گزشتہ دنوں، کینیڈا کے شہر مانٹیریال میں 18 ملکوں کےوزرائے خارجہ کا ایک انوکھااجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی اہم اور انوکھی بات یہ تھی کہ اس میں شرکت کرنے والی تمام وزرائے خارجہ خواتین تھیں۔
دو روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں سیاسی محاذوں پر خواتین کی رسائی میں مشکلات، ان کو درپیش اقتصادی و سماجی مسائل، معاشروں میں خواتین کی ترقی کے امکانات، اہم مراکز میں خواتین کی نمائندگی، جمہوریت کا فروغ، امن وآشتی کا فروغ اور خواتین پر تشدد کی روک تھام جیسے موضوعات سر فہرست رہے۔
کینیڈا کی وزیر برائے خارجہ امور کرسٹیا فری لینڈ اور یورپی یونین کی خارجہ معاملات کی نمائندہ فیڈریکا موگیرینی اس اجلاس کی مشترکہ صدور تھیں۔ ان دونوں اعلیٰ سفارت کار خواتین نے کانفرنس کے افتتاح پر اس امید کا اظہار کیا کہ اس ملاقات سے خواتین وزرائے خارجہ کے درمیان تعاون میں اضافے کی ایک مثال قائم ہو گی اور عالمی خارجہ پالیسی میں خواتین کے نقطۂ نظر کو بھی شامل کیا جائے گا۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ کریسٹیا فری لینڈ نے کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔ انھوں نے اس اجلاس کے انعقاد کو تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا،’’اس اجلاس کا مقصد کوئی خواتین کا کلب بنانا نہیں ہے۔ اس کے برعکس، یہ اجلاس دنیا کو باور کرائے گا کہ خواتین اور لڑکیاں دنیا کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اجلاس کا مقصد ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہے، جس کے تحت لیڈرشپ پوزیشنز پر موجود خواتین، صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرسکیں گی‘‘۔
اس موقع پر خطاب میں فری لینڈکا مزیدکہنا تھا کہ، ’’ہم خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ جب خواتین کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے، ان کی آواز کو سُنا جاتا ہے اور انھیں سربراہانہ کردار میں فیصلہ سازی کے عمل میں آزادی دی جاتی ہے، تو ایسے معاشرے نٹیاں زیادہ خوشحال، زیادہ پرامن، زیادہ محفوظ اور زیادہ متحد ہوتے ہیں‘‘۔
فری لینڈ نے اپنی افتتاحی تقریر میں مزید کہا،’’خواتین اُن سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کلید ہیں، جن کا ہمارے معاشروں کو سامنا ہے‘‘۔ ان کا اشارہ یورپی ممالک کی طرف تھا۔
اجلاس سے یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی خطاب کیا۔
موگیرینی نے بھی اسی نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، جب خواتین فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنتی ہیں تو معاشرے پھلتے پھولتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب کو ان الفاظ میں ختم کیا،’’ ہم نے آج ایک ایسے پودے کا بیج بویا ہے، جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ بڑا ہوکر یہ ایک خوبصورت پھول بنے گا‘‘۔
17ممالک سے خواتین وزرائے خارجہ نے اس اجلاس میں حصہ لیا جبکہ ان کے درمیان ایک ملک ایسا بھی تھا، جس نے ایک مرد کو اس ’ویمن اونلی‘ اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔ جی ہاں، جاپان کی جانب سے اس اجلاس میں، وزیر خارجہ ٹارو کونو نے شرکت کی۔ کونو، اس دو روزہ اجلاس کے کئی سیشنز میں شریک رہے۔ ٹارو کونو کی شرکت کے ذریعے وزیر اعظم شنزو ابے کی حکومت کی جانب سے دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کس قدر پُرعزم ہیں۔ البتہ، اس وقت حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جاپانی وزیراعظم شنزو ابے کی کابینہ میں مرد کثیر تعداد میں ہیں اور ان کی کابینہ میں صرف دو خواتین وزراء ہیں۔
اجلاس میں کینیڈا کے علاوہ دیگر 17ممالک، جن میں انڈورا، بلغاریا، کوسٹاریکا، کروشیا، جمہوریہ ڈومینکین، گھانا، گوئٹے مالا، ہنڈورس، انڈونیشیا، کینیا، نمیبیا، ناروے، پاناما، جنوبی افریقا، روانڈا، سینٹ لوسیا اور سویڈن کی وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
اس وقت دنیا کے 30ممالک میں خارجہ امور کی ذمہ داری خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے صنفی مساوات کو اپنے حکومتی ایجنڈے میں اہم مقام دے رکھا ہے۔
17ممالک کی وزرائے خارجہ نے مستقبل میں بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ توقع ہے کہ خواتین وزرائے خارجہ کا اجلاس آئندہ سال بھی منعقد ہوگا۔ آئندہ سال کا مجوزہ اجلاس رسمی ہوگا یا غیر رسمی، اس حوالے سے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں مختلف امور بشمول معاشیات، سیاسیات اور پالیسی سازی میںخواتین کا کردار بڑھانے اور صنفی مساوات کے حوالے سے کام ہورہا ہے۔ اس عمل میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی شامل ہیں۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے فری لینڈنے 25ملین ڈالر مالیت کا ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا، جس کا مقصد قیام امن میں خواتین کی متحرک اور بامقصد شرکت کو فروغ دینا، جنسی اور صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی تحقیقات اور روک تھام کرنا، ساتھ ہی پائیدارامن کا قیام اور ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینا ہے۔