ٹیکنالوجی ہر دِن نئی چیزیں سامنے لارہی ہے ، کارٹونز کا زمانہ پرانا ہوتے ہی ’’اینی میٹڈ‘‘فلموں کا دور شروع ہوگیا ، آج نئی نسل کے بچے اینی میٹڈ فلموں میں اپنے سپر ہیروز کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ فلمیں اتنی دلکش ہوتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ بڑے بھی ا نہیں شوق سے دیکھتےہیں۔ دوسری طرف بچوں اور بڑوں کی اس دلچسپی کو ہتھیار بنا کر اینی میٹڈ فلموں کے چند ہدایت کاروں نے ایسے موضوعات پر فلمیں بنائیں کہ اُن کے منفی اثرات بچوں کے ذہنوں پر پڑنے لگے۔ مثلاََ فائنڈنیمو،فروزن ، لائن کنگ، جنگل بُک، بیم بی، کنگ فو پانڈے وہ اینی میٹڈ کارٹون فلمز ہیں جن پر سوشل میڈیا پر اب بھی کافی تنقید کی جارہی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں پاکستان نے ایک سے بڑھ کر ایک فیچر فلم بنائی جس نے دُنیا بھر سے شاندار بزنس کیا ۔ اب پاکستانیوں کیلئے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ ہماری فلمی صنعت نے اینی میٹڈ فلموں میں بھی قدم رکھ دیا ہے ۔ جیو فلمز اور طلسمین اینی میشن اسٹوڈیوز کی پہلی اینی میٹڈ فلم ’’دی ڈنکی کنگ‘‘ کے نام سے 13؍اکتوبر کو ملک بھر میں ریلیز ہوگی جس کے پہلے ہی ٹریلر نے ہر طرف دھوم مچادی ہے۔ بچوں اور بچوں جیسا دل رکھنے والوں کیلئے نئی این یمیٹڈ فلم’’ ڈنکی کنگ‘‘فلم کوایک بہترین اور موضوع فلم کہاجارہا ہے اس فلم کے خالق ۔عزیز جندانی ہیں اور یہ وہی عزیز ہیں انہوں نے ایک اینٹی بیکٹیرین صابن کی پہلی ، اینی میٹڈ سپر ہیرو سیریز بنائی تھی۔ کہ ڈنکی کنگ ہر عمر کے افراد کے لیے ایک بھرپور تفریحی فلم ہے جو یہ تصور اور خیال رد کردے گی کہ اینی میٹڈفلمیںصرف بچوں کیلئے بنائی جاتی ہیں ۔
فلم کے پہلے ٹیزر کو دیکھنے کے بعد یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ بچوں جیسا دل رکھنے والوں کو اپیل کرتی ہے۔50 سیکنڈکا ٹریلر خود ایک مکمل فلم ہے،جس میں نئے بادشاہ کے پراسرار شاٹس کے ساتھ شاہی سیٹ اپ دکھایا گیا ہے ، صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ اصل میں گدھا ہے اور جب اس حیرت کے سحرمیں گم ہوجاتے ہیں تو اچانک ویک اپ کال ہوتی ہے اور پھر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تو دراصل کچھ نہیں صرف ایک خواب تھا ۔ اصل میں وہ ایک منگو ( گدھا ) ہے ، جو دھوبی ہے اور کہتا ہے کہ "میرا نام منگو، منگو جان منگو ہے - واشنگ مشین "۔۔ یہ ٹیزر ٹریلر دراصل کہانی کا سسپنس برقرار رکھنے کےلیےہے، تاکہ اسے دیکھنے والوں میں منگو کے کردار اور فلم کی کہانی کے بارے میں اشتیاق پید اہو اور وہ اسے مزید جاننے کےلیےبے تاب ہوں۔ فلم کے تخلیق کار، عزیز جندانی نے ہمیںبتایا کہ ’’ڈنکی کنگ‘‘ پاکستان میں اینی میٹڈ فلموں کا نیا رخ متعین کرے گی اس کی انفرادیت یہ ہے کہ، یہ ہر بالغ فردمیں موجود ایک بچے اور بچوں کو اپیل کرنے کی جانب نئی سمت کا تعین کرے گی ۔