خیبرپختونخوا میں صوبائی احتساب کمیشن کے قیام کا تجربہ ناکام ہوگیا اور چار سال میں ایک ارب سے زائد خرچ کرنے کے بعد تحریک انصاف حکومت نے کمیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ‘ احتساب کمیشن ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عمل میں آیا تھا لہٰذا اب اسمبلی کے ذریعے ہی قانون سازی کے بعد ادارہ تحلیل ہو سکے گا ‘ احتساب کمیشن میں مجموعی طور پر 150افسر و اہلکار تعینات ہیں جن میں سے 96کومستقل کیا گیا ہے لہٰذا ادارے کی تحلیل کے بعد مستقل و کنٹریکٹ ملازمین کیلئے کیا لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا انہیں فارغ کیا جائے گا یا دیگر اداروں میں کھپایا جائے گا اس حوالے سے تاحال صورتحال واضح نہیں ہو سکی‘ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے ادارے کی بندش کا فیصلہ درست تسلیم کیا جائے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ ادارہ بنانے کی ضرورت کیا تھی اور قومی احتساب بیورو کی موجودگی میں کسی نئے ادارے کی گنجائش نہیں تھی لیکن عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ نیب ناکام اور کمزور ادارہ ہے جو بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا لہٰذا ہم ایک مضبوط ادارہ قائم کریں گے جو بلا امتیاز سب کا احتساب کرے گا لیکن احتساب کمیشن 4سال میں اپنی کارکردگی بہتر کر سکا اور نہ ہی عمران خان کی امیدوں پر پورا اتر سکا ‘ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ‘ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے حکومت قائم کی اور صوبے میں کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کمیشن کے نام سے ادارہ قائم کیا تاہم احتساب کمیشن ابتداء سے ہی متنازعہ ہوگیا جب کمیشن نے تحریک انصاف کے ایک وزیر ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کیا جنہوں نے کمیشن پر جانبداری کا الزام عائد کیا اور انہوں نے کمیشن کو’’پرویز خٹک کمیشن ‘‘قرار دیا ‘ اپوزیشن جماعتوں اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے صوبائی احتساب کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں ‘ تحریک انصاف نے بلا سوچے سمجھے جلد بازی میں صوبائی احتساب کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ‘ جس کے باعث انہیں احتساب ایکٹ میں بعد ازاں ترامیم بھی کرنا پڑیں لیکن کمیشن پھر بھی چل نہ سکا‘ادارے نے چار سال میں ایک ارب 5کروڑ 60لاکھ روپے خرچ کئے جبکہ کرپٹ افراد سے ایک پائی بھی وصول نہ ہوئی ‘ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ادارے کو مالی سال 15-2014ءمیں ادارے کو 5کروڑ 78لاکھ 62ہزار روپے ‘ 16-2015ء میں 34کروڑ 83لاکھ 31ہزار روپے‘ 17-2016ء 30کروڑ 44ہزار روپے‘ 18-2017ء میں 34کروڑ 95لاکھ 50ہزار روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ‘ قومی احتساب بیورو نے احتساب کمیشن میں غیر قانونی بھرتیوں اور بے ضابطگیوں پر پہلے ہی انکوائری کا آغاز کر رکھا ہے جس میں ذمہ داروں کا تعین ہو گا‘ احتساب کمیشن کے پہلے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان نے صوبائی حکومت کی جانب سے احتساب ایکٹ 2014 ءمیں ترامیم کے باعث احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیاتھااور موقف اپنایا تھا کہ حکومت ادارے کو آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دے رہی دوسری جانب اسی ادارے کے سابق ڈائریکٹر انٹرنل مانیٹرنگ اینڈ پبلک کملینٹس ونگ بریگیڈئر (ر) طارق حسین نے یکم نومبر 2014ء سے یکم اپریل 2016ء تک ادارے میں میرٹ کے برعکس170افسروں و اہلکاروں کی بھرتیوں کےحوالے سے بھی رپورٹ مرتب کی اور قائمقام ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئر (ر) محمد سجاد کی تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا‘ ادارے کی ایک کمشنر سیدہ ثروت جہاں نے بھی احتساب کمیشن میں بے قاعدگیوںو بے ضابطگیوں پر احتجاج کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ تحریک انصاف کا بے اختیار صوبائی احتساب کمیشن آخری سانسیں لے رہا ہے ‘انہوں نے احتساب کمیشن کو ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل ’’سرجری‘‘ کا مطالبہ کیا تھا تاہم4سال تک چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک احتساب کمیشن کو مضبوط بنایا اور نہ ہی ختم کیا اور ‘ احتساب کمیشن کے اندر بے قاعدگیوں اور میرٹ کے برعکس بھرتیوں پر بھی خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی احتساب بیورو کو مزید مضبوط اور فعال کرکے ملک سے کرپشن‘ بدعنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔قومی احتساب بیورو خیبرپختونخوا کی پچھلے کئی سالوں سے کارکردگی دیگر صوبوں کی نسبت کئی گنا بہتر ہے ‘ بیورو اس وقت ڈی جی نیب فرمان اللہ کی سربراہی میں احتساب کمیشن ‘ مالم جبہ ‘ بلین ٹری سونامی‘ بی آر ٹی‘ ہیلی کاپٹر سیکنڈل ‘ معدنیات سکینڈل‘ یونیورسٹیز میں گھپلوں سمیت ہائی پروفائل کیسز کی انکوائریاں اور تفتیش کر رہا ہے جن میں تحریک انصاف کے بعض عہدیدار اور بیوروکریٹس سے تفتیش جاری ہے ۔