یہ بڑی حقیقت ہے کہ جب انسان چالیس برس سے اوپر ہو جاتاہے تو زندگی کو بڑی سنجیدگی اور زیادہ ذمہ دار ی سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے ، سوائے اُن کے جو ہدایت کے خواہش مند نہیںہوتے ،وہ کانوں اور آنکھوں کے ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے اور نہ ہی عقل انکا ساتھ دیتی ہے۔ وہ انسان جو یہ شعور رکھتے ہیں، اُن کے سامنے طے شدہ نظام اور اخلاقی حوالوں سے متعین معیار سے چیزیں الگ دکھائی دیتی ہیں تو انہیں بہت تکلیف پہنچتی ہے ۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ روٹین کے معاملات کچھ خرابیوں اور رکاوٹوں سے چل رہے ہوتے ہیں ۔ دوسری صورت وہ ہے جب کوئی بہت بڑی مثبت چیزیں عملی شکل اختیار کر نے جارہی ہوںتو تمام تر اخلاقی حدیں توڑ کر اس میں نہ صرف رکاوٹیںکھڑی کی جائیں بلکہ سخت ترین مخالفت اپنی اولین ذمہ داری سمجھ لی جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں جب چھٹی دہائی مکمل ہونے اور عملی صحافت میں چونتیس برس ہونے کو ہیں ،اس دوران ملک کے اندر ہونیوالی تبدیلیاں اور اتار چڑھائو اور خرابیوں کو محض اس لئے صبر وتحمل سے سدھارکی امید پر برداشت کرتے رہے، لیکن آج جب اس مادر وطن کیلئے کچھ بہتر ہونے کی عملی شکل کے نشانات واضح ہونے شروع ہوئے ہیں تو شدید مخالفت شروع ہوگئی ہے،کہا جارہا ہے کہ بھیک مانگنے اور چندہ اکٹھا کرنے سے ڈیم نہیں بنتے اور ایک نیا یو ٹرن شروع ہو گا ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ کام نہیں کہ وہ ڈیم کیلئے لوگوں سے اپیل کریں ۔ میرے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور تشویشناک بات ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنیوالے برسوں میں پانی اور بجلی کا بحران سنگین ترین ہوگا اور اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو 2025ء تک پاکستان کے عوام بوند بوندپانی کو ترسیں گے جبکہ زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، جو آئندہ نسلوں کیلئے تباہی کاسامان ہے۔ پاکستان میں پانی کے موجودہ بحران اور ڈیم بنانے کی اہمیت کے حوالے سے میں الیکشن سے پہلے لکھے گئے اپنے کالم کی چند لائنیںدرج کرنے کے بعد بات کو آگے بڑھائوںگا۔
’’پاکستان میں آبی بحران کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس مردم شماری میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہمیں فی کس ایک ہزار کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ دستیاب ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب پانی کی دستیابی کی یہ شرح ہو تو وہاںپانی کی قلت شمار کی جانے لگتی ہے۔ کوئی پندرہ سال پہلے فی کس5ہزار 650 کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ موجود تھا ۔ پاکستان میں گزشتہ 39برس میں کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا گیا اور ریت جمع ہونے کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی 30لاکھ ایکڑ فٹ صلاحیت کم ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کی 60فیصد آبادی کا روز گار براہِ راست یا بالواسطہ طور پر آج بھی زراعت سے وابستہ ہے ۔ جسکا انحصار صرف پانی پر ہے ۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے ہر سال 30ارب ڈالر مالیت کا 140کروڑ فٹ سے زیادہ میٹھا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی محدود صلاحیت اور ناقص حکمت عملی کے باعث صرف 36 فیصدپانی استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ جبکہ اربوںروپے کا 64فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ دریائی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان صرف 22سے 25 دن تک پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں ڈیمز بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان 100میٹر یااس سے بلند ڈیموں کی 96ممالک کی فہرست میں 27ویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان میں کل 164 ڈیمز ہیں جبکہ امریکہ میں 9ہزار 265، بھارت 5ہزار ایک سو اور جاپان میں تین ہزار 118ڈیمز ہیں۔ 1968میںبننے والے تربیلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ کئی مرتبہ حکومت میں آئی مگر ان کی ترجیحات میں پانی کے سنگین بحران کا حل تھا ہی نہیں، صرف سیاست کیلئے ایسے منصوبے کاغذوں تک محدود رہے ۔