ڈنکی کنگ کا سب سے مضبوط پوائنٹ اس کی انفردیت، مقامی سطح پر متعلق کہانی، زبان متاثرکن ڈائیلاگ اور ان کرداروں کے ساتھ ہے ۔جو ،فلم کے آخر تک موجود رہیں گے ۔ فلم کی کہانی میں بچے مخاطب ہیں لیکن یہ بالغوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے یوں یہ ہر عمر کے افراد کےلئے دلچسپ فلم ثابت ہوگی۔ اوریقینی طور پر منگو اور اس کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش پیدا ہوگی۔ وڈیو ، کرداروں کی مختلف آوازیں اور ان کا معیار بین الاقوامی معیار کا ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں ماضی میں جتنی بھی اینی میٹڈ فلمیں بنی ہیں یہ ان سب کا سحر توڑدے گی اور پاکستان میں اینی میٹڈ فلموں کے بارے میں لوگوں کی جتنی توقعا ت ہیں وہ ان سب کو پورا کرے گی ۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس فلم میں کامیڈی کے ساتھ سماجی پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ ڈیڑھ برس کی انتھک محنت کے بعد بنائی گئی ’’دی ڈنکی کنگ ‘‘میں سب کیلئے سب کچھ موجود ہے ۔ انٹرٹینمنٹ سے بھر پور فلم ہے، لہٰذا اسے 8 سے 80 سال کا فرد خوب انجوائے کرے گا۔ فلم کے مرکزی کرداروں کاماسکوٹ پہن کر جب چند کریکٹرز نے مختلف مالز پر پرفارم کیا تو سیکڑوں بچے اُن کی طرف متوجہ ہوگئے ، اُن کے ساتھ سیلفیاں اور تصاویر بنوائیں۔ کئی بچے تو اس فلم کو ابھی سے دیکھنے کیلئے بضد نظر آئے۔ قلم کے صداکار اور پاکستان فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار اداکار افضل خان (جان ریمبو) اور کامیڈی کوئن (حنا دل پذیر) سے ہم نے فلم کے حولے سے گفتگوکی۔فلم میں ان کا کردار’’منگو‘‘ اور ’’فتنہ ‘‘ کے نام سے ہے۔فلم کے حوالے سےیہ بہت زیادہ پُرجوش ہیں۔دونوں آرٹسٹوں نے اپنی دلچسپ گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ کس طرح اس فلم میں کام کرنے کیلئے راضی ہوئے؟فلم کی ڈبنگ کے دوران اُنہیں کیا مشکلات پیش آئیں اور مستقبل میں اس فلم کے کیا اثرات ہوںگے ۔ اِنکی گفتگونذر قارئین ہے
٭… ریمبو! آپ جیو کی پہلی اینی میٹڈ فلم میں ایک ڈائیلاگ بولتے ہیں ’’مائی نیم از منگو، دی واشنگ مشین‘‘ یہ منگو کے ساتھ واشنگ مشین کا کیا تعلق ہے؟
جان ریمبو … (مسکراتے ہوئے) بات یہ ہے کہ ’’منگو ‘‘ ایک انتہائی دلچسپ کردار ہے، منگو کے ساتھ واشنگ مشین کا کیا تعلق ہے اس کا راز تو فلم دیکھنے کے بعد کھلے گا۔ لیکن میں ایک اشارہ دے سکتا ہوں کہ ’’واشنگ مشین‘‘ سے مراد ’’دھوبی‘‘ ہے جو بادشاہ بننے کے بڑے خواب دیکھتا ہے۔
٭… ریمبو،آپ نے بہت سی فلموں میں کام کیا، مارننگ شو بھی کیا۔ پھر یہ اینی میٹڈ فلم میں کام کرنا کیسا لگا؟
جان ریمبو … اس فلم میں کام کرناتومیری زندگی کا پہلا تجربہ ہے جو انتہائی شاندار ہے۔بات یہ ہے کہ فیچر فلموں یا ڈراموں میں تو ہم پہلے شوٹنگ کرتے ہیں، عملی طور پر آن اسکرین جو بھی کرتے ہیں بعد میں اُسی کی ڈبنگ کرلیتے ہیں۔ لیکن ’’دی ڈنکی کنگ‘‘ مختلف تجربہ یوں تھاکہ اس میں ہمیں عملی طور پر کچھ نہیں کرنا تھا بس،اپنی آواز کو کرداروں پر سجانا تھا، یوں سمجھ لیں کہ ہم اپنی آواز کے ذریعے اداکاری کررہے تھے۔
٭… آواز کے ذریعے اداکاری کرنے میں مشکل پیش آئی ہوگی؟
جان ریمبو … جی بالکل،آئی تھی۔شروع میں تو میں بہت زیادہ پریشان تھا کہ عملی طور پر میں اس فلم میں نہیں ہوں صرف آواز سے اپنی پرفارمنس کس طرح ناظرین کے سامنے پیش کروں گا؟۔ آپ یقین کریں جب میں اس فلم کیلئے ڈبنگ کروا رہا تھا تو خود بھی زور زور سے اُچھل کود کررہا تھا، کیونکہ ہمیں آواز بھی ایسی دینی تھی جو کرداروں کے تاثرات کے ساتھ میچ کرے۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ جب میں وائس اوور کرتے وقت اُچھل کود کرتا تو فلم کے ہدایتکار مجھ سے کہتے کہ آپ تو زبردست پرفارم کررہے ہیں ، ایسے ہی کرتے جائیں اگر آپ کی موومنٹ اچھی لگے گی تو ہم اپنے کریکٹر کو اُسے حساب سے ڈویلپ کرلیں گے۔
٭… کیا ڈنکی کنگ کے کردار پہلے سے ڈویلپ تھے، آپ کو صرف آواز دینا تھی؟
جان ریمبو … کردار تو پہلے سے ہی تھے لیکن کئی بار اُن کو مزید بہتر کرنے کیلئے کام کیا گیا، ویسے ایک بات ہے کہ فلم کے ہدایتکار عزیز جندانی نے ڈیڑھ برس اس فلم کےلئےانتھک محنت کی ہے۔
٭… آپ کا انتخاب کیسے ہوا؟
جان ریمبو … عزیز جندانی نے مجھے فون کیا،پھرایک دِن میرے پاس آئے۔کہامیں دبئی سے آیا ہوں، اینی میٹڈ کریکٹرز پر کام کرتا ہوں، اب میں ایک بڑی فلم بنا رہا ہوں جس میں آپ کو لینا چاہتا ہوں۔ فلم میں آپ کا مرکزی کردار ہوگا۔میں نے کہا کہ میرا تو شو چل رہا ہے، فی الحال میں اُس کی ریکارڈنگ میں مصروف ہوںآپ مجھ سے فلاں اسٹوڈیوز میں بریک میں آکر مل لیجئے گا۔ بہرحال میں چلا گیا اور اُن کو بھول گیا۔ کچھ دنوںنعدجس جگہ میں نے اُنہیں بلایا تھا وہ وہاںآئے اور مجھے ڈیڑھ سے دو منٹ کا ڈیمو دکھاکر اور کہنے لگے کہ، جان ریمبو صاحب، اگر آپ اس رول (منگو) کیلئے ہمیں اپنی وائس اوور دیں گے تو میں یہ فلم بنائوں گا ورنہ ہرگز نہیں بنائوں گا۔ میںنےکہا کہ،میں آپ کی فلم کیوں بند کرائوں گا؟۔ میں ضرور کام کروں گا۔پھرمیںانہیںاپنےساتھ گھرلےکر گیا،وہاں کھانا کھایا، اس کے بعد میں نے یہ پروجیکٹ اپنے بچوں اور بیگم کو دکھایا ، اس پروجیکٹ کے بارے میں سن کر وہ بھی خوش ہوگئے اور کہا کہ یہ تو بہت زبردست فلم ہے آپ کو اس میں ضرور کام کرنا چاہئے۔گھر والوں سے مشاورت کے بعدمیں نےاس فلممیں کام کرنے کی حامی بھری ۔اس کے بعد عزیز جندانی صاحب سے پوچھا کہ آپ مجھے ہی کیوں لینا چاہتے ہیں؟۔ اُنہوں نے جواب دیاکہ ریمبو! آپ کی آواز اور انداز سے سے ہی لوگ پہچان لیتے ہیں اوراس فلم میں ایسے لوگوں کو شامل کرنا چاہتا ہوں جن کی آواز سنتے ہی لوگ اُن کو پہچان لیں۔
