خضر حیات گوندل
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی حلف برداری اور پنجاب کابینہ میں توسیع کے بعد حکومت کی تبدیلی کا مشکل مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور اب پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بن چکی ہے لیکن اصل مسئلہ اب درپیش ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو جس ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے پر ووٹ ملے ہیں۔ وہ کب شروع ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جس سو روزہ پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ اب اس پر عملدرآمد کیلئے تیزی کے ساتھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے قانون سازی اور موجودہ قوانین میں ضروری ترامیم کے مراحل بھی درپیش ہوں گے۔ جو پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ اس کیلئے ضروری تیاری اور ارکان اسمبلی کے ساتھ رابطوں کی سخت ضرورت ہے۔ جو اس وقت تک انتہائی کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان اور ٹکٹ ہولڈرز انتہائی زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی کہیں نہ کہیں اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔مگر پی ٹی آئی کیلئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اپنے ساتھیوں کو مطمئن رکھنا پی ٹی آئی کیلئے ایک مشکل کام ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت نے بلدیاتی نظام میں تبدیلی پر کام شروع کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ نظام انتہائی مضبوط ہو گا اور بلدیاتی نمائندے ارکان اسمبلی سے زیادہ طاقتور ہوں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر یہ حقیقی تبدیلی ہو گی۔ تبدیلی کیلئے موجودہ نظام میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔عام شہریوں کو آپ کی بھاگ دوڑ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں اس بات سے دلچسپی ہے کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ آئوٹ آف سکول بچوں میں جو سوا کروڑ پنجاب میں ہیں۔ ان کو سکولوں میں لانے کیلئے کس طرح کے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ بغیر غیر ضروری پیچیدگیوں میں الجھے فوری طور پر 10لاکھ بچوں کو سکولوں میں لانے کے اقدمات کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت صحت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اقدام بغیر کسی ٹھوس وجہ کے تھا۔ جسے واپس لے کر دوبارہ سے ایک ہی محکمہ بنانے سے نہ صرف انتظامی اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ اس سے گورننس پر اچھا اثر پڑے گا۔ یہاں پر وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے حوالے سے بات کرنا ضروری ہے جو سابقہ کسی بھی دور میں اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی محکمہ صحت کے سارے مسائل اور قباحتوں سے باخبر ہیں اور ان کے حل کرنے کیلئے میدان میں نکل پڑیں ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کے قائد حزب اختلاف کے باقاعدہ نوٹیفکیشن کے اجراء میں تاخیر سے مسلم لیگ (ن) کو احتجاج کا ایک موقع مل سکتا تھا۔ مگر مسلم لیگ (ن) اس مسئلے پر کمزوری کا مظاہرہ کر گئی۔ اب پاکستان تحریک انصاف کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ آئندہ بلا وجہ حزب اختلاف کو صوبے میں احتجاج کا موقع نہ دے۔
پاکستان تحریک انصاف کو سابقہ حکومت کے دور 2008ء تا 2013ء اور پھر 2013ء سے 2018ء تک شروع کئے گئے منصوبوں اور پروگراموں کو حقیقی بنیادوں پر جانچنا ہوگا اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا اور ان پروگراموں میں حقیقی عوام پروگراموں کو چلتے رکھنا ہو گا اور دیگر کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہے۔ نئی حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ (ق) کو اس کے وجود سے زیادہ اہمیت صرف اس لئے حاصل ہو گئی ہے کہ چوہدری برادران نے اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ تعلقات کو بگڑنے نہیں دیا اور اس طرح سے وہ لوگ زیادہ فائدے میں رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا کردار بطور سپیکر انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا اور پاکستان تحریک انصاف کو سپیکر پر بہت زیادہ انحصار کرنا ہوگا۔ چوہدری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے اور وضع دار سیاستدان ہیں اور وہ ان باتوں کو نبھانے کاطریقہ اور سلیقہ بخوبی جانتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کیلئے لاہور میںہونے والے چار حلقوں کے ضمنی الیکشن کڑا امتحان ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حلقہ این اے 124کیلئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بطور امیدوار میدان میں اتارا گیا ہے۔ یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے خالی کیا ہے۔ حمزہ شہباز نے صوبائی سیٹ رکھی تھی۔ اس حلقے میں شاہد خاقان عباسی کو لانے کی وجہ اس سیٹ کا مسلم لیگ (ن) کیلئے محفوظ سمجھا جانا ہے۔ حمزہ شہباز نے اس حلقہ میں بہت کام کیا ہے اور وہ اپنے کارکنوں اورووٹروں سے مسلسل رابطے میںہیں جبکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کوئی مضبوط امیدوار لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ضمنی الیکشن کیلئے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 131میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق پھر میدان میں اتریں گے اور ان کو عمران خان کے مقابلے میں ناکامی کے باوجود فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس مرتبہ مرکز اور صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور خواجہ سعید رفیق ان نادیدہ قوتوں کی مخالفت کا سامنا ہوگا۔ ان کے مقابلے پر پی ٹی آئی کی طرف سے ہمایوں اختر کو لایا جا رہا ہے۔ جس کے باعث اس حلقہ میں اس مرتبہ پھر کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور دونوں امیدواروں میں کسی کیلئے بھی یہ الیکشن آسان نہیں ہوگا تاہم خواجہ سعد رفیق جس طرح سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ دو صوبائی حلقوں پی پی 164اور پی پی 165کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو برتری حاصل ہو گی۔ یہ دونوں حلقے مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خالی کئے ہیں۔ یہ دونوں سیٹیں مسلم لیگ (ن) کیلئے آسان تصور کی جا رہی ہیں۔