• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر…سلیم یزدانی
یہ دیکھا گیا ہے کہ جو کچھ لوگوں کے موافق ہے وہ اسے سچ سمجھتے ہیں اور جو ان کے خلاف ہے ان کی سوچ کے خلاف ہے توقعات کے خلاف ہے وہ غلط ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جو چیز حقیقت ہے اس کو صحیح و درست مانا جائے لیکن پاکستان میں سیاسی کلچر وہی ہے، جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی پارٹی نےاور انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے اس کے پیچھے عوامل کچھ اور تھے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، بے نظیر جب انتخابات میں کامیاب ہوئیں تو وہ حلف لے رہی تھیں اور باہر مظاہرہ ہورہا تھااپوزیشن دھاندلی نامنظور کے نعرے لگا رہی تھی، اس غیر جمہوری روئیے سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچا۔ گزشتہ ستر سال میں پاکستان اور عوام کی دولت کو جس طرح لوٹا گیا اس کی مثال ملکوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فلپائن میں ایک مارکوس تھا یہاں تو مارکوسوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ جنہوں نے لوٹ کھسوٹ کے ذریعے ملک کو دیوالیہ کردیا۔ اخبارات میں سابق صدر ممنون حسین کا بیان کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ بدعنوان آدمی آخر کار پکڑا جاتا ہے بالکل درست ہے۔ یہ اشارہ کسی کی طرف نہیں ہے جو بوئو گے وہی کاٹو گے۔ نئی نسل کو یہ یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی جس طرح وہ جوق در جوق ووٹ ڈالنے نکلے تھے ،انہیں یقین تھا کہ حکومت تبدیل ہوگی ستر سال سے جو اسٹیٹس کو تھا وہ ضرور ٹوٹے گا مگرابھی پوری طرح وہ نہیں ٹوٹا ہے۔ایک بڑی فکری تبدیلی کی بھی ضرورت ہے تحریک پاکستان کے قائدین نے قائد اعظم کی سربراہی میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک مستحکم سوچ پر کھڑا کردیا تھا ،وہ فکر کامیاب ہوئی اور ستر سال پہلے پاکستان وجود میں آگیا اس وقت نہ کوئی بنگالی تھا نہ پنجابی تھا نہ سندھی تھا نہ پختون تھا ہر شخص پاکستانی تھا اور مسلمان تھا۔جب رسول اکرمؐ ہجرت کرکے مدینے پہنچے تو سب سے پہلے اللہ کے آخری نبی ؐ نے مکے سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین اور مدینے کے انصار کو بھائی بھائی بنادیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ فکری تحریک شروع کرنا چاہئے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں رہنے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ بھائی چارے کی تحریک اگر کامیاب ہوگئی تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی اس تبدیلی کی ضرورت ہے فکر کی تبدیلی پاکستان کو ایک طاقتور ملک بنادے گی۔ اس سے اتحاد پیدا ہوگا ایثار و قربانی کا جذبہ بڑھے گا۔ یہ کام نعرے بازی سے نہیں ہوتا۔ عمل اور یقین سے ہوتا ہے۔ عوام کی بھلائی کا کام کریں ان کےلئے آسانیاں پیدا کریں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی کی حکومتیں اور حکمراں پاکستان کو معاشی اعتبار سے اقتصادی میدان میں آگے بڑھاتے ،قوم میں فکری ہم آہنگی فروغ دیتے، تعلیم کو عام کرتے پاکستان کے سماجی انفراسٹرکچر کو رسول کریمؐ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں مقام عظمت تک پہنچاتے۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلاتے۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یک جہتی اور فکری ہم آہنگی کی ضرورت ہے اتحاد ایمان کی علامت ہے لیکن ہارے ہوئے سیاستداں اور پارٹیاں انتشار و افتراق پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ کوئی حکومت ہو اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب وہ جمہوری تقاضوں کے مطابق حکمرانی کرے۔ آئین اور قانون کے مطابق حکومت اگر نہیں چلائی جائے گی تو جمہوریت اور جمہوری نظام نہیں چلے گا وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات اپنے ذہن میں پختہ کرلینی چاہئے کہ اقتدار بہت بڑی امانت ہے، انہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد اب تک جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ مدینے کی ریاست جیسا عدل و انصاف ، مساوات اور انتظام و انصرام نافذ کریں گے جہاں کوئی حد سے تجاوز نہیں کرسکے گا۔یہ نفرت کی سیاست، تعصب کی سیاست بلاوجہ ٹکرائو کی سیاست ختم کرنی ہوگی عمران خان صاحب کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں ۔حکومت کو خسارہ پورا کرنا ہے تو بینکوں سے قرضہ لے کر جو ہڑپ کیا گیا ہے اسے وصول کریں۔ اصغر خان کے کیس میں جنہوں نے رقوم لی ہیں  ان سے واپس لی جائیں۔ آپ کو یاد ہوگا حکومت نے ماضی میں لوگوں کے زر مبادلہ کے اکائونٹ منجمد کئے تھے وہ رقم کہاں گئی ڈالر کہاں گئے پونڈ کہاں گئے یہ بھی ہوا کہ حکومت کے بااثر افراد کے اکائونٹ منجمد کرنے سے پہلے بڑی رقمیں نکال لی تھیں اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ عمران خان کی دیانت، ایمانداری پر عوام کو یقین ہے وہ ایک حوصلہ مند شخص ہیں کبھی ہار نہ ماننے والے آخر کار وہ کامیاب ہوگئے۔ سو دن کی کارکردگی بہت کچھ عوام کو بتادے گی سمجھا دے گی۔سو دن دیکھتے دیکھتےہی گزر جائیں گے حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ مدینے کی ریاست رسول اکرم خاتم النبیینؐ کے اسوئہ حسنہ کے اتباع سے قائم ہوگی ،جو بھی اپنے آپ کو رسول کریمؐ کے دامن سے وابستہ رکھے گا اللہ اس کو کامیاب رکھے گا۔بابا فرید گنج شکرؒ نے نصیحت کی ہے کہ دیکھو نبی کریمؐ کو بھلانا نہیں یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ایک فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، عزم و ارادے کی ضرورت ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا ہے ہم گھاس کھالیں گے مشن پورا کریں گے۔
تازہ ترین