٭… ’’ڈنکی کنگ‘‘ میں آپ کے علاوہ اور کن اداکار یا اداکارائوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے؟
جان ریمبو … جاوید شیخ ،حنا دل پذیر،اسماعیل تارا، غلام محی الدین ، عرفان کھوسٹ مانی اور کئی بڑے نام ہیں۔ اور جب آپ فلم سنیما گھر جاکر دیکھیں گے تو کئی آوازیں سن کرخود ہی پہچان لیں گے اور آپ کو بہت لطف آئے گا۔
٭… یعنی اس فلم میںانڈسٹری کی کریم کو شامل کیا گیا ہے؟
جان ریمبو … جی بالکل اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ آج تک کسی فلم یا ڈرامے میں اتنی بڑی کاسٹ کو ایک
ساتھ شامل نہیں کیا گیا ہے جتنی اس فلم میں ہے۔ خوش قسمت ہیں عزیز صاحب کہ فیچر فلموں میں ایک ساتھ اتنی بڑی اسٹار کاسٹ نہیں ہوتی جتنی بڑی کاسٹ اُن کی اینی میٹڈ فلم میں آگئی ہے۔
٭… حنا صاحبہ! آپ اس فلم میں کیا کردار کررہی ہیں؟
حنا دل پذیر … میں فلم میں ’’مس فتنہ‘‘ کے روپ میں نظر آئوں گی اور اس کی دلچسپ کہانی اور کرداروں کو دیکھ کر سب اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ ’’مس فتنہ کو مس فٹ کبھی نہ سمجھنا‘‘۔
٭… آپ نے بے شمار ملٹی پل کردار ادا کئے ہیں، جب کوئی آرٹسٹ اپنا بنچ مارک سیٹ کرلیتا ہے تو پھر سوچتا ہے کہ میں اب اس سے کوئی کردار نہیں کروں گا پھر آپ نے مس فتنہ کا کردار ادا کرنے کیلئے کیسے حامی بھرلی؟
حنا دل پذیر … پہلے تو میں آپ کو بتا دوں کہ جو بنچ مارک میں نے اپنے ذہن میں سیٹ کررکھے ہیں یہ کردار اس سے نیچے یعنی کم کا ہے ہی نہیں۔ میں سمجھتی ہوں اب تک میں نے جتنے بھی کردار ادا کئے ہیں مس فتنہ اُن سب پر بھاری ہے۔ کردار میرے دِل کے بہت قریب ہے۔ میں آپ کوایک مزے کی بات بتائوں کہ عزیز جندانی صاحب جنہوں نے اس فلم کااسکرپٹ لکھا بھی ہے ، میں اُن کی ٹیم کا حصہ ہوں،لہٰذا مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ ایک صاحب ہیں جو ایک بہت بڑی اینی میٹڈ فلم بنا رہے ہیں اور وہ اپنی فلم میں میری آواز کو شامل کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ میں نے اس فلم کیلئے صاف منع کردوںگی،کیوں کہ میںسمجھ رہی تھی کہ شاید اس فلم کا اسکرپٹ اتنا اچھا نہیں ہوگا بس ایسے ہی ہلکی پھلکی انٹرٹینمنٹ ہوگی۔ لیکن میری سوچ غلط تھی۔کہ جیسے جیسے میں کہانی سنتی گئی ویسے ویسے میں اُس کے اسکرپٹ میں ڈوبتی چلی گئی،بہت زیادہ حیران بھی ہوئی کہ اینی میٹڈ فلم بھی اتنی اچھی بن سکتی ہے؟۔ یہ تو کمال ہی ہوگیا۔
٭… یعنی کرداروں کا فارمیٹ پہلے سے تیار کرلیا گیا تھا اور آپ کو صرف اسکرپٹ بتایا گیا تھا؟
