پاکستان میں ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ ڈیلیشن پروگرام پورا کرتے ہی آٹوموبیل کا شعبہ اس قابل ہو جائے گا کہ وہ مکمل گاڑی (انڈجنس) بنانا شروع کرے گا۔ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی سطح وہ نہیں جو وقت کا تقاضا ہے لیکن چند ایک ہنرمند ایسے ہیں جو ذہانت سے بڑے بڑے کام ہاتھوں سے کر لیتے ہیں جو دنیا کے ہنرمند مشینوں کے ذریعے نہیں کر سکتے لیکن اب وقت بڑی تیزی سے ٹیکنالوجی کی رفتار کو مہمیز دے رہا ہے، اس کے لئے ضروری ہےکہ پاکستان اسٹیٹ کرافٹ اور کلچر انجینئرنگ کی ابتدا کرے جس کے بارے میں حکمرانوں کو علم نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے آغاز میں ہی انجینئرنگ پر زور دیتا تو آج ہم خام مال برآمد نہیںبلکہ دنیا کو مشینری فراہم کر رہے ہوتے۔ سائنسی شعوری قوتوں نے عصر حاضر میں جہاں مکینیکل انجینئرنگ، الیکٹرانک انجینئرنگ، نیوکلیئر انجینئرنگ، جینیاتی انجینئرنگ کے کمالات دکھائے ہیں، وہیں یہ کلچر انجینئرنگ اوراسٹیٹ کرافٹ انجینئرنگ میں بھی معجزے دکھائے ہیں آج فطری واقعات و حوادث کی قدرتوں پر قناعت کرنے والے سماج بارش کا انتظار کرتے ہیں لیکن ڈیم نہیں بناتے، پانی کی تقسیم کا سائنسی طور پر اطلاق نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے استعمال کی سائنسی بنیادوں کو سمجھتے ہیں، سمندروں کے پانیوں کو کس طرح استعمال میں لایا جائے ان تمام کمالات سے پاکستان نابلد ہے اسی لئے اس طرح کے ذہنی پسماندہ سماج کرافٹی سماج کے حملوں کا بری طرح شکار ہے۔
یوں تو قدیم زمانے میں کئی شخصی حکمرانوں نے بڑے بڑے علاقے فتح کئے ہیں لیکن اس میں سٹیٹ کرافٹ بہ حیثیت عظمت عوام میں موجود نہ تھا، ریاست کاری کا فنی اظہار کے بعد یورپ سے شروع ہوا۔ لیکن سٹیٹ کرافٹ کے فن میں سب سے زیادہ حصہ مارکسی نظریات کا ہے جس کے باعث سٹیٹ کرافٹنگ کو باقاعدہ ایک سائینس کی حیثیت حاصل ہو گئی، لینن، مائو، ٹیٹو اور کاسٹرو اس لائن میں بڑے بڑے سٹیٹ ٹیکنیشن سامنے آئے۔ جاپان کے بادشاہ نے ملوکیت اور جاگیردرانہ نظام کو جمہوریت اور صنعتی نظام میں تبدیل کرنے کیلئے سٹیٹ کرافٹنگ کی شاندار مثال قائم کی، یہی وجہ ہے کہ جاپان، جرمنی خاص طور پر گاڑیوں اور مشینری میں آج بھی پیش پیش ہیں۔ آٹوموبیل میں اسمبلنگ سے مینوفیکچرنگ تک سفر طے نہ کر سکے اور ڈیلیشن پروگرام کی باتیں تو بہت ہوتی رہیں لیکن ہم مکمل گاڑی نہ بنا سکےآج ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستانٓ موٹرائزیشن میں کہاں تک پہنچا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
پاکستان کے پڑوس میں ایک ’’سپرلیٹو‘‘ بین الاقوامی شہر ہے جسے دبئی کہتے ہیں ،جہاں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن موجود ہیںاس کے باوجودوہاں 1.4ملین مسافر گاڑیاں ہیں اور اس شہر کی آبادی 2.4ملین ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو دبئی میں ایک ہزارنفوس کے پاس 540گاڑیاں ہیں (حوالہ روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی) گزشتہ کچھ عرصے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اس کے باوجود غیر سرکاری شعبے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تیل (فیول) سستا ہے، فی کس آمدنی زیادہ ہے اور لوگوں کو دھنک رنگ گاڑیاں رکھنے کا شوق ہے لیکن دولت اس کی اصل وجہ ہے۔ یہاں گاڑیوں کی تعداد لندن اور نیویارک سے بھی زیادہ ہے، جہاں جہاں ایک ہزار لوگوں پر بالترتیب 213اور 305گاڑیاں ہیں اور جب ہم گاڑیوں کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں تو پاکستان میں ایک ہزار نفوس کے تناظرمیں صرف 14گاڑیاں ہیں، یہ پاکستان کی پس ماندگی کا ایک بالکل مختلف اظہار ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور فی کس آمدنی سالانہ 1350ڈالر ہے لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ موٹرائزیشن کا مستقبل بہت بہترین ہے۔ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے اور خاص طور پر آٹو موبیل کا شعبہ بڑی تیزی سے آگے بڑھنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ ایک بیرونی سروے کے مطابق جن ملکوں نے اپنے جی ڈی پی کو بڑھایا اور ان کی فی کس آمدنی 3000ڈالر سالانہ ہو گئی وہاں موٹرائزیشن کا انڈیکس بڑی تیزی اختیار کر گیا ہے۔ محسوس تو ہوتا ہے کہ پاکستان کو تین ہزار ڈالر فی کس آمدنی کا ہدف پورا کرنے میں کافی عرصہ درکار ہے لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان میں موٹرائزیشن کا مستقبل تاب ناک ہے۔ اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پاکستان ارتکاز دولت اشرافیہ کی ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہے اسی لئے مالدار لوگوں کے بنگلوں میں تین چار گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں اور سرکاری سطح پر بھی گاڑیوں کا شوق کسی سے پوشیدہ نہیں۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ،جہاں فی کس آمدنی تیزی سے نہیں بڑھی لیکن اس کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آٹو انڈسٹری بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔اور مارکیٹ جاپانی گاڑیوں سے بھری پڑی ہے۔ 2015-16 میں 207,777 گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں کراچی میں جاپانی گاڑیوں کے اسمبل کرنے کے بڑے بڑے پلانٹ نظر آتے ہیں جہاں ہزاروں محنت کش اور ہنرمند کام کرتے ہیں سابق وزارت خزانہ سے 2016-21تک آٹوموبیل آٹوموبیل کی ترقیاتی پالیسی (2016-21)کا اعلان سابق حکومت نے کیا لیکن اس پالیسی میں پاکستان میں مکمل گاڑی کب تیار ہو گی اور ڈیلیشن پروگرام پر عمل درآمد کب تک ختم ہو گا البتہ پالیسی میں نئے آٹو سازوں کو سرمایہ کاری کرنے پر ریلیف دینے کی پیش کش کی گئی ہے اس وقت جو تین بڑے جاپانی آٹوساز ہیں وہ اس ریلیف کے حقدار نہیں ہونگے۔ نئی پالیسی جس کا اجرا سابق حکومت نے کیا تھا اس میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ لوکولائزیشن پر زیادہ زور دیا جائے گا اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ لوکولائزیشن کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ انڈجینس گاڑی سازی کے معنوں میں ہے یا پھر صرف اسمبلنگ کی بات ہے۔ پاکستان اگر مکمل ٹریکٹر بنا سکتا ہے تو اسے گاڑی بنانے میں میں کیوں ہچکچاہٹ ہے۔ دراصل معاہدے ایسے کئے گئے تھے جن میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حیرت ہے کہ موٹر سائیکل بنانا بھی پاکستان کی حکومتوں کو مشکل محسوس ہوتا ہے، حالانکہ یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔
