اِس بار بھی حالات کچھ اَیسی ڈگر پر چلتے نظر آ رہے ہیں جس سے اِس دیرینہ خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے سیاسی، سماجی، سیکورٹی اور اِقتدار میں شامل عناصر پر آج بھی ہرلمحہ شہر کراچی کو سنوارنے کے بجائے اِس پر کنٹرول حاصل کرنے کا شوق اور جنوں طاری رہتاہے۔
بلا روک ٹوک مستقل بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے سبب اِن دنوںاسٹریٹ کرائم کی غیر معمولی صورتحا ل نے شہربھر میںدہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ستم یہ کہ بچوں کے اغوا کی مسلسل وارداتوں نے شہریوں کی نیندیں بھی حرام کردی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اِن وارداتوں سے متعلق ویڈیوز جابجا دستیاب ہیں۔ اِس صورتحال میں متعلقہ اداروں کی بے بسی شہریوں میں مایوسی اور خوف کی بنیادی وجوہات ہیں۔
اَسّی کی دہائی کا وسط شہر میں بد امنی، اِنتشار اور لاقانونیت کے دوسرے دَور کا آغاز کا تھا۔ جرائم پیشہ عناصر کی بڑی تعداد اور اسلحے کی مستقل دستیابی شہر میں لاقانونیت کے تسلسل کے بڑے اسباب بنے رہے ہیں۔ دہشت وجرائم میں ملوث عناصر کیخلاف1985 سے اب تک کئی عسکری، نیم عسکری اور غیر عسکری آپریشنز کئے جا چکے ہیں لیکن آج تک کوئی اِدارہ، جاسوس، فرانزک ماہر، منتظم، تجزیہ کار، پولس افسر یا سیاست دان یہ نہیں جان سکا کہ شہر میں پر تشدّد واقعات کا بنیادی سبب بننے والا اسلحہ کہاں سے لایا جاتا ہے اور جرائم پیشہ عناصر تک اِس اسلحے کی ترسیل کے مستقل عمل میں کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ یہ سوال بھی ایک معمہ ہے کہ شہر میں اسلحے کی فراہمی میں ملوّث عناصر کے بے نقاب نہ ہونے کے معاملے میں متعلقہ حکام پر خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام لگایا جائے، اِن پر بے بس و لاچار ہونے کا شک کیا جائے، اِنہیں بزدل یا بدعنوان سمجھا جائے یا پھر اِنہیں نالائق قراردے دیا جائے۔ اِن چار صورتوں کے علاوہ اِس صورتحال کا کوئی پانچواں جواز ممکن ہی نہیں!
دوسری جانب بہت سے مسائل جزوی طور پرعوامی رَوّیوں اور اُن کے حالات سے بھی جڑے ہیں۔ ایک طرف لوگ مقدمہ چلائے بغیر کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ اِقتدار پر قبضہ کرنے والوں اور ملک کی دولت لوٹ کر سمندر پار لے جانے والوں کو سر پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ شہر کراچی میں ایک سیاسی رہ نما کے اشارے پر لاکھوں کے ہجوم پر ناقابل یقین سکتہ طاری ہو تارہا ہے لیکن اِس ہجوم میں شامل کوئی بھی شہر ی کبھی بھی لٹیروں کے خلاف ایک معمولی ایف آئی آر کٹوانے پر بھی آمادہ نہیںہوتا ۔سچ ہے، یہ عجیب لوگ ہیں! دِن دہاڑے بندوق کی نوک پر لُٹنے کے باوجود انہیں اپنے معمول کی سرگرمیاں، تقریبات، پکنک، آرام اور نیند اِتنی پیاری ہوتی ہے کہ متعلقہ تھانے کو فون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ معذرت کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت بھی چاہوں گا کہ محفلوں میں اِن عمومی روّیوں پر تشویش کا اظہار کرنا اور حقیقی زندگی میں اِنہی روّیوں کا بنیادی سبب بنے رہنا کراچی والوں کا خاصا ہے۔
شہرکراچی کے ساتھ ناانصافیوںکی دَاستان اگرچہ ساٹھ کی دہائی میں دارالحکومت کی منتقلی کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی لیکن بڑا ستم یہ ہے کہ روز اوّل سے آج تک اِس شہر کو بلا تخصیص رنگ، نسل، ذات، فرقہ اور مذہب، سب نے مل کر اجاڑا ۔ یہاں سے انتخابات جیتنے والوں نے بھی اِسے لوٹا اور ہارنے والوں نے بھی! ملک کے سب سے زیادہ خواندہ اور پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہونے کے باوجود یہاں کا تعلیمی معیار دیگر بڑے شہروں سے عمومی طور پر اَبتررہاہے۔
کراچی میں غیر معمولی بدامنی کے اِس نئے دور کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ 1985سے اب تک دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کئے گئے آپریشنز کی منصوبہ بندی بظاہر تنگ نظری یا محض شکوک و شبہات کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔ سال 2015میں شروع کئے گئے آپریشن کے منصوبہ سازوں کی یہ سوچ یقیناََ معروضیت پر مبنی نہیں تھی کہ شہر میں ہر واردات کے پیچھے کسی ایک پارٹی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ آج جب کہ ایم کیو ایم کے کارکن کسی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، شہر میں موٹر سائیکلوں پر دندناتے مسلح افراد جگہ جگہ لوٹ ماراور بچوں کو اغوا کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو ز میں اِن جرائم پیشہ افراد کے حلیے اور چال ڈھال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ محض ایک لسانی جماعت یا کمیونٹی کو تمام تر جرائم کا ذمہ دار سمجھ لینا مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔
سچ ہے کہ کسی بھی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کو اِتنی آسانی سے کلین چٹ دینا بھی ٹھیک نہیں لیکن ارباب اختیار کے لئے اَب تازہ صورتحال کے پیش نظر شہر میں بدامنی، جرائم اور دہشت گردی کے دیگر اور زیادہ مہلک عناصر کی صحیح شناخت کرنا بھی ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ تاثر بھی ہے کہ آپریشن کے دوران جرائم میں ملوّث دیگر اور مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے عناصرکے خلاف کارروائی کرنے میں ذمہ داران کی دلچسپی کی سطح ضرورت اورتوقع سے کم نظر آتی رہی ہے ۔اَگرچہ حکام ’’بلاامتیاز کارروائیاں‘‘ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حالیہ صورتحال دیکھ کر مذکورہ تاثر کو خاصی تقویت ملتی ہے۔
انتخابات کے بعد ایم کیوایم اورپی ٹی آئی کی نومنتخب حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے سبب شاید ایم کیو ایم کی قیادت فی الحال کھل کر بات نہ کرے لیکن پارٹی حلقوں میں تاثر ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف مذکورہ آپریشن بنیادی طور پر شہر میں پارٹی کی سیاسی اجارہ داری ختم کرنے اوربظاہر شہر کا کنٹرول منتقل کرنے تک ہی محدود رہا ہے۔اِن خدشات کے اَہم یا غیر اَہم ہونے سے قطع نظر، موجودہ حالات میں ایسے سوالات کا ابھرنا فطری ہے۔
اِنتخابات کے انعقاد تک کراچی میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم کے تناسب میں بھی غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ غور طلب حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں حکومت سازی کے فوراً ہی بعد بڑے پیمانے پر اسٹریٹ کرائم اور بچوں کے اغوا کی وارداتیں شہر بھرمیں دہشت کاسبب بنی ہوئی ہیں۔ شاید یہی حقیقت گزشتہ اِتوار وزیراعظم عمران خان کے ذہن میں بھی اُس وقت گردش کررہی تھی جب وہ کراچی کے دور ے پر تھے۔ بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے صوبائی حکومت پر واضح کیا کہ اگلے دو ماہ میں شہر کے حالات میں بہتری نہ ہونے کی صورت میں وفاق کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم نے اِس خطاب میں شہر کے ترقیاتی منصبوبوں کی جلد تکمیل اور دیرپا اَمن پر زور دے کر بہت سے شہریوں کے خدشات دور کردئیے ہیں۔ اَلبتہ بنگالیوں اور افغانوں کو شہریت دینے کے اعلان کے بعد شہر کے اقتصادی مستقبل اور امن عامہ کے حوالے سے چند بنیادی خدشات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ لیکن اِس معاملے میں فی الحال وزیراعظم اور حکومت سے غیر دانشمندانہ اقدامات یا جلد بازی میں کی گئی منصوبہ بندی کی توقع کرناقبل اَز وقت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)