حنا دل پذیر … پہلے تو عزیزصاحب نےفلم کا سینٹرل آئیڈیا بتایا،مختلف آوازوں میں مجھے اپنی فلم سنائی، پھر میں سوچ میں پڑ گئی کہ اتنی مختلف آوازوں میں یہ مجھے فلم سنا رہے ہیں تو خود کیوں نہیں کرلیتے اور اُنہوں نے اس میں اپنی مہارت بھی دکھائی ہے ، عزیز جندانی واقعی بہت باصلاحیت انسان ہیں۔ اس فلم میں ایک بہت بڑی بات ہے جو پہلے اس انداز میں کبھی نہیں کہی گئی وہ بیان کی گئی ہے۔یعنی کسی کی دِل آزاری بھی نہ ہو اور اچھا پیغام ہر چھوٹے اور بڑے تک پہنچ جائے۔ مجھے اس فلم کی کہانی، اسکرپٹ اور سب سے بڑھ کر جو پیغام دیا جارہا ہے اس نے متاثر کیا اور میں نے فوراً فلم میں کام کیلئے حامی بھرلی۔
٭… آپ نے کئی ڈراموں میں مختلف ٹونز میں کام کیا ہے، کیا اس فلم کیلئے اپنی آواز کی کوئی ٹون متعارف کرارہی ہے؟
حنا دل پذیر … میں ٹونز متعارف نہیں کراتی صرف تُکے لگاتی ہوں اور اوپر والے کا بہت شکر ہے کہ میرا ہر کردار منفرد بن جاتا ہے اور مقبول ہو جاتا ہے۔ یقین کیجئے اکثر لوگ مجھ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ فلاں کردار آپ نے کیسے کرلیا، کیسے اپنے ذہن میں ایک نیا لہجہ متعارف کرالیا، کیا آپ ہر کردارکرنے سے پہلے ریسرچ کرتی ہیں؟۔ تو میں اُن سب سے ایک ہی بات کہتی ہوں کہ میں صرف تُکے لگاتی ہوں اور کردار میں جان پڑ جاتی ہے تو پھر لوگ واہ واہ کرنے لگتے ہیں۔ میں تو صرف کوشش کرتی ہوں اچھا کام تو صرف اوپر والے کے کرم سے ہوتا ہے۔
جان ریمبو … جب عزیز جندانی صاحب میرے پاس آئے تھے تو اُنہوں نے ذکر کیا تھا کہ اس فلم میں حنا دل پذیر بھی ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ پاکستان کی اتنی بڑی آرٹسٹ بھی اس فلم میں کام کررہی ہیں، میں نے اُن سے مزید پوچھا کہ کیا اُنہوں نے اس فلم میں کام کرنے کیلئے حامی بھرلی ہے تو اُنہوں نے جواب دیا نہیں، ابھی تک میں نے اُن سے بات نہیں کییہ سن کر مجھےبہت حیرت ہوئی کہ ابھی تک آپ نے بات نہیں کی پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حنا دل پذیر بھی اس فلم میں کام کریں گی؟۔میرےچہرے کے تاثرات سے وہ سمجھ گئےتھےکی میرے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔انہوںنے فوراََکہا،اگر آپ دونوں اس فلم کیلئے راضی ہوں گے تو ہی یہ فلم بنے گی ورنہ نہیں بنے گی۔
٭… آپ کی باتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ ’’ڈنکی کنگ‘‘ صرف کارٹون فلم کی حد تک نہیں ہے اس میں عوام کیلئے بہت کچھ نیا ہے؟
جان ریمبو … اگر آپ آسان لفظ میں پوچھیں تو یہ فلم 8 سال سے لےکر 80 سال کی عمر تک کے ا فراداسےدیکھ کربہت انجوائے کریں گے۔
حنا دل پذیر … میں ریمبو کی بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ اس فلم کو سب ہی بہت زیادہ انجوائے کریں گے۔ اگر یہ فلم بچہ دیکھے گا تو وہ کارٹون دیکھ کر انجوائے کرے گا اور بڑے دیکھیں گے تو وہ جیسے جیسے دیکھتے جائیں گے ویسے ویسے اُنہیں اس فلم کا پیغام سمجھ آتا جائے گا، وہ بھی اس کہانی سے محظوظ ہوں گے، ویسے بھی موجودہ دور کے بچے تو بہت زیادہ ذہین ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ جو فلم ہم لا رہے ہیں اس کے ذریعے اگر اچھی بات آج بچوں کے ذہن میں بٹھا دی جائے تو ہمارا کل بہت آسان ہو جائے گا۔
٭… کیا یہ بتایا گیا تھا کہ مس فتنہ کی چال ڈھال ایسی ہونی چاہئے، لہجہ ویسا ہونا چاہئے، ٹون اور کپڑے وغیرہ کیسےہونے چاہئیں؟
حنا دل پذیر … جی ہاں، ہم نے ایک ایک سین کےلئے کئی کئی میٹنگز کی ہیں، ہر ٹیک کےلئے بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ بعض اوقات تو ہم نے ایک سین فائنل کرلیا پھر مجھے لگا کہ اس میں مزہ نہیں آرہا تو پھر ہم نے اُسے دوبارہ کیا، یوں سمجھ لیں اس میں کام کیلئے پاگل پن کی حد تک ملوث ہونے والے آرٹسٹ شامل تھے، اِن میں سے ایک پاگل میں ہوں، دوسرا ریمبو اور تیسرے عزیز جندانی ۔
جان ریمبو … اکثر ہم ریکارڈنگ بوتھ میں اپنے ڈائیلاگ ریکارڈ کرتے تو باہر کھڑے عزیز جندانی عملی طور پر اپنے ری ایکشن دیتے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اینی میٹڈ فلم کےلئےاُن کو اتنا زیادہ لگائو تھا۔
٭… آپ نے ’’گیسٹ ہائوس‘‘ میں جو کردار ادا کیا تھا وہ آج تک لوگ یاد کرتے ہیں، کیا منگو کا کردار بھی ناظرین یاد رکھیں گے؟
جان ریمبو … بات یہ ہے کہ میرا جان ریمبو کا کردارپہلے بچوں کو پسند آیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بڑوں نے بھی پسند کرنا شروع کردیا تھا، وہ کردار میری پہچان بنا۔ آج بھی لوگ مجھے جان ریمبو کہہ کر پکارتے ہیں۔ اب آجائیں ’’منگو‘‘ پر ۔ یاد رکھیں جو کردار بچوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائیں وہ مدتوں یاد رہتے ہیں، جب میں نے جان ریمبو کا کردار ادا کیا تھا اس وقت کے بچوں کا شمار آج کے نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ اب اگر میں منگو کا کردار ادا کروں گا تو یقیناً آج کے بچے جب اسے دیکھیں گے تو اِسے اپنی جوانی تک یاد رکھیں گے۔
٭… فلم کا موضوع کیا ہے؟
جان ریمبو … اگر ہم نے سب کچھ یہاں بتا دیا تو پھر لوگ سنیما گھر میں کیا دیکھنے آئیں گے، اس لئے کچھ رازداری رہنے دیں تاکہ لوگوں کو تجسس رہے کہ اکتوبر میں کوئی اچھی چیز آرہی ہے۔
٭… اچھا! آپ پوری فلم کا نہ بتائیں لیکن عوام کو ٹیزر تو فراہم کردیں؟
حنا دل پذیر … اس فلم کا ٹیزر میں اس طرح پیش کروں گی کہ ہم جو ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہیں اُن میں ہمارے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اِسی طرح اس پیاری سی، معصوم سی، اینی میٹڈ فلم میں ہمارے معاشرتی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ فلم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا گیا۔ناظرین دیکھیں گے کہ کس طرح چند کردار معاشرے کی برائیوں میں پھنس جاتے ہیں، کس طرح اس گھٹن میں سانس لیتے ہیں اور پھر کس طریقے سے وہ اس گھٹن زدہ ماحول سے آزاد ہو کر اچھے کریکٹر بنتے ہیں۔ اس فلم میں بہت سی مزے مزے کی چیزیں ہیں جسے بچے بڑے سب انجوائے کریں گے۔