ہیوی کمرشل وہیکلز کی پاکستان میں بہت ضرورت ہے ،خاص طور پر کچرا اٹھانے اور آگ بجھانے والی گاڑیوں اور اسپتالوں کے لئے جدید ایمبولینسز کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن بڑے شہروں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان میں ٹرانسپورٹ سسٹم کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، نہ ہی ایسی گاڑیاں اور سازو سامان ہے کہ آگ بجھانے کے کام آئیں۔ کراچی میں آگ لگ گئی تو آگ بجھانے کا طریقہ کار 1947سے پہلے کا تھا۔ 12ویں منزل تک پہنچنے کے لئے اسنارکل نہیں تھی یہی حال علی پلازہ لاہور میں ہوا اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ یہ بھی دیکھئے پاکستانی وینڈر انڈسٹری میں کام کرنے والے ہنرمندوں کے لئے آٹوموبیل پالیسی میں کچھ نہیں رکھا گیا اور پرزے بھی باہر سے منگوائے جا رہے ہیں، اس کے لئے 10فیصد کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ معلوم نہیں کہ آٹوموبیل پالیسی میں نئی حکومت ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے یا نئی پالیسی کا اجرا کرے گی جس میں کم از کم انڈجنس گاڑی سازی پروگرام ضرور دیا جائے۔
اس وقت پرزہ جات پر 32.5فیصد ڈیوٹی ہے این ایل سی نے بھی 50کروڑ سے 70کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے یہ سرمایہ کاری جرمنی کے ساتھ ہو گی جس میں MANٹرک اور بسیں منگوائی جائیں گی تاکہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جائے۔ گہری نظر سے دیکھا جائے کہ این ایل سی کی وجہ سے ریلوے گڈز زوال پذیر ہو چکی ہے ،اسی لئے اس کا خسارہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ گڈز ٹرین کو ٹرکوں کے مقابلے میں فوقیت دی جاتی تو ریل کا سفر بھی سستا ہوتا۔ دنیا بھر میں ٹرین کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کیا سی پیک میں ایسے معاہدے ہوئے ہیں جہاں پاکستان جرمنی کے تعاون سے ٹرک منگوائے اور پھر وہ سی پیک روٹ پر چلائے، اگر ایسا ہے تو یہ معاہدہ بہتر ہو گا۔لیکن سازوسامان کے لئے طلب کتنی ہے اور ان کے لئے این ایل سی کیا کر رہی ہے اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ اتنا ضرور بتایا گیا کہ 7سو سے ایک ہزار تک بھاری گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید بنانے میں شرح نمو (گروتھ ریٹ) کو دیکھنا ضروری ہے پاکستان کو فی کس آمدنی بڑھانے، روزگار بڑھانے اور بھاری گاڑی سازی کے لئے عالمی مسابقت کے پیش نظر 8فی صد شرح نمو کی ضرورت ہے، جبکہ 1970سے 2018تک پاکستان 4اور 5فیصد شرح نمو سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ٹیکنالوجی اور اسکلز میں بھی پاکستان جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کو مکینیکل انجینئرنگ میں تعلیم دینے یا اسکلز بڑھانے کے لئے انسٹی ٹیوٹس بنائے۔
