• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کوئی ایسے بھی پُرانے زمانے کے نہیں ہیں لیکن زمانہ جس تیزی سے غضب کی چال چل گیا ، ایسا لگتا ہے کہ بہت پُرانی باتیں ہیں۔ مثلا نوے کی دہائی میں جب ہم مڈل اسکول جاتے تھے تو ایک دو روپے روزانہ جیب خرچ ملتا تھا۔ پھر مہینے کے شروع میں ایک دفعہ ایسا بھی ہوتاتھا کہ والد محترم کچھ روپے اضافی دے دیتے، سکول جا کر وہ چند روپے ہم اپنی جماعت کے مانیٹر کو جمع کر ا دیتے اور وہ ان میں سے کچھ ریزگار ہمیں لوٹا دیتا۔ ہمارے اسکول اور ہمارے والد مرحوم کے درمیان بس یہی معاملہ ہوتا۔ا سکول بھی کیا خوبصورت تھا، اور ابھی بھی ہے۔ اونچی چھتوں والے بڑے بڑے کمرے، کھلی فضائیں اور ہوائیں، بڑے بڑے کھیل کے میدان،ہر طرف درختوں کی قطاریں۔ بس یہی نہیں بلکہ انتہائی تجربہ کار اور محنتی اساتذہ۔ ہمارے اسکول میں ایک ایک کلاس کے دس بارہ سیکشن ہوتے تھے۔ سارے اساتذہ اچھے اور محنتی نہیں تھے لیکن ہر کلاس میں دو تین سیکشن ایسے ضرور ہوتے تھے جہاں بہت اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پرائمری اسکول میں اچھے نمبر لینے والے طلبا کو انہی سیکشنز میں رکھ کر ان پر اساتذہ خوب محنت کرتے تھے اور پھر وہی بچے پوزیشنز لے کرا سکول اور اساتذہ کا نام روشن کرتے تھے۔کیونکہ ذاتی طور پر ہر کسی سے شناسائی ہوتی تھی اس لئے معلوم ہے کہ ہمارے بیچ کے اوپر نیچے بہت سے طلبا میڈیکل، انجینئرنگ، بیوروکریسی، جوڈیشری اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی اپنی معراج پر پہنچے۔میڈیکل اور انجینئرنگ والے کئی بچے پوری دنیا کے بچوں کے ساتھ مقابلہ کر کے امریکہ اور یورپ کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں پہنچے اور کچھ ایسے ہیں جو آج کئی دسیوں لاکھ ماہانہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بچوں نے سی ایس ایس اور جوڈیشری کے امتحانوں میں نمایاں پوزیشنز لے کر اپنا نام بنایا۔ دیگر شعبوں جیسے ایم بی اے اور کمپیوٹر سائنسز کا زیادہ رجحان نہیں تھا لیکن جو بھی قابل بچہ تھا ہمارے چند روپے ماہانہ فیس لینے والے اسکول نے اسکی بہترین تعلیم و تربیت کر کے ایک اچھا روزگار حاصل کرنے میں اسکی مدد کی، اور اردگرد نظر دوڑائوں تو ایسے بیسیوں بچے ہیں جو اچھی پروفیشنل زندگی گزار رہے ہیں۔

اپنےا سکول کی یادیں تازہ کرنے کی فوری وجہ یہ خبر بنی کہ چیف جسٹس نے نجی اسکولوں کی فیسوںکا معاملہ ایک تین رکنی بنچ کو بھجوا دیا ہے۔ خبر کے مطابق والدین اور بچے چیف جسٹس کے سامنے لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ان سے بہت بھاری فیسیں وصول کی جارہی ہیں، جس پر یہ معاملہ سامنے آیا۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جب ہم والدین بنیں گے تو ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے اتنی بھاری فیسیں دینی پڑیں گی۔ مثلا اسلام آباد کے ایک نسبتاً خوشحال متوسط طبقے اورایک اچھا تعلیمی پس منظر رکھنے والے والدین کیلئے اسلام آباد میں سرکاری تعلیمی اداروں کا آپشن تقریباََمفقود ہے۔ چارو ناچار بچے پرائیویٹ اسکولوں میں ہی داخل کرانا پڑتے ہیں۔ لیکن فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ الامان! اچھے سمجھے جانے والے اسکولوں میں مونٹیسری کے بچوں کی فیسیںتیرہ چود ہ ہزار ماہانہ سے لیکر انیس بیس ہزار تک جاتی ہیں۔ پھر ہر مہینے کچھ نہ کچھ ایکسٹرا سرگرمیوں کیلئے علیحدہ سے فیس مانگی جاتی ہے ۔یہی نہیں بلکہ ہر سال فیسوں میں من مانااضافہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ چند سال پہلے نئے سال کیلئے بچوں کی فیسوں میں ہوش رُبا اضافے کے ساتھ چالان والدین کو موصول ہوئے تو انکی چیخیں نکل گئیں۔ ان حالات کی وجہ سے اچھے خاصے متمول والدین بھی پریشان رہتے ہیںاور عدلیہ اور دیگر فورمز کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن ابھی تک والدین کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکا۔ صرف والدین کا استحصال ان پرائیویٹ اسکولوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اسکول اساتذہ کا اس سے بھی زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ جہاں بچوں سے ہوش رُبا فیسیں وصول کی جاتی ہیں وہیں اساتذہ کو انتہائی کم تنخواہ دیتے ہیں ،۔ان اسکولوں میں تجربہ کار اساتذہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ بہت کم تنخواہ میں نوجوان اور ناتجربہ کار افراد کو بھرتی کرتے ہیں وہ بچوں پر تجربے کر کے پڑھانا سیکھتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں تھوڑا ساتجربہ ہوتا ہے وہ اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انکی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ وہ مزید نوکری نہیں کر سکتے۔ یا پھر بہتر تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر یہ اسکول ان اساتذہ کو فارغ کر دیتے ہیں اور پھر فریش اور ناتجربہ کار نوجوانوں کوکم تنخواہ پر بھرتی کر لیتے ہیں۔

سو، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ سے گزارش ہے کہ بڑے بڑے پرائیویٹ اسکولوں کے آڈٹ کرائے جائیں تاکہ سامنے آئے کہ اتنی بھاری فیسیں لیکر یہ اساتذہ پر کتنا خرچ کرتے ہیں ، ان سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کا اوسط تجربہ کیا ہے ، یہ کس قسم کے اساتذہ کتنی تنخواہ میں بھرتی کرتے ہیں اور اوسط کتنا تجربہ حاصل کرنے کے بعد یہ اساتذہ فارغ کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ بھی سامنے آنا چاہئے کہ جو بڑے بڑے اسکول آکسفورڈ اور کیمبرج کے کورسز کی وجہ سے والدین سے اتنی فیسیں لیتے ہیں انکے اساتذہ کیا خود ان اسکول سسٹمز یا ان یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں یا پھر ان اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے جہاں معیار تعلیم بہت پست ہے اور فیسیں انتہائی کم۔ بادی النظر میں تو پرائیویٹ اسکول مالکان والدین، بچوں اور اساتذہ ، ہر کسی کا استحصال کر رہے ہیں ، خود بہت زیادہ منافع کماتے ہیں اور ملک میں بحیثیت مجموعی نظام ِ تعلیم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ تعلیمی بحران اصل میںمسئلے کی صرف علامت ہے اصل مسئلہ ہماری ریاست اور ریاستی اداروں کی ناکامی ہے ۔ اس ناکامی کی وجہ سے ہر طرف افراتفری اور نفسا نفسی نظر آتی ہے اور اربابِ اختیار اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین