ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہُو مجھ کو رُلاتی ہے، جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھُونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں
کہ پایا مَیں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے، جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے، خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن ،قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر ،پہاڑوں کی چٹانوں میں
جوانوں کو مری، آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا، آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے