ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
نواسۂ رسولؐ، سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کی ولادتِ باسعادت 5 شعبان سن 4 ہجری کو ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؓ کو شہد چٹایا۔ آپؓ کے دہن مبارک کو اپنی بابرکت زبان سے تر کیا اور دعائیں دیں۔ حسین نام رکھا۔ تاریخی روایات کے مطابق سیدنا حضرت امام حسینؓ کا چہرۂ مبارک رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور جسم پاک رسولﷺ کے جسمِ اطہر کے مشابہ تھا۔
سیدنا حضرت حسین بن علیؓ انتہائی عبادت گزار تھے، نماز، روزے اور حج کا بڑااہتمام فرماتے، آپؓ نے بیس حج پیدل ادا فرمائے، انتہائی متواضع تھے۔ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے کہ غرباء کی ایک جماعت نظر آئی، جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے انہیں سلام کیا، ان لوگوں نے کہا ’’فرزندِ رسولﷺ، ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔‘‘آپؓ گھوڑے سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے، کھانے میں شریک ہوئے،پھر انہیں دعوت دی اور اپنے گھر لے جاکر سب کو کھانا کھلایا۔
رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ آپ ﷺ حضرات حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’حسنؓ اور حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اکرم ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ﷺ ایک کندھے پر حضرت حسنؓ اور دوسرے کندھے پر حضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے،یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لائے اور فرمایا ’’جس نے ان دونوں سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔‘‘
سیدہ فاطمہ زہراءؓ فرماتی ہیں کہ میں حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر حضور پُرنورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’حضورﷺ! یہ دونوں آپﷺ کے نواسے ہیں،انہیں کچھ عطا فرمائیے۔‘‘ تو حضورﷺ نے فرمایا ’’حسنؓ کے لیے میری ہیبت و سیادت ہے اور حسینؓ کے لیے میری جرأت و سخاوت ہے۔‘‘
کربلا اور سیدنا حضرت امام حسینؓ:کربلا کا نام آج بھی ہمارے لبوں پر آتا ہے تو سیدنا حضرت امام حسینؓ بن علیؓ اور آپؓ کے مقدس جاں نثاروں کی جرأتوں، ہمتوں اور شہادتوں کا تذکرہ ہمراہ لاتا ہے۔ سماعت سے لفظ کربلا ٹکراتا ہے تو بے مثال قربانیوں کا تصور ازخود دل میں ابھرتا ہے۔ سرزمینِ کربلا کا کہیں بھی ذکر ہوتا ہے، تو وفا شعاریوں اور جاں نثاروں کی لازوال داستانوں کا خیال خود بخود دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے، کربلا کی فضائیں اور ہوائیں آج بھی انمول جذبوں کی امین ہیں،جو سیدنا حسین بن علیؓ اور آپؓ کے جاںنثاروں، جاںبازوں اور سرفروشوں کے سینوں میں موجزن تھے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں شہادت کی تاریخ رقم کی جائے گی، کربلا کا نام نمایاں ہوگا۔ شہیدانِ حق کی انمول قربانیوں، بے مثال جاں نثاریوں، بے نظیر بہادریوں، لازوال جذبوں، حیران کن ہمتوں، قابلِ تقلید جرأتوں اور انمٹ داستانوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کی شہادت کا واقعہ نہ صرف اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ ہے، بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اسے خاص امتیاز حاصل ہے،اس میں ایک طرف ظلم و جور و سنگ دلی ہے، تو دوسری طرف آلِ اطہار رسولﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کے باطل کے مقابلے پر جہاد، اس پر ثابت قدمی اور جاں نثاری کے محیرالعقول واقعات ہیں، جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے، ان میں آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
سیدنا حضرت امام حسینؓ کا خطبہ: سیدنا حسین بن علیؓ کا وہ تاریخی خطبہ جو آپؓ نے مقامِ بیضہ میں دیا، تاقیامِ قیامت ہماری رہنمائی کرتا رہے گا اور ہمیں حق پرستی کی شمع روشن رکھنے کا درس دے گا۔ آپؓ نے حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد پُرجوش انداز میں فرمایا ’’لوگو! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے ظالم، محرماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے، خدا کے عہد کو توڑنے والے، خدا اور رسولﷺ کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے حکمراں کودیکھا اورقولاً و عملاً اسے اس پر غیرت نہ آئی، تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس حکمران کی جگہ جہنم میں ڈال دے۔ لوگو! خبردار، ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اوررحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، ملک میں فساد پھیلایا ہے، حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے، مالِ غنیمت میں سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں،انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے،اس لیے مجھے غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔‘‘
یہ الفاظ اس ہستی کے ہیں، جس کے بارے میں ہادیٔ برحق نبی آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے، یا اللہ جو حسینؓ کو محبوب رکھے، تُو اسے محبوب رکھ۔‘‘ اور آپﷺ کا یہ فرمانِ مبارک ’’جویہ چاہے کہ نوجوانانِ جنت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین بن علیؓ کو دیکھ لے۔‘‘
ایک روز سیدنا ابنِ عمرؓ کعبے کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، دیکھا کہ سیدنا حضرت حسینؓ سامنے سے آرہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپؓ نے فرمایا ’’یہ ہستی اس زمانے میں اہلِ آسمان کے نزدیک سارے اہلِ زمین سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم شہدائے کربلاؓ اور جگر گوشۂ رسولﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند کریں، باطل قوتوں کے سامنے بالکل نہ جھکیں۔ ہم دینِ مصطفیٰ ﷺ کے امین ہوں، شہادت کی آرزو ہمارے دل میں ہو،تو اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوگی۔ ہمارے سامنے خالق کی بڑائی ہوگی تو ہم مخلوق سے ڈرنے اور ان کے سامنے جھکنے کے بجائے خالق کے سامنے جھکیں گے اور ہمارے قلب و زبان پر صرف حق و صداقت کی صدا ہوگی۔یہی اسوۂ شبیریؓ اور یہی پیغامِ کربلا ہے۔