اقوامِ متحدہ سے وابستہ دنیا کےممتاز ترین ماہرینِ ماحولیات اور آب و ہوانےگزشتہ دنوں خبردار کیا ہے کہ اگر بارہ برسوں میں ہم نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج محدود کرنے سمیت دیگر اہم اقدام نہ اٹھائے تو دنیا بھر میں سیلاب، طوفان، موسمیاتی شدت، خشک سالی اور فصلوں کی تباہی کا عمل تیز ہوسکتا ہے جس کے پورے سیارے پر غیرمعمولی طورسے منفی نتائج پڑیں گے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی) کی جانب سے9 اکتوبر کوجاری کی گئی رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ ہمارے سیارے کے اوسط درجہ حرارت میں ایک درجہ سینٹی گریڈ کاپہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے۔ اب اگر اس میں 1.5 سینٹی گریڈ کامزیداضافہ ہونے سے روکنا ہے تو آج ہی سےہمیںجرأت مندانہ اقدام اٹھانے ہوں گے۔بہ صورتِ دیگر اس اضافے سے خشک سالی، قحط، شدید گرمی، موسمی شدت، جنگلات کی آگ، سیلاب اور طوفان جیسی آفات میں اضافے سے دنیا بھر میںکروڑوں افراد متاثر ہوں گے کیوں کہ زمین کا انتہائی نازک اور حساس نظام اس گرمی سے کئی طرح سے متاثر ہوگا۔واضح رہے کہ جب اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے انیسویں صدی کے بعد سے درجہ حرارت میںہونے والا اوسط اضافہ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ممالک میں بہت پیچھے ہے ،لیکن جرمن واچ کے مطابق یہ دنیا کے اُن سات ممالک میں شامل ہے جوموسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوں گے۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں پیرس کے معاہدے پر عمل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد سائنس اور سیاست کی نہ رکنے والی بحث شروع ہوگئی تھی اور زمین پر گرمی بڑھانے والی گرین ہاؤس گیس، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سب سے بڑے مخرج، امریکا نے اس سے جان چھڑانے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا، پیرس کے معاہدے پر عمل کرنےکاپابند نہیں رہا۔دراصل یہ معاہدہ رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال میں کمی کے علاوہ منصوبہ بندی، انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، زراعت، شہری امور وغیرہ میںاہم اصلاحات کرنےپر بھی زور دیتا ہے۔ لیکن اب پوری دنیا آب و ہوا میں تبدیلی کے ہول ناک اثرات دیکھ رہی ہے۔ کئی برسوں سے ہم گرمی کے ریکارڈ ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس سال دنیا کے بڑے سمندروں میں آنے والے ہول ناک طوفان بھی ہمارے سامنے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے اجراء کے ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک ویب سائٹ پر اپنے مضمون میں کہاہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سردمہری سے سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے جس کا عالمی حل ڈھونڈنا ہوگا۔ آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک کی جانب سے سست روی پرانہوںنےشدید مایوسی کا اظہار بھی کیا ۔ واضح رہے کہ ناسا کے ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انیسویں صدی کے بعد سے اب تک عالمی درجہ حرارت میں 0.9 فی صد اضافہ ہوچکا ہے جسے ایک درجے سمجھنا بہتر ہوگا۔ ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی بقا و سلامتی کےلیےہمیں سخت اقدام اٹھنے ہوں گے ۔ رپورٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ عالمی حِدّت اندازوں سے کہیں زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہے اور تباہ کن صورت حال سے بچنے کے لیےوقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس کے اثرات پہلےسے لگائےگئے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں ۔لہذا معاشروں ميں لوگوں کے طرز زندگی اور اقتصاديات ميں اس قدر وسيع ترتبدیلیاں درکارہیں کہ ان کے بارے ميں سوچا بھی نہيں جا سکتا ۔ اکیانوے مصنفین کی تیار کردہ اس خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی حِدّت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی حد کے میںرکھنے کے لیے دنیا بھر کی معیشتوںمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ماہرین پہلے ہی خبر دار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات بہت تباہ کن ہوں گےان کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں مسلح تنازعات، بھوک، سیلاب اور ہجرت جیسے مسائل بھی شدت اختیار کر جائیں گے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گرین ہاؤس یا سبزمکانی گیسز کے اخراج میں کمی نہ کی گئی اور کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا، جس کے مالیاتی اثرات کئی ٹریلین ڈالرز کے مساوی ہو سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق زمین کے درجہء حرارت میں ہر ایک ڈگری کا اضافہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تباہی بڑھانے کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچے گا بلکہ انسانی، حیوانی اور نباتاتی صحت پر بھی نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ماہرین دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ درجہء حرارت میں اضافے سے پیدا ہونے والے اثرات شدید، تباہ کن اور ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔
جاپانی شہر یوکوہاما میں پانچ روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد آئی پی سی سی کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے چار برس قبل اب تک کی سخت ترین تنبیہ جاری کی گئی تھی۔ اس وقت جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ رواں صدی میں زمینی درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ تین سے چار اعشاریہ آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتاہے، جس سے سمندروں میں پانی کی سطح 26 تا 82 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اگر صنعتی انقلاب سے قبل کے مقابلے میں زمینی درجہ حرارت دو درجے سینٹی گریڈ بڑھا تو اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی کل آمدن کا صفر اعشاریہ دو فی صد تا دوفی صد حصہ خرچ ہو گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ زمینی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل کے دور کے درجہء حرارت کے مقابلے میں رواں صدی میں ہونے والے اضافے کو دو درجے سینٹی گریڈ تک روکا جاسکے۔اس سلسلے میں ایک جائزہ 2007ء میں شایع کیا گیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس مطالبے میں شدت آئی تھی کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوئی مربوط معاہدہ ناگزیر ہے۔ اسی بابت 2009ء میں کوپن ہیگن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی۔ تاہم اس کانفرنس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی۔
اُس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک، بہ شمول چین نے سبز مکانی گیسز کے اخراج میں کمی کے حوالے سے عالمی مطالبات مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس مسئلے پر ترقی یافتہ ممالک قائدانہ کردار ادا کریں کیوں کہ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنی شرح نمو اور صنعتی ترقی کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔
پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتا پانی
پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالے سے 2025ء ایک علامتی سنگ میل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ی پی)، آئی ایم ایف، پاکستان کی کونسل فار ریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی )،سب ہی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی ختم ہو جائے گا۔ پاکستانی تحقیقی ادارے نے 1990ء میں تنبیہ کی تھی کہ پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ اس کے بعد 2005ء میں اس ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان پانی کی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔
یہ صورت حال وقت، مواقعے اور وسائل کے مسلسل ضیاع کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ 5200 کیوبک میٹرز پانی دست یاب تھا ۔ 2018ء میں یہ شرح 1000 کیوبک میٹرزسے کم ہے اور خدشہ ہے کہ 2025ء تک یہ مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹرز تک رہ جائے گی۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے خشک سالی اور قحط۔پانی کی قلت اور متعلقہ مسائل پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے حصار فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ماہر، توفیق پاشا کے مطابق چند دہائی قبل تک پاکستان میں تیس فیٹ کی گہرائی تک پانی مل جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں پانی کے لیے بہت سے مقامات پر سات سے آٹھ سو فیٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کے زیر زمین ذخیرے کی تشکیل میں قدرت کو بعض اوقات ایک ہزار برس درکار ہوتے ہیں۔ اگر اس پانی کو ٹیوب ویلز کے ذریعے بے دریغ نکالا جائے گا تو یقینا چند برسوں میں ختم ہو جائے گا۔ پنجاب میں زیر زمین پانی کی شرح 20 ملین مکعب فٹ تھی، لیکن ہم نے اس کی گویا کان کنی کی ہے۔
واپڈا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کو 176 ملین گیلن سالانہ درکار ہے، مگر اسے 84 ملین گیلن میسر ہے، کراچی کو 1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف 600 ملین میسر ہے۔ پشاور کی سالانہ ضرورت 250 ملین گیلن ہے،لیکن اسے صرف 162 ملین گیلن مل پاتا ہے۔لاہور کی سالانہ ضرورت 692 ملین گیلن ہے،لیکن اسےملتا 484 ملین گیلن ہے۔اسی طرح کوئٹہ کی ضرورت 45 ملین گیلن ہے،لیکن اسے 28 ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں۔
ایک جانب یہ صورت حال اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے اور دوسری جانب پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کے تناسب میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے،2046 تک ملک کی آبادی دگنی ہو جائے گی اور2030 تک پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے گنجان آباد ملک بن جائے گا۔اس آبادی کے لیے 12کروڑ نوکر یا ں ، 1کروڑ90لاکھ گھر اور85ہزار پرائمری اسکولزدرکار ہوں گے۔اس ضمن میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.40فی صدتک پہنچ گئی ہے اوراگر یہ شرح برقراررہی تو2046 میں آبادی دگنی ہوجائے گی اور2040 تک پاکستان میںمزیدبارہ کروڑ نوکر یا ں درکار ہوں گی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے شکار دنیا کے تین ممالک میں سے ایک ہے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ رہایش کے لیے ایک کروڑ 90لاکھ گھروں کی ضرورت ہوگی اور2040 تک ملک میں 85 ہزارمزیدپرائمری اسکولز بنانے پڑیں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں زچگی کے دوران ماؤں اور بچوں کی اموات سب سے زیادہ پاکستان میں ہو رہی ہیں۔ہر سال بارہ ہزار مائیں زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ پاکستان میں ہر ایک ہزارولادتوں میں62 شیرخواربچے ایک سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔سروےکے مطابق جنوبی ایشیامیں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش کی شرح پاکستان میں ہےاور پانچ سال سے کم عمر کے 68 فی صد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ان حالات میں مستقبل کا سوچ کر دل دہلنے لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آبادی میں اضافے سے بھی ہماری پانی کی ضرورت اور ترسیل کےنظام پر دباؤ بڑھا ہے۔تاہم اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں۔ کسی با ضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔ صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا، مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقرر نہیںکیے گئے، لہذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے مواد زیر زمین پانی میں شامل ہو گئے۔ سیمنٹ اور چمڑے کی فیکٹریز نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نہروں کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور نہری سلسلے میں آب پاشی کے دوران تقریبا 50 فی صدپانی ضائع ہوتا رہا۔ سیم اور تھور کی روک تھام بھی نہیں کی جا سکی۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں پانی کے بحران اور اس کے ممکنہ تباہ کن اثرات کے موضوع پر فرانس کے معروف ٹی وی چینل، فرانس 24 پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک انٹرسٹ کے ماہر برائے جنوبی ایشیا، اولیور گئیر نے بتایاتھا کہ یہ نئی یا ناگہانی صورت حال نہیں۔ میں 25 برس قبل پاکستان میں قیام پذیر تھا، اس وقت بھی سب کو علم تھا کہ پاکستان اس تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں انہیں اس حوالے سے کوئی سنجیدگی یا پریشانی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی ایسے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی سیاسی عزم دکھائی دیا۔
پانی کے بحران کے حوالے سے حکومتی اور ریاستی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ء میں ہوا۔ 2005ء میں ورلڈ بینک کی تحقیقی رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہواتھا۔ 2010ء تک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی۔ 2012ء میں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ء تک بحث ،مباحثے اور نظرثانی کے مراحل سے گزرتا رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈس سسٹم کا 50 فی صد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضایع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ ڈیم اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور پاکستان میں خوراک،پانی اور توانائی کے بحران باہم مربوط ہیں۔ اس رپورٹ میں دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔لیکن ہم نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسوریسز نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو سن دو ہزار پچیس تک قحط جیسی صورت حال یا پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔اس ادارے کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر بر وقت اقدام نہ اٹھائے گئے تو دس سال بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہونے کا خطرہ ہے اور بات قحط سالی تک بھی جاسکتی ہے۔آبی امور کے ماہرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ ہم نےچار دہائیوں میں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا۔ ڈیموں اور بیراجوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اُس کی تعمیر کے وقت دس ملین ایکڑ فیٹ تھی تو وہ اب چھ ملین فیٹ ہوگئی ہے۔اس کمی کی ایک وجہ جنگلات کے سکڑنے کا عمل بھی ہے۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی کے جمع ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ درخت نہ ہونے کی وجہ سے کیوں کہ پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا لہذا مٹی، کنکر، پتھر اور ریت آکر ڈیموں اور بیراجوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔
کرہ ارض کے بجھے جاتے ہیں چراغ
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرہ ارض کے بجھے جاتے ہیں چراغ
جی ہاں جناب۔ہماری آنکھوں میں دور کے سہانے خوا ب سجے ہوئے ہیں،ہمارے کان دور کے ڈھولوں کی تھاپ پر شاداں و فر حا ں ہیں اور ہمارے تصورات میں نئے جہاں آباد ہیں۔ہم دوشِ ثریّا ہونے کی خواہشوں میں ہماری زمین بنجر ہونے لگی ہے اورآج حال یہ ہے کہ
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے
ان فضاوں میں تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاوں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
حضرتِ انسان کے عروج کے چرچے آسمانوں پر ہیں۔ وہ کیا ہے جو ہم نے حاصل نہیں کرلیا، پرندوں کی مانند ہوا کا سینہ چیرتے ہوائی جہاز، سمندروں کی چھاتی پر ہچکولے لیتے بحری جہاز، پردیس کی باتوں کو کان کے پردوں پر انڈیلنے والے موبائل فون، جھرنوں کی آوازوں کے اثرات پیدا کرتے ہوئے موسیقی کے آلات، جامِ جمشید کی مانند ہر لمحہ خبر دینے والے ٹیلی ویژ ن، گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنے والی گاڑیاں، موسموں کی شدت کو کم کرنے والے لباس۔ غرض یہ کہ وہ کیا نہیں ہے جو اس ابنِ آدم کے تخیل میں تھا اور اس نے حاصل نہ کر لیا ہو ۔۔۔۔مگر دور دیس کے خوابوں میں اپنے جہاںکے مسائل فراموش کرتا چلا گیا، ستارہ سحری کی خبر رکھنے والا ہم سائے کے حال سے بے خبر ہوتا چلا گیا اوراس کی مسکراہٹیں محدود ہوتی چلی گئیں۔
اب عالم یہ ہے کہ گندم کی بالیاںاور سرسوں کے پھول مہکتے تو ہیں، مگر ان پر استعمال ہونے والے زہروں کااثر ہماری نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پرتباہ کیے جا رہا ہے۔ دودھ فروخت کرنےوالوںنےجب سے انجکشنز کے دم پر جانوروں سے دودھ حاصل کرنا شروع کیاہے اسی دودھ سے بیماریاں جنم لینے لگی ہیں۔جب ویکسین ہی زہر بن جائے،دردکم کرنے والی دواوں سے درد بڑ ھتا ہو ،دودھ اور پانی کی بوتلوں میں بیماریاں بٹتی ہوں، جب ترقی کی روشنی سے اپنے ہی بچوں کے مستقبل چندھیا جانے کا اندیشہ ہو، جب ہر تازہ سبزی کرم کش زہروں سے دھلی ہو، ہر نیا پھول کسی ہارمون کی وجہ سے کھلا ہو، فراوانیِ رزق تو ہو، مگر خوراک جزوبدن نہ بنتی ہو، وٹامن کی بوتلیں لوگوں کے چہروں پر نظر کی عینکیں سجاتی ہوں،مصنوعی گھی کی وجہ سے ہڈیوں میں جان نہ پڑتی ہو، جب ہر چکنائی کولسٹرول بڑھاتی ہو اور ہر مٹھاس سے ذیابطیس ہو جانے کا اندیشہ ہو تو انسان کو ایک لمحے ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ چاند کی چاہ میں وہ اپنے گھر کے چراغوں کا قاتل کیوں بنتا جا رہا ہے۔