٭… ریمبو تو اس میں گدھے کا کردار ادا کررہے ہیں، مس فتنہ کا کیا کردار ہے؟
حنا دل پذیر … ویسے تو لومڑی کیلئے معصوم کا لفظ استعمال نہیں ہوتا لیکن اس فلم میں مس فتنہ ایک بہت ہی پیاری اور معصوم سی لومڑی ہے۔
٭… اس فلم کے علاوہ اب جو پاکستانی فلمیں بن رہی ہیں اس کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
جان ریمبو … اب تو بے تحاشہ فلمیں بن رہی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک فلم بن رہی ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری بہت آگے چلی گئی ہے، اس انڈسٹری نے مختصر وقت میں بہت زیادہ ترقی کرلی ہے، مجھے خوشی ہے کہ اب پاکستانی فلمیں بھی دُنیا بھر میں ریلیز کی جارہی ہیں۔
حنا دل پذیر … حال ہی میں ’’جیوفلمز‘‘ نے ’’لوڈویڈنگ‘‘ فلم ریلیز کی ہے ، میں نے اُس کی بہت زیادہ تعریفیں سنی ہیں، بس اس کے ٹکٹ نہیں مل رہے جیسے ہی مجھے ٹکٹ ملے گا میں فوراًدیکھنے جائوں گی۔ اور میں بھی اُن تمام لوگوں کو بہت زیادہ مبارکباد دیتی ہوں جو ہماری فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے بہترین کام کررہے ہیں۔
جان ریمبو … میرا دِل چاہتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جو لوگ فلمیں بنا رہے ہیں اُن کیلئے کھڑے ہوکر باقاعدہ تالیاں بجا کر داد دوں۔ میری تو خواہش ہے کہ ایک سے ایک اعلیٰ معیار کی فلم پاکستان میں بنے، جتنی زیادہ فلمیں بنیں گی، اُتنا ہی زیادہ روزگار لوگوں کو ملے گا اور زیادہ سے زیادہ لوگ کام کریں گے۔
حنا دل پذیر … جیو کی ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ بھی بہت زبردست فلم ہے…
جان ریمبو … وہ تو میں نے بھی دیکھی ہے، طیفا کی جتنی بھی تعریف کریں وہ کم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب فلموں میں تجربات کا وقت ختم ہوگیا اور فلم انڈسٹری میں مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔
حنا دل پذیر … اوپر والے کے کرم سے ہم اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ اینی میٹڈ فلموں کیلئے کام شروع ہوگیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اکیلا آدمی چلا تھا اور کارواں بنتا گیا تو یہ ایک کوشش ہے ،اُمید ہے کہ اس طرح کی مزید اچھی فلمیں بھی بنیں گی۔ میں حقیقت بتائوں کہ عزیز جندانی صاحب اداکاروں میں زیادہ گھلتے ملتے نہیں، نہ ہی انڈسٹری میں اُن کی زیادہ دوستیاں ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جسے بھی اپنی فلم کی کہانی سناتے ہیں، وہ سحر میں جکڑ جاتا ہے۔ آپ مجھے دیکھ لیں پہلے میں منع کررہی تھی لیکن کہانی سن کر اُن کی بانسری کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔مجھے تو بہت زیادہ یقین ہے کہ جب یہ فلم سنیما گھروں مین چلےگی توناظرین بہت انجوائے کریں گے،اور ایک اچھا سبق اپنے ساتھ لےکرگھر لوٹیںگے۔