• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد حمید شاہد

ٹیلی وژن کی ا سکرین جگمگا رہی تھی،اور ایک نغمہ گونج رہاتھا:

’’ہم زندہ قوم ہیں۔۔۔پائندہ قوم ہیں‘‘

میں خوش ہو رہا تھا اور سردھن رہا تھا۔

ایک صاحب‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے گوشہ ء چشم سے ا سکرین سے اُمنڈتی روشنیوں کو جھانک رہے تھے، یک دَم بھڑک اُٹھے اور لگ بھگ چیخ کر کہا:

’’خاک۔۔۔خ۔۔۔خ۔۔۔خاااااااک‘‘

میں چونکا۔ اِدھر اُدھر بیٹھے لوگوں کی بھی کنوتیاں کھڑی ہو گئیں۔

شعلہ بنا شخص ابھی ابھی تو دَم سادھے بیٹھا تھا، روز کے معمول کی طرح اُسی کونے میں، جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا،چپ چاپ‘ یوں جیسے مردم بیزار ہو اور کبھی نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو، کبھی بولنا پڑتا تھا تو بھی یوں سرگوشی میں کہ بات کی سرسراہٹ ہی دوسرے کے کان تک پہنچ پاتی تھی۔

مگر۔۔۔۔۔

اب جو بھڑک اُٹھا تھا تو جیسے جلتی پر تیل کا کنستر اُلٹ گیا تھا۔ وہ کھڑا تھا۔ اُس کی بھنچی ہوئی مٹھیاں ہوا میں لہرا رہی تھیں، نتھنے پھڑ پھڑا رہے تھے۔ وہ بول رہا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ بہے چلی جاتی تھی۔۔۔

’’زندہ قوم۔۔۔؟‘‘

’’ایسی ہوتی ہے زندہ قوم؟‘‘

’’چوروں‘ لٹیروں اور ڈاکوئوں کو کھل کھیلنے کی سند دینے والی زندہ قوم!‘‘

’’قومی اداروں کا ناس مار کر رکھ دینے والوں کو نجات دہندہ سمجھنے والی زندہ قوم!‘‘

’’مسلسل ٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی مگر توڑنے والوں اور بکھیرنے والوں کے احتساب کو ناممکن بنا دینے والی زندہ قوم!‘‘

’’غیر ملکی قرضوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی زندہ قوم!‘‘

’’لیڈروں‘ حکمرانوں، رہنمائوں، اعلانیہ اور غیر علانیہ آمروں کی عیاشیوں کے لئے خام مال بنی ہوئی زندہ قوم!‘‘

’’انصاف کو ڈرامہ اور جمہوریت کو تماشا بنادینے اور انسانوں کے بنیادی حقوق کو طاقت ور کے استحصالی جوتوں کی نوک پر رکھ دینے والی زندہ قوم!‘‘

’’صوبائی‘ لسانی‘ گروہی‘ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی ڈسی ہوئی زندہ قوم‘‘

’’ مہنگائی‘ ناانصافی‘ بدانتظامی‘ تذلیل اور بے حیائی کے ریلے کی زد میں آئی ہوئی زندہ قوم‘‘

’’ماضی قریب سے نادم‘ لمحہ حال سے شاکی اور مستقبل سے مایوس زندہ قوم!‘‘

’’غیر جمہوری‘ غیر مہذب اور ناکام ریاست کے منتشر افراد کہلانے والی زندہ قوم!‘‘

’’کشکول اٹھائے آج کی ضرورتوں اور عیاشیوں پرکل کو رہن رکھنے والی زندہ قوم!‘‘

دہ مکے فضا میں برسا برسا کر اور گلا پھلا پھلا کر بولے ہی چلا جا رہا تھا جیسے اس کے اندر ایک ایک جملہ ترتیب سے رکھا تھا یوں‘ کہ اب دوسرے جملے کو راہ دے کر اپنی باری پر برآمد ہو رہا تھا۔ وہ جملے نہ تھے پستول کے میگزین میں ترتیب سے بھری ہوئی گولیاں تھیں ۔۔۔ تڑ‘ تاڑتاڑ۔۔۔

میں مسلسل اس کی شرٹ کو پکڑے کھینچ کر بیٹھنے کو کہہ رہا تھا مگر وہ دھیان ہی نہ دے رہا تھا۔ میں اُٹھا،دونوں ہاتھ اُس کے کاندھے پر رکھ کر سارے بدن کا بوجھ اُن پر ڈال دیا اور اتنی ہی آواز سے چیخ کر کہا جتنی میں وہ چیخ رہا تھا۔