صرف ایم بی اے پر زور ہے جس کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ پاکستان کے حکمران اسٹیٹ کرافٹ سے بھی واقف نہیں ہیں، ورنہ کراچی کے کچرے سے بجلی پیدا کی جا سکتی تھی، کیپٹل اور لیبر کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے جی ڈی پی میں 30فیصد اضافہ چاہئے۔ اضافہ حقیقی ہونا چاہئے شوکت عزیز کی طرح رئیل اسٹیٹ میں اور دیگر چیزوں کی قیمتوں اضافہ کرنے سے نقلی جی ڈی پی بڑھا گیا تھا تاکہ قرضے آسانی سے مل سکیں جیسے بنک آپ کی تنخواہ دیکھ کر کریڈٹ کارڈ کی لمٹ مقرر کرتے ہیں کمزور تعلیمی نظام کی وجہ سے پڑھی لکھی ’’اسکل فل‘‘ لیبر اور ہنرمند نہیں ہیں۔ انرجی کا بحران ہے اور ٹیرف زیادہ ہے صحت مند لیبر فورس اور منیجیرل اسکلز کی بہت ضرورت ہے۔ کام کرنے کی اخلاقیات اور ماحول اچھا نہیں ہے اس لئے اسٹرکچرل تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے ہم کپیٹل اسکلز پر زور دیتے ہیں۔ فنانس ٹیلی کمیونیکشن، آئی ٹی، آئل، گیس اور موٹر وہیکلز اسمبلنگ کے لئے ہماری تعلیم کمزور ہے اور ویسے بھی ان شعبوں کی جانب تعلیمی اداروں کا رحجان نہیں صرف تعلیم فروخت کی جاتی ہے۔
اگر یہ دیکھا جائے کہ آٹو انڈسٹری کی صورتحال کیا ہے تو موٹر سائیکلز، کارز، لائیٹ کمرشل وہیکلز، ٹریکٹرز بسیں اور ٹرکس کا (امپورٹ میں مکمل بلٹ یونٹ (CBU) SKDاور CKD)مجموعی طور پر نتیجہ یہ سامنے آتا ہے آٹو انڈسٹری اربوں روپے سالانہ ہضم کر جاتی ہے جس میں پاکستان کا کتنا فائدہ اس کا تخمینہ نہیں لگایا گیا، کیونکہ اس میں زیادہ فائدہ بیرونی آٹو انڈسٹری کو ہے ،اگر زیادہ تیل درآمد کیا جاتا ہے تو آٹو موٹیو میں کمی کرنی چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اسمبلنگ سے زیادہ وینڈر انڈسٹری کی ترقی پر کیوں زور نہیں دیا جاتا۔ ٹرکل ڈائون افیکٹ والی اکانومی کا تصور ناکام ہو گیا ہے۔ اب ملکی انسانی وسائل کو ہنرمند بنانا اور انرجی کو ترقی دینا ہی اصل ترقی ہے اور ان سب کو آگے بڑھانا ہے تو زراعت کی ایمرجینسی کا اعلان کر دینا چاہئے ،جہاں سے ایکسپورٹ کے لئے سرپلس پیدا کیا جا سکتا ہے، آخر کب تک قرضوں پر گزرا کیا جائے گا۔ ایک وہیکلر کے لئے 3ہزار پرزہ جات ہوتے ہیں اگر وینڈر انڈسٹری پاکستان میں ترقی نہیں کرتی تو ڈالر مزید باہر جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی کا درست پیمانہ اسمبلنگ سے کہیں زیادہ وینڈر انڈسٹری کی ترقی ہے۔ وینڈر انڈسٹری 3لاکھ لوگوں کو روز فراہم کرتی ہے۔ آٹو فنانس کا کاروبار بڑھ رہا ہے لیکن یہ سارا فنانس پرائیوٹ کاروں پر خرچ ہو رہا ہے جبکہ مارکیٹ میں پبلک ٹرانسپورٹ کی طلب بہت زیادہ ہے جس میں بسیں، ٹرکس، منی بسیں اور رکشا شامل ہیں۔ یلوکیب جو نواز شریف دور میں متعارف کرائی گئی یہ شدید ترین تباہی میں رہی اس لئے آج اس کا نام و نشان بھی نہیں رہا۔ اسکیم بری نہیں تھی لیکن جس طرح عمل میں لائی گئی وہ نقصان دہ ثابت ہوئی کار خریدنے والے اور انشورنس کمپنیوں کو کافی نقصان ہوا۔ نوسر بازوں نے اربوں کما لئے۔ بنک اور مالیاتی اداروں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اس قسم کی اسکیموں کی وہ فنانس نہیں کریں گے۔ یہ یاد رہے پاکستان ایگروبیس اکانومی ہے یعنی زرعی ملک ہے اور کسانوں کو ٹریکٹرز کی ضرورت ہے اور ایسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے فی کس پیداوار میں اضافہ ہو۔ اب تک حکومتوں نے جو ٹریکٹرز اسکیموں کا اعلان کیا ہے اس سے نہ تو کسانوں کو فائدہ ہوا اور نہ ہی ٹریکٹرز مینوفیکچرز کو فائدہ ہوا ہے، اس لئے آٹو پالیسی ازسرنو مرتب ہونی چاہئے تاکہ وینڈر انڈسٹری اور ٹیکنالوجی کی جلدازجلد منتقلی ہو اور پاکستان میں ہنرمند لوگوں کا اضافہ ہو اور انہیں روزگار حاصل ہو۔