پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے صدر مملکت منتخب ہونے کے بعد اقتدار کا ایک اور مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے لئے شہباز شریف کو ووٹ نہ دے کر جس تقسیم کا آغاز کیا تھا صدارتی انتخاب میں وہ مضبوط ہوکر سامنے آئی ہے، اپوزیشن کی تقسیم ہی پی ٹی آئی کی حکومت کی کامیابی کا نقطہ آغاز ہے، اپوزیشن اس طرح تقسیم رہے گی تو پی ٹی آئی کی حکومت کو خواہش کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینے اور ’’ تبدیلی‘‘ کو یقینی بنانے کا موقع ملے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) بظاہر تو جمہوری عمل میں شریک ہوچکی ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کے بیانیے کو بھول چکی ہے ضمنی انتخابات میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہوچکا ہے، قومی ادارے نئی منتخب قیادت کا بھرپور انداز میں ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ جی ایچ کیو کے دوران آٹھ گھنٹے کی طویل بریفنگ بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عسکری حکام نے نو منتخب وزیراعظم کو اعتماد میں لیا ہے ۔پاکستان کی معاشی حالت نئی حکومت کے لئے بہتر ہونا ضروری ہے ،اپنی طویل ترین انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نوجوانوں سے بڑے وعدے کرتے رہے ہیں انہیں ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں۔ خلفائے راشدین کا تذکرہ کرتے رہے ہیں سب وعدوں کی تکمیل میں پیسہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ عمران خان اپنی کابینہ میں توسیع کرنے پر بھی مجبور ہونگے حالانکہ ان کی ابتدائی خواہش تھی کہ وفاقی کابینہ بھی محدود ہونی چاہیے۔ غیرضروری اخراجات سے گریز کیا جائے اور ان پیسوں کو دفاعی اور فلاحی منصوبوں پر خرچ کیاجائے ، امریکہ دہشت گردی کے خلاف خرچ ہونے والی تیس کروڑ ڈالر کی رقم پاکستان کو دینے سے انکار کی پالیسی پر عمل پیرا ہے بھارت کی طرف سے بھی عمران خان کی کوششوں کا مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔ نو منتخب وزیراعظم کرپشن کے خاتمہ اور میرٹ کو ترجیحات قرار دے کر بلدیاتی نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اس ضمن میں ایک کمیٹی کے قیام کی بھی باز گشت سننے میں آرہی ہے کہ یہ کمیٹی نئے بلدیاتی نظام کے لئے سفارشات ایک ماہ میں مرتب کرے گی۔ پولیس اصلاحات کیلئے بھی سابق آئی جی کے پی کے ناصر خان درانی کی سربراہی میں کام شروع کردیا گیا ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محدود مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو کام کرنے کے بھرپور مواقع میسر ہیں، عدلیہ ،انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے مگر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے بغیر کسی خواہش کوعملی شکل نہیں دی جاسکتی۔ وزیر اعظم نے کارکردگی کے حوالے سے تین ماہ کی مہلت مانگی ہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ تین ماہ میں صرف پالیسیاں ہی بنیں گی نئی حکومت کو عوام نے پانچ برس دئیے ہیںوہ ان پانچ برسوں میں ’’تبدیلی‘‘ کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگئی تو بڑے بات ہوگی۔ پاکستان میں کئی ایسی قوتیں موجود ہیں جو قانون کی حکمرانی میں آڑے آجاتی ہیں، پولیس کو سدھارنے کا کام دنوں میں نہیں بلکہ سالوں میں مکمل ہوگا، محکمہ مال میںموجود خرابیوں کے قلع قمع کیلئےزیادہ بہترلوگوںکی ضرورت ہے کرپشن کا خاتمہ وزیراعظم کی اولین ترجیح ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بار بار کفایت شعاری ، کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کی بالادستی اپنی ترجیحات قرار دے رہے ہیں ، گڈ گورننس کیلئے پرعزم ہونا بھی اچھی بات ہے مگر 100 روزہ ایجنڈے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کاجائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے کرپشن صرف اوپر ہی نہیں نچلی سطح تک معاشرے میں رچ بس گئی ہے، یونین کونسل کی سطح پر خرابیاں جنم لے چکی ہیں کسی شہری کو مال لگائے بغیر پولیس کے ایف آئی اے اور پٹواری سے فرد نہیں ملتی۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ پٹواریوں کی سر پرستی کرتے ہیں ان خرابیوں کو ختم کرنا ہی تبدیلی کہلائے گا ورگرنہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ گواہ ہے کر حکمران صرف نعرے لگا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور عوام کوکچھ دئیے بغیر ہی چلے جاتے ہیں عوام غریب سے غریب تر اور حکمران خوشحال سے خوشحال تر ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی جس کا اقتدار دیگر کئی قوتوں کو پسند