حالیہ دہائی میں بھی دونوں سیاسی جماعتیں پانچ پانچ سال حکمران رہیں مگر اس طرف توجہ نہ دی حالانکہ ان کے منشور میں پانی کے بحران پر قابو پانے کا نعرہ درج تھا۔ اب جبکہ ڈھائی مہینے پہلے بڑے عزم کیساتھ دیامر بھاشا ڈیم بنانے کاچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف بیڑہ اٹھایا بلکہ اس کیلئے باقاعدہ سپریم کورٹ ڈیم فنڈ قائم کر کے عوام سے اپیل کی اور عوام نے بلاتفریق اور سیاست سے بالا تر ہو کر بہت مثبت انداز میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ۔ پھر عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلی ترجیح کے طور پر اس سنگین بحران کے حل کیلئے سپریم کورٹ وزیراعظم ڈیم فنڈکو نہ صرف اکٹھا کر کے بیرون ملک اور اندرون ملک پاکستانیوں سے زیادہ سے زیادہ فنڈ دینے کی اپیل کی اور یقین دلایا کہ ہمیں ڈیم بنا کر پاکستان کو بچانا اور آئندہ نسلوں کو محفوظ بنانا ہے ۔ میں خود اس منصوبے کو دیکھوں گا اور قوم کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دونگا۔ اس کے بعد جوق در جوق ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت سے بڑھ کر دھرتی ماں کی محبت میں فنڈ دے رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 13 ستمبر تک اندرون اور بیرون ملک سے 3ارب 27کروڑ روپے سے زائد کے عطیات جمع ہوئے ہیں۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی فوجی افسران اور جوانوں کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک ارب 59کروڑ روپے کا چیک پیش کیا ۔ لیکن جن کی سیاسی دکانداریاں ختم ہو رہی ہیں وہ مخالفت کی آخری حد تک اتر آئے ہیں۔ مجبوراً چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو یہ کہنا پڑا کہ ڈیمز فنڈ پر بھیک کا طعنہ دینے والوں کو شرم آنی چاہئے ، جو قومیں اپنا فریضہ سرانجام دیتی ہیں وہ بھیک نہیں مانگتیں ، اپنی مدد آپکے تحت منصوبے مکمل کرتی ہیں ۔ جن کے پاس کوئی عذر نہیں وہ بھیک مانگنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ڈیمز کی مخالفت کرنیوالے کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ جسکا مقصد پاکستان میںکوئی ڈیم نہ بنے۔ ڈیم کے مخالفین کو آخری وارننگ دے رہے ہیں کہ ان کا ایجنڈا پورا نہیں ہونے دیں گے، اور ڈیم ہر صورت بنائیں گے ۔
میں حروف کے تقدق اور حرمت سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ 33برس سے میری تحریر یں اسکی گواہ ہیں ۔ میں پاکستانی عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم حروف کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔ مجھے یقین ہی نہیں بلکہ اس سچائی کی گواہی دل دے رہا ہے کہ انشا ء اللہ ڈیم ضرور بنے گا ، ہم آئندہ نسلوں کو محفوظ ضرور بنائیں گے، اسلئے ہماری یہ سوچ ہونی چاہئے کہ یہ پاکستان کا ڈیم ہے۔ اسکا کریڈٹ کسی سیاسی پارٹی کا کریڈٹ نہیں ہوگا بلکہ یہاں بسنے والے اور اس ماں دھرتی سے پیار کرنیوالے ہر پاکستانی کا یہ کریڈٹ ہوگا۔ جس کیلئے ہمیں تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اس کی تکمیل تک بھر پور طریقے سے اپنا حصہ ڈالتے رہنا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان ، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور چیف آف آرمی سٹاف سے یہ اپیل ہے کہ عوام کے ایک ایک پیسے کی حفاظت اور استعمال کو یقینی بنانے کیلئے بڑا شفاف نظام بنانا چاہئے جو عوام کو نظر بھی آئے ۔ اور انہیں اکٹھے ہونے والے فنڈاور استعمال سے آگاہ بھی رکھا جائے۔ عوام سے یہ وعدہ بھی ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ سب شفاف طریقے سے نہیں ہو پاتا تو ہم سب ان کے احتساب کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے— میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم نے مصم ارادہ کر لیا ہے تو خداتعالیٰ بھی ہماری مدد کرے گا اور اپنی مدد آپ کے ذریعے ہی یہ ڈیم بنے گا۔ دریا بھی تو قطرہ قطرہ پانی سے بنتے ہیں ۔ بس اپنے حصے کا قطرہ ضرور ڈالیں۔ اسی قطرہ حصے سے ڈیم ضرور بنے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)