’’پروپیگنڈہ ہے یہ سب پروپیگنڈہ‘‘

اس نے میری طرف پہلی بار غور سے دیکھا‘ اور دھڑام سے اپنی نشست پر یوں بیٹھا کہ کرسی چر چرانے لگی‘ اس کے دونوں گھٹنے سامنے پڑی میز سے ٹکرائے اور چائے کی پیالیاں اچھل کر لڑھکنے لگیں۔۔۔اس کی آواز قدرے دھیمی پڑ گئی۔۔۔میرے کہے کو دہرانے لگا۔۔۔

’’پروپیگنڈہ ہے۔۔۔ ہونہہ سب پروپیگنڈہ‘‘

’’غیروں کابھی اور ہمارے اندر کے ناسمجھ اپنوں کا بھی جو غیروں کی زبان بولتے ہیں‘‘۔۔۔

میں نے کہا اوراضافہ کیا:’’ ورنہ جھوٹ ہے سب‘‘

اس نے اپنی آنکھیں پہلو بدل کر میرے چہرے پر گاڑ دیں اور مجھے یوں تکنے لگا جیسے اس کی تیز نظریں میرے بھیجے کو اڑا کر پار ہو جائیں گی ۔

میری زبان لڑکھڑا گئی: ’’شاید سارا جھوٹ نہ ہو۔۔۔مگرسارا سچ بھی تو نہیںہے‘‘

لڑکھڑاتی زبان سنبھل گئی۔۔۔نغمے کے بول آخری بار دہرائے جا رہے تھے ،جو ہماری چخ چخ میں دب رہے تھے۔

’’ہم زندہ قوم ہیں۔۔۔پائندہ قوم ہیں۔۔۔‘‘

’’دیکھو قوم اور بھیڑ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘‘۔۔۔اُس کی شہادت کی اُنگلی میرے کندھے کو کاٹ رہی تھی۔

’’قوم منظم ہوتی ہے۔۔۔ایک‘‘ اُس کی انگلی اب اُوپر فلک کو اُٹھ رہی تھی اور۔۔۔اور۔۔۔بات آگے بڑھانے سے پہلے ہی اس کی ساری انگلیاں پھیل کر ہوا میں بھٹکنے لگیں۔۔۔

’’اور۔۔۔بھیڑ میں جس کا منہ جدھر ہوتا ہے وہ ادھر ہی کو بھاگے چلا جاتا ہے، دوسروں کو روندتا ہوا‘ کچلتا ہوا‘ لتاڑتا ہوا۔۔۔‘‘

اب وہ لفظ چبا چبا کر نکال رہا تھا۔۔۔اس نے اچانک ایک سوال میری سمت اُچھالا۔۔۔

’’بتائو کیا زندہ قومیں برضارغبت مسلسل ذلت کی کھائی میں گرے چلی جاتی ہیں؟۔۔۔آہ‘‘

اس نےلمبا سانس لے کر،لگ بھگ اتنی ہی ہوا اپنے پھیپھڑوں میں بھر کر میری طرف دیکھا اور میرے جواب کا انتظارکیے بغیر اپنے اپنے آپ سے کہنے لگا:

’’حیف کہ ہم من حیث القوم تحت الثٰری میں گرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور حیرت ہے نیچے گرے جاتے ہیں‘ نیچے اور نیچے۔۔۔اور رقص بھی کئے جاتے ہیں‘ گائے جاتے ہیں۔‘‘

ٹیلی ویژن پر پروگرام بدل چکا تھا۔ ایک مقبول نغمہ ایک نوجوان تھرک تھرک کر گا رہا تھا۔

’’کنے کنے جاناں بلو دے گھر۔۔۔

لائن بنائو نالے ٹکٹ کٹائو۔۔۔؟‘‘

وہ بڑ بڑایا۔۔۔’’لائن بنانے کی فرصت کہاں۔ ‘‘

میں چپ رہا۔۔۔مناسب یہی تھا کہ چپ ہی رہوں۔۔۔ممکن تھا یوں وہ خود ہی بک جھک کر خاموش ہو جاتا مگر اس نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کھڑی کی اور پھر آہستہ آہستہ یوں میری چھاتی کی طرف موڑنے لگا جیسے نشانہ باندھ رہا ہو۔۔۔یکدم اس کے ہونٹ تھرائے اور باہم یوں ٹکرائے کہ پورے ہال میں ان کا زپاٹا گونج گیا‘ پھر وہ زچ بچ بولے چلا گیا