نہیں آیا اور قومی انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیاں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کی شکل اختیار کر گئیں جو پاکستان میں جمہوری عمل کے خاتمہ اور گیارہ سالہ آمریت کی شکل میں مسلط رہیں اسی دوران منتخب وزیراعظم کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے کر لاڑکانہ میں سپرد خاک کردیا گیا،جمہوریت کے خلاف جنگ 17 اگست 1988 کو صدر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہونے کے بعد پاکستان میں دوبارہ جمہوری عمل شروع ہوا ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہوا جو 1999 میں ایک بار پھر جمہوریت کو پابند ِسلاسل کرنے پر اختتام پذیر ہوا ، منتخب وزیر اعظم نوازشریف کوجبری جلا وطن کردیا گیا۔ پاکستان میں جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کے اس سارے عمل کے دوران پاکستان میں صرف دوہی طبقات رہ گئے جن میں ایک غریب تر اور دوسرا خوشحال، متوسط طبقہ ختم ہوگیا۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بڑی تعداد غریبوں میں شامل ہوگئے اور دو تہائی کرپشن کے بل بوتے پر خوشحال طبقے کا حصہ بن گئے۔ وطن عزیز 95 ارب روپے کے غیرملکی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جبکہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجے گئے ۔کھربوں روپے غیر ملکی بنکوں او ر بیرون ملک سرمایہ کاری کی شکل میںموجود ہیں۔ پاکستان کے ریٹائرڈ جرنیل، ججز، حکمران طبقہ پاکستان میں نہیں بلکہ بیرون ملک عیاشی میں مصروف ہے۔ منتخب وزیراعظم عمران خان کفایت شعاری کے ساتھ ساتھ ملک سے لوٹی گئی دولت کووطن واپس لانے کے خواہاں ہیں مگر کیسے؟ منصوبہ بندی شروع ہوچکی ہے سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اورداماد کیپٹن (ر) صفد ر ایوان فیلڈ ریفرنس میں قیدو جرمانہ کی سزا کے بعد اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہیں ان کے دونوں بیٹے لندن میں اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کے علاج میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔احتساب عدالت دونوں بھائیوں کو مفرور قرار دیتے ہوئے انٹرپول کو ان کی گرفتاری کی درخواست کرچکی ہے۔اڈیالہ جیل میں مقید نواز شریف کے بھائی سابق وزیراعلیٰ پنجاب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور ان کا صاحبزادہ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوچکے ہیں۔ پنجاب، کے پی کے میں پی ٹی آئی بھرپور انداز میں اقتدار حاصل کرچکی ہے اور’’ تبدیلی‘‘ کے لئے انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں بلوچستان میں بھی شریک اقتدار ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل موجود ہے جہاں پی ٹی آئی اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نو منتخب حکومت کا پہلا ہدف کرپشن کے خلاف گرینڈ آپریشن ہے شریف خاندان اس کا پہلا نشانہ ہوگا جس کے بعد شاید دوسروں کی بھی باری آجائے گی کرپشن کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیابی میں ’’ تبدیلی‘‘ ثابت ہوگی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ سابق دور میں شروع کئے گئے منصوبوں کو ترک کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی تو یہ قومی خزانے کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ وزیراعظم اگر صوابدیدی اختیارات کے تحت حاصل فضول خرچی پرقابو پانے میں کامیاب ہوگئے تو عوام نہ صرف خوش بلکہ خوشحال بھی ہوجائیں گے۔ وطن عزیز میں غریبوںکے لئے بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت چار کھرب روپے سالانہ تقسیم کئے جاتے ہیںمگر پاکستان کے تمام بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں آج بھی شاہراہوں پر بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد قانون کا منہ چڑاتے نظر آتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2018کے انتخابات میں تین سیاسی جماعتوں کو ہی اقتدار ملا ہے۔ پی ٹی آئی دو صوبوں اور وفاق میں بھرپور اقتدار کے مزے لے سکتی ہے تاہم سینٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اسے بھرپور اپوزیشن ملے گی۔الزام لگایا جارہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ابھی تک اپوزیشن کو کمزور کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اپوزیشن جماعتیں اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق وزیر مملکت آصف علی زرداری الزامات کی زد میں ہیں اور وہ اپوزیشن کی قوت میں اضافہ کرکے’’ سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ نہ بننے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