آرٹ کسی خاص طبقے کی میراث نہیں ہے، قدرت جسے چاہتی ہے، فن کی دولت سے مالا مال کردیتی ہے۔ بڑے فن کار کی اولاد ہونے کے جہاں بے حد فوائد نظر آتے ہیں، وہیں بے شمار نقصانات کو بھی نظر انداز کرنا نہایت مشکل ہے۔ فلم انڈسٹری میں نام ور اداکاروں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی فلموں میں متعارف کروایا، کچھ کو غیر معمولی کام یابی حاصل ہوئی اور کچھ ابھی تک شہرت اور مقبولیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستانی فلموں کے نامور اداکار ندیم، غلام محی الدین، مصطفیٰ قریشی، کمال، جاوید شیخ، آصف خان اور سلطان راہی وغیرہ نے اپنے بیٹوں کو فلموں میں متعارف کروایا۔ پاکستانی فلموں میں سب سے زیادہ ٹائٹل رول کرنے والے ممتاز اداکار سلطان راہی مرحوم کے صاحب زادے حیدر سلطان اپنے والد کا نام فن کی دُنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اورپنجابی فلموں میں سرگرمی سے کام کررہے ہیں۔ ان دِنوں وہ بہ یک وقت پانچ فلموں کی شوٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔وہ پنجابی فلموں کی بحالی کے لیے کام کرہے ہیں۔ انہوں نے تقریباً تین درجن فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ساتھ میں کئی ٹیلی ویژن ڈراموں اور ٹیلی فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ فنی کیریئر کا آغاز اپنے والد سلطان راہی کے ساتھ کم عمری میں ہی کردیا تھا۔ حیدر سلطان کی قابلِ ذکر فلموں میں ببرا، سَوداگر، خزانہ، نوسرباز، باغی شہزادے، ایکٹر، دنیا میری جیب میں، مہلت، مرشد بادشاہ، سہاگ دی چوڑیاں اور جواریا وغیرہ شامل ہیں۔ کئی فلموں میں انہوں نے یادگار رول کیے۔ اگرچے انہوں نے ابتداء میں فلمیں زیادہ کیں، لیکن بعد میں وہ ٹیلی ڈراموں کی جانب آگئے۔ ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات کے ڈرامے ’’شک‘‘ میں عمدہ پرفارمنس دی اور ٹی وی پر اپنی پہچان بنائی۔ ان کے دیگر ٹیلی ویژن ڈراموں میں جستجو، میرون، ہاں اسی موڑ پر، پہلا پیاراور آگ وغیرہ شامل ہیں۔ حیدر سلطان نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ امریکا میں گزارا اور وہیں سے فلم میکنگ اور ڈائریکشن میں تربیت حاصل کی۔ وہ مستقل طور پر کراچی میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
گزشتہ دِنوں وہ شوٹننگ کے سلسلے میں کراچی آئے تو ہم نے ان سے ملاقات کی۔ہمارے سوالات اور ان کے جوابات نذر قارئین ہیں۔کراچی فلم انڈسٹری کا مرکز بن گیا ہے، ایک زمانے میں لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ پاکستان میں کراچی بالی وڈ کا درجہ حاصل کرتا جارہا ہے۔اس لیے میں بھی کراچی میں بڑے بجٹ کی فلم بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہوں۔سب سے پہلے اپنے والد سلطان راہی کی زندگی پر فلم بنانے کا ارادہ ہے۔ ان کی زندگی کے کئی روپ ہیں۔وہ عظیم اداکار ہونے کے ساتھ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ان کی زندگی پر بننے والی فلم یاد گار ثابت ہوگی ۔اس سلسلے میں، میں نے کراچی کے معروف پروڈیوسرز، فن کاروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ راہی صاحب نے ان گنت فلموں میں یاد گار کردار ادا کیے۔ ان کی سب سے یاد گار فلم ’’مولا جٹ‘‘ ثابت ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ’’مولا جٹ‘‘ جیسی فلم دوبارہ اب تک کوئی نہیں بنا سکا، اس سلسلے میں بھارت میں بھی کوششیں کی گئیں، لیکن ان کو بھی کام یابی نہیں ملی۔‘‘ 1996ء میں سلطان راہی کے قتل کے بعد آپ نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کیا کوششیں کیں؟ وہ بہت افسوس ناک واقعہ تھا، ہماری پُوری فیملی سخت مشکلات اور غم میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں کئی اعلیٰ افسران ہمارے گھر آئے اور انہوں نے ہمیں حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم راہی صاحب کے قاتلوں تک ضرور پہنچیں گے۔ آج کئی برس گزر گئے۔ اب عمران خان، حکومت میں آگئے ہیں، ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ اقدامات کریں اور راہی صاحب کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں۔‘‘ آپ نے سلطان راہی کے ساتھ کتنی فلموں میں کام کیا؟ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا، جب ظہور حسین گیلانی نے مجھے راہی صاحب کے ساتھ فلم ’’ببرا‘‘ میں پہلی بار کاسٹ کیا۔ وہ میری پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں میری ہیروئن صاحبہ تھیں۔ فلم میں ہم باپ بیٹے کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔ اس کے بعد تقریباً پانچ فلموں میں اُن کے ساتھ کام کیا۔‘‘
فلموں میں آپ کی جوڑی کس اداکارہ کے ساتھ مقبول ہوئی؟ میں نے ابتداء میں پانچ چھ فلمیں اداکارہ صاحبہ کے ساتھ کیں۔ فلم سوداگر، ببرا، خزانہ وغیرہ، ان فلموں میں صاحبہ میری ہیروئن تھیں۔ ہماری جوڑی کو فلمی شائقین نے بے حد پسند کیا۔ بعدازاں اُن کی شادی افضل خان کے ساتھ ہوگئی۔میں نے فلم کے بڑے ڈائریکٹر اور اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ محسن حسن خان، ندیم، عمر شریف، مصطفیٰ قریشی و دیگر نے مجھے ہمیشہ پیار دیا۔ ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میرے بارے میں مشہور کردیا گیا کہ میں فلم انڈسٹری کو بُرے وقت میں چھوڑ کر امریکا چلا گیا تھا۔ میں کہیں نہیں گیا۔ امریکا میں میری فیملی رہتی ہے۔ اس لیے آنا جانا رہتا ہے۔ میں اب مکمل طور پر پاکستان ہی میں رہتا ہوں۔‘‘
آپ کے والد صاحب فلموں کی شوٹننگ میں اتنے مصروف رہتے تھے۔ بچوں کو کتنا وقت دیتے تھے؟میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے بچے سوئے سوئے بڑے ہوگئے۔ وہ اتنے مصروف رہتے تھے کہ 20گھنٹے تک کام کرتے تھے، جب وہ شوٹنگ کے لیے گھر سے صبح نکلتے تھے، تو ہم سوئے ہوئے ہوتے تھے اور جب ان کی واپسی رات گئے ہوتی تھی، تب بھی ہم سب بہن بھائی سوئے ہوئے نظر آتے تھے۔ وہ بہت اچھے انسان اور منجھے ہوئے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شوہر اور بچوں کے شفیق باپ بھی تھے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ تین بھائی اور دو بہنیں، میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔ تمام بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئی ہیں اور وہ سب بیرون ملک رہتے ہیں۔‘‘ کیا وجہ ہے کہ راہی صاحب نے صرف حیدر کو ہی شوبزنس میں آنے کی اجازت دی؟ میں گھر میں سب سے چھوٹا اور ان کا بہت لاڈلا تھا۔ اس لیے انہوں نے مجھے فلموں میں کام کرنے سے منع نہیں کیا۔ ویسےدوسرے بہن بھائیوں کو شوبزنس میں زیادہ دل چسپی بھی نہیں تھی۔‘‘ پنجابی فلموں میں ’’گنڈاسے‘‘ پر بہت تنقید کی جاتی ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ میرے والد نے فلموں میں ’’گنڈاسے‘‘ کو نفرت، برائی اور ناانصافی کے خلاف استعمال کیا۔ ان کی ہر فلم کے آخر میں ایک اہم پیغام ہوتا تھا۔ وہ فلموں میں پاکستان کے عام آدمی کی آواز بن کر اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے تقریباً چھ سو فلموں میں ٹائٹل رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے جو بھی کردار کیا، اس میں حَقیقت کا رَنگ بھرنے کی کوشش کی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ فلم کے پروڈیوسر کے پاس بجٹ ختم ہوجاتا تھا،جس کی وجہ سے فلم کی شوٹنگ روک دی جاتی تھی، تو راہی صاحب اپنی جیب سے پروڈیوسر کی مدد کرتے اور کہتے کہ فلم نہیں رکنی چاہیے۔ اس سے سینکڑوں خاندان جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ آپ نے اپنے والد کے ساتھ فلموں میں کام کیا، کوئی یادگار واقعہ؟ ویسے تو میرے لیے تمام فلمیں اور اُن سے جُڑی یادیں قیمتی سرمایہ ہیں۔ فلم ’’دنیا میری جیب میں‘‘ کی شوٹنگ کے دوران فلم کے ایک سین میں مجھے راہی صاحب کا مرڈر کرنا ہوتا ہے۔ یہ سین کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ تین چار مرتبہ ’’ری ٹیک‘‘ کرنے کے بعد والد صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور پھر سمجھایا کہ بیٹا یہ فلم کا سین ہے اور تمہیں کریکٹر کو قتل کرنا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کے بعد بڑی مشکلوں سے وہ سین فلم بند ہوا۔‘‘ اداکاری میں آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ ویسے تو میں راہی صاحب کی اداکاری کا دیوانہ ہوں اور فخر کرتا ہوں کہ میں اتنے بڑے اسٹار کا بیٹا ہوں،لیکن اداکاری کے میدان میں، میں اپنی علیحدہ شناخت بنانا چاہتا ہوں۔ لوگ مجھے میری اداکاری کی وجہ سے پہچانیں۔ والد کے انتقال کے بعد ڈائریکٹر اور پروڈیوسر مجھے سلطان راہی بنانا چاہتے ہیں۔ میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ میں تو ان کی خاک بھی نہیں ہوں۔ مجھے حیدر سلطان کے طور پر ہی فلموں میں پیش کریں، جب لوگ مجھے میرے اپنے نام سے پکارتے ہیں تو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘ آج کل پاکستان میں بہت معیاری فلمیں بننا شروع ہوگئی ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ فلمیں تو بن رہی ہیں اور ایک آدھی کام یاب بھی ہورہی ہے، لیکن ان فلموں میں ٹیلی ویژن ڈراموں کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔ فلموں میں کوئی اسکرین پلے نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں فلم انڈسٹری کا احیاء سینئر ڈائریکٹر ہی کریں گے۔ انہوں نے کئی برس تک فلم انڈسٹری کو کام یابی سے چلایا ہے۔ اب ان پر تھوڑا کڑا وقت ہے، وہ بھی گزر جائے گا۔
فلمیں تو بہت بن رہی ہیں، لیکن سینما گھروں تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔‘‘ فلم اور ٹیلی ویژن پر کام کرنے کے بعد زیادہ اہم کسے قرار دیتے ہیں؟ فلم میں کام کرنے کا نشہ ہی کچھ اور ہے، شائقین اپنا پیسا خرچ کر کے آتے ہیں اور فلم انجوائے کرتے ہیں۔ فلم کی کام یابی کا فیصلہ چند روز میں ہوجاتا ہے، جب کہ ٹیلی ویژن پر مجھے سیکھنے کا بہت موقع ملا۔ طارق جمیل اور یاور حیات نے میری بھرپور سرپرستی کی۔‘‘امریکا میں کسی پاکستانی ڈرامے میں کام کیا، وہاں پاکستانی ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگ ہوتی رہتی ہیں؟ فیصل بخاری کا ڈراما ’’پہلا پیار‘‘ امریکا میں شوٹ ہوا تھا۔ اس میں میرا لیڈنگ رول تھا ۔
امریکا کی لوکیشن بہت شان دار ہیں۔ اس لیے بھارت کے بڑے ڈائریکٹر بھی شوٹنگ کے لیے امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود پاکستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ ہمیں اپنے ڈراموں اور فلموں میں زیادہ سے زیادہ پاکستان کے دل کش نظاروں کو فلمانا چاہیے۔‘‘ اداکار کون سے پسند ہیں؟والد صاحب کے علاوہ بالی وڈ میں امیتابھ بچن اور دھرمیندر مجھے بے حد پسند ہیں۔‘‘ خود کو فٹ رکھنے کے لیے ایکسر سائز وغیرہ کرتے ہیں۔؟ میں ڈائٹنگ کا قائل نہیں ہوں۔ خُوب کھاتا ہوں اور پھر کئی گھنٹے ایکسرسائز کرتا ہوں۔ خود کو فٹ رکھنے کے لیے اس سے اچھا فارمولا کوئی نہیں۔ مجھے موسیقی سننے کا بھی بہت شوق ہے، فرصت کے لمحات میں نورجہاں،مہدی حسن، نصرت فتح علی خان کے گائے ہوئے گیت اور غزل توجہ اور دل چسپی سے سُنتا ہوں۔