بلو کا گھر۔۔۔ نیچے بہت نیچے۔۔۔ لائن بنائو۔۔۔ نہیں بھاگو۔۔۔روندو۔۔۔ کچلو۔۔۔ جسے کل گالی دی۔۔۔ اسے گلے لگائو۔۔۔۔ جو ساتھ تھااسے غدار کہو۔۔۔ سب کے گلے میں غلامی کا پٹا دالو۔۔۔۔ جو بولے اسے گم کردو‘‘

اس کے گلے میں خراش ہونے لگی۔ پھنس پھنس کر آمد ہونے والے لفظ گم ہونے لگے ۔حتی کہ اس کا پورا بدن بارش اور طوفان کی زد میں آئی کشتی کے بادبان کی طرح لرزنے لگا۔ آنکھیں بھیگنے لگیں اور مجھے یوں لگنے لگا کہ جو وہ کہہ رہا تھا یا پھر نہیں کہہ پا رہا تھا اس کا لفظ لفظ میرے دل کے بیچ گر رہا تھا۔۔۔

اس واقعے کو کئی دن بیت گئے ہیں،مگر وہ شخص جو بظاہر معزز تھا اور اندر سے گولی کی طرح بارود سے بھرا ہوا تھا، اب بھی میری یادداشت کے گوشے سے عین اس وقت اٹھ کر منہ سے جھاگ پھین جھاڑنے لگتا ہے جب بھی میں اکیلا ہوتا ہوں۔۔۔

میں اسے انتہائی باحوصلہ‘ مہذب اور دانشمند کے طورپر جانتا رہا ہوں۔ سفید پوش ہے، اپنے وسائل کے بیچ گزر بسر کرنے والا۔ ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرنے والا اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھنے والا۔۔۔

میں جانتا ہوں کہ اس کی بچیاں اور بچے ابھی سکولوں میں ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ ابھی اس پر نہیں پڑا۔۔۔ تاہم بچوں کی یونیفارم، کتابیں‘ کاپیاں‘ بسوں کے کرائے‘ فیس اور دوسرے لوازمات کے لئے اسے اپنی تنخواہ سے اچھی خاصی رقم الگ کر دینی ہوتی ہے۔ اس کے پاس موٹر سائیکل ہے، گاڑی نہیں، لہٰذا پیٹرول کا خرچ کم ہی ہے، تاہم روز روز بڑھتی پیٹرول کی قیمت پھر بھی اس کے بجٹ کو متاثر ضرور کرتی ہے۔ وہ اکثر بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون وغیرہ کے بلوں کی شکایت کرتا رہتا ہے، مہنگائی سے شکوہ بھی اس کے لبوں پر رہتا ہے، بیوی کی بیماری اور اس کے لئے دوائوں کا حصول بھی اس کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ انکم ٹیکس اور دوسرے ایڈوانسز کی کٹوتیاں بھی اسے کھٹکتی ہیں۔ وہ اکثر چیلنج کیا کرتا ہے کہ اس کے کنبے جیسے مختصر خاندان والے سرکاری ملازم کی گزر بسر کا بجٹ موجودہ تنخواہ سے کوئی بھی ماہر اقتصادیات بنا دے تو وہ ملازمت ہی سے مستعفی ہو جائے گا۔یہ سب کچھ وہ یوں بتا تا رہا ہے جیسے اسے بس معمولی سے رنجش ہو ،کبھی ہنستے ہوئے ،کبھی یونہی کندھے اچکا کر، مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس کا دماغ پوری طرح الٹ گیا تھا۔

میں نے اسے دیکھا تھا اور حیران ہوا تھا

حیران ہوا تھا اور اسے دیکھتا چلا گیا تھا۔

بہت پہلے پشکن کا ایک جملہ پڑھا تھا ’’لفظ بھرے ہوئے پستول ہوتے ہیں‘‘

اس جملے کے اصل معنی سمجھ نہ آئے تھے۔

مگر اب جب کہ یہ شخص مجھے اکیلا پا کر میری یادداشت کے پہلو سے اٹھ کر لفظوں کی بوچھاڑ کرنے لگتا ہے تو مجھے بہت پہلے پڑھا ہوا جملہ پوری طرح سمجھ آ جاتا ہے، اب تو وہ خود بھی مجھے گولی کی طرح لگنے لگا ہے تانبے کا اور بارود سے بھرا ہوا۔

ایسی گولی‘ جو کسی بھی پستول کی میگزین میں ڈالی جا سکتی ہے کہ، ایسی گولیاں ہمارے ہاں دہشت گردوں کے پستولوں میں بھری جاتی رہی ہیں۔

جہاں منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی کا یہ عالم ہو کہ وہ خشک سالی کو علی الاعلان سال بہ سال قدم اٹھا کر آتے دیکھیں مگر آنکھیں بند کر لیں، جہاں آئین محض کاغذ کا بے مصرف پلندہ ہو جائے اور طاقت ہتھیانے والے ادارے آئین سے اپنے آپ کو بالا تر سمجھنے لگیں۔ انصاف نہ بولتا ہو اور عام آدمی انصاف کے لیے ترستا ہوں، مگرانصاف کے نام پر ناٹک کرنے والوں کی زبانیں اگلے دن کے اخبارات کی سرخیاں بننے کی ہوس میں بولتی ہی چلی جاتی ہوں ۔۔۔جہاں ایک طبقہ تعلیم کے سارے وسائل ہتھیا لے، حتی کہ تعلیم کے بعد حسب منشا مناصب بھی اور دوسری طرف عین سوانیزے پر سورج ہو تو بھی درختوں کی چھدری چھائوں تلے ننگی زمین کے سوا ایک دونی‘ دونی‘ دو‘ دونی چار کرنے والے ہوں ۔۔۔جہاں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک یا پھر دھونس اور دھاندلی ہی قانون ہو جائے تو ایسے معاشرے میں بے وسیلہ لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو جایا کرتی ہے۔

نوجوان تعلیم پاکر بھی بے روز گار رہتے ہیں۔۔۔

اپنوں کے طعنے سنتے ہیں۔ وہ اپنی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں‘ جو برداشت نہ کر سکیں باغی ہو جاتے ہیں اور اندھیرے میں اسی ظالم سماج سے اپنا حصہ بزور حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔

جس قوم کا پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض ہو

آگے سمندر ہو اور پیچھے دیوار

ایسی قوم کے ہر بے وسیلہ شخص کے مقدر میں گولی بننا لکھ دیا جاتا ہے ۔مجھے خدشہ ہے وہ تانبے کے بدن والا ایک شخص نہیں ہے ادھر ادھر اور بھی ہیں جن میں بارود بھرا ہو اہے۔

گولی جیسے لوگ۔۔۔

جو کسی بھی پستول کی میگزین میں بھرے جا سکتے ہیں۔۔۔

مذہبی شدت پسندی۔۔۔نسلی تفاوت۔۔۔علاقائی تعصب۔۔۔لسانی جکڑ بندی۔۔۔صوبہ پرستی۔۔۔ فرقہ واریت۔۔۔غرض کسی بھی پستول کی میگزین میں۔۔۔اور پھر جیسے جو چاہیے جب چاہے تاڑ‘ تڑ‘ تڑ‘ تاڑ چلالے ۔میں بے وسیلہ لوگوں کے چہروں کی سمت دیکھتا ہوں تو مجھے جان اگارڈ(John Agard) کی وہ نظم یاد آ جاتی ہے جو بہت پہلے عباس رضوی کی وساطت سے مجھ تک پہنچی تھی۔۔۔نظم کا عنوان ہے ’’بندوق کی گولی کی جانب سے ایک سوال۔۔۔نظم پڑھیں اور اس کی آخری سطر کو ہم اپنے آپ سے کیا گیا ایک سوال جانیں۔

’’میں بندوق کی گولی نہیں رہتا چاہتا

میں بہت عرصے سے بندوق کی گولی ہوں

میں ایک معصوم سکہ بننا چاہتا ہوں

جو ایک بچے کے ہاتھ میں ہو

اور جسے ایک ببل گم مشین میں ڈال دیا جائے

۔۔۔میں بندوق کی گولی رہنا نہیں چاہتا

میں بہت عرصے سے بندوق کی گولی ہوں

میں ایک نیک شگون والا بیج بننا چاہتا ہوں

جو کسی کی جیب میں بیکار پڑا رہے

یا کوئی معمولی سا پتھر

جسے کسی کان کے بندے میں لگنا ہو

یا بہت سارے پتھروں کے درمیان

بے شناخت پڑا رہے

۔۔۔میں بندوق کی گولی رہنا نہیں چاہتا

میں بہت زیادہ عرصے سے بندوق کی گولی ہوں

سوال یہ ہے کہ

کیا تم قاتل ہو ناترک کرسکتے ہو؟۔۔۔

تازہ ترین