ماہرینِ ماحولیات باربارمتنبہ کررہے ہیں کہ ہمیں پھر سے وہ بستیاں بسانی ہیںجہاں پودوں کا ہرا رنگ کسی پینٹ کا نہیں بلکہ قدرت کے کلوروفل کا مرہون منت ہو۔ ہمیںپھر سے اپنے جانوروں کو ایسی خوراک دینی ہے جو فطری اجزا پر مشتمل ہو تاکہ ان سے حاصل ہونے والا گوشت اور دودھ ہماری صحت کا ضامن بن سکے نہ کہ د شمن ۔ اور پھر سے زمینوں کو ایسی غذائیت دینی ہےکہ وہ انسان کےلیے متوازن اور صحت بخش خوراک کا بندوبست کر سکے۔ اگر ہمیں اپنی نسلوں کی بقا عزیز ہے تو زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ورنہ ایک روز سب چراغ بجھ جائیں گے اور کرہ ارض پر ہر طرف اندھیرے کا راج ہوگا۔
تازہ ہوا کی فروخت
حضرتِ انساں چاند پر تو پہنچ گیا ،لیکن اس نے زمین کی فضا اتنی آلودہ کردی ہے کہ اب سانس لیتے ہوئے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ لہذا اب کہیں ہوا صاف کرنے والی مشین بن رہی اور فروخت ہورہی ہے اور کہیں صاف ہوا فروخت ہورہی ہے۔حال ہی میںنیوزی لینڈمیں تازہ ہوا کی فروخت شروع ہوگئی ہے جس پرشدید تنقید کی جارہی ہے۔ برطانوی ذرایع ابلاغ کے مطابق گزشتہ دنوںآکلینڈ کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر واقع ڈیوٹی فری شاپ پر ’پیور فریش نیوزی لینڈ ائیر‘ کے نام سے 4 کینز (ڈبے) رکھے گئے تھے جن کی قیمت 100 ڈالر رکھی گئی ہے۔ ایک مقامی کمپنی کی جانب سے بنائے گئے اس کین پر ایک ماسک ہوتا ہے جسے منہ سے لگا کر سانس لی جاتی ہے۔ اس کین کی قیمت پر شدیدتنقید کی جارہی ہے۔یہ کمپنی اسے دنیا بھر میں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم سوشل میڈیا پر اس کی قیمت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ہم پر منڈلاتے خطرات کے بادل
پاکستان گلوبل وارمنگ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گيسز کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ایک فی صد کا حصے دار ہے۔ اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں اوردرجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زاید آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہیں۔2018 کےگلوبل کلائمٹ رسک انڈيکس ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ایشیا کے وسط ميں واقع ہے۔ پيش گوئيوں کے مطابق اسی خطے ميں درجہ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2100 یااس صدی کے اختتام تک اس خطے ميں اوسط درجہ حرارت ميں چار ڈگری سینٹی گريڈ تک اضافے کا امکان ہے۔جرمن واچ نامی تھنک ٹينک کے 2018ء کےگلوبل کلائمٹ رسک انڈيکس کے مطابق تقریبابیس برسوں ميں موسمياتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب پاکستان ميں سالانہ بنیادوںپر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس عرصے ميں طوفان، سيلاب اور دیگر قدرتی آفات کے سبب تقریباً چار بلين امريکی ڈالرزکے مساوی مالی نقصانات بھی ریکارڈکیے گئے۔
پاکستان میں1945ء میں چار لاکھ ہيکٹر زمين پر تمر کے جنگلات تھے۔ تاہم اب يہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک رہ گیاہے۔تمر کے درخت سونامی جيسی
قدرتی آفات کی صورت ميں دفاع کا کام کرتے ہيں۔ کراچی ميں1945 ميں آخری مرتبہ سونامی آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند ميں کسی بڑے زلزلے کی صورت ميں سونامی کی لہريں ایک سے ڈیڑھ گھٹنے ميں کراچی پہنچ سکتی ہيں اور يہ پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔
پاکستان ميںسات آٹھ برسوں میں آنےوالے سيلابوں کے نتیجے میں کئی سوافراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سيلابی ریلوںنے ساڑھے اڑتیس ہزار اسکوائر کلوميٹرز رقبے کو متاثر کيا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمينہ دس بلين ڈالرز تھا۔ کراچی میں تین برس قبل آنے والی ہیٹ ویوو یا شدید گرمی کی لہر نےبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا دیا تھا ۔ماہرین کے مطابق مستقبل ميں ایسے واقعات اورقدرتی آفات ميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کےلیےپاکستان کو سالانہ بنیادوں پر سات سے چودہ بلين ڈالرز درکارہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ فنڈز کہاں سے مليں گے؟ پاکستان کی سينيٹ نے پچھلے سال ایک پاليسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت پاکستان ميں موسمياتی تبدیلیوںکے اثرات سے بچنے کے لیے ایک اتھارٹی کے قیام کی بات کی گئی تھی۔
پیرس میں 2015 ميں ہونے والے معاہدے ميں پاکستان نے 2030 تک گرین ہاوس گيسز کے اخراج ميں تیس فی صدکمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقریبا چالیس بلین ڈالرز کے اخراجات آئیںگے۔ پاکستان نے یہ ہدف خودمقرر کیا تھا۔لیکن ہم کیا کررہے ہیں،یہ سب کے سامنے ہے۔