محاذ بنانے والوں کے ساتھ اتحاد بھی اس شرط پر کیا گیا کہ اقتدار میں آتے ہی تحریک انصاف علیحدہ صوبہ بنانے کی کوشش شروع کر دے گی۔ اب یہاں کے لوگ بڑی بے چینی سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب علیحدہ صوبہ بنانے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہونا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کہ تن تنہا تحریک انصاف کی حکومت اسے عملی جامہ پہنا سکے کیونکہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہے تاکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جا سکے جو چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ اب پانچویں اکائی کے لئے ترمیم بغیر تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ہونا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں یہ کہتی تو ہیں کہ وہ علیحدہ صوبے کے حق میں ہیں مگر چونکہ اس وقت سارا کریڈٹ حکمران جماعت کو ملے گا۔ اس لئے اس حوالے سے ایسی رکاوٹیں ضرور کھڑی کی جائیں گی کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب تک نئے صوبہ کی حدود اور نام کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کا مرحلہ باقی ہے ۔ یہ ایسا پیچیدہ معاملہ ہے جو پلک جھپکنے میں حل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے اگرچہ شاہ محمود قریشی اور خسرو بختیار کی قیادت میں دو رکنی ٹاسک فورس قائم کر دی ہے مگر جب تک یہ ٹاسک فورس جنوبی پنجاب کے ان تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کر تی جو برس ہا برس سے علیحدہ صوبہ کے لئے سرگرم ہیں۔ اس وقت تک کسی جامع اتفاق رائے کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے جبکہ یہاں سرائیکی قوم پرست تنظیمیں ‘ دانشور حتیٰ کہ عوام بھی ایک ایک دن بڑی مشکل سے کاٹ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پہلے 100 دن کے ایجنڈے میں نئے صوبے کو حتمی شکل دے دی گی مگر یہ ایک ناممکن کام ہے کیونکہ اس حوالے سے ابھی ابتدائی خدوخال بھی واضح نہیں ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاسک فورس میں جن دو شخصیات کو شامل کیا گیا ہے ان کے پاس دو اہم قومی وزارتیں ہیں جن میں ان کی مصروفیت اس قدر زیادہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس ایشو کو وقت ہی نہیں دے سکیں ‘ مثلاً دو ہفتوں سے زائد ہونے کو آئے ہیں مگر اس ٹاسک فورس کا نہ تو کوئی اجلاس ہوا ہے اور نہ ہی اس نے اپنا کوئی طریق کار وضع کیا ہے۔ سیاسی مخالفین ابھی سے یہ تنقید کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے معاملے کو طول دینے کے لئے یہ دو رکنی فورس بنائی ہے تاکہ فی الوقت لوگوں کو اس کا جھانسہ دے کر علیحدہ صوبہ کے مطالبہ پر مٹی ڈالی جا سکے۔ حکومت کا منصوبہ غالباًیہ نظر آتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کو اتنے وسائل دیئے جائیں کہ یہاں پائی جانے والی محرومیاں ختم ہو سکیں اور ان محرومیوں کے خاتمہ کا منطقی نتیجہ یہ نکلے کہ عوام علیحدہ صوبہ کے مطالبہ کو بھول جائیں گے۔ یہ خبریں بھی سرگرم ہیں کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ انتظامی یونٹ کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اور ملتان میں جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سب سیکرٹریٹ ( علاقائی ) قائم ہو سکتا ہے ۔ جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کو تعینات کرکے جنوبی پنجاب کے مسائل اس علاقہ میں حل کئے جائیں۔ یاد رہے کہ یہ کام سابق گورنر ملک رفیق رجوانہ نے بھی کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم اس بار یہ لگتا ہے کہ کام ہو جائے گا کیونکہ تحریک انصاف اگر علیحدہ صوبہ کے مطالبہ سے کنارہ کش ہونا چاہتی ہے تو اسے ایک طرف بہت زیادہ متبادل وسائل دینا پڑیں گے۔ دوسری طرف عوام کو گڈ گورننس کا احساس دلانے کے لئے جنوبی پنجاب کو اختیارات بھی دینا ہوں گے۔ ابھی تک حکومت سازی کے جو مراحل مکمل ہوئے ہیں ان کے حوالے سے جنوبی پنجاب میں بہت تحفظات پائے جاتے ہیں مثلاً وزارتوں کی تقسیم کے سلسلہ میں تحریک انصاف کے وہ ارکان اسمبلی جو پارٹی کے ساتھ برس ہا برس سے وابستہ ہیں نظر انداز کر دیئے گئے اور زیادہ تر ان لوگوں کو نمائندگی دی گئی جو کچھ عرصہ پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے حتیٰ کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے بھی ایک ایسے رکن کا انتخاب کیا گیا جو انتخابات سے صرف تین ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا۔ ملتان میں اس حوالے سے خاصی مایوسی پائی جاتی ہے کہ 9 صوبائی اسمبلی اور 6 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والے شہر کو صرف ایک وفاقی وزارت دی گئی ہے ۔ صوبائی کابینہ میں 23 وزراء لینے کے باوجود ایک وزیر بھی ملتان سے نہیں لیا گیا۔ بعض لوگوں کا وہی پرانا تھیسز ہے کہ اس کی وجہ بھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان جاری کشیدگی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ملتان کو صوبائی کابینہ میں دو وزارتیں دینے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن آخر وقت پر اسے تبدیل کیا گیا کیونکہ جہانگیر ترین بیرون ملک تھے اور وزیراعظم عمران خان کی یہ خواہش تھی کہ جن ایم پی ایز کو وزیر بنانا ہیں ان کے نام جہانگیر ترین دیں ۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ کابینہ کا اعلان کرنے سے پہلے جن لوگوں کو عمران خان سے ملوانے کے لئے بنی گالہ آنے کا کہا گیا ان میں ملتان کے شیخ سلمان نعیم بھی شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ان کا نام نہیں تھا ۔ رحیم یار خان سے دو بھائیوں کو وفاقی اور صوبائی کابینہ میں شامل کرنے سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف بعض مخصوص خاندانوں کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں یہ کہنا کہ جنوبی پنجاب کے عوام تحریک انصاف کی حکومت سے مطمئن ہو جائیں گے۔ زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتا ‘ اس کے لئے وزیراعظم عمران خان کو دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنے ہونگے۔ جنوبی پنجاب کو صرف وزارت اعلیٰ دے کر مطمئن نہیں کیا جا سکتا تاوقتکہ وزیراعلیٰ کو مکمل اختیار نہ دیئے جائیں اور این ایف سی ایوارڈ کے مطابق جنوبی پنجاب کو آبادی کے لحاظ سے اس کا مکمل حصہ نہ دیا